2۔ 1 ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اشراف قریش بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ابن ام مکثوم جو نابینا تھے، تشریف لے آئے اور آ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین کی باتیں پوچھنے لگے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر کچھ ناگواری محسوس کی اور کچھ بےتوجہی سی برتی۔ چناچہ تنبیہ کے طور پر ان آیات کا نزول ہوا (ترندی، تفسیر سورة عبس)
[٢] یعنی پیغمبر نے ایک اندھے کے آنے پر چیں بجبیں ہو کر منہ پھیرلیا۔ حالانکہ آپ کو اندھے کی معذوری، شکستہ حالی اور طلب صادق کا زیادہ لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔
(ان جآہ الاعمی :(اس لئے تیوری چڑھائی) کہ اس کے پاس نابینا آیا، حالانکہ نابینا تو زیادہ لطف و کرم کا مستحق تھا۔ پھر اگر اس کے دین کی بات پوچھنے سے کسی چودھری کیساتھ کلام قطع ہوا ہے، جس کے اسلام لانے کی آپ کو امید تھی اور اس وجہ سے تیوری پڑی ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ؟ وہ تو نابینا ہے، اسے کیا پتا کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں ؟
اَنْ جَاۗءَہُ الْاَعْمٰى ٢ ۭ- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے
سورة عبس حاشیہ نمبر :1 اس پہلے فقرے کا انداز بیان عجیب لطف اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اگرچہ بعد کے فقروں میں براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا گیا ہے جس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ ترش روئی اور بے رخی برتنے کا یہ فعل حضور ہی سے صادر ہوا تھا لیکن کلام کی ابتدا اس طرح کی گئی ہے کہ گویا حضور نہیں بلکہ کوئی اور شخص ہے جس سے اس فعل کا صدور ہوا ہے ۔ اس طرز بیان سے ایک نہایت لطیف طریقے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس دلایا گیا ہے کہ یہ ایسا کام تھا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا ۔ آپ کے اخلاق عالیہ کو جاننے والا اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ یہ آپ نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے جو اس رویے کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ جن نابینا کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد ، جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، مشہور صحابی حضرت ابن ام مکتوم ہیں ۔ حافظ ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں اور حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں بیان کیا ہے کہ یہ ام المومنین حضرت خدیجہ کے پھوپھی زاد بھائی تھے ، ان کی ماں ام مکتوب اور حضرت خدیجہ کے والد خویلد آپس میں بہن بھائی تھے ۔ حضور کے ساتھ ان کا یہ رشتہ معلوم ہو جانے کے بعد اس شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ نے ان کو غریب یا کم حیثیت آدمی سمجھ کر ان سے بے رخی برتی اور بڑے آدمیوں کی طرف توجہ فرمائی تھی ، کیونکہ یہ حضور کے اپنے برادر نسبتی تھے ، خاندانی آدمی تھے ، کوئی گرے پڑے آدمی نہ تھے ۔ اصل وجہ جس کی بنا پر آپ نے ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا ، لفظ اعمی ( نابینا ) سے معلوم ہوتی ہے جسے اللہ تعالی نے حضور کی بے اعتنائی کے سبب کی حیثیت سے خود بیان فرما دیا ہے ۔ یعنی حضور کا یہ خیال تھا کہ میں اس وقت جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں ان میں سے کوئی ایک آدمی بھی ہدایت پا لے تو اسلام کو تقویت کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے ، بخلاف اس کے ابن مکتوب ایک نابینا آدمی ہیں ، اپنی معذوری کے باعث یہ اسلام کے لیے اس قدر مفید ثابت نہیں ہو سکتے جس قدر ان سرداروں میں سے کوئی مسلمان ہو کر مفید ہو سکتا ہے ، اس لیے ان کو اس موقع پر گفتگو میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ، یہ جو کچھ سمجھنا یا معلوم کرنا چاہتے ہیں اسے بعد میں کسی وقت بھی دریافت کر سکتے ہیں ۔