75۔ 1 یہ ایک چوتھے گروہ کا ذکر ہے جو فضیلت میں پہلے دو گر و ہوں کے بعد اور تیسرے گروہ سے (جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی) پہلے ہے۔ 75۔ 2 اخوت یا حلف کی بنیاد پر وراثت میں جو حصہ دار بنتے تھے، اس آیت سے اس کو منسوخ کردیا گیا اب وارث صرف وہی ہونگے جو نسبی اور سسرالی رشتوں میں منسلک ہونگے۔ اللہ کے حکم کی مراد یہ ہے کہ لوح محفوظ میں اصل حکم یہی تھا۔ لیکن اخوت کی بنیاد پر عارضی طور پر ایک دوسرے کا وارث بنادیا گیا تھا، جو اب ضرورت ختم ہونے پر غیر ضروری ہوگیا اور اصل حکم نافذ کردیا گیا۔
[٧٧] یعنی ان بعد والوں میں اسلام لانے، ہجرت کرنے اور جہاد میں شامل ہونے والوں کے قانونی حقوق بالکل وہی ہوں گے جو (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ١٠٠۔ ) 9 ۔ التوبہ :100) کے ہیں۔ کیونکہ اب یہ سب ایک برادری میں منسلک ہوچکے ہیں۔ تقدیم و تاخیر کی وجہ سے ان کے فرائض و حقوق میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ معاہدات میں وہ برابر کے شریک ہوں گے۔ صلح و جنگ اور وراثت وغیرہ کے احکام میں کوئی فرق نہ ہوگا۔- [٧٨] مواخات کی بنا پر احکام وراثت کا منسوخ ہونا :۔ اس جملہ کی رو سے نیز سورة نساء کی آیت نمبر ٣٣ کی رو سے وراثت کے اصل حقدار قریبی رشتہ دار ہی قرار پائے اور مہاجرین و انصار مواخات کی بنا پر جو ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔ وہ حکم منسوخ ہوا اس لیے کہ اب مہاجرین کی معاشی حالت بہت بہتر ہوچکی تھی۔ البتہ ایسے بھائیوں کے لیے وصیت، حسن سلوک اور مروت اور دینی بھائی چارہ کی ہدایات بدستور برقرار ہیں، اور وراثت کے احکام میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ اللہ مسلمانوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ : اس آیت میں مسلمانوں کے چوتھے گروہ کا ذکر ہے جنھوں نے صلح حدیبیہ کے بعد یا بدر کے بعد، جب اسلام ایک طاقت بن گیا، ایمان لا کر ہجرت کی، یہ لوگ بھی مہاجرین اولین اور انصار کے ساتھی شمار ہوں گے، اگرچہ سبقت کی وجہ سے پہلوں کا درجہ ان سے مقدم ہے، فرمایا : (وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ ) [ الواقعۃ : ١٠ ] ” اور جو پہل کرنے والے ہیں، وہی آگے بڑھنے والے ہیں۔ “ مگر بخاری (٦١٦٨) اور مسلم (٢٦٤٠) کی حدیث ( اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ) (قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت اور دوستی رہی ہے) کی رو سے ان کا شمار انھی میں ہوگا۔ [ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ ]- وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ : یعنی اب آئندہ سے میراث دینی بھائی چارے کی بنا پر نہیں بلکہ رشتہ داری کی بنا پر تقسیم ہوگی، کیونکہ ایمان، ہجرت اور جہاد کے ساتھ ساتھ رشتہ داری ان کے قرب کی ایک زائد وجہ ہے۔ اس سے وہ طریقہ منسوخ ہوگیا جس میں مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے۔ (ابن کثیر) - اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ : وہی جانتا ہے کہ کس کا حق پہلے اور کس کا بعد میں ہے، لہٰذا اس کے تمام احکام سراسر علم و حکمت پر مبنی ہیں۔
چوتھی آیت میں مہاجرین کے مختلف طبقات کا حکم بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ ان میں بعض لوگ مہاجرین اولین ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ سے پہلے ہجرت کی اور بعض دوسرے درجہ کے مہاجر ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کی اور اس کی وجہ سے ان کے اخروی درجات میں فرق ہوگا مگر احکام دنیا میں ان کا حکم بھی وہی ہے جو مہاجرین اولین کا ہے وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ اسی لئے مہاجرین کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (آیت) فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ ۔ یعنی یہ دوسرے درجہ کے مہاجرین بھی تمہارے ہی زمرہ میں شامل ہیں اس لئے وراثت کے احکام میں بھی ان کا حکم عام مہاجرین کی طرح ہے۔- یہ سورة انفال کی بالکل آخری آیت ہے اس کے آخر میں قانون میراث کا ایک جامع ضابطہ بیان فرمایا گیا ہے جس کے ذریعہ اس عارضی حکم کو منسوخ کردیا گیا ہے جو اوائل ہجرت میں مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث بننے کے متعلق جاری ہوا تھا (آیت) وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ۔- لفظ اولو عربی زبان میں صاحب کے معنی میں آتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں والے سے کیا جاتا ہے اولو العقل عقل والے اولو الامر امر والے اس لئے اولو الارحام کے معنی ہوئے ارحام والے ارحام رحم کی جمع ہے جو اصل میں اس عضو کا نام ہے جس کے اندر بچہ کی تخیلق عمل میں آتی ہے اور چونکہ رشتہ داری کا تعلق رحم کی شرکت سے قائم ہوتا ہے اس لئے اولو الارحام رشتہ داروں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔- معنی آیت کے یہ ہیں کہ اگرچہ ایک ولایت عامہ سب مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حاصل ہے جس کے سبب بوقت ضرورت ایک دوسرے کی امداد و اعانت بھی واجب ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے ہیں لیکن جو مسلمان آپس میں قرابت اور رشتہ کا تعلق رکھتے ہوں وہ دوسرے مسلمانوں سے مقدم ہیں۔ فی کتب اللہ کے معنی اس جگہ فی حکم اللہ کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم خاص سے یہ قانون بنادیا ہے۔- اس آیت نے یہ ضابطہ بتادیا کہ تقسیم وراثت رشتہ داری کے معیار پر ہونا چاہئے۔ اور لفظ اولو الارحام مطلقا اقرباء اور رشتہ داروں کے لئے بولا جاتا ہے۔ ان میں سے خاص خاص رشتہ داروں کے حصے تو خود قرآن کریم نے سورة نساء میں متعین فرمادیئے جن کو علم میراث کی اصطلاح میں اہل فرائض یا ذوی الفروض کہا جاتا ہے، ان کو دینے کے بعد جو مال بچے وہ اس آیت کی رو سے دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم ہونا چاہئے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سب رشتہ داروں میں کسی مال کا تقسیم کرنا کسی کی قدرت میں نہیں کیونکہ دور کی رشتہ داری تو ساری دنیا کے انسانوں کے درمیان بلاشبہ موجود ہے کہ سب کے سب ایک ہی باپ اور ماں آدم و حواء (علیہما السلام) سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لئے رشتہ داروں میں تقسیم کرنے کی عملی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو بعید پر مقدم رکھ کر قریب کے سامنے بعید کو محروم کیا جائے۔ جس کا تفصیلی بیان احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس طرح موجود ہے کہ ذوی الفروض کے حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ میت کے عصبات یعنی جدی رشتہ داروں کو درجہ بدرجہ دیا جائے یعنی عصبہ قریب کو بعید پر مقدم رکھ کر قریب کے سامنے بعید کو محروم کیا جائے۔ اور اگر عصبات میں سے کوئی بھی زندہ موجود نہیں تو پھر باقی رشتہ داروں میں تقسیم کیا جائے۔- عصبات کے علاوہ جو دوسرے رشتہ دار ہوتے ہیں علم میراث و فرائض کی خاص اصطلاح میں لفظ ذوی الارحام انھیں کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ اصطلاح بعد میں مقرر کی گئی ہے قرآن کریم میں اولو الارحام کا لفظ لغوی معنی کے مطابق تمام رشتہ داروں پر حاوی ہے جس میں ذوی الفروض اور عصبات اور ذوی الارحام سب اجمالی طور پر داخل ہیں۔- پھر اس کی کچھ تفصیل سورة نساء کی آیات میں آگئی جن میں خاص خاص رشتہ داروں کے حصے حق تعالیٰ نے خود مقرر فرما دیئے جن کو اصطلاح میراث میں ذوی الفروض کہتے ہیں اور باقی کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فھو لا ولی رجل ذکر۔ ( بخاری) - یعنی جن کے حصے قرآن نے مقرر کردیئے ہیں وہ پورے ان کو دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ ان لوگوں کو دیئے جائیں جو میت سے قریب تر مرد ہوں۔- ان کو اصطلاح میراث میں عصبات کہا جاتا ہے۔ اگر کسی میت کے عصبات میں کوئی موجود نہ ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق پھر دوسرے رشتہ داروں کو دیا جاتا ہے جن کو اصطلاح میں ذوی الارحام کہتے ہیں جیسے ماموں خالہ وغیرہ۔- سورة انفال کی اس آخری آیت کے آخری جملہ نے اسلامی وراثت کا وہ قانون منسوخ کردیا جو اس سے پہلے آیات میں مذکور ہے جن کی رو سے مہاجرین و انصار میں باہمی وراثت جاری ہوتی تھی اگرچہ ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہ ہو کیونکہ یہ حکم ایک ہنگامی حکم ہے جو اوائل ہجرت کے وقت دیا گیا تھا۔- سورة انفال ختم ہوگئی اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائیں۔- تمت سورة الانفال بعون اللہ تعالیٰ و حمدہ لیلة الخمیس لثمانی وعشرین من جمادی الاخری ١٣٨١ ہجری و اسأل اللہ تعالیٰ التوفیق والعون فی تفسیر سورة التوبة و للہ الحمد اولہ واخرہ۔ - محمد شفیع عفی عنہ - وتم النظر الثانی علیہ یوم الجمعة لتسعة عشر من جمادی الاولی ١٣٩٠ ہجری والحمد للہ علی ذلک۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ ٠ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٧٥ ۧ- رحم ( المراۃ)- الرَّحِمُ : رَحِمُ المرأة، وامرأة رَحُومٌ تشتکي رحمها . ومنه استعیر الرَّحِمُ للقرابة، لکونهم خارجین من رحم واحدة ( ر ح م ) الرحم ۔ عورت کا رحم ۔ اور رحوم اس عورت کو کہتے ہیں جسے خرابی رحم کی بیماری ہو اور استعارہ کے طور پر رحم کا لفظ قرابت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ تمام اقرباء ایک ہی رحم سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اس میں رحم و رحم دولغت ہیں
خونی رشتے اور وراثت - قول باری ہے (و اولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ، مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں) اس آیت کے ذریعے ہجرت، حلف اور موالات کی بنا پر توارث کے ایجاب کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اس میں عصبات اور غیر غصبات کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اس میں ایسے ذوی الارحام کی میراث کے اثبات کی حجت اور دلیل موجود ہے جن کے لئے آیت میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ عصبات کے ذیل میں آت ہیں۔ ہم نے سورة نساء میں اس کا ذکر کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا مسلک یہ ہے کہ ذوی الارحام مولیٰ عتاقہ سے بڑھ کر میراث کے حقدار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ظاہر آیت سے استدلال کیا ہے، لیکن دوسرے تمام صحابہ کرام کا یہ مسلک نہیں ہے۔- ولاء میں وراثت - ایک روایت کے مطابق حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی نے ایک غلام آزاد کردیا تھا، اس کا انتقال ہوگیا اور اس کے پیچھے ایک بیٹی رہ گئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا آدھا ترکہ اس کی بیٹی کو اور آدھا حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو ولایت کی بنا پردے دیا، گویا آپ نے حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو عصبہ قرار دیا اور عصبہ ذوی الارحام سے بڑھ کر میراث کا مستحق ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب لا تباع ولا توھب۔ ولاء نسب کی طرح گوشت کا ایک ٹکڑا ہے زاے فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بطور ہبہ کسی کو دیا جاسکتا) قول باری (فی کتاب اللہ) کی دو توجیہیں کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ” لوح محفوظ ہیں “ جس طرح یہ ارشاد باری ہے (ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبرھا کوئی سی کبھی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر یہ کہ سب ایک رجسٹر میں لکھی ہیں قبل اس کے کہ ہم ان جانوں کو پیدا کریں ض دوسری یہ کہ اللہ عاتیٰ کے حکم میں “۔ اختتام سورة انفال۔
(٧٥) اور جو لوگ مہاجرین اولین کے بعد ایمان لائے اور ہجرت بھی کی اور تمہارے ساتھ دشمن سے جہاد بھی کرتے رہے تو یہ لوگ ظاہر و باطن کے اعتبار سے ستم میں سے ہی شمار ہوں گے۔- اور جو لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں تو وہ حسب ترتیب ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حق دار ہیں، اس آیت سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی اور اللہ تعالیٰ میراثوں کی تقسیم اور تمہاری درستگی وغیرہ کی باتوں اور مشرکین کی عہد شکنی سے اچھی طرح واقف ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” واولوا الارحام بعضھم “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے ابن زبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ آدمی کسی کے ساتھ یہ معاہدہ کرلیتا تھا کہ میرا وارث ہوگا اور میں تیرا وارث ہوں گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن سعد (رح) نے ہشام بن عروہ (رح) کے ذریعہ سے عروہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر بن عوام (رض) اور کعب بن مالک (رض) کے درمیان مواخات کرادی، حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں کعب بن مالک (رض) کو دیکھا کہ احد کے دن ان کو زخم لگا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر یہ انتقال کرجائیں تو یہ دنیا سے چلے جائیں گے اور ان کے گھر والے ان کے وارثوں کیلے ہوجائیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی چناچہ اس حکم کے بعد میراث رشتہ داروں کے لیے ہوگئی اور یہ مواخات کی میراث کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
آیت ٧٥ (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْم بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓءِکَ مِنْکُمْ ط) ۔- وہ تمہاری جماعت ‘ اسی امت اور حزب اللہ کا حصہ ہیں۔ - (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ ط) - یعنی شریعت کے قوانین میں خون کے رشتے مقدم رکھے گئے ہیں۔ مثلاً وراثت کا قانون خون کے رشتوں کو بنیاد بنا کر ترتیب دیا گیا ہے۔ اسی طرح شریعت کے تمام قواعد و ضوابط میں رحمی رشتوں کی اپنی ایک ترجیحی حیثیت ہے۔ خونی رشتوں کی ان قانونی ترجیحات کو بھائی چارے اور ولایت کے تعلقات کے ساتھ گڈ مڈ نہ کیا جائے ۔- (اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ) ۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔
55: یہ اس وقت کا ذکر ہے جب وہ مسلمان بھی بالآخر ہجرت کر آئے تھے جنہوں نے شروع میں ہجرت نہیں کی تھی، اس آیت نے ان کے بارے میں دو حکم بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ اب انہوں نے چونکہ وہ کسر پوری کردی ہے جس کی وجہ سے ان کا درجہ مہاجرین اور انصار سے کم تھا، اس لئے اب وہ بھی ان میں شامل ہوگئے ہیں۔ اور دوسرا حکم یہ کہ اب تک وہ اپنے ان رشتہ داروں کے وراث نہیں ہوتے تھے جو ہجرت کرچکے تھے۔ اب چونکہ وہ بھی ہجرت کرکے مدینہ منوَّرہ آگئے ہیں، اس لئے اب ان کے وارث ہونے کی اصل رکاوٹ دور ہوگئی ہے۔ اب وہ اپنے ان مسلمان رشتہ داروں کے وارث ہوں گے جو اُن سے پہلے ہجرت کرچکے تھے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انصاری صحابہ کو ان مہاجرین کا جو وارث بنایا گیا تھا، اب وہ حکم منسوخ ہوگیا، کیونکہ وہ ایک عارضی حکم تھا جو اس وجہ سے دیا گیا تھا کہ ان مہاجرین کے رشتہ دار مدینہ منوَّرہ میں موجود نہیں تھے۔ اب چونکہ وہ آگئے ہیں ،اس لئے میراث کا اصل حکم کہ وہ قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، واپس آگیا۔