5۔ 1 یعنی انہیں بھی قیامت والے دن جمع کیا جائے گا
[٦] یہ بھی قیامت کی دہشت کا اثر ہوگا اور اس دہشت کا اثر جانوروں پر یہ ہوگا کہ مثلاً سانپ کو ڈسنے کا ہوش نہ رہے گا اور شیر کو پھاڑ کھانے کا۔ یہ سب وحشی جانور انسانوں کی آبادیوں اور شہروں کی طرف نکل آئیں گے اور اپنے بل اور کچھار وغیرہ چھوڑ دیں گے۔ ایسا منظر سیلاب کے دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ لکڑیوں کے سیلاب کے پانی پر تیرتے ہوئے ایک گٹھے پر انسان بھی پناہ لیے بیٹھے ہیں اور سانپ بھی۔ سانپ انسانوں کو کچھ نہیں کہتے اور انسان سانپوں کو بس ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔ قیامت کے وقت بھی یہی حال ہوگا کہ کیا درندے کیا مویشی اور دوسرے جانور اور کیا انسان سب اپنے گھروں سے نکل کر میدانوں میں آ اکٹھے ہونگے اور اس آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے جو سیدنا ابوہریرہ (رض) سے مروی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جانوروں کے ایک دوسرے پر ظلم کا قصاص دلایا جائے گا حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بےسینگ بکری کو مارا ہوگا تو اس کا بھی قصاص دلایا جائے۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الظلم) پھر قصاص کے بعد ان جانوروں کو خاک بنادیا جائے گا۔
واذا الوحوش حشرت : جنگلی جانور جو ایک دوسرے سے بھاگتے ہیں، اس گھبراہٹ میں جمع ہوجائیں گے، کوئی کسی کو کچھ نہیں کہے گا۔
وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ٥ - وحش - الوحش : خلاف الإنس، وتسمّى الحیوانات التي لا أنس لها بالإنس وحشا، وجمعه :- وُحُوش . قال تعالی: وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ [ التکوير 5] ، والمکان الذي لا أنس فيه :- وَحْش، يقال : لقیته بوحش إصمت أي : ببلد قفر، وبات فلان وحشا : إذا لم يكن في جو فه طعام، وجمعه أوحاش، وأرض مُوحِشَة : من الوحش، ويسمّى المنسوب إلى المکان الوَحِش وحشيّا، وعبّر بالوحشيّ عن الجانب الذي يضادّ الإنسيّ ، والإنسيّ هو ما يقبل منهما علی الإنسان، وعلی هذا وحشيّ القوس وإنسيّه .- ( و ح ش ) الوحش یہ الانس کی ضد ہے اروی جانور جو انسان سے مانوس نہیں ہوتے ۔ انہیں وحش کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع وحوش ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ [ التکوير 5] اور جب وحشی جانور جمع کئے جائیں گے ۔ اور مکان وحش اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی آبادی نہ ہو جیسے کہا جاتا ہے ۔ لقیتہ بوحش اصمت یعنی میں نے ویران جگہ میں اس سے ملاقات کی ۔ مات فلان وحشا : اس نے بھوکے رات گزاری اس کی جمع اوحاش آتی ہے ۔ اور وحش سے ارض موحشتہ ( ویران جگہ ) کا محاورہ ہے ا اور اس کی طرف نسبت کے وقت وحشی کہا جاتا ہے ۔ اور وحشی انسی کے بالمقابل بھی آتا ہے اور کسی سے کی ہر وہ جہت جو انسان کی طرف ہو اسے انسی اور دوسری جانب کو وسی کہا جاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں وحشی القوم انسیہ کا محاورہ آتا ہے ۔- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] ، وقال تعالی: وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وقال عزّ وجلّ : وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ [ التکوير 5] ، وقال : لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ما ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا [ الحشر 2] ، وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] ، وقال في صفة القیامة : وَإِذا حُشِرَ النَّاسُ كانُوا لَهُمْ أَعْداءً [ الأحقاف 6] ، سَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعاً [ النساء 172] ، وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جمع رہتے تھے ۔ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ [ التکوير 5] اور جب وحشی جانور اکٹھے ہوجائیں گے ۔ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ما ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا [ الحشر 2] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنوں اور انسانون اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور قسم وار کئے جاتے تھے ۔ اور قیامت کے متعلق فرمایا :۔ وَإِذا حُشِرَ النَّاسُ كانُوا لَهُمْ أَعْداءً [ الأحقاف 6] اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے ۔ سَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعاً [ النساء 172] تو خدا سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا ۔ وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] اور ان ( لوگوں ) کو ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔
آیت ٥ وَاِذَا الْــوُحُوْشُ حُشِرَتْ ۔ ” اور جب وحشی جانور جمع کردیے جائیں گے۔ “- عام طور پر جنگلی جانور ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں ‘ لیکن اس دن خوف کے مارے ان کی وحشت بھی جاتی رہے گی اور مختلف اقسام کے جانور بھی اکٹھے ہوجائیں گے۔
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :5 دنیا میں جب کوئی عام مصیبت کام موقع آتا ہے تو ہر قسم کے جانور بھاگ کر ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ اس وقت نہ سانپ ڈستا ہے ، نہ شیر پھاڑتا ہے ۔
3: قیامت کے ہولناک منظر کو دیکھ کر سارے وحشی جانور بھی گھبراہٹ کے عالم میں اِکھٹے ہوجائیں گے، جیسے کہ کسی عام مصیبت کے موقع پر تنہا رہنے کے بجائے دوسروں کے ساتھ رہنے کو پسند کیا جاتا ہے۔