جس قوم سے بد عہدی کا خوف ہو انہیں آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر دو فرمان ہے کہ جب کسی قوم کی خیانت کا خوف ہو تو برابری سے آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر ڈالو ، لڑائی کی اطلاع کردو ۔ اس کے بعد اگر وہ لڑائی پر آمادگی ظاہر کریں تو اللہ پر بھروسہ کر کے جہاد شروع کر دو اور اگر وہ پھر صلح پر آمادہ ہوجائیں تو تم پھر صلح و صفائی کرلو ۔ اسی آیت کی تعمیل میں حدیبیہ والے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین مکہ سے نو سال کی مدت کے لیے صلح کر لی جو شرائط کے ساتھ طے ہوئی ۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب اختلاف ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ ہو سکے تو صلح ہی کر لینا ( مسند امام احمد ) مجاہد کہتے ہیں یہ بنو قریظہ کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ محل نظر میں ہے سارا قصہ بدر کا ہے ۔ بہت سے بزرگوں کا خیال ہے کہ سورۃ براۃ کی آیت سے ( قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29ۧ ) 9- التوبہ:29 ) سے منسوخ ہے کہ لیکن اس میں بھی نظر ہے کیونکہ اس آیت میں جہاد کا حکم طاقت و استطاعت پر ہے لیکن دشموں کی زیادتی کے وقت ان سے صلح کر لینا بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے کہ اس آیت میں ہے اور جیسے کہ حدیبیہ کی صلح اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کی ۔ پس اس کے بارے میں کوئی نص اس کے خلاف یا خصوصیت یا منسوخیت کی نہیں آئی واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے اللہ پر بھروسہ رکھ وہی تجھے کافی ہے وہی تیرا مددگار ہے ۔ اگر یہ دھوکہ بازی کر کے کوئی فریب دینا چاہتے ہیں اور اس درمیان میں اپنی شان و شوکت اور آلات جنگ بڑھانا چاہتے ہیں تو تو بےفکر رہ اللہ تیرا طرف دار ہے اور تجھے کافی ہے اس کے مقابلے کا کوئی نہیں پھر اپنی ایک اعلیٰ نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ مہاجرین و انصار سے صرف اپنے فضل سے تیری تائید کی ۔ انہیں تجھ پر ایمان لانے تیری اطاعت کرنے کی توفیق دی ۔ تیری مدد اور تیری نصرت پر انہیں آمادہ کیا ۔ اگرچہ آپ روئے زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالتا لیکن ان میں وہ الفت وہ محبت پیدا نہ کر سکتا جو اللہ نے خود کر دی ۔ ان کی صدیوں پرانی عداوتیں دور کردیں اور اوس و خزرج انصار کے دونوں قبیلوں میں جاہلیت میں آپس میں خوب تلوار چلا کرتی تھی ۔ نور ایمان نے اس عداوت کو محبت سے بدل دیا ۔ جیسے قرآن کا بیان ہے کہ اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ تم آپس میں اپنے دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل ملادئیے اور اپنے فضل سے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا تم جہنم کے کنارے تک پہنچ گئے تھے لیکن اس نے تمہیں بچالیا ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری ہدایت کے لیے اسی طرح اپنی باتیں بیان فرماتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ اے انصاریو کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں پاکر اللہ کی عنایت سے تمہیں راہ راست نہیں دکھائی؟ کیا تم فقیر نہ تھے؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے امیر کر دیا جدا جدا تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دل ملا دیئے ۔ آپ کی ہر بات پر انصاف کہتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے بھی زیادہ احسان ہم پر ہے ۔ الغرض اپنے اس انعام و اکرام کو بیان فرما کر اپنی عزت و حکمت کا اظہار کیا کہ وہ بلند جناب ہے اس سے امید رکھنے والا ناامید نہیں رہتا اس پر توکل کرنے والا سرسبز رہتا ہے اور اپنے کاموں میں اپنے حکموں میں حکیم ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے قرابت داری کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ تب ہوتا ہے جب نعمت کی ناشکری کی جاتی ہے ۔ جناب باری سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر روئے زمین کے خزانے بھی ختم کر دیتا تو تیرے بس میں نہ تھا کہ ان کے دل ملا دے ۔ شاعر کہتا ہے تجھ سے دھوکا کرنے والا تجھ سے بےپرواہی برتنے والا تیرا رشتے دار نہیں بلکہ تیرا حقیقی رشتے دار وہ ہے جو تیری آواز پر لبیک کہے اور تیرے دشمنوں کی سرکوبی میں تیرا ساتھ دے ۔ اور شاعر کہتا ہے میں نے تو خوب مل جل کر آزما کر دیکھ لیا کہ قرابت داری سے بھی بڑھ کر دلوں کا میل جول ہے ۔ امام بیہقی فرماتے ہیں میں نہ جان سکا کہ یہ سب قول ابن عباس کا ہے یا ان سے نیچے کے راویوں میں سے کسی کا ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں ان کی یہ محبت راہ حق میں تھی توحید و سنت کی بنا پر تھی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں رشتے داریاں ٹوٹ جاتی ہیں احسان کی بھی ناشکری کر دی جاتی ہے لیکن جب اللہ کی جانب سے دل ملا دیئے جاتے ہیں انہیں کوئی جدا نہیں کر سکتا ہے پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت فرمائیں ۔ عبدہ بن ابی لبابہ فرماتے ہیں میری حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی آپ نے مجھ سے مصافحہ کر کے فرمایا کہ جب دو شخص اللہ کی راہ میں محبت رکھنے والے آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے خندہ پیشانی سے ہاتھ ملاتے ہیں تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے میں نے کہا یہ کام تو بہت آسان ہے فرمایا یہ نہ کہو یہی الفت وہ ہے جس کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ اگر روئے زمین کے خزانے خرچ کر دے تو بھی یہ تیرے بس کی بات نہیں کہ دلوں میں الفت ومحبت پیدا کردے ۔ ان کے اس فرمان سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ مجھ سے بہت زیادہ سمجھ دار ہیں ۔ ولید بن ابی مغیث کہتے ہیں میں نے حضرت مجاہد سے سنا کہ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں میں نے پوچھا صرف مصافحہ سے ہی؟ تو آپ نے فرمایا کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت کی ۔ تو حضرت ولید نے فرمایا تم مجھ سے بہت بڑے عالم ہو ۔ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں سب سے پہلے چیز جو لوگوں میں سے اٹھ جائے گی و الفت و محبت ہے ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے مل کر اس سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے ہوا سے ۔ ان کے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں گوہ وہ سمندر کی جھاگ جتنے ہوں ۔
61۔ 1 اگر حالات جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکا اور فریب ہو تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقینا اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمان کا مفاد ہو لیکن جب اس کے برعکس ہوں، مسلمان قوت و وسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔
[٦٣] معاہدہ کے لئے تیار رہنا چاہئے خواہ دشمن سے غداری کا خطرہ ہو کیونکہ اسلام امن پسند مذہب ہے :۔ یعنی جو قوم بھی مسلمانوں سے صلح یا معاہدہ امن کے لیے پیش قدمی یا پیشکش کرے تو مسلمانوں کو یہ نہ سوچنا چاہیے کہ ممکن ہے یہ لوگ اپنی کسی ذاتی مصلحت کے لیے یا کسی مناسب موقعہ کے انتظار کے لیے ایسا کر رہے ہیں اور جب انہیں موقعہ میسر آئے گا تو وہ مسلمانوں سے فریب اور غداری کر جائیں گے بلکہ دلیر ہو کر اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی اس پیش کش کو قبول کرلینا چاہیے۔ رہا ان کی نیت کا فتور تو وہ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے۔ ایسی صورت میں اللہ یقیناً ان لوگوں کی مدد کرے گا جو صلح اور امن کے لیے ہر وقت تیار رہتے اور اپنے معاہدہ کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ آیت واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ اسلام امن و آشتی کا دین اور اس کا پیامبر ہے۔
وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا : بھر پور جنگی تیاری اور جہاد جاری رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دشمن صلح کی طرف مائل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے صلح کی طرف مائل ہونے والوں سے صلح کرلینے کا حکم دیا، کیونکہ اسلامی جہاد کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے، ہر حال میں غیر مسلموں کو تہ تیغ کرنا نہیں، نہ انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہے۔ اس صلح کے نتیجے میں بہت سی دینی اور دنیوی برکات حاصل ہوں گی، مسلمانوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کفار اسلام سے واقف ہوں گے، اسلام کی اشاعت بڑھے گی، جس کا نتیجہ اسلام کا غلبہ ہوگا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو ” فتح مبین “ قرار دیا۔ بعض اوقات جزیے پر صلح ہوگی جو مسلمانوں کی مالی قوت میں اضافے کا باعث ہوگی اور دنیا میں جنگ کے ماحول کے بجائے امن و اطمینان کا دور دورہ ہوگا جو صرف اسلام کے غلبے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ محض ہمت ہار کر بزدلی کی وجہ سے خود دشمن کو صلح کی پیش کش اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ دیکھیے سورة محمد (٣٥) صلح کی صورت میں کفار کی عہد شکنی یا سازشوں کے خطرے کی پروا نہ کریں، بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھیں، وہ سب کچھ سن رہا ہے، دیکھ رہا ہے۔
تیسری آیت میں صلح کے احکام اور اس کے متعلقات کا بیان ہے ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا، لفظ سلم بفتح السین اور سلم بکسرا لسین دونوں طرح صلح کے معنی میں آتا ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ اگر کفار کسی وقت صلح کی طرف جھکیں تو آپ کو بھی جھک جانا چاہئے۔ یہاں صیغہ امر تخییر کے لئے استعمال فرمایا ہے مراد یہ ہے کہ جب کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ کو بھی اختیار ہے اگر مسلمانوں کی مصلحت صلح میں محسوس کریں تو صلح کرسکتے ہیں۔ اور اِنْ جَنَحُوْا کی قید سے معلوم ہوا کہ صلح اسی وقت کی جاسکتی ہے جب کفار کی طرف سے صلح کی خواہش ظاہر ہو۔ کیونکہ بغیر ان کی خواہش کے اگر مسلمان خود ہی صلح کی تحریک کریں تو یہ ان کی کمزوری سمجھی جائے گی۔- ہاں اگر کوئی موقع ایسا آپڑے کہ مسلمان کسی نرغہ میں گھر جائیں اور اپنی سلامتی کے لئے کوئی صورت بجز صلح کے نظر نہ آئے تو صلح میں پیش قدمی بھی بقول فقہاء جائز اور اشارات نصوص سے ثابت ہے۔- اور چونکہ دشمن کی جانب سے صلح کی خواہش ہونے میں یہ احتمال رہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر غفلت میں ڈال دیں اور پھر یکبارگی حملہ کردیں اس لئے آخر آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی گئی کہ (آیت) وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ، یعنی آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں کہ وہی خوب سننے والے جاننے والے ہیں۔ وہ انکی گفتگو کو بھی سنتے ہیں۔ اور ان کے دلوں میں چھپے ہوئے ارادوں کو بھی جانتے ہیں وہ آپ کی مدد کے لئے کافی ہیں۔ آپ ایسے بےدلیل احتمالات پر اپنے کاموں کی بنیاد نہ رکھیں۔ اور ایسے خطرات کو اللہ کے حوالہ کردیں۔
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ٦١- جنح - الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ- [ طه 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین :- ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ،- ( ج ن ح )- الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔- سِّلْمُ صلح - والسَّلَامُ والسِّلْمُ والسَّلَمُ : الصّلح قال : وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً [ النساء 94] ، وقیل : نزلت فيمن قتل بعد إقراره بالإسلام ومطالبته بالصّلح وقوله تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ [ الأنفال 61] ، وقرئ لِلسَّلْمِ بالفتح، وقرئ : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ وقال : يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ، أي : مُسْتَسْلِمُونَ ، وقوله : ورجلا سالما لرجل وقرئ سلما و ( سَلَماً ) وهما مصدران، ولیسا بوصفین کحسن ونکد . يقول : سَلِمَ سَلَماً وسِلْماً ، وربح ربحا وربحا . وقیل : السِّلْمُ اسم بإزاء حرب،- السلام والسلم والسلم کے معنی صلح کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً«1» [ النساء 94] جو شخص تم سے سلام علیک کہے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جسے باوجود اظہار اسلام اور طلب صلح کے قتل کردیا گیا تھا اور فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مؤمنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ ۔ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسِّلْمِ [ الأنفال 61] اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں ۔ اس میں ایک قرآت سلم ( بفتحہ سین ) بھی ہے ۔ وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ «4»اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ( اس وقت ) سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے ۔ جب صحیح وسالم تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ورجلا سالما لرجل «5»اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا ( غلام ) ہے ۔ میں ایک قراءت سلما وسلم ا بھی ہے اور یہ دونوں مصدر ہیں اور حسن و نکد کی طرح صفت کے صیغے نہیں ہیں کہا جاتا ہے ۔ سلم سلما و سلما جیسے ربح ربحا و ربحا اور بعض نے کہا ہے کہ سلم اسم ہے اور اس کی ضد حرب ہے ۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
صلح کے معاہدے کا بیان - قول باری ہے (وان جنحوالسلم فجنح لھا و توکل علی اللہ۔ اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لئے جھک جائو اور اللہ پھر بھروسہ کرو) جنوح میلان اور جھکائو کو کہتے ہیں۔ اگر کشتی ایک طرف کو جھک جائے تو کہا جاتا ہے ” جنحت السفینۃ “ اور سلم مسالمت کو کہتے ہیں جس کے معنی جنگ سے سلامتی چاہنے کے ہیں۔ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح و سلامتی کی طرف مائل ہونے اور اسے قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (فاجنح لھا) فرمایا اسئے کہ یہ لفظ صلح و سلامتی سے کنایہ ہے اس حکم کے باقی ہونے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ سعید اور معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ یہ حکم قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث رجدتموھم مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کرو) کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ حسن بصری سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔- ابن جریج اور عثمان بن عطا نے عطاء خراسانی سے اور انہوں نے حضرت عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس قول باری کو قول باری (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر، ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے) لا قول باری (وھم صاغرون) نے منسوخ کردیا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ اس آیت کا تعلق اہل کتاب سے صلح و سلامتی کے معاہدے کے ساتھ ہے جبکہ قول باری (فاقتلوا المشرکین) کا تعلق بت پرستوں سے ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے مشرکین کے مختلف گروہوں سے معاہدے کئے تھے۔ ان میں بنو قینقاع، بنو نظیر اور بنو قریظہ شامل تھے۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی مشرک قبائل سے بھی معاہدے کئے تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کی۔ اس صلح کا اختتام اس وقت ہوگیا جب قریش نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ کے خلاف جنگی کارروائی کر کے خود اسے توڑ دیا۔ اصحاب سیر اور اہل مغازی کے بیانات اس بارے میں یکساں ہیں۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب مسلمانوں کی تعداد ابھی کم تھی، ان میں قوت و طاقت کی بھی کمی تھی لیکن جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور دین کا معاملہ قوت پکڑ گیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرکین کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے کا حکم دے دیا اور اب مشرکین سے اسلام یا تلوار پر فیصلہ کے سوا کوئی تیسری صورت باقی نہیں رکھی گئی۔ چناچہ ارشاد ہوا (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) نیز اہل کتاب سے بھی قتال کا حکم دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں یا جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہوجائیں (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر) تا قول باری (وھم صاغرون)- اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورة برات نزول کے اعتبار سے قرآن کی آخری سورتوں میں سے ہے۔ اس کا نزو ل اس وقت ہوا تھا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو ٩ ھ میں امیر حج بنا کر روانہ کیا تھا۔ سورة انفال کا نزول جنگ بدر کے فوراً بعد ہوا تھا۔ اس میں انفال، غنائم عہود اور مصالحتوں کا ذکر ہوا تھا اس لئے سورة برأت کے حکم کو اس امر پر محمول کیا جائے گا جس کا اس میں ذکر ہوا ہے یعنی جب مشرکین صلح کے لئے ہاتھ بڑھائیں تو تم بھی ایسا ہی کرو اس بنا پر آیت کا یہ حکم منسوخ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ یہ ثابت اور باقی تسلیم کیا جائے گا۔ دونوں آیتوں کے حکم میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزول کا پس منظر مجختلف ہے۔ جس پس منظر میں مسلمانوں کو صلح کی طرف مائل ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی تعداد کم اور ان کے دشمنوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن جس پس منظر میں مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے جزیہ دینے پر رضامندی تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں صورت حال یکسر بدلی ہوئی تھی۔ اب مسلمانوں یک تعداد بھی بڑھ گئی تھی اور دشمنوں کے مقابلہ میں طاقت و قوت پکڑ گئے تھے چناچہ ارشاد باری ہے (فلا تھنوا و تدعوا الی السلم و انتم الاعلون واللہ معکم سو تم ہمت نہ ہارو اور انہیں صلح کی طرف مت بلائو اور تم ہی غالب ہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے) جب دشمن پر غلبہ حاصل کرنے اور انہیں تہہ تیغ کرنے کی قوت و طاقت حاصل ہو تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو صلح کی طرف پیش قدمی کرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ جب سرحدی علاقوں میں بسنے والے مسلمان اور ان کے حکمران کافروں کے خلاف جنگی کارروائی کرنے اور ان کے بالمقابل صف آراء کی قوت و طاقت اپنے اندر پائیں تو اس صورت میں کافروں کے ساتھ صلح کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نہ ہی کافروں کو ان کے کفر پر برقرار رہنے دینا درست ہوگا بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر ان کے خلاف ہتھیار اٹھانا واجب ہوگا الا یہ کہ وہ جزیہ دینے پر رضامند ہوجائیں۔ اگر مسلمانوں میں ان کے مقابلہ کی بھی سکن نہ ہو تو اس صورت میں کافروں کے ساتھ صلح کرنا درست ہوگا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے مختلف گروہوں سے صلح اور جنگ نہ کرنے کے معاہدے کئے تھے اور یہ معاہدے ان پر جزیہ عائد کئے بغیر کر لئے گئے تھے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اپنے ضعف اور کمزوری کی بنا پر کافروں سے صلح کرلی جائے اور پھر مسلمانوں میں قوت و طاقت پیدا ہوجائے جس کی بنا پر وہ کافروں کے خلاف جنگی کارروائیوں کے قابل ہوجائیں تو پھر وہ ان سے معاہدے کے خاتمے کا کھلم کھلا اعلان کردیں اور پھر ان کے خلاف جنگی کاروائی شروع کردی۔ ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ اگر مسلمانوں کے لئے مال دیئے بغیر دشمنوں سے چھٹکارا پانا ممکن نہ ہو تو ان کے لئے مال خرچ کردینا بھی جائز ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خندق کے موقع پر عینیہ بن حسن فزاری وغیرہ سے مدینہ کے پھلوں کی آٰدھی پیداوار کی شرط پر صلح کا معاہدہ کرلیا تھا۔ پھر جب آپ نے صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا تو حضرات انصار نے عرض کیا کہ آیا یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی رائے اور جنگی چال کے طور پر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ میری اپنی رائے ہے اس لئے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمام عربوں نے متحد ہو کر تمہارے اوپر تیر چلایا ہے اور تمہارے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے۔ میں نے یہ چاہا کہ انہیں تم سے کسی نہ کسی دن تک کے لئے دور رکھوں “۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ (رض) اور حضرت سعد بن معاذ (رض) نے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت بھی عرب کے لوگ ہم سے صرف اس بات کی توقع کی جرأت کرسکتے تھے کہ ہم اپنے باغات کے پھلوں کے ذریعے ان کی مہمان نوازی کرلیں یا پھر یہ پھل ان کے ہاتھ فروخت کردیں۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی بنا پر عزت عطا کردی ہے تو انہیں اپنی آدھی پیداوار کس طرح حوالہ کرسکتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں کریں گے ہم انہیں صرف تلوار اور اس کی دھار دیں گے “۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب مسلمانوں کو مشرکین کی طرف سے خطرہ ہو اور وہ ان کے مقابلہ پر آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو ایسی صورت میں ان کے لئے یہ جائز ہوگا کہ مال دے کر ان سے اپنا پیچھا چھڑا لیں۔- یہ وہ احکام ہیں جن میں بعض تو قرآن سے ثابت ہیں اور بعض کا سنت سے ثبوت ہے۔ ان پر ان حالات میں عمل کیا جائے گا جن میں عمل کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان پر عمل کیا ہے۔ ان احکام کی نظیر وہ حکم ہے جو حلیف کی میراث کے تحت ہم نے بیان کیا ہے کہ یہ حکم ثابت ہے منسوخ نہیں ہوا چناچہ ارشاد باری ہے (والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم وہ لوگ جن کے ساتھ تمہارے عہد و پیمان ہوں انہیں ان کا حصہ دو ) ہم نے اس مقام پر یہ بیان کیا ہے کہ جب رشتہ دار اور غلام آزاد کردینے کی بنا پر حاصل ہونے والی ولاء موجود نہ ہو تو اس صورت میں درج بالا آیت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے انہیں ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔ لیکن جب رشتہ دار یا ولاء عتاق موجود ہو تو وہ حلیف سے بڑھ کر میراث کا حقدار ہو گا… جس طرح بیٹا بھائی کے مقابلہ میں میراث کا زیادہ حق دار ہوتا ہے لیکن اس کا یہ استحقاق بھائی کو ورثاء کی فہرست سے خارج نہیں کرتا۔
(٦١) یعنی اگر بنو قریظہ صلح کی طرف مائل ہوں اور صلح کرنا چاہیں تو آپ کو بھی صلح کرنے کی اجازت ہے اور ان لوگوں کی عہد شکنی اور وفائے عہد پر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کو سننے والا اور ان کی بدعہدی اور وفاء عہد کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔
آیت ٦١ (وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا) - اگر مخالف فریق صلح پر آمادہ نظر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی امن کی خاطر مناسب شرائط پر ان سے صلح کرلیں۔- (وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) - یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی منفی چالوں سے فکر مند نہ ہوں ‘ اللہ پر توکل رکھیں اور صلح کا جواب صلح سے ہی دیں۔
44: اس آیت کریمہ نے مسلمانوں کو دشمن سے صلح کرنے کی بھی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ ایسی شرائط پر ہو جو مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق ہوں۔