7۔ 1 یعنی یا تو تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے گا، جس سے تمہیں بغیر لڑائی کے وافر مال و اسباب مل جائے گا، بصورت دیگر لشکر قریش سے تمہارا مقا لہ ہوگا اور تمہیں غلبہ ہوگا اور مال غنیمت ملے گا۔ 7۔ 2 یعنی تجارتی قافلہ سے بغیر لڑے مال ہاتھ آجائے۔
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ : یعنی قافلے یا کفار پر فتح اور اموال غنیمت۔ - وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَات الشَّوْكَةِ : ” الشَّوْكَةِ “ کانٹے کو کہتے ہیں، یعنی تمہاری خواہش یہ تھی کہ کسی تکلیف اور جنگ کے بغیر حاصل ہونے والا قافلہ تمہیں مل جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنی باتوں اور وعدوں کے مطابق حق کو سچا ثابت فرمائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔
خلاصہ تفسیر - اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ تم سے ان دو جماعتوں ( یعنی تجارتی قافلہ یا لشکر) میں سے ایک ( جماعت) کا وعدہ کر رہے تھے کہ وہ ( جماعت) تمہارے ہاتھ آجائے گی ( یعنی مغلوب ہوجائے گی۔ یہ وعدہ مسلمانوں سے بواسط رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذریعہ وحی ہوا تھا) اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مصلح جماعت ( یعنی تجارتی قافلہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ( اس کو عملا غلبہ دے کر) ثابت کردے اور ( یہ منظور تھا کہ) ان کافروں کی بنیاد کو قطع کردے تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ( عملا) ثابت کردے اگرچہ یہ مجرم لوگ ( یعنی مغلوب ہونے والے کفار اس کو کتنا ہی) ناپسند کریں۔ اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے ( اپنی تعداد اور سامان جنگ کی قلت اور دشمن کی کثرت دیکھ کر) فریاد کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی ( اور وعدہ فرمایا) کہ تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو سلسلہ وارچلے آویں گے اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد صرف اس ( حکمت) کے لئے کی کہ ( تم کو غلبہ پانے کی) بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار آجائے ( یعنی انسان کی تسلی طبعی طور پر اسباب سامان سے ہوتی ہے اس لئے وہ بھی جمع کردیا گیا) اور ( واقع میں تو) نصرت ( اور غلبہ) صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو زبردست حکمت والے ہیں۔
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ ٧ ۙ- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - شوك - الشَّوْكُ : ما يدقّ ويصلب رأسه من النّبات، ويعبّر بِالشَّوْكِ والشِّكَةِ عن السّلاح والشّدّة . قال تعالی: غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ [ الأنفال 7] ، وسمّيت إبرة العقرب شَوْكاً تشبيها به، وشجرة شَاكَةٌ وشَائِكَةٌ ، وشَاكَنِي الشَّوْكُ : أصابني، وشَوَّكَ الفرخ : نبت عليه مثل الشّوك، وشَوَّكَ ثدي المرأة : إذا انتهد، وشَوَّكَ البعیر : طال أنيابه کا لشّوك .- ( ش و ک ) الشواک کانٹا اور کبھی شوک اور شکۃ کے لفظ سے اسلحہ اور شدت مراد ہوتی ہے قرآن میں ہے ۔ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ [ الأنفال 7] کہ جو قافلہ بےشان شوکت ( یعنی ہتھیار ) ہے ۔ اور تشبیہ کے طور پر بچھو کے ڈنک کو بھی شوک کیا جاتا ہے اور خار دار درخت کو شجرۃ شاکۃ وشائکۃ کہہ دیتے ہیں ۔ شاکنی الشوک مجھے کانٹا چبھ گیا شوک الفرخ چوڑے نے کانٹے اور پر نکال لئے ۔ شوک ثدی المرأۃ ۔ عورت کی چھاتی ابھر آئی ۔ شول البعیر : اونٹ کے انیاب کا لمبا اور کانٹے کی طرح تیز ہونا ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - دابِرُ ( دبر)- فإدبار مصدر مجعول ظرفا، نحو : مقدم الحاجّ ، وخفوق النجم، ومن قرأ : (أدبار) فجمع . ويشتقّ منه تارة باعتبار دبر الفاعل، وتارة باعتبار دبر المفعول، فمن الأوّل قولهم : دَبَرَ فلانٌ ، وأمس الدابر، وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ [ المدثر 33] ، وباعتبار المفعول قولهم : دَبَرَ السهم الهدف : سقط خلفه، ودَبَرَ فلان القوم : صار خلفهم، قال تعالی: أَنَّ دابِرَ هؤُلاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ- [ الحجر 66] ، وقال تعالی: فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا [ الأنعام 45] ، والدابر يقال للمتأخر، وللتابع، إمّا باعتبار المکان، أو باعتبار الزمان، أو باعتبار المرتبة، وأَدبرَ : أعرض وولّى دبره،- اور الدبر سے مشتقات ( جیسے ( دبروادبر دابر ) کبھی باعتبار فاعل ( یعنی فعل لازم ) کے استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسے :۔ دبر فلان ( فلاں نے بیٹھ پھیری ) امس الدابر ( کل گزشتہ ) قرآن میں ہے :۔ وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ [ المدثر 33] اور رات کی جب پیٹھ پھیرنے لگے ۔ اور کبھی اعتبار مفعول ( یعنی فعل متعدی ، کے جیسے دبر السھم الھدف ) تیرنشانہ سے دو سے گر پڑا) دبر فلان القوم ( یعنی وہ قوم سے پیچھے رہ گیا قرآن میں ہے :۔ فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا [ الأنعام 45] غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ أَنَّ دابِرَ هؤُلاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ [ الحجر 66] کہ ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے ہی کاٹ دی جائیگی ۔ اور دابر کے معنی متاخر یا تابع کے آتے ہیں خواہ وہ تاخر باعتبار مکان یاز مان کے ہوا اور خواہ باعتبار مرتبہ کے ۔ ادبر ۔ اعراض کرنا ۔ پشت پھیر نا - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
غزو بدر میں وعدہ خداوندی - قول باری ہے واذیعدکم اللہ احدی الطائفتین انھالکم۔ یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا) اس واقعہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت کے کئی دلائل موجود ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے لوگوں کو یہ بتادیا تھا کہ قافلہ قریش اور لشکر قریش میں سے ایک کے ساتھ مسلمانوں کو واسطہ پڑے گا قریش کا یہ تجارتی قافلہ واپسی کے سفر پر تھا اور اس میں پورے قریش کا سرمایہ لگا ہوا تھا اس کی حفاظت اور حمایت کے لئے قریش کا لشکر مکہ سے چل پڑا تھا پھر وہی کچھ ہوا جس کا آیت میں وعدہ کیا گیا تھا۔ قول باری ہے وتودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم۔ اور تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے) یعنی مسلمان تجارتی قافلے پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے اس لئے کہ اس میں مال و اسباب کی فراوانی تھی اور معرکہ آرائی کی کم سے کم گنجائش مسلمانوں کو یہ خیال اس لئے آیا تھا کہ وہ جنگ کی پوری تیاری کر کے نہیں نکلے تھے۔ انہیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ قریش والے ان سے پنجہ آزمائی کے لئے آدھمکیں گے۔ قول باری ہے ویریداللہ ان یحق الحق بکلماتہ ویقطح دابر الکافرین۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دینے اور انہیں تہ تیغ کرنے کا جو عدہ فرمایا تھا اس آیت میں اس وعدے کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے۔
(٧۔ ٨) اور وہ وقت بھی یاد کرو، جب کہ تم سے ان جماعتوں یعنی قافلہ اور لشکر میں سے ایک کے غنیمت میں ملنے کا وعدہ کیا تھا۔- اور تمہاری خواہش تھی کہ قافلہ تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنی مدد اور قوت سے دین اسلام کا حق ہونا ظاہر کردے، اور ان کافروں کی جڑ ہی کاٹ دے تاکہ دین اسلام کا مکہ مکرمہ میں نام بلند ہو، شرک اور مشرک نیست ونابود ہوجائیں، اگرچہ یہ مشرک اس چیز کو ناپسند ہی کریں۔
آیت ٧ (وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآءِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ ) - لشکر یا قافلے میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کی فتح کی ضمانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دے دی گئی تھی۔ - (وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَات الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ ) - تم لوگوں کی خواہش تھی کہ لشکر اور قافلے میں سے کسی ایک کے مغلوب ہونے کی ضمانت ہے تو پھر غیر مسلح گروہ یعنی قافلے ہی کی طرف جایا جائے ‘ کیونکہ اس میں کوئی خطرہ اور خدشہ ( ) نہیں تھا۔ قافلے کے ساتھ بمشکل پچاس یا سو آدمی تھے جبکہ اس میں پچاس ہزار دینار کی مالیت کے سازوسامان سے لدے پھندے سینکڑوں اونٹ تھے ‘ لہٰذا اس قافلے پر بڑی آسانی سے قابو پایا جاسکتا تھا اور بظاہر عقل کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ان لوگوں کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے پاس تو ہتھیار بھی نہیں ہیں اور سامان رسد وغیرہ بھی نا کافی ہے ‘ ہم پوری تیاری کر کے مدینے سے نکلے ہی نہیں ہیں ‘ لہٰذا یہ بہتر ہوگا کہ پہلے قافلے کی طرف جائیں ‘ اس طرح سازو سامان بھی مل جائے گا ‘ اہل قافلہ کے ہتھیار بھی ہمارے قبضے میں آجائیں گے اور اس کے بعد لشکر کا مقابلہ ہم بہتر انداز میں کرسکیں گے۔ تو گویا عقل و منطق بھی اسی رائے کے ساتھ تھی۔ - (وَیُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ ) - یہ وہی بات ہے جو ہم سورة الانعام (آیت ٤٥) میں پڑھ آئے ہیں : (فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ط) کہ ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ یعنی اللہ کا ارادہ کچھ اور تھا۔ یہ سب کچھ دنیا کے عام قواعد و ضوابط ( ) کے تحت نہیں ہونے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس دن کو یوم الفرقان بنانا چاہتا تھا۔ وہ تین سو تیرہ نہتے افراد کے ہاتھوں کیل کانٹے سے پوری طرح مسلح ایک ہزار جنگجوؤں کے لشکر کو ذلت آمیز شکست دلوا کردکھانا چاہتا تھا کہ اللہ کی تائید و نصرت کس کے ساتھ ہے اور چاہتا تھا کہ کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :5 یعنی تجارتی قافلہ یا لشکر قریش ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :6 یعنی قافلہ جس کے ساتھ صرف تیس چالیس محافظ تھے ۔
3: اس سے مراد ابو سفیان کا قافلہ ہے اور ’’ کانٹے‘‘ سے مراد خطرہ ہے۔ قافلے میں مسلح افراد کیک تعداد کل چالیس تھی۔ لہذا اس پر حملہ کرنے میں کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا۔ لہذا طبعی طور پر اس پر حملہ کرنا آسان تھا۔