تبلیغ دین میں فقیر و غنی سب برابر بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دنیا اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے ، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑ گئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں ، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہو جائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہو جائے ، یہ کیا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بےپرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ان کو راہ راست پر لا کھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے؟ وہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ مانیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں ، مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف ، فقیر و غنی ، آزاد و غلام ، مرد و عورت ، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے ، حضرت ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے ( مسند ابو یعلی ) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے ، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلس میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہو میری بات ٹھیک ہے وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے ، ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ ، ابو جہل بن ہشام ، عباس بن عبدالمطلب تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کس طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کرلیں ادھر یہ آ گئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کی بات ذرا بےموقع لگی اور منہ پھیر لیا اور ادھر ہی متوجہ رہے ، جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہو گیا اور یہ آیتیں اتریں ، پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو؟ ( ابن جریر وغیرہ ) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے ہوئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں آیت ( عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ Ǻۙ اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى Ąۭ ) عبس اتری تھی ، یہ بھی موذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے ( ابن ابی حاتم ) ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبداللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے ، واللہ اعلم ، انھا تذکرہ یعنی یہ نصیحت ہے اس سے مراد یا تو یہ سورت ہے یا یہ مساوات کہ تبلیغ دین میں سب یکساں ہیں مراد ہے ، سدی کہتے ہیں مراد اس سے قرآن ہے ، جو شخص چاہے اسے یاد کر لے یعنی اللہ کو یاد کرے اور اپنے تمام کاموں میں اس کے فرمان کو مقدم رکھے ، یا یہ مطلب ہے کہ وحی الٰہی کو یاد کر لے ، یہ سورت اور یہ وعظ و نصیحت بلکہ سارے کا سارا قرآن موقر معزز اور معتبر صحیفوں میں ہے جو بلند قدر اور اعلیٰ مرتبہ والے ہیں جو میل کچیل اور کمی زیادتی سے محفوظ اور پاک صاف ہیں ، جو فرشتوں کے پاس ہاتھوں میں ہیں اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ ہاتھوں میں ہے ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد قاری ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ نبطی زبان کا لفظ ہے معنی ہیں قاری ، امام ابن جریر فرماتے ہیں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں ، سفیر اسے کہتے ہیں کہ جو صلح اور بھلائی کے لیے لوگوں میں کوشش کرتا پھرے ، عرب شاعر کے شعر میں بھی یہی معنی پائے جاتے ہیں ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتے ہیں جو فرشتے اللہ کی جانب سے وحی وغیرہ لے کر آتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں میں صلح کرانے والے سفیر ہوتے ہیں ، وہ ظاہر باطن میں پاک ہیں ، وجیہ خوش رو شریف اور بزرگ ظاہر میں ، اخلاق و افعال کے پاکیزہ باطن میں ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن کے پڑھنے والوں کو اعمال و اخلاق اچھے رکھنے چاہئیں ، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو قرآن کو پڑھے اور اس کی مہارت حاصل کرے وہ بزرگ لکھنے والے فرشتوں کیساتھ ہو گا اور جو باوجود مشقت کبھی پڑھے اسے دوہرا اجر ملے گا ۔
[١] ایک دفعہ رسول اللہ کی خدمت میں چند قریشی سردار بیٹھے تھے اور آپ انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ یہ لوگ بعد میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بدترین دشمن ثابت ہوئے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ جب قریشی سردار اسلام دشمنی کی حد تک نہیں پہنچے تھے۔ اسی دوران سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس تشریف لائے۔ یہ عبداللہ بن ام مکتوم نابینا تھے۔ سیدہ خدیجہ (رض) کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے آتے ہی رسول اللہ سے کسی آیت کا مطلب پوچھا۔ اور جو لوگ اس وقت رسول اللہ کی مجلس میں بیٹھے تھے انہیں آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ رسول اللہ کو ناگوار محسوس ہوا۔ اور اس ناگواری کے اثرات آپ کے چہرہ پر بھی نمودار ہوگئے۔ آپ نے سیدنا عبداللہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور انہیں خاموش کرا دیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ سیدنا عبداللہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ خالص مومن ہیں انہیں بعد میں سمجھا لینگے سردست اگر ان سرداروں میں سے کوئی ایک بھی اسلام کے قریب آگیا تو اس سے اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی ہے اسی وجہ سے آپ قریشی سرداروں سے ہی محو گفتگو رہے۔ اس وقت یہ سورت نازل ہوئی جسے امام ترمذی نے مختصراً یوں ذکر کیا ہے :- عبداللہ بن ام مکتوم اور راہ ہدایت کی جستجو طلب صادق :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس سورت کی ابتدائی آیات عبداللہ بن ام مکتوم کے بارے میں نازل ہوئیں۔ وہ آپ کے پاس آئے اور یہ کہتے رہے کہ یارسول اللہ مجھے دین کی راہ بتائیے۔ اس وقت آپ کے پاس مشرکوں میں سے کوئی بڑا آدمی بیٹھا تھا۔ اور آپ پہلے (یعنی عبداللہ) سے اعراض کرتے تھے اور دوسرے (مشرک) کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اور عبداللہ (رض) کہتے تھے کیا میری بات میں کوئی برائی ہے اور آپ کہتے تھے۔ نہیں۔ اس بارے میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) - اس سورت کے انداز خطاب سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عتاب کا رخ رسول اللہ کی طرف ہے حالانکہ اس عتاب کے بیشتر حصہ کا روئے سخن قریشی سرداروں کی طرف ہے۔ پھر آپ پر جو کچھ عتاب نازل ہوا اس کا انداز بھی عجیب ہے۔ پہلی آیت میں صیغہ واحد مذکر غائب استعمال کیا گیا ہے۔ پھر تیسری آیت میں آپ کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے جس سے ایک تو کلام میں حسن پیدا ہوگیا اور دوسرے عتاب کے انداز کو انتہائی نرم کردیا گیا ہے۔ اس عتاب میں آپ کے دعوت حق کی تبلیغ کے طریق کار پر تنقید کی گئی ہے کہ اصولاً اس دعوت کے لیے توجہ کا اولین مستحق وہ ہوتا ہے۔ جو خود بھی ہدایت کا طالب ہو۔ اس واقعہ کے بعد آپ سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم سے بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرمایا کرتے مَرحَبَا بِمَنْ عَاتَبَنِی فِیْہِ رَبِّی (خوش آمدید اس شخص کو جس کے بارے میں اللہ نے مجھ پر عتاب فرمایا) نیز آپ نے مدنی زندگی میں کئی بار آپ کو مدینہ میں اپنا نائب اور حاکم بنایا جب آپ جہاد وغیرہ کے سلسلہ میں مدینہ سے باہر جاتے تھے۔ آپ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں عملاً حصہ لیا کرتے تھے۔ آپ دور فاروقی میں جنگ قادسیہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
(١) عبس وتولی : اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا، اگرچہ بعد میں ” وما یدریک “ سے مخاطب فرما لیا۔ اس میں نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نابینے صحابی سے بےتوجہی کی تو اللہ تعالیٰ نے بطور عتاب آپ کے خطاب سے بےتوجہی فرمائی۔ موضح القرآن میں ہے :” یہ کلام گویا اوروں کے پاس گلہ ہے رسول کا۔ آگے رسول کو خطاب فرمایا۔ “ بعض اہل علم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اکرام کی وجہ سے آپ کو مخاطب کر کے اظہار ناراضی نہیں فرمایا۔- (٢) بعض حضرات نے ” تیوری چڑھانے والا “ اس مشرک کو قرار دیا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا تھا، مگر اس کے بعد آنے والی آیات میں صاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخطاب کر کے فرمایا :(فانت عنہ تلھی) یعنی آپ اس آنے والے (نابینے صحابی) سے بےتوجہی کرتے ہیں۔ اس لئے مذکورہ تفسیر درست نہیں۔
خلاصہ تفسیر - شان نزول - ان آیات کے نزول کا قصہ یہ ہے کہ ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض روسائے مشرکین کو سمجھا رہے تھے، بعض روایات میں ان میں سے بعض کے نام بھی آئے ہیں۔ ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، ابی بن خلف، امیہ بن خلف، شیبہ کہ اتنے میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا صحافی حاضر ہوئے اور کچھ پوچھا، یہ قطع کلام آپ کو ناگوار ہوا اور آپ نے ان کی طرف التفات نہیں کیا، اور ناگواری کی وجہ سے آپ چیں بجیں ہوئے، جب اس مجلس سے اٹھ کر گھر جانے لگے تو آثار وحی کے نمودار ہوئے اور یہ آیتیں عبس وتولی الخ نازل ہوئیں، اس کے بعد جب وہ آپ کے پاس آتے آپ بڑی خاطر کرتے تھے ھذہ الروایات کلھا فی الدر المنثور غرض واقعہ مذکر کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چین بجیں ہوئے اور متوجہ نہ ہوگئے اس بات سے کہ ان کے پاس اندھا آیا (یہاں تو غائب کے صیغہ سے فرمایا اور یہ متکلم کے انتہائی لطف وکرم اور مخاطب کی تکریم ہے کہ رو در رو اس امر کی نسبت نہیں فرمائی) اور ( آگے خطاب کا صیغہ بطور التفات کے اسلئے اختیار کیا کہ شبہ اعراض کا نہو ارشاد ہوتا ہے کہ) آپ کو کیا خبر شاید وہ (نابینا آپ کی تعلیم سے پورے طور پر) ستور جاتا یا (کم سے کم کسی خاص امر میں) نصیحت قبول کرتا سو اس کو نصیحت کرنا (کچھ نہ کچھ) فائدہ پہنچاتا، تو جو شخص (دین سے) بےپرواہی کرتا ہے آپ اس کی تو فکر میں پڑتے ہیں، حالانکہ آپ پر کوئی الزام نہیں کہ وہ نہیں سنورے (اس کی بےپرواہی ذکر کرکے اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دینے کی ہدایت ہے) اور جو شخص آپ کے پاس (دین کے شوق میں) دوڑتا ہوا آتا ہے اور وہ (خدا سے) ڈرتا ہے آپ اس سے بےاعتنائی کرتے ہیں (ان آیات میں آپکی اجتہادی لغزش پر آپ کو مطلع کیا گیا ہے، منشا اس اجتہاد کا یہ تھا کہ یہ امر تو متیقن اور ثابت ہے کہ اہم کام کو مقدم کرنا چاہئے، آپ نے کفر کی اشدیت کو موجب اہمیت سمجھا جیسے دو بیمار ہوں ایک کو ہیضہ ہے اور دوسرے کو زکام، تو ہیضے کے مریض کا علاج مقدم ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ مرض کی شدت اس وقت موجب اہمیت ہے جب دونوں مریض طالب علاج ہوں، لیکن اگر مرض شدید والا علاج کا طالب ہی نہیں بلکہ مخالف ہو تو پھر مقدم وہ ہوگا جو طالب علاج ہے اگرچہ مرض اس کا خفیف ہو آگے ان مشرکین کی طرف اس قدر توجہ ضرور نہ ہونے کو ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ آئندہ) ہرگز ایسا نہ کیجئے (کیونکہ) قرآن (محض ایک) نصیحت کی چیز ہے (اور آپ کے ذمہ صرف اس کی تبلیغ ہے) سو جسکا جی چاہے اس کو قبول کرے (اور جو قبول نہ کرے وہ جانے، آپ کا کوئی ضرر نہیں، پھر آپ اس قدر اہتمام کیوں فرماتے ہیں۔ آگے قرآن کے اوصاف بیان فرماتے ہیں کہ) وہ ( قرآن لوح محفوظ کے) ایسے صحیفوں میں (ثبت) ہے جو (عنداللہ) مکرم ہیں (یعنی پسندیدہ و مقبول ہیں، اور) رفیع المکان ہیں (کیونکہ لوح محفوظ تحت العرش ہے کما فی الدر المنثور سورة البروج، اور وہ) مقدس ہیں (شیاطین خبیثہ کی وہاں تک رسائی نہیں، کقولہ تعالیٰ (آیت) لایمسہ الا المطھرون) جو ایسے لکھنے والوں (یعنی فرشتوں) کے ہاتھوں میں (رہتے) ہیں کہ وہ مکرم (اور) نیک ہیں ( یہ سب صفات اسکے من جانب اللہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ سورة واقعہ کی ( آیت) لایمسہ الا المطھرون میں بیان ہوا ہے کہ اور لوح محفوظ سے بامر الٰہی نقل کرنیوالے ہیں۔ حاصل آیات کا یہ ہوا کہ قرآن من جانب اللہ نصیحت کے لئے ہے، آپ نصیحت کرکے اپنے فرض سے فارغ ہوجاویں گے خواہ کوئی ایمان لاوے یا نہ لاوے پس اس قسم کی تقدیم و تاخیر کی کوئی ضرورت نہیں، یہاں تک آداب تذکیر و تبلیغ کے ہوئے آگے کفار کے اس سے فائدہ نہ اٹھانے پر تشبیع ہے کہ منکر) آدمی پر ( جو ایسے تذکرہ سے نصیحت حاصل نہ کرے جیسے ابوجہل وغیرہ جن کو آپ سمجھاتے تھے اور وہ نہیں سمجھے تو ایسے شخص پر) خدا کی مار کہ وہ کیسا ناشکرا ہے (وہ دیکھتا نہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے اس کو کیسی (حقیر) چیز سے پیدا کیا (آگے جواب ہے کہ) نفطہ سے (پیدا کیا، آگے اس کی کیفیت مذکورہ ہے کہ بہت سے انقلابات اور تغیرات کے بعد) اس کی صورت بنائی پھر اس (کے اعضا) کو اندازے سے بنایا (جیسا کہ سورة القیامہ کی ( آیت) فخلق فسوی میں گزرچکا ہے) پھر اس کو (نکلنے کا) راستہ آسان کردیا (چنانچہ ظاہر ہے کہ ایسے تنگ موقع سے اچھے خاصے تنو مند بچہ کا صحیح سالم نکل آنا صاف دلیل ہے اللہ کے قادر اور عبد کے مقدور ہونیکی) پھر (بعد عمر ختم ہونیکے) اس کو موت دی پھر اس کو قبر میں لے گیا (خواہ اول سے خاک میں رکھ دیا جائے یا بعد چندے خاک میں ملجائے) پھر جب اللہ چاہے گا اس کو دوبارہ زندہ کر دے گا (مطلب یہ کہ سب تصرفات دلیل ہیں انسان کے داخل قدرت الہیہ ہونے کی اور نعمت بھی ہے۔ بعضے حسی معنوی جس کا مقتضی تھا وجوب اطاعت و ایمان مگر اس نے) ہرگز (شکر) نہیں (ادا کیا اور اس کو جو حکم کیا تھا اس کو بجا نہیں لایا، سو انسان کو چاہیے کہ ( اپنی خلیق کے ابتدائی حالات پر نظر کرنے کے بعد اسباب بقاء وتعیش پر نظر کرے مثلاً ) اپنے کھانے کی طرف نظر کرے ( تاکہ وہ باعث ہو حق شناسی اور اطاعت و ایمان کا اور آگے نظر کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں وہ یہ) کہ ہم نے عجیب طور پر پانی برسایا، پھر عجیب طور پر زمین کو پھاڑا، پھر ہمنے اس میں غلہ اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجور اور گنجان باغ اور میوے اور چارہ پیدا کیا (بعض چیزیں) تمہارے اور (بعض چیزیں) تمہارے مواشی کے فائدہ کے لئے (اور یہ سب بھی نعمت اور دلیل قدرت ہیں، اور اس مجموع میں ہر جزو مقتضی ہے وجوب شکر ایمان کو، یہاں تک تشنیع ہوگئی نصیحت قبول نہ کرنے پر، آگے عدم تذکر پر سزا اور تذکر پر ثواب آخرت مذکور ہے۔ یعن یاب تو یہ لوگ ناشکری کا مزا معلوم ہوجائیگا، آگے اس دن کا بیان ہے کہ) جس روز (ایسا) آدمی (جسکا اوپر بیان ہوا) اپنے بھائی سے اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا (یعنی کوئی کسی کی ہمدردی نہ کریگا، کقولہ تعالیٰ لایسل حمیم حمیما وجہ یہ کہ) ان میں ہر شخص کو (اپنا ہی) ایسا مشغلہ ہوگا جو اس کو اور طرف متوجہ نہ ہونے دے گا ( یہ تو کفار کا حال ہوگا، آگے مجموعہ مومنین اور کفار کی تفصیل ہے کہ) بہت سے چہرے اس روز (ایمان کی وجہ سے) روشن (اور مسرت سے) خنداں شاداں ہوں گے اور بہت سے چہروں پر اس روز (کفر کی وجہ سے) ظلمت ہوگی (اور اس ظلمت کیساتھ) ان پر (غمی کی) کدورت چھائی ہوگی یہی لوگ کافر فاجر ہیں (کافر سے اشارہ ہے فساد عقائد کی طرف اور فاجر سے فساد اعمال کی طرف) - معارف ومسائل - شان نزول میں جو واقعہ حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا صحابی کا نقل کیا گیا ہے اس میں بغوی نے یہ مزید روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ کو نابینا ہونے کے سبب یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ آپ کسی دوسرے سے گفتگو میں مشغول ہیں، مجلس میں داخل ہو کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دینی شروع کی اور بار بار آواز دی۔ (مظہری) اور ابن کثیر کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آیت قرآن پڑھوانے کا سوال کیا اور اس سوال کے فوری جواب دینے پر اصرار کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مکہ کے کفار سرداروں کو دین کی تبلیغ کرنے اور سمجھانے میں مصروف تھے۔ یہ سردار عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل ابن ہشام اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت بع اس تھے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس موقع پر عبداللہ ابن ام مکتوم کا اس طرح خطاب کرنا اور ایک آیت کے الفاظ درست کرنیکے معمولی سوال پر فوری جواب کے لئے اصرار کرنا ناگوار ہوا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عبداللہ ابن ام مکتوم پکے مسلمان اور ہر وقت کے حاضر باش تھے دوسرے اوقات میں بھی سوال کرسکتے تھے۔ ان کے جواب کے موخر کرنے میں کسی دینی نقصان کا خطرہ نہ تھا بخلاف روسائے قریش کے کہ نہ یہ لوگ ہر وقت آپکی خدمت میں آتے ہیں اور نہ ہر وقت ان کو اللہ کا کلمہ پہنچایا جاسکتا ے، اس وقت یہ لوگ آپ کی بات سن رہے تھے جس سے انکے ایمان لانے کی توقع کی جاسکتی تھی اور ان کی بات کاٹ دی جاتی تو ایمان ہی سے محرومی انکی ظاہر ظاہر تھی۔ ان مجموعہ حالات کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن ام مکتوم سے رخ پھیر کر اپنی ناگواری کا اظہار فرمایا اور جو گفتگو تبلیغ حق کی روسائے قریش کے ساتھ جاری تھی اس کو جاری رکھا، اس پر مجلس سے فارغ ہونے کے وقت سورة عبس کی آیات مذکورہ نازل ہوئیں جس میں آپ کے اس طرز عمل کو ناپسندیدہ قرار دے کر آپ کو ہدایت کی گئی۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طرز عمل اپنے اجتہاد پر مبنی تھا کہ جو مسلمان آداب مجلس کیخلاف طرز گفتگو اختیار کرے اس کو کچھ تنبہ ہونی چاہئے تاکہ آئندہ وہ آداب مجلس کی رعایت کرے اس کے لئے تو آپ نے حضرت ابن ام مکتوم سے رخ پھیرلیا، اور دوسری بات یہ تھی کہ بظاہر حال کفر و شرک سب سے بڑے گناہ ہیں انکے ازالہ کی فکر مقدم ہونا چاہئے بمقابلے دین کے فروعی احکام کی تعلیم کے جو عبداللہ ابن ام مکتوم چاہتے تھے مگر حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کے اس اجتہاد کو درست قرار نہیں دیا اور اس پر متنبہ فرمایا کہ یہاں قابل غور یہ بات تھی کہ ایک شخص جو آپ سے دینی تعلیم کا طلب ہو کر سوال کر رہا ہے اسکے جواب کا فائدہ تو یقینی ہے اور جو آپکا مخالف ہے آپ کی بات سننا بھی پسند نہیں کرتا اس سے گفتگو کا فائدہ موہوم ہے، موہوم کو یقینی پر ترجیح ہونا چاہئے اور عبداللہ بن ام مکتوم سے جو آدام مجلس کیخلاف بات سرزد ہوئی ان کا عذر قرآن نے لفظ عمی کہ کر بتلادیا کہ وہ نابینا تھے اس لئے ان کو نہ دیکھ سکتے تھے کہ آپ اس وقت کس شغل میں ہیں، کن لوگوں سے گفتگو چل رہی ہے اسلئے وہ معذور تھے، مستحق اعراض نہیں تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معذور آدمی سے بیخبری میں کوئی بات آداب مجلس کے خلاف ہوجائے تو وہ قابل عتاب نہیں ہوتا۔- عبس وتولی، عبس کے معنے تر شروی اختیار کرنا یعنی چہرہ سے اظہار ناگواری کرنا اور تولی کے معنے رخ پھیر لینے ہیں۔ اس جگہ موقع اس کا تھا کہ یہ الفاظ آپ کو بصیغہ خطاب کہے جاتے کہ آپ نے ایسا کیا۔ لیکن قرآن کریم نے صیغہ خطاب کے بجائے صیغہ غائب اختیار کیا جس میں عتاب کی حالت میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اکرام محلوظ رکھا گیا اور صیغہ غائب اختیار کرکے یہ ایہام کیا کہ جیسے یہ کام کسی اور نے کیا ہو اشارہ اس طرف ہے کہ یہ کام آپ کے شایان شان نہیں اور دوسرے جملے میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عذر کی طرف اشارہ فرمادیا وما یدریک (یعنی آپ کو کیا خبر) اس میں بتلا دیا کہ اعراض کی وجہ یہ پیش آئی ہے کہ آپ کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ یہ صحابی کو کچھ دریافت کر رہے ہیں اس کا اثر یقینی ہے اور غیروں سے گفتگو کا اثر موہوم۔ اور اس دوسرے جملے میں صیغہ غائب چھوڑ کر صیغہ خطاب کا اختیار فرمانے میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکریم اور دلجوئی ہے کہ اگر بالکل خطاب کا صیغہ استعمال نہ ہوتا تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ اس طرز عمل کی ناپسندیدگی ترک خطاب کا سبب بن گئی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک ناقابل برداشت رنج والم ہوتا، اسلئے جس طرح پہلے جملہ میں خطاب کے بجائے غائب کا صیغہ استعمال کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکریم ہے اسی طرح دوسرے جملے میں خطاب کرنا بھی آپ کی تکریم اور دلجوئی ہے۔
عَبَسَ وَتَوَلّٰٓي ١ ۙ- عبس - العُبُوسُ : قُطُوبُ الوجهِ من ضيق الصّدر . قال تعالی: عَبَسَ وَتَوَلَّى[ عبس 1] ، ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر 22] ، ومنه قيل : يوم عَبُوسٌ. قال تعالی: يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان 10] ، وباعتبار ذلک قيل العَبَسُ : لِمَا يَبِسَ علی هُلْبِ الذَّنَبِ من البعر والبول، وعَبِسَ الوسخُ علی وجهه - ( ع ب س ) العبوس ( ض ) کے معنی سینہ کی تنگی سے چہرہ پر شکن پڑے نے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ عَبَسَ وَتَوَلَّى[ عبس 1] تر شر د ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر 22] پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا لیا ۔ اور اسی سے یوم عبوس ہے جس کے معنی سخت اور بھیانک دن کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان 10] اس دن سے جو ( چہروں کو ) شکن آلود اور دلوں کو سخت مضطر کردینے والا ہے ۔ اور اسی اعتبار سے العبس اس گو برادر پیشاب کو کہتے ہیں جو اونٹ کی دم کے بولوں کے ساتھ لگ کر خشک ہوجاتا ہے عبس الوسخ علی وجھہ اس کے چہرہ پر میل کچیل جم گئی ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔
(١۔ ٤) رسول اکرم قریش کے سرداروں یعنی حضرت عباس بن عبدالمطلب، امیہ بن خلف اور صفوان بن امیہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کو نصیحت فرما رہے تھے اور اسلام کی دعوت دے رہے تھے، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم تشریف لے آئے اور بولے یا رسول اللہ جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو تعلیم دی ہے اس میں سے مجھے بھی بتلایئے۔ ان لوگوں کے ساتھ مشغولیت کی بنا پر آپ کو ان کا یہ قطع کلام ناگوار گزرا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسی کے بارے میں یہ ابتدائی آیات نازل فرمائیں کہ محمد آپ کو کیا معلوم شاید ابن ام مکتوم قرآن سے نیکی حاصل کرتے اور نصیحت حاصل قبول کرتے اور ان کو قرآن کے ذریعے سے نصیحت کرنا فائدہ پہنچاتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ آپ کو کیا معلوم کہ وہ نیکی نہ حاصل کرتے اور نصیحت قبول نہ کرتے اور ان کو یہ نصیحت فائدہ نہ پہنچاتی۔- شان نزول : عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ۔ اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى (الخ)- امام ترمذی اور حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ سورة عبس حضرت ابن ام مکتوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے نیکی کا راستہ بتلایئے اور آپ کے پاس روسائے مشرکین بیٹھے ہوئے تھے، چناچہ رسول اکرم ان سے اعراض کر رہے تھے اور دوسروں کی طرف متوجہ ہورہے تھے اور اس سے فرما رہے تھے کیا میں جو تجھ سے کہہ رہا ہوں تجھے اس میں کوئی خدشہ ہے وہ کہہ رہا تھا نہیں۔ چناچہ اس بارے میں سورة عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، اور ابو یعلی نے اسی طرح حضرت انس سے روایت نقل کی ہے۔
آیت ١ عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ ۔ ” تیوری چڑھائی اور منہ پھیرلیا۔ “- یعنی حضرت عبداللہ کی بار بار خلل اندازی پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرئہ انور پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چہرئہ مبارک دوسری طرف کرلیا۔
1: یہ آیات ایک خاص واقعے میں نازل ہوئی تھیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دن حضور سروَرِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم قریش کے کچھ بڑے بڑے سرداروں کو اِسلام کی تبلیغ فرما رہے تھے، اور اُن سے گفتگو میں مشغول تھے کہ اتنے میں آپ کے ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اﷲ عنہ وہاں آگئے، اور چونکہ وہ نابینا تھے، اس لئے یہ نہ دیکھ سکے کہ آپ کن کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہیں، چنانچہ اُنہوں نے آتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کچھ سکھانے کی درخواست شروع کردی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُن کا یہ طریقہ پسند نہ آیا کہ دوسروں کی بات کاٹ کر اُنہوں نے بیچ میں مداخلت شروع کردی۔ اس لئے آپ کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، اور آپ نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے اُن کافروں کے ساتھ اپنی گفتگو جاری رکھی۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو یہ سورت نازل ہوئی جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس طریقے پر اﷲ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ منہ بنانے کو عربی میں عبس کہتے ہیں، چونکہ یہ سورت اسی لفظ سے شروع ہوئی ہے، اس لئے اس کا نام ’’عبس‘‘ ہے اور اس میں بنیادی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ جو شخص دِل میں حق کی طلب رکھتا ہو، اور سچے دل سے اپنی اِصلاح چاہتا ہو، وہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اُس کو وقت دیا جائے۔ اس کے برخلاف جن لوگوں کے دِل میں حق کی طلب ہی نہیں ہے، اور وہ اپنی کسی اِصلاح کی ضرورت نہیں سمجھتے، حق کے طلبگاروں سے منہ موڑ کر اُنہیں ترجیح نہیں دینی چاہئے۔