وان علیکم لحفظین…: حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں، یعنی فرشتے۔ ” حافظین “ یعنی کوئی عمل ان کی نگرانی سے باہر نہیں۔ ” کراماً “ عزت والے، اس لئے کہ وہ لکھنے میں کوئی خیانت نہیں کرتے، نہ کوئی بات لکھنے سے چھوڑتے ہیں اور نہ زیادہ لکھتے ہیں۔
وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ ١٠ ۙ- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔