(وفاکھۃ واباً :” ابا “ زمین سے اگنے والی وہ نباتات جسے جانور کھاتے ہیں، لوگ نہیں کھاتے۔ (طبری عن ابن عباس وغیرہ) یہ ” اب “ (ن) (قصد کرنا) سے مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، یعنی ” قصد کیا ہوا “ کیونکہ جانور اس کی طرف لکپتے ہیں۔
وَّفَاكِہَۃً وَّاَبًّا ٣١ ۙ- فكه - الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ- [ الواقعة 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] ، والفُكَاهَةُ :- حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل :- تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] .- ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔- أب ( گه اس)- قوله تعالی: وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] . الأبّ : المرعی المتهيّئ للرعي والجز من قولهم : أَبَّ لکذا أي : تهيّأ، أبّاً وإبابةً وإباباً ، وأبّ إلى وطنه : إذا نزع إلى وطنه نزوعاً تهيّأ لقصده، وکذا أبّ لسیفه : إذا تهيأ لسلّه . ا ب ب الاب : اس گھاس کے کہتے ہیں جو جانوروں کے چرنے اور کٹنے کے لئے بالکل تیار ہو یہ أَبَّ لکذا، أبّاً وإبابةً وإباباً کے محادرہ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی کوئی کام کرنے کے لئے تیا ر ہوجانا کے ہیں ۔ جیسے محاورہ ہے ۔ أبّ إلى وطنه۔ وطن کا مشتاق ہو کر جانے کے لئے تیار ہوگیا اب لسیفهتلوار سونتنے کو مستعد ہوجانا اور اسی سےإبّان ذلک کی ترکیب ہے جس میں ابان بروزن فعلان ہے یعنی وہ زمانہ جو کسی کام کرنے کے لئے بلکل مناسب ہو ۔ قرآن میں ہے : وَفَاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس : 31] اور میوے اور چارہ ۔