Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 فُوَّۃِ کی تفسیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ) 8 ۔ الانفال :60) کے تحت آجکل کے جنگی ہتھیار (مثلًا میزائل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] سامان حرب و فنون سپہ گری کی ترغیب :۔ یعنی مسلمانوں کو عام حالات کے علاوہ کسی غدار معاہد کے ہنگامی حملہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو اسلحہ جنگ مہیا رکھنا چاہیے۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ تمہارے کھلے اور چھپے دشمن سب تم سے مرعوب رہیں گے اور اس غرض پر جتنا بھی تمہارا خرچ ہوگا سب فی سبیل اللہ شمار ہوگا، اور اس کا تمہیں اللہ تعالیٰ سے پورا پورا اجر مل جائے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اسلحہ جنگ میں تیر نیزے تلوار اور جنگی گھوڑے ہوتے تھے۔ اور دفاعی سامان میں ڈھال، زرہ اور خود وغیرہ تھے اور جنگی تربیت کے لحاظ سے پہلا نمبر تیر اندازی کا تھا۔ مسلمانوں کی جنگی ترتیب اور سامان حرب کے استعمال اور فراہمی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلچسپیوں کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔- ١۔ عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے برسر منبر یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ قوت سے مراد تیر چلانا ہے۔ آپ نے اسے تین بار دہرایا اور فرمایا۔ سن لو اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں فتح دے گا اور محنت سے کفایت کرے گا۔ لہذا کوئی بھی تم میں سے اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے (ترمذی، ابو اب التفسیر)- ٢۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے تیر اندازی سیکھی، پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم سے نہیں یا اس نے نافرمانی کی۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ الخ)- ٣۔ سلمہ بن اکوع (رض) کہتے ہیں کہ آپ قبیلہ اسلم کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے وہ تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنی اسماعیل تیر اندازی کرو۔ بیشک تمہارے باپ بڑے تیر انداز تھے اور میں بنی فلاں کے ساتھ ہوں۔ اب دوسرے فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ آپ نے فرمایا : تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا : ہم کیسے تیر پھینکیں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں۔ آپ نے فرمایا : تیر اندازی کرو میں سب کے ساتھ ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب التحریص علی الرمی)- ٤۔ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جو گھوڑے گھڑ دوڑ کے لیے تیار کئے گئے تھے۔ آپ نے ان کی دوڑ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور جو تیار نہیں کئے گئے تھے۔ ان کی دوڑ مسجد بنی زریق تک مقرر فرمائی اور میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ، باب ھل یقال مسجد بنی فلاں )- ٥۔ سیدۃ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک (عید کے) دن میں نے آپ کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا۔ اور حبشی مسجد میں اپنے ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے اور آپ اپنی چادر سے مجھے ڈھانپے ہوئے تھے اور میں بھی ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب اصحاب الحراب فی المسجد)- مگر آج تیر و تلوار کا زمانہ نہیں۔ بلکہ کلاشن کو فوں اور میزائلوں اور بموں کا زمانہ ہے۔ لہذا آج مسلمانوں کو ان جدید آلات سے پوری طرح آگاہ اور ان کے استعمال کرنے کی تربیت ہونی چاہیے۔ آج مسلمان اس معاملہ میں جتنی غفلت برت رہے ہیں اسی نسبت سے دوسری قوموں کے محتاج اور ان کے سامنے ذلیل ہو رہے ہیں۔- جہاد اور امریکی پالیسی :۔ آج مسلمانوں کی ایمانی حرارت سرد پڑچکی ہے۔ ان کا اللہ پر توکل اٹھ گیا ہے۔ وہ زبان سے تو ہر روز اپنی نمازوں میں سینکڑوں مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ امریکہ کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں اور امریکہ کی ناراضگی کا خوف انہیں اللہ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ لہذا وہ امریکہ سے دوستی بڑھانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق امریکہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہوسکتا۔ وہ اس دوستی کی آڑ میں بھی مکر و فریب سے ان مسلمانوں کا ستیا ناس ہی کرے گا۔ مسلمان ممالک کو اللہ تعالیٰ نے بےپناہ مادی وسائل عطا فرمائے ہیں۔ مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ متحد نہیں ہوتے اور سب کے سب ہی امریکہ کے دست نگر اور اس کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ یعنی کتاب و سنت کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ امریکہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور امریکہ صرف ان ممالک سے خوش ہوتا ہے جو اپنے ملک سے جہاد کی روح کا جنازہ نکال دیں۔ جو ملک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس منصوبے کو بالکل ملیا میٹ کردیں۔ مجاہدین کے لیے اس نے ایک نئی اصطلاح دہشت گرد تجویز فرمائی ہے اور مسلمان ملک اس بات سے ہر وقت خائف رہتے ہیں کہ کہیں امریکہ بہادر ان کو دہشت گرد قرار نہ دے دے۔ گویا امریکہ بہادر مسلمان ممالک سے جہاد کی روح کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے اور جنگی قوت کو بھی جس کے لیے اس آیت میں مسلمانوں کو تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے، اور اگر مسلمان ممالک کا یہی وطیرہ رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ابھی ان کی بدبختی کے دن ختم نہیں ہوئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ : ” قُوَّةٍ “ کا لفظ نکرہ لایا گیا ہے، ” مِّنْ “ کے ساتھ عموم اور زیادہ ہوگیا ہے، یعنی ہر قسم کی قوت، خواہ جو بھی ہو، تاکہ اس میں وہ تمام چیزیں آجائیں جو جنگ میں قوت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے یہ آیت تلاوت کی : (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ) اور فرمایا : ( أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ ، أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ ، أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ ) تین دفعہ فرمایا کہ یاد رکھو اصل قوت ” رَمْیٌ“ ہے۔ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ۔۔ : ١٩١٧ ] ” رَمْیٌ“ کا لفظ اگرچہ تیر اندازی کے معنی میں بھی آتا ہے، مگر اس میں تیر کے ساتھ ساتھ وہ تمام چیزیں آجاتی ہیں جو دور سے پھینکی جاتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ ) [ الأنفال : ١٧ ] سے مرادمٹی اور کنکریوں کی مٹھی پھینکنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دور سے مار کرنے والی جو بھی چیز تھی آپ نے جنگ میں استعمال فرمائی، حتیٰ کہ منجنیق بھی دشمن کے خلاف استعمال فرمائی، جس کے ساتھ دور سے پتھر پھینک کر قلعوں کی دیواریں توڑ دی جاتی تھیں اور ہمیشہ مسلمانوں نے اپنے غلبے کے زمانے میں ہر جدید ہتھیار مثلاً نفط (پٹرول وغیرہ) کے ہتھیار استعمال کیے۔ بارود کی ایجاد کے بعد بھی ترک خلفاء توپوں کی تیاری سے غافل نہیں رہے، مگر افسوس اس کے بعد مسلمانوں نے اس حکم سے اتنی بےپروائی کی کہ دشمن اس میدان، یعنی اسلحہ کی تیاری میں ان سے بہت آگے نکل گیا۔ اب عالم اسلام اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر نعمت کے باوجود اسلحے کے لیے غیروں کا محتاج ہے، چھوٹے موٹے ہتھیار تو بنتے ہیں، مگر ہوائی جہاز، ہیلی کا پٹر، گاڑیاں، کمپیوٹر، توپیں، ریڈار وغیرہ تمام چیزوں میں وہ دوسروں کا دست نگر ہے۔ (الا ما شاء اللہ) جس کے نتیجے میں کفار مسلمانوں کی دولت بھی لوٹ رہے ہیں، ان کے وسائل اور دینی اقدار کو بھی چھین رہے ہیں اور جب چاہتے ہیں ان ہتھیاروں اور جہازوں کی ضروریات وغیرہ روک کر بےبس کردیتے ہیں، حالانکہ پاکستان اگر ایٹم بم بنا سکتا ہے تو وہ کون سی چیز ہے جو مسلم ممالک نہیں بنا سکتے ؟ مگر مسلمانوں کی دین سے بےگانگی، دشمن کی چال بازی، اپنوں کی غداری اور طمع و حرص کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بزدلی ان میں یہ چیزیں بنانے کی جرأت ہی پیدا نہیں ہونے دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم کسی گاڑی، ریل یا ہوائی جہاز پر سوار ہو کر اپنے ملک میں یا بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو دل میں سخت تکلیف ہوتی ہے کہ یہ تمام سواریاں ہمارے دشمنوں کی بنائی ہوئی ہیں، ہم اپنے بل بوتے پر کچھ بھی نہیں بنا سکے۔ یہ سب مسلمانوں کے رہنماؤں کا کیا دھرا ہے، جو اپنے عوام ہی کی تصویر ہیں، مگر مایوس ہونا کسی صورت بھی جائز نہیں اور نہ کفار کو ناقابل شکست سمجھ کر ہاتھ توڑ کر بیٹھ جانا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کفار جتنی بھی کوشش کرلیں کبھی نور اسلام کو بجھا نہ سکیں گے، فرمایا : (يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ) [ الصف : ٨ ]” وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کے ساتھ بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے، اگرچہ کافر لوگ ناپسند کریں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت قائم ہونے تک اس کی خاطر لڑتی رہے گی۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لا تزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢٢، عن جابر بن سمرۃ (رض) ] مغیرہ بن شعبہ، جابر بن عبداللہ اور معاویہ (رض) سے مروی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں ان لوگوں کے دین پر قائم رہنے اور غالب رہنے کی خوش خبری بھی آئی ہے۔ [ دیکھیے مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لا تزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢١، ١٩٢٣، ١٠٣٧، بعد ح : ١٩٢٣ ] اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس وقت مجاہدین اسلام اور کفار کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس میں اہل اسلام کی کس قدر آزمائش باقی ہے ؟ اور کفار اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی جس حد تک پہنچ چکے ہیں ان کی سزا میں کتنی دیر ہے ؟ اور اللہ تعالیٰ اپنے کن بندوں کے ہاتھوں کفار کو کس طرح کیفر کردار تک پہنچاتا ہے ؟ فرمان الٰہی ہے : (وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ ) [ محمد : ٣٨ ] ” اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمہاری جگہ تمہارے سوا اور لوگ لے آئے گا، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔ “ اور دیکھیے سورة مائدہ ( ٥٤) ۔- وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ : اس حکم سے سوار فوج کی اہمیت ظاہر ہے۔ ” قُوَّةٍ “ اور ” رِّبَاطِ الْخَيْلِ “ میں فوجی گاڑیاں، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، جنگی جہاز، آبدوزیں، بحری بیڑے، جاسوسی کے آلات اور ادارے، اعلام کے ذرائع، سب آجاتے ہیں، مگر ان سب کے باوجود قیامت تک جنگ میں گھوڑوں کی ضرورت اور اہمیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ جو کام یہ مبارک جانور سر انجام دے سکتا ہے دنیا کی کوئی چیز نہیں دے سکتی۔ عروہ بارقی اور جریر بن عبداللہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ” یہ گھوڑے، ان کی پیشانیوں میں قیامت کے دن تک خیر باندھ دی گئی ہے، اجر اور غنیمت۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الخیل ۔۔ : ١٨٧٢، ١٨٧٣ ] اس لیے مسلمانوں کو ڈرائیور، پائلٹ، ملاح، بحری مجاہد، تیراک اور غوطہ خور ہونے کے ساتھ ساتھ گھڑ سوار ہونا بھی لازم ہے۔ - تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ : یعنی اس قدر مضبوط تیاری رکھو کہ اللہ کا دشمن اور تمہارا دشمن اور تمہارے ساتھ کد رکھنے والا ہر شخص تم سے خوف زدہ رہے اور لڑنے کی جرأت ہی نہ کرسکے۔ ان واضح دشمنوں میں مشرکین، یہود و نصاریٰ اور جانے پہچانے منافق سب شامل ہیں۔ - وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ : اس سے مراد مسلمانوں کی صفوں میں کفار کے چھپے ہوئے ہمدرد منافق ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (١٠١) علاوہ ازیں کئی اقوام جو بظاہر اس وقت تمہارے خلاف نہیں، مگر موقع پانے پر دل میں تم سے لڑائی کا ارادہ رکھتی ہیں، تمہاری مکمل تیاری اور ہر وقت جہاد میں مصروف رہنا سب کو خوف زدہ رکھے گا۔ بعض مفسرین نے اس سے جن و شیاطین کے لشکر مراد لیے ہیں، تمہاری تیاری کی بدولت وہ بھی دشمنوں کے دلوں میں لڑائی کے جذبات نہیں ابھار سکیں گے۔ - وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ : اس سے جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب مقصود ہے۔ فی سبیل اللہ خرچ کی فضیلت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢٦١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

جہاد کے لئے اسلحہ اور سامان حرب کی تیاری فرض ہے :- دوسری آیت میں اسلام سے دفاع اور کفار کے مقابلہ کے لئے تیاری کے احکام ہیں، ارشاد فرمایا (آیت) وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ ۔ یعنی سامان جنگ کی تیاری کرو کفار کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے۔ اس میں سامان جنگ کی تیاری کے ساتھ مّا اسْـتَـطَعْتُمْ کی قید لگا کر یہ اشارہ فرمادیا کہ تمہاری کامیابی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمہارے مقابل کے پاس جیسا اور جتنا سامان ہے تم بھی اتنا ہی حاصل کرلو۔ بلکہ اتنا کافی ہے کہ اپنی مقدور بھر جو سامان ہوسکے وہ جمع کرلو تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد تمہارے ساتھ ہوگی۔- اس کے بعد اس سامان کی کچھ تفصیل اس طرح فرمائی مِّنْ قُوَّةٍ یعنی مقابلہ کی قوت جمع کرو اس میں تمام جنگی سامان اسلحہ، سواری وغیرہ بھی داخل ہیں اور اپنے بدن کی ورزش، فنون جنگ کا سیکھنا بھی، قرآن کریم نے اس جگہ اس زمانہ کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے اس زمانہ کے اسلحہ تیر، تلوار، نیزے تھے اس کے بعد بندوق توپ کا زمانہ آیا۔ پھر اب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا۔ لفظ قوت ان سب کو شامل ہے اس لئے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت، ٹینک اور لڑاکا طیا رے، آب دوز کشتیاں جمع کرنا چاہئے کیونکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اور اس کے لئے جس علم و فن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کا اور کفار کے مقابلہ کا کام لیا جائے گا تو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔- لفظ قوت عام ذکر کرنے کے بعد ایک خاص قوت کا صراحةً بھی ذکر فرما دیا (آیت) وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ لفظ رباط مصدری معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور مربوط کے معنی میں بھی پہلی صورت میں اس کے معنی ہوں گے گھوڑے باندھنا اور دوسری صورت میں بندھے ہوئے گھوڑے۔ حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کہ جہاد کی نیت سے گھوڑے پالنا اور ان کو باندھنا یا پلے ہوئے گھوڑوں کو جمع کرنا۔ سامان جنگ میں سے خصوصیت کے ساتھ گھوڑوں کا ذکر اس لئے کردیا کہ اس زمانہ میں کسی ملک و قوم کے فتح کرنے میں سب سے زیادہ موثر و مفید گھوڑے ہی تھے۔ اور آج بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جن کو گھوڑوں کے بغیر فتح نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے۔- صحیح احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سامان جنگ فراہم کرنے اور اس کے استعمال کی مشق کرنے کو بڑی عبادت اور موجب ثواب عظیم قرار دیا ہے۔ تیر بنانے اور چلانے پر بڑے بڑے اجر وثواب کا وعدہ ہے۔- اور چونکہ جہاد کا اصل مقصد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ہے ہر زمانہ اور ہر قوم کا جدا ہوتا ہے اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاھدوا المشرکین با موالکم وانفسکم والسنتکم ( رواہ ابو داؤد والنسائی والدارمی عن انس) ۔- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح دفاع و جہاد ہتھیاروں سے ہوتا ہے بعض اوقات زبان سے بھی ہوتا ہے اور قلم بھی زبان ہی کے حکم میں ہے۔ اسلام اور قرآن سے کفر و الحاد کے حملوں اور تحریفوں کی مدافعت زبان یا قلم سے یہ بھی اس صریح نص کی بنا پر جہاد میں داخل ہے۔ - آیت مذکورہ میں سامان جنگ کی تیاری کا حکم دینے کے بعد اس سامان کے جمع کرنے کی مصلحت اور اصل مقصد بھی ان الفاظ میں بیان فرمایا (آیت) تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ یعنی سامان جنگ و دفاع جمع کرنے کا اصل مقصد قتل و قتال نہیں بلکہ کفر و شرک کو زیر کرنا اور مرعوب و مغلوب کردینا ہے وہ کبھی صرف زبان یا قلم سے بھی ہوسکتا ہے اور بعض اوقات اس کے لئے قتل و قتال ضروری ہوتا ہے۔ جیسی صورت حال ہو اس کے مطابق دفاع کرنا فرض ہے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ جنگ و جہاد کی تیاری سے جن لوگوں کو مرعوب کرنا مقصود ہے ان میں سے بعض کو تو مسلمان جانتے ہیں اور وہ وہ لوگ ہیں جن سے مسلمانوں کا مقابلہ جاری تھا یعنی کفار مکہ اور یہود مدینہ۔ اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جن کو ابھی تک مسلمان نہیں جانتے۔ مراد اس سے پوری دنیا کے کفار و مشرکین ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے مقابلہ پر نہیں آئے مگر آئندہ ان سے بھی تصادم ہونے والا ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت نے بتلا دیا کہ اگر مسلمانوں نے اپنے موجودہ حریف کے مقابلہ کی تیاری کرلی تو اس کا رعب صرف انہیں پر نہیں بلکہ دور دور کے کفار کسرٰی و قیصر وغیرہ پر بھی پڑے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ اور خلفائے راشدین کے عہد میں یہ سب مغلوب و مرعوب ہوگئے۔- جنگی سامان جمع کرنے اور جنگ کرنے میں ضرورت مال کی بھی پڑتی ہے بلکہ سامان جنگ بھی مال ہی کے ذریعہ تیار کیا جاسکتا ہے اس لئے آخر آیت میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور اس کا اجر عظیم اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دے دیا جائے گا۔ بعض اوقات تو دنیا میں بھی مال غنیمت کی صورت میں یہ بدلہ مل جاتا ہے ورنہ آخرت کا بدلہ تو متعین ہے اور ظاہر ہے وہ زیادہ قابل قدر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝ ٠ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۝ ٠ ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝ ٠ ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝ ٦٠- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - رَبْطُ- رَبْطُ الفرس : شدّه بالمکان للحفظ، ومنه : رِبَاطُ الخیل «3» ، وسمّي المکان الذي يخصّ بإقامة حفظة فيه : رباطا، والرِّبَاط مصدر رَبَطْتُ ورَابَطْتُ ، والمُرَابَطَة کالمحافظة، قال اللہ تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آل عمران 200] ، فالمرابطة ضربان : مرابطة في ثغور المسلمین، وهي کمرابطة النّفس البدن، فإنها كمن أقيم في ثغر وفوّض إليه مراعاته، فيحتاج أن يراعيه غير مخلّ به، وذلک کالمجاهدة وقد قال عليه السلام : «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» «1» ، وفلان رَابِطُ الجأش : إذا قوي قلبه، وقوله تعالی: وَرَبَطْنا عَلى قُلُوبِهِمْ- [ الكهف 14] ، وقوله : لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] ، وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ- [ الأنفال 11] ، فذلک إشارة إلى نحو قوله : هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ [ المجادلة 22] ، فإنّه لم تکن أفئدتهم كما قال : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] ، وبنحو هذا النّظر قيل : فلان رابط الجأش .- ( ر ب ط )- ربط الفرس کے معنی گھوڑے کو کسی جگہ پر حفاظت کے لئے باندھ دینے کے ہیں اور اسی سے رباط الجیش ہے یعنی فوج کا کسی جگہ پر متعین کرنا اور وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہا جاتا ہے ۔ اور ربطت ورابطت کا مصدر بھی رباط آتا ہے اور مرابطۃ کے معنی حفاظت کے ہیں ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] اور گھوڑوں کے سرحدوں پر باندھے رکھنے سے جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کرو ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آلعمران 200] ان تکلیفوں کو جو راہ خدا میں تم کو پیش آئیں ) برداشت کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی ترغیب دو اور دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہو ۔ پس معلوم ہوا کہ مرابطۃ کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ اسلامی سرحدوں پر دفاع کے لئے پہرہ دینا اور دوسرے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکنا اور اس میں کوتاہی نہ کرنا جیسے مجاہدہ نفس کی صورت میں ہوتا ہے اور اس مجاہدہ نفس کا ثواب بھی جہاد فی سبیل اللہ کے برا بر ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ۔ فلان رَابِطُ الجأش ۔ فلاں مضبوط دل ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کئے رہتے ( تو عجب نہ تھا کہ وہ ہمارا معاملہ ظاہر کردیں ) ۔ وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال 11] تاکہ تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے ۔ اور اسی معنی کی طرف دوسرے مقام پر اشارہ فرمایا ہے ۔ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل ڈالا اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ کیونکہ ان کے دل ایسے نہیں تھے جیسے فرمایا : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل ( ہیں کہ ) ہوا ہوئے چلے جارہے ہیں ۔ اور اسی سے فلان رابط الجأش کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی مضبوط دل شخص کے ہیں ۔- خيل - الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل :- الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل :- كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل - ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔- رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔- _- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جہاد کے لئے قوت کی فراہمی - قول باری ہے (واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل۔ اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو قتال کے وقت کی آمد سے پہلے ہتھیار اور گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے تاکہ دشمن کے دل میں ان کا خوف طاری ہوجائے۔ نیز بندھے رہنے والے گھوڑے پہلے سے تیار رکھجنے کا حکم دیا گیا تاکہ مشرکین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے پوری تیاری ہوجائے۔ ایک روایت کے مطابق قوت سے مراد تیراندازی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں سعید بن منصور نے، انہیں عبداللہ بن وہب نے، انہیں عمرو بن الحارث نے ابو علی ثمامہ بن شفی ہمدانی سے کہ انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) کو یہ کہتے سنا تھا کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (واعدوا لھم ماستطعتم من قوۃ، الا ان القوۃ الرمی، الا ان القوۃ الرمی، الا ان القوۃ الرمی، اور تم جہاں تکتمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت ان کے مقابلہ کے لئے مہیا کرو… آپ نے فرمایا ” لوگو، آگاہ رہو، قوت تیر اندازی کا نام ہے، قوت تیر اندازی کا نام ہے، قوت تیراندازی کا نام ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں اسماعیل بن الفضل نے۔ انہیں فضل بن مستحب نے، انہیں ابن ابی اویس نے سلیمان بن بلال سے، انہوں نے عمرو سے۔ انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عمر کے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ارموا وارکبوا، و ان ترموا احب الی من ان ترکموا، و کل لھوالمومن باطل الارمیہ بقوسہ او تادیبہ فرسہ او ملاعبتہ امراتہ فانھن من الحق، تیراندازی اور گھڑ سواری کی مشق کرو، میرے نزدیک تیراندازی گھڑ سواری سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ مومن کے لئے ہر لہو و لعب باطل اور غلط ہے۔ البتہ اگر ایک مومن اپنی کمان سے تیر چلانے کی مشق کرے یا اپنے گھوڑے کو سدھائے یا اپنی بیوی سے ہنسی مذاق کرے۔ یہ باتیں اس کے لئے درست ہیں) ۔ ہمیں محمد بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہی (رح) سعید بن منصور نے، انہیں عبداللہ بن المبارک نے، انہیں عبدالرحمان بن زید بن جابر نے، انہیں ابو سلام نے خالد بن زید سے، انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے، انہوں نے کہا۔ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (ان اللہ یدخل بالسھم الواحد ثلاثۃ نفرالجنۃ صائعہ یحتسب، فی صنعتہ الخیر والرامی بہ و منبلہ وارموا، وارکبوا، و ان ترموا احب الی من ان ترکبوا لیس من اللھو ثلاثۃ، تادیب الرجل فرسہ، و ملاعبتہ اھلہ و رمیہ بقوسہ و نبلہ و من ترک الرمی بعد ما علمہ رغبۃ عنہ فانھا نعمۃ ترکھا او قال کفرھا۔ اللہ تعالیٰ ایک تیر یک بنا پر تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا، تیر بنانے والے کو بشرطیکہ وہ تیر سازی میں اللہ سے اجر ک حصول کی امید کرے۔ تیر چلانے والے کو اور تیر پکڑانے وال کو، تم لوگ تیراندازی اور گھڑ سواری کی مشق کرو، میرے نزدیک تمہاری تیر اندازی گھڑ سواری سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ صرف تین قسم کے لہو و لعب درست ہیں۔ انسان اپنے گھوڑے کو سدھائے اپنی بیوی سے ہنسی مذاق کرے اور کمان سے تیر چلانے کی مشق کرے، جس شخص نے تیراندازی سیکھنے کے بعد بےرغبتی کی بنا پر اس کی مشق ترک کردی اس نے گویا ایک ہاتھ آئی ہوئی نعمت کو ترک کردیا۔ (یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) اس نے کفران نعمت کیا۔- باپ بیٹے کو تربیت جہاد دے - ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق نے، انہیں مغیرہ بن عبدالرحمن نے، انہیں عثمان بن عبدالرحمن نے، انہیں الجراح بن منہال نے ابن شہاب سے، انہوں نے حضرت ابورافع (رض) کے آزاد کردہ غالم ابو سلیمان سے، انہوں نے حضرت ابو رافع (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من حق الولد علی الوالد ان یعلمہ کتاب اللہ والسباحۃ والرمی۔ بیٹے کا باپ پر یہ حق ہے کہ باپ اسے کتاب اللہ کی تعلیم دے اور تیراکی نیز تیراندازی سکھائے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشد صالا ال قوۃ الرمی، لوگو، آگاہ رہو قوت تیراندازی کا نام ہے) کے معنی یہ ہیں کہ دشمن سے پنجہ آزمائی کے لئے جس تیاری کی ضرورت ہے تیراندازی اس کا ایک بڑا حصہ ہے۔ آپ نے اس سے تیراندازی کے سوا دوسری تیاریوں کو طاقت اور قوت کا حصہ قرار دینے کی نفی نہیں کی۔ بلکہ لفظ کا عموم ان تمام آلات جنگ اور ہتھیاروں کو شامل ہے جن سے دشمن کے مقابلہ میں کام لیا جاسکتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ہے، انہیں جعفر بن ابی التقیل نے، انہیں یحییٰ بن جعفر نے، انہیں کثیر بن ہشام نے۔ انہیں عیسیٰ بن ابراہیم الثمالی نے حضرت حکم بن عمیر (رض) سے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ ہم جہاد کے اندر اپنے ناخن نہ کٹوائیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ت ھا کہ قوت ناخنوں میں ہوتی ہے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ چیز جس کے ی ذریعے دشمن مقابلہ میں قوت حاصل کی جاسکتی ہو اس کی تیاری کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ قول باری ہے (ولوارادوا الخروج لااعدولہ عدۃ۔ اگر ان منافقین کا جہاد کے لئے نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ اس کے لئے ضرور سامان تیار کرلیتے) اللہ تعالیٰ نے تیاری نہ کرنے اور دشمن کا سامنا کرنے سے پہلے تیاریاں مکمل نہ کرنے پر ان کی مذمت کی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گھوڑے باندھنے کے سلسلے میں ایسی روایت بھی منقول ہے جو آیت کے مفہوم سے مطابقت رکھتی ہے۔- گھوڑے کے گلے میں پٹہ ڈالاجائے نہ کہ تانت - ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اساق التستری نے، انہیں احمد بن عمر نے، انہیں ابن وہب نے ابن لھیعہ سے، انہوں نے عبید بن ابی حکیم ازدی سے، انہوں نے حصین بن حرملہ المھری سے۔ انہوں نے ابو المصبح سے، وہ کہتے ہیں ک میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الخیل معقود فی نوا صیھا الخیر والنیل الی یوم القیمۃ و اصحابھا معانون، قلدوھا ولا تقلدوھا الاوتار گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیر اور کامیابی کی گرہ باندھ دی گئی ہے۔ گھوڑوں کے مالکان ان کے لئے تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، گھوڑوں کی گردنوں میں پٹے ڈال دیا کرو لیکن ان کی گردنوں میں تانت نہ ڈالا کرو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ پہلی حدیث میں آپ نے یہ بیان کیا کہ خیر اجر اور غنیمت کا نام ہے۔ اس میں یہ بات موجود ہے جو جس امر کی موجب ہے کہ گھوڑے باندھنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے بشرطیکہ اس میں جاہد کی نعمت ہو۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ قیامت تک جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لئے کہ جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر گھوڑوں کی پرورش اور ان کی نگہداشت پر اجر کا استحقاق قیامت تک جاری رہے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ک یارشاد (ولا تقلدوھا الاوتار) کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں تانت کی وجہ سے گھوڑے کا دم نہ گھٹ جائے۔ دوم یہ کہ الہ جاہلیت کا طریقہ تھا کہ جب انتقام لینے اور بدلہ چکانے کے لئے نکل کھڑے ہوتے تو اپنے گھوڑوں کی گردنوں میں تانت ڈال دیتے۔ صوتر انتقام کو کہتے ہیں اور تانت کو بھی، دونوں میں لفظی مشابہت ہے) تانت ڈال کر وہ یہواضح کرتے ہیں کہ انتقام لینے جا رہے ہیں اور جنہیں قتل کرنا مقصود ہیں انہیں ٹھکانے لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانہ جاہلیت کے انتقام ک اس طریقے کو باطل قرار دیا ہے۔- اسی بنا پر آپ نے فتح مکہ کے دن اعلان کردیا تھا کہ (الا ان کل دم دماثرہ فھر موضوع تحت قدمی ھاتین و اول دم اضعہ دم ربیعۃ بن الحارث، لوگوں آگاہ ہو جائو، خ ہر خون کا بدلہ اور ہر قتل کا انتقام میرے ان دونوں قدموں کے نیچے رکھ دیا گیا، یعنی معاف کردیا گیا اور سب سے پہلے جس قتل کی معافی کا میں اعلان کرتا ہوں وہ میرے شرتہ دار ربیعہ بن الحارث کا خون ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٠) تم قبیلہ بنی قریظہ وغیرہ کے لیے ہتھیار اور پلے ہوئے گھوڑے تیار رکھو اور ان گھوڑوں سے ان کو ڈراتے رہو یہ دین اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اور لڑائی میں تمہارے دشمن ہیں، اس قبیلہ بنی قریظہ کے علاوہ تمام عرب پر بھی یا یہ کہ تمام کفار اور جنوں پر اپنا رعب جمائے رکھو جن کی تعداد تمہیں معلوم نہیں اللہ تعالیٰ ہی ان کی تعداد جاننے والا ہے۔- اور اطاعت خداوندی میں جو کچھ بھی مال تم ہتھیاروں اور گھوڑوں پر خرچ کرو گے اس کا تمہیں کو پورا پورا ثواب دیا جائے گا، تمہارے ثواب میں کسی قسم کا کوئی کمی نہیں ہوگی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ ) یہاں مسلمانوں کو واضح طور پر حکم دیا جا رہا ہے کہ اب جبکہ تمہاری تحریک تصادم کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے تو تم لوگ اپنے وسائل کے مطابق ‘ مقدور بھر فن حرب کی صلاحیت و اہلیت ‘ اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ جہاد کے لیے تیار رکھو۔ اگرچہ ایک مؤمن کو اللہ کی نصرت پر توکل کرنا چاہیے ‘ مگر توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور امید رکھے کہ سب کچھ اللہ کی مدد سے ہی ہوجائے گا۔ بلکہ توکل یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے تمام ممکنہ مادی اور تکنیکی وسائل مہیا رکھے جائیں اور پھر اللہ کی نصرت پر توکل کیا جائے۔- یہاں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف بھر پور دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تیاری کا یہ حکم ہر دور کے لیے ہے۔ آج اگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ہے تو یہ صلاحیت ملک و قوم کی قوت و طاقت کی علامت بھی ہے اور تمام عالم اسلام کی طرف سے پاکستان کے پاس ایک امانت بھی۔ اگر اس سلسلے میں کسی دباؤ کے تحت ‘ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ ( ) کیا گیا تو یہ اللہ ‘ اس کے دین اور تمام عالم اسلام سے ایک طرح کی خیانت ہوگی۔ لہٰذا آج وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس سلسلے میں جرأت مندانہ پالیسی اپنائے ‘ تاکہ اس کے دشمنوں کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں قوت مزاحمت کا توازن ( ) قائم رہے۔ - (تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ) (وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ ط) - یعنی تمہاری آستینوں کے سانپ منافقین جو درپردہ تمہاری تباہی اور بربادی کے درپے رہتے ہیں۔ تمہاری نظروں سے تو وہ چھپے ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے۔- (وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ ) - یعنی اگر اسلحہ خریدنا ہے ‘ سازو سامان فراہم کرنا ہے ‘ گھوڑے تیار کرنے ہیں تو اس سب کچھ کے لیے اخراجات تو ہوں گے۔ لہٰذا جنگی تیاری کے ساتھ ہی انفاق فی سبیل اللہ کا حکم بھی آگیا ‘ اس ضمانت کے ساتھ کہ جو کوئی جتنا بھی اس سلسلے میں اللہ کے رستے میں خرچ کرے گا اس کو وعدے کے مطابق پورا پورا اجر دیا جائے گا اور کسی کی ذرّہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں سورة البقرۃ کے رکوع ٣٦ اور ٣٧ میں دیے گئے اَحکام کو ذہن میں دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو اب تمہاری تحریک کا وہ مرحلہ شروع ہوچکا ہے جہاں تمہارا جنگ کے لیے ممکن حد تک تیاری کرنا اور کیل کانٹے سے لیس ہونا نا گزیر ہوگیا ہے۔ لہٰذا اب آگے بڑھو اور اس عظیم مقصد کے لیے دل کھول کر خرچ کرو۔ اللہ تمہیں ایک کے بدلے سات سو تک دینے کا وعدہ کرچکا ہے ‘ بلکہ یہ بھی آخری حد نہیں ہے۔ جذبۂ ایثارو خلوص جس قدر زیادہ ہوگا یہ اجر وثواب اسی قدر بڑھتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اپنا مال سینت سینت کر رکھنے کے بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالو ‘ تاکہ دنیا میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے کام آجائے اور آخرت میں تمہاری فلاح کا ضامن بن جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :44 اس سے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامان جنگ اور ایک مستقل فوج ( ) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کر سکو ۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو ، دشمن اپنا کام کر جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

42: یہ پوری امت مسلمہ کیلئے ایک ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لئے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے، قرآن کریم نے طاقت کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک ہھتیار پر موقوف نہیں ؛ بلکہ جس وقت جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو اس وقت اسی طاقت کا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے، لہذا اس میں تمام جدید ترین ہھتیار اور آلات بھی داخل ہیں اور وہ تمام اسباب ووسائل بھی جو مسلمانوں کی اجتماعی معاشی اور دفاعی ترقی کے لئے ضروری ہوں، افسوس ہے کہ اس فریضے سے غافل ہو کر آج مسلمان دوسری قوموں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں اور ان سے مرعوب ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو اس صورت حال سے نجات عطا فرمائے۔ امین۔ 43: اس سے مراد مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں جو اس وقت تک سامنے نہیں آئے تھے ؛ بلکہ بعد میں سامنے آئے، مثلاً روم اور فارس کے لوگ جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری دور اور خلافت راشدہ کے زمانے میں یا اس کے بھی بعد سابقہ پیش آیا۔