19۔ 1 یعنی دنیا میں تو اللہ نے عارضی طور پر، آزمانے کے لئے، انسانوں کو کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ لیکن قیامت والے دن تمام اختیارات صرف اور صرف اللہ کے پاس ہوں گے۔
[١٣] دنیا میں کئی طرح کے لوگوں کا دوسروں پر حکم چلتا ہے۔ مثلاً بادشاہوں کا اپنی رعیت پر، افسروں کا اپنے ماتحتوں پر، ماں باپ کا اپنی اولاد پر، مالک کا اپنے نوکر یا غلام پر مگر اس دن یہ سب حکم ختم ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوگی۔ بلاشرکت غیرے صرف اسی اکیلے کا اس دن حکم چلے گا جسے سب تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔
(یوم لا تملک نفس لنفس شیئاً…:) دنیا میں بظاہر لوگوں کی کچھ ملکیت بھی ہے اور ایک حد تک نفع و ضرر کا اختیار بھی ہے، مگر قیامت کے دن اللہ کے علاوہ نہ کسی کا اختیار رہے گا، نہ ملکی اور نہ حکومت، جیسا کہ فرمایا :(لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار) (المومن : ١٦)” آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟ صرف اللہ کی جو ایک ہے، زبردست ہے۔ “ رہ گئی شفاعت تو وہ بھی کسی کے اختیار میں نہیں ہوگی، بلکہ صرف وہی کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا، فرمایا :(من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ) (البقرۃ : ٢٥٥)” کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ “ مزید دیکھیے سورة نبا کی آیت (٣٨) کی تفسیر۔
آیت ١٩ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّـنَفْسٍ شَیْئًاط وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ ۔ ” جس روز کسی جان کو کسی دوسری جان کے لیے کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا ‘ اور امر ُ کل کا کل اس دن اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوگا۔ “- اس دن سرمحشر پکارا جائے گا : لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط (المومن ١٦) کہ اے نسل انسانی کے لوگو ‘ دیکھو آج حکومت ‘ اختیار اوراقتدارکس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور اس سوال کا جواب بھی پھر خود ہی دیا جائے گا : لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ (المومن : ١٦) یعنی آج کے دن اختیار کل کا کل اللہ ہی کے پاس ہے جو اکیلا ہے اور سب پر غالب ہے۔ اس دن انسانوں کی اکثریت کو بےبسی اور نفسانفسی کی جس کیفیت کا سامنا ہوگا ‘ سورة البقرۃ میں اس کا نقشہ یوں دکھایا گیا ہے : وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ ” اور ڈرو اس دن سے کہ جس دن کام نہ آسکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ کسی سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ انہیں کوئی مدد ہی مل سکے گی۔ “ ژژژ
سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :8 یعنی کسی کی وہاں یہ طاقت نہ ہوگی کہ وہ کسی شخص کو اس کے اعمال کے نتائج بھگتنے سے بچا سکے ۔ کوئی وہاں ایسا با اثر یا زور آور یا اللہ کا چہیتا نہ ہو گا کہ عدالت خداوندی میں اڑ کر بیٹھ جائے اور یہ کہہ سکے کہ فلاں شخص میرا عزیز یا متوسل ہے ، اسے تو بخشنا ہی ہو گا ، خواہ یہ دنیا میں کیسے ہی برے افعال کر کے آیا ہو ۔