Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] یعنی تمہارے اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے انکار کی وجہ یہ نہیں کہ تمہیں بات کی سمجھ نہیں آتی۔ بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ تم جزا و سزا کے قانون الٰہی کے منکر ہو۔ تمہاری خواہش یہ ہے کہ تم جیسے بھی دنیا میں زندگی بسر کرتے رہو تم سے مرنے کے بعد کوئی محاسبہ نہ ہو اور یہ کس قدر ظلم اور بےانصافی کی بات ہے کہ تمہیں قوتیں اور تصرف و اختیار تو تمام مخلوق پر دیا جائے لیکن تم پر ذمہ داری کچھ بھی نہ ہو ؟ یہ دھوکا تمہیں کیسے لگ جاتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(کلا بل تکذبون بالدین : یعنی دھوکا کھانے کا سبب یہ نہیں کہ تمہیں رب کریم کی مہربانیوں پر بہت اعتماد ہے، بلکہ یہ باطل خیال ہے کہ ہمیں نہ دوبارہ زندہ ہونا ہے اور نہ اعمال کا بدلا ملنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام بد اعمالیوں کا اصل سبب روز جزا کو جھٹلانا ہے اور اسی کو تم جھٹلا رہے ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّيْنِ۝ ٩ ۙ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ ۔ ” ہرگز نہیں بلکہ اصل میں تم جزا و سزا کا انکار کر رہے ہو۔ “- تم لوگ یہ جو اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے قصیدے پڑھ رہے ہو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم اس کی رحمت اور بخشش پر واقعتابہت پختہ یقین بھی رکھتے ہو ‘ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اپنے اس فلسفے کی آڑ میں تم جزا و سزاکا انکار کرنا چاہتے ہو۔ اسی طرح کے ایک ” قصیدے “ کی یہ جھلک ملاحظہ کیجیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شان غفاری کا اقرار ہے یا اس کے فلسفہ جزا و سزا کا مذاق : ؎- عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا - پر تو نے دل آزردہ ہمارا نہ کیا - ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر - لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا - اگر کوئی شخص واقعی پوری دیدہ دلیری سے جہنم کی تدبیر اور کوشش کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے اسے جہنم میں جھونک دیاجائے ۔ چناچہ ایسے خیالات و نظریات کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شان غفاری کی من مانی تشریح کر کے نہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ‘ بلکہ عملی طور پر جزا و سزا کے فلسفہ کا ہی انکار کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :5 یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں پڑنے کی نہیں ہے ۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا ہے ، عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہو گیا ہے ، بلکہ ایک خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں ترکیب دیا ہے ۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں ۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر بار احسان سے جھک جاتا اور اس رب کریم کے مقابلے میں تو کبھی نافرمانی کی جرات نہ کرتا ۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم و کریم ہی نہیں ہے ، جبار و قہار بھی ہے ۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آ جاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں اس کے مقابلہ میں ناکام ہو جاتی ہیں ۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں بلکہ حکیم و دانا ہے ، اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہریا جائے ۔ جسے اختیارات دیے جائیں اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا ، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے ۔ یہ سب حقیقتیں تیرے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں اس لیے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکے میں تو پڑ گیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے ۔ تو خود جب کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے اس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہرگز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں جری ہو جائے اور اس غلط فہمی میں پڑ جائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں ، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :6 یعنی دراصل جس چیز نے تم لوگوں کو دھوکے میں ڈالا ہے وہ کوئی معقول دلیل نہیں ہے بلکہ محض تمہارا یہ احمقانہ خیال ہے کہ دنیا کے اس دارالعمل کے پیچھے کوئی دارالجز نہیں ہے ۔ اسی غلط اور بے بنیاد گمان نے تمہیں خدا سے غافل ، اس کے انصاف سے بے خوف ، اور اپنے اخلاقی رویے میں غیر ذمہ دار بنا دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یعنی اﷲ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ معاذاللہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔