Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کفار کے مقابلہ کے ہر وقت تیار رہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بھاگ نکلے ہم ان کی پکڑ پر قادر نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے اور آیت میں ہے برائیاں کرنے والے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ۔ فرماتا ہے کافر ہمیں یہاں ہرا نہیں سکتے وہاں کا ٹھکانا آگ ہے جو بدترین جگہ ہے اور فرمان ہے کافروں کا شہروں میں آنا جانا چلنا پھرنا کہیں تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے ۔ یہ تو سب آنی جانی چیزیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جو بدترین گود ہے ۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق ان کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہو جو قوت طاقت گھوڑے ، لشکر رکھ سکتے ہیں موجود رکھو ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی اور دو مرتبہ یہی فرمایا تیر اندازی کیا کرو سواری کیا کرو اور تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے ۔ فرماتے ہیں گھوڑوں کے پالنے والے تین قسم کے ہیں ایک تو اجر و ثواب پانے والے ، ایک نہ تو ثواب نہ عذاب پانے والے ایک عذاب بگھتنے والے ۔ جو جہاد کے ارادے سے پالے اس کے گھوڑے کا چلنا پھرنا تیرنا ، چگنا باعث ثواب ہے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر کہیں چڑھ جائے تو بھی اس کے نشانات قدم اور اس کی لید پر اسے نیکیاں ملتی ہیں کسی نہر پر گذارتے ہوئے وہ پانی پی لے اگرچہ مجاہد نے پلانے کا ارادہ نہ بھی کیا ہو تاہم اسے نیکیاں ملتی ہیں ۔ پس یہ گھوڑا تو اس کے پالنے والے کے لیے بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے ۔ اور جس شخص نے گھوڑا اس نیت سے پالا کہ وہ دوسروں سے بےنیاز ہو جائے پھر اللہ کا حق بھی اس کی گردن اور اس کی سواری میں نہیں بھولا یہ اس کے لیے جائز ہے یعنی نہ اسے اجر نہ اسے گناہ ۔ تیسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا کے طور پر پالا اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے وہ اس کے ذمے و بال ہے اور اس کی گردن پر بوجھ ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ اچھاگدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا اس کے بارے میں کوئی آیت تو اتری نہیں ہاں یہ جامع عام آیت موجود ہے کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں گھوڑے تین طرح کے ہیں ۔ رحمان کے شیطان کے اور انسان کے ۔ اس میں ہے کی شیطانی گھوڑے وہ ہیں جو گھوڑ دوڑ کی شرطیں لگانے اور جوئے بازی کرنے کے لیے ہوں ۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ تیر اندازی گھوڑ سواری سے افضل ہے ۔ امام مالک اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کا قول قوی ہے کہ کیونکہ حدیث میں آچکا ہے ۔ حضرت معاویہ بن خدیج حضرت ابو ذر کے پاس گئے اس وقت وہ اپنے گھوڑے کی خدمت کر رہے تھے پوچھا تمہیں یہ گھوڑا کیا کام آتا ہے؟ فرمایا میرا خیال ہے کہ اس جانور کی دعا میرے حق میں قبول ہوگی ۔ کہا جانور اور دعا ؟ فرمایا ہاں اللہ کی قسم ہر گھوڑا ہرصبح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک کے حوالے کیا ہے تو مجھے اس کی تمام اہل سے اور مال سے اور اولاد سے زیادہ محبوب بنا کر اس کے پاس رکھ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر عربی گھوڑے کو ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت ملتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے گھوڑوں والے اللہ کی مدد میں ہیں اسے نیک نیتی سے جہاد کے ارادے سے پالنے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہر وقت ہاتھ بڑھاکر خیرات کرتا ہے ۔ اور بھی حدیثیں اس بارے میں بہت سی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں بھلائی کی تفصیل ہے کہ اجر اور غنیمت ۔ فرماتا ہے اس سے تمہارے دشمن خوف زدہ اور ہیبت خوردہ رہیں گے ان ظاہری مقابلے کے دشمنوں کے علاوہ اور دشمن بھی ہیں یعنی بنو قریظہ ، فارس اور محلوں کے شیاطین ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ اس سے مراد جنات ہیں ۔ ایک منکر حدیث میں ہے جس گھر میں کوئی آزاد گھوڑا ہو وہ گھر کبھی بد نصیب نہیں ہوگا لیکن اس روایت کی تو سند ٹھیک ہے نہ یہ صحیح ہے ۔ اور اس سے مراد منافق بھی لی گئی ہے ۔ اور یہی قول زیادہ مناسب بھی ہے جیسے فرمان الٰہی ہے ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ ١٠١؀ۚ ) 9- التوبہ:101 ) تمہارے چاروں طرف دیہاتی اور شہری منافق ہیں جنہیں تم نہیں جانتے لیکن ہم ان سے خوب واقف ہیں ۔ پھر ارشاد ہے کہ جہاد میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا بدلہ پاؤ گے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک درہم کا ثواب سات سو گنا کر کے ملے گا جیسے کہ ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ٢٦١؁ ) 2- البقرة:261 ) اتری تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی جو سوال کرے چاہے وہ کسی دین کا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦١۔ الف ] یعنی کافروں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ان کا جھوٹ، دغا، مکر و فریب، عیاری و مکاری اور ان کی سازشیں اسلام کا راستہ روکنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گی۔ اس آیت کے مخاطب بھی یہود مدینہ اور منافقین ہیں جو ہر وقت مسلمانوں کو زیر کرنے کی تدبیر سوچتے اور ایک دوسرے کے ہمراز بنے رہتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا : یہاں سب سے پہلے وہ کفار قریش مراد ہیں جو میدان بدر سے جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز نہ سمجھیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر نکل گئے ہیں، اس کی گرفت سے کون نکل سکتا ہے اور اسے کون عاجز اور بےبس کر کے بھاگ سکتا ہے ؟ ویسے الفاظ کے عموم کا تقاضا اور حقیقت واقعی یہی ہے کہ کافر کوئی بھی ہو وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نکلنے میں ہرگز کامیاب نہ سمجھے، اگر دنیا میں اس گرفت کا مظاہرہ نہ ہو تو موت کے وقت اور اس کے بعد وہ بچ کر کہاں جائیں گے ؟ وہ کبھی اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے جیسا چاہے ان پر عذاب بھیج سکتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور کافر لوگ اپنے کو یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ گئے یقینًا وہ لوگ ( اللہ تعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے کہ اس کے ہاتھ نہ آئیں یا تو دنیا ہی میں مبتلائے عقوبت کردے گا ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے) اور ان کافروں سے (مقابلہ کرنے) کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو کہ اس ( سامان) کے ذریعہ سے تم ( اپنا) رعب جمائے رکھو ان پر جو کہ ( کفر کی وجہ سے) اللہ کے دشمن ہیں اور ( تمہاری فکر میں رہنے کی وجہ سے) تمہارے دشمن ہیں ( جن سے شب و روز تم کو سابقہ پڑتا رہتا ہے) اور ان کے علاوہ دوسرے (کافروں) پر بھی ( رعب جمائے رکھو) جن کو تم ( بالیقین) نہیں جانتے (بلکہ) ان کو اللہ ہی جانتا ہے (جیسے کفار فارس اور روم وغیرہم جن سے اس وقت سابقہ نہیں پڑا مگر صحابہ کا ساز و سامان و فن سپہگری اپنے وقت میں ان کے مقابلہ میں بھی کام آیا اور ان پر بھی رعب جما، بعض مقابل ہو کر مغلوب ہوئے بعض نے جزیہ قبول کیا کہ یہ بھی اثر رعب کا ہے) اور اللہ کی راہ میں ( جس میں جہاد بھی آگیا) جو کچھ بھی خرچ کرو گے ( جس میں وہ خرچ بھی آگیا جو ساز ویراق درست کرنے میں کیا جائے) وہ ( یعنی اس کا ثواب) تم کو ( آخرت میں) پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارے لئے ( اس میں) کچھ کمی نہ ہوگی اور اگر وہ ( کفار) صلح کی طرف جھکیں تو آپ ( کو) بھی ( اجازت ہے کہ اگر اس میں مصلحت دیکھیں تو) اس طرف جھک جایئے اور ( اگر باوجود مصلحت کے یہ احتمال ہو کہ یہ ان کی چال نہ ہو تو) تو اللہ پر بھروسہ رکھئے ( ایسے احتمالوں سے اندیشہ نہ کیجئے) بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (ان کے اقوال اور احوال کو سنتا جانتا ہے ان کا خود انتظام کردے گا) اور اگر ( واقع میں وہ احتمال صحیح ہو اور) وہ لوگ ( سچ مچ صلح سے) آپ کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تعالیٰ آپ ( کی مدد اور حفاظت کرنے) کے لئے کافی ہیں ( جیسا کہ اس کے قبل بھی آپ کی کفایت فرماتے تھے چنانچہ) وہ وہی ہے جس نے آپ کو اپنی ( غیبی) امداد ( یعنی ملائکہ) سے اور ( ظاہری امداد یعنی) مسلمانوں سے قوت دی۔- معارف ومسائل - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں ان کفار کا ذکر ہے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں تھے اس لئے بچ گئے یا شریک ہونے کے بعد بھاگ نکلے اس طرح اپنی جان بچالی۔ ان لوگوں کے متعلق اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ یوں نہ سمجھیں کہ ہم بچ نکلے۔ کیونکہ غزوہ بدر کفار کے لئے ایک عذاب الہی تھا اور اس کی پکڑ سے بچنا کسی کے بس میں نہیں۔ اس لئے فرمایا (آیت) اِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ ، یعنی یہ لوگ اپنی چالاکی سے اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے وہ جب پکڑنا چاہیں گے یہ ایک قدم نہ سرک سکیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا ہی میں پکڑ لئے جائیں ورنہ آخرت میں تو ان کی گرفتاری ظاہر ہے۔- اس آیت نے اس طرف اشارہ کردیا کہ کوئی مجرم گناہگار اگر کسی مصیبت اور تکلیف سے نجات پا جائے اور پھر بھی توبہ نہ کرے بلکہ اپنے جرم پر ڈٹا رہے تو یہ اس کی علامت نہ سمجھو کہ وہ کامیاب ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا بلکہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے اور یہ ڈھیل اس کے عذاب اور مصبیت کو اور بڑھا رہی ہے گو اس کو محسوس نہ ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا۝ ٠ۭ اِنَّہُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ۝ ٥٩- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔- عجز - عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه :- مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] .- ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی قریظہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہمارے عذاب سے بچ گئے اور ہمارے عذاب سے بالکل نہیں بچ سکتے

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا ط) - غزوۂ بدر میں کفار کے ایک ہزار افراد میں سے بہت سے لوگ صحیح سلامت بچ بھی نکلے تھے۔ یہ ان کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ہیں۔- (اِنَّہُمْ لاَ یُعْجِزُوْنَ ) ۔- وہ ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

41: یہ ان کافروں کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر کے موقع پر بھاگ نکلے تھے۔