Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(3) یعنی یہ قرآن کہانیاں نہیں، جیسا کہ کافر کہتے اور سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ اللہ کا کلام اور اس کی وحی ہے جو اس کے رسول پر جبرائیل (علیہ السلام) امین کے ذریعے سے نازل ہوئی ہے۔ (4) یعنی ان کے دل اس قرآن اور وحی الہٰی پر ایمان اس لیے نہیں لاتے کہ ان کے دلوں پر گناہوں کی کثرت کی وجہ سے پردے پڑگئے ہیں اور وہ زنگ آلود ہوگئے ہیں رین گناہوں کی وہ سیاہی ہے جو مسلسل ارتکاب گناہ کی وجہ سے اس کے دل پر چھا جاتی ہے۔ حدیث میں ہے " بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو وہ سیاہی دور کردی جاتی ہے، اور اگر توبہ کے بجائے، گناہ کیے جاتا ہے تو وہ سیاہی پڑھتی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے۔ یہی وہ رین ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ (ترمذی، باب تفسیر سورة المطففین، ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکرالذنوب۔ مسند أحمد 297 2)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] گناہ کرنے سے دل پر سیاہ نقطہ پڑنا :۔ اصل بات یہ نہیں کہ ہماری آیات میں کوئی شک و شبہ ہے یا ان میں تاثیر کی قوت نہیں بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ گناہ کر کرکے ان کے دل مسخ اور زنگ آلود ہوچکے ہیں۔ ان میں حق و باطل کو پرکھنے کی تمیز ہی باقی نہیں رہ گئی۔ اس آیت کی تفسیر حدیث میں اس طرح ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے استغفار کرے اور توبہ کرلے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے۔ اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١٤(١) کلا بل ران علی قلوبھم…:” کلا “ ہرگز نہیں “ مطلب یہ ہے کہ اس جھٹلانے والے کے آیات کو جٹھلانے کی وجہ یہ نہیں کہ یہ پہلوں کی کہانیاں ہیں یا ان کے حق ہونے میں کوئی شبہ ہے، بلکہ اس کی بد اعمالیاں سیاہ زنگ کی صورت میں اس کے دل پر غالب آچکی ہیں، اسے نہ حق حق نظر آتا ہے نہ باطل باطل۔ مستشرقین اور منکرین حدیث کی طرح پہلے منکرین کا بھی یہی حال تھا کہ اگر قرآن میں کوئی نئی بات آتی تو کہتے :(ماسمعنا بھذا فی ابآئنا الاولین) (القصص : ٣٦)” ہم نے تو یہ بات اپنے پہلے باپ دادا میں سنی ہی نہیں۔ “ اور اگر وہ بات پہلی کتابوں میں موجود ہوتی تو کہتے یہ وہاں سے سرقہ کیا گیا ہے، یعنی ” اساطیر الاولین “ کہ یہ تو پہلوں کی کہانیاں ہیں۔ (قتلھم اللہ، انی یوفکون) (التوبۃ : ٣٠)” اللہ انہیں مارے، کدھر بہکائے جا رہے ہیں۔ “- (٢) ران علی قلوبھم :” ای رکبھا کما یرکب الصداو غلبھا “ (زمخشری) ’ یعنی ان کے دلوں پر چڑھ گیا اور غالب آگیا ہے جیسے زگن چڑھ جاتا ہے۔ “” ران “ کا فاعل ” ماکانوا یکسبون “ ہے، یعنی جو کچھ وہ کمایا کرتے تھے وہ زنگ بن کر ان کے دلوں پر چھا گیا ہے۔ گناہ کا خاصہ ہے کہ اگر بار بار کیا جائے اور توبہ نہ کی جائے تو پورے دل کو گھیر لیتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان العبد اذا اخطاً خطیئۃ نکتت فی قلیہ نکتہ سوداء فاذا ھو نزع واستغفر و تاب سقل قلبہ و ان عاد زید فیھا حتی تعلو فلیہ وھو الران الذی ذکر اللہ :- (کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون) (ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة ویل للمطففین : ٣٣٣٣)” بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے، جب باز آجائے اور معافی مانگ لے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو داغ بڑھا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ سیاہ داغ اس کے پورے دل پر غالب آجاتا ہے۔ یہی وہ ” ران “ ہے جو اللہ عزوجل نے ذکر فرمایا ہے :(کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون)” ہرگز نہیں، بلکہ زگن بن کر چھا گیا ہے ان کے دلوں پر، جو وہ کماتے تھے۔ “ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ، ران رین سے مشتق ہے جس کے معنے زنگ اور میل کے ہیں مطلب یہ ہے کہ انکے دلوں پر انکے گناہوں کا زنگ لگ گیا ہے اور جس طرح طرح زنگ لوہے کو کھا کر مٹی بنا دیتا ہے اسی طرح ان گناہوں کے زنگ نے ان کے دل کی اس صلاحیت کو ختم کردیا جس سے بھلے برے کی تمیز ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اگر اسنے توبہ کرلی اور اس پر نادم ہو کر آگے اپنے عمل کو درست کرلیا تو یہ سیاہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور دل اپنی اصلی حالت پر منور ہوجاتا ہے اور اگر اس نے توبہ نہ کی بلکہ اپنے گناہوں میں زیادتی کرتا چلا گیا تو یہ سیاہی اس کے سارے قلب پر چھاجاتی ہے اسی کا نام ران ہے جو آیت قرآن بل ران علی قلوبھم میں مذکور ہے (رواہ البغوی وکذا اخرج احمد الترمذی وصححہ والنسائی و ابن ماجہ ابن حبان والحاکم، از مظہری) لفظ کلا جو آیت کے شروع میں ہے اس کو حرف ردع کہتے ہیں جس معنے دفع کرنے اور زجروتنبیہ کرنیکے ہیں۔ پہلی آیتوں میں کفار کی تکذیب کا ذکر تھا کہ وہ آیات قرآن کو کہانیاں کہ کر جھٹلاتے ہیں۔ اس آیت میں لفظ کلا سے اس پر زجروتنبیہ ہے کہ ان جاہلوں نے اپنے گناہوں کے انبار میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کی اس نورانیت اور صلاحیت کو ختم کردیا ہے جس سے حق و باطل پہچانا جاتا ہے اور یہ صلاحیت حق تعالیٰ ہر انسان کی جبلت اور فطرت میں رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی یہ تکذیب کسی دلیل یا عقل وفہم کی بناء پر نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے قلوب اندھے ہوچکے ہیں انہیں بھلا برا نظر ہی نہیں آتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَلَّا بَلْ۝ ٠ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ١٤- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- بل - بَلْ كلمة للتدارک، وهو ضربان :- ضرب يناقض ما بعده ما قبله، لکن ربما يقصد به لتصحیح الحکم الذي بعده وإبطال ما قبله، وربما يقصد تصحیح الذي قبله وإبطال الثاني، فممّا قصد به تصحیح الثاني وإبطال الأول قوله تعالی: إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین 13- 14] ، أي :- ليس الأمر کما قالوا بل جهلوا، فنبّه بقوله :- رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ علی جهلهم، وعلی هذا قوله في قصة إبراهيم قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 62- 63] - وممّا قصد به تصحیح الأول وإبطال الثاني قوله تعالی: فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر 15- 17] . أي : ليس إعطاؤهم المال من الإکرام ولا منعهم من الإهانة، لکن جهلوا ذلک لوضعهم المال في غير موضعه، وعلی ذلک قوله تعالی:- ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص 1- 2] ، فإنّه دلّ بقوله :- وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق 1- 2] ، أي : ليس امتناعهم من الإيمان بالقرآن أن لا مجد للقرآن، ولکن لجهلهم، ونبّه بقوله : بَلْ عَجِبُوا علی جهلهم، لأنّ التعجب من الشیء يقتضي الجهل بسببه، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار 6- 9] ، كأنه قيل : ليس هاهنا ما يقتضي أن يغرّهم به تعالی، ولکن تكذيبهم هو الذي حملهم علی ما ارتکبوه .- والضرب الثاني من «بل» : هو أن يكون مبيّنا للحکم الأول وزائدا عليه بما بعد «بل» ، نحو قوله تعالی: بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] ، فإنّه نبّه أنهم يقولون : أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ ، يزيدون علی ذلك أنّ الذي أتى به مفتری افتراه، بل يزيدون فيدّعون أنه كذّاب، فإنّ الشاعر في القرآن عبارة عن الکاذب بالطبع، وعلی هذا قوله تعالی: لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء 39- 40] ، أي : لو يعلمون ما هو زائد عن الأول وأعظم منه، وهو أن تأتيهم بغتة، و جمیع ما في القرآن من لفظ «بل» لا يخرج من أحد هذين الوجهين وإن دقّ الکلام في بعضه .- بل ( حرف ) بل حرف استدراک ہے اور تدارک کی دو صورتیں ہیں ( 1) جبکہ بل کا مابعد اس کے ماقبل کی نقیض ہو تو اس صورت میں کبھی تو اس کے مابعد حکم کی تصیح سے ماقبل کی تردید مقصود ہوتی ہے اور کبھی اس کے برعکس ماقبل کی تصیحح اور بابعدار کے ابطال کی غرض سے بل کو لایا جاتا ہے ۔ چناچہ پہلی صورت کے متعلق فرمایا ۔ إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین 13- 14] جب اس کو بیماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہنا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں دیکھو یہ جود اعمال بد کر رہے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ۔ تو بل کا معنی یہ ہیں کہ آیات الہی کو اساطیر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ان کے جہالت ہے پھر ران علی قلوبھم کہہ کر ان کی جہالت پر تنبیہ کی ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : ۔ قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 62- 63] جب ابراہیم آئے تو ) توبت پرستوں نے کہا کہ ابرہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے ( ابراہیم نے کہا ) نہیں بلکہ یہ ان کے اس بڑے ربت نے کیا ہوگا اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ دیکھو ،۔ اور دوسری صورت میں ماقبل کی تصیحح اور مابعد کے ابطال کے متعلق فرمایا : ۔ فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر 15- 17] . مگر انسان ( عجیب مخلوق ہے کہ ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشا ہے تو کہتا ہے کہ ( آہا ) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب دوسری طرح آزماتا ہے کہ روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ ( ہائے ) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے ۔ یعنی رزق کی فراخی یا تنگی اکرام یا اہانت کی دلیل نہیں ہے ( بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے مگر لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کیونکہ یہ مال کو بیجا صرف کررہے ہیں اور اسی طرح آیت : ۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص 1- 2] قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے کہ تم حق پر ہو ( مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں میں کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن تذکرہ یعنی نصیحت حاصل کرنے کی کتاب ہے اور کفار کا اس کی طرف متوجہ نہ ہونا اس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان کا اعراض محض غرور اور مخالفت کی وجہ سے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق 1- 2] قرآن مجید کی قسم ( کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے یعنی ان کا قرآن پر ایمان نہ لانا قرآن کے بزرگ ہونے کے منافی نہیں ہے بلکہ محض ان کی جہالت ہے بل عجبوا کہہ کر ان کی جہالت پر متنبہ کیا ہے کیونکہ کسی چیز پر اسی وقت تعجب ہوتا ہے جب اس کا سبب معلوم نہ ہو ۔ نیز فرمایا : ۔ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار 6- 9] تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کہ دیا ( وہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور ( تیرے اعضاء کو ) ٹھیک کیا ۔ اور ( تیرے قامت کو ) معتدل رکھا اور جس صورت میں چاہا جوڑ دیا ۔ مگر ہیبات تم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو ۔ یعنی رب کریم کے بارے میں کوئی چیز سوائے اس کے دھوکے میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ دین کو جھٹلا رہے ہیں ۔ (2 ) تدارک کی دوسری صورت یہ ہے کہ دوسری کلام کے ذریعہ پہلی کلام کے ذریعہ پہلی کلام کی وضاحت اور اس پر اضافہ مقصود ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] بلکہ ( ظالم ) کہنے لگے کہ ( در قرآن ) پریشان ) باتیں ہیں جو ) خواب ) میں دیکھ لی ) ہیں ( نہیں بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے ( نہیں ) بلکہ یہ ( شعر ہے ) جو اس شاعر کا نتیجہ طبع ) ہے ۔ یہاں متنبہ کیا ہے کہ والاد انہوں نے قرآن کو خیالات پریشان کیا پھر اس پر اضافہ کرکے اسے افترا بتلانے لگے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کے متعلق ( نعوذ باللہ ) کذاب ہونے کا واعا کرنے لگے کیونکہ قران کی اصطلاح میں شاعر فطرۃ کاذب کو کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء 39- 40] اے کا ش کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے مونہوں پر سے ( دوزخ کی ) آگ کو روک نہ سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں پر سے اور نہ ان کا کوئی مدد گار ہوگا بلکہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی اور ان کے ہوش کھودے گی ۔ بھی اس معنی پر محمول ہے کہ کاش وہ اس کے علاوہ دوسری بات کو جانتے ہوتے جو پہلی بات سے زیادہ اہم ہے یعنی یہ کہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی ۔ قرآن میں جتنی جگہ بھی بل آیا ہے ان دونوں معنی میں سے کسی ایک پر دلالت کرتا ہے اگرچہ بعض مقامات ذرا وضاحت طلب ہیں اور ان کے پیچیدہ ہونے کی بنا پر بعض علمائے نحو نے غلطی سے کہدیا ہے کہ قرآن میں بل صرف معنی ثانی کیلئے استعمال ہوا ہے - رين - الرَّيْنُ : صدأ يعلو الشیء الجليّ ، قال : بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المطففین 14] ، أي :- صار ذلک كصدإ علی جلاء قلوبهم، فعمي عليهم معرفة الخیر من الشرّ ، قال الشاعر :- قد رَانَ النّعاس بهم وقد رِينَ علی قلبه .- ( ر ی ن ) الرین ۔ اس زنگ کو کہتے ہیں جو کسی صاف چیز پر لگ جائے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المطففین 14] نہیں بلکہ ( بات یہ ہے کہ ) ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ۔ یعنی ان کے مجلیٰ قلوب پر زنگ بیٹھ گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ خیر وشر میں تمیز نہیں کرسکتے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) ( 199) اذا ران النعاس بھم جب نیند نے ان پر غلبہ پا لیا ۔ محاورہ ہے : رین علٰی قلبہ ۔ اس کے دل پر زنگ بیٹھ گیا - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ہرگز ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے روز جزا کو جھٹلانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے یا یہ کہ گناہ پر گناہ کرنے سے قلب سیاہ ہوگیا اور وہی قلب کا زنگ آلود ہونا ہے۔ ان کے اعمال و اقوال کفریہ کی وجہ سے ہرگز ایسا نہیں یہ تکذیب کرنے والے تو قیامت کے دن اپنے پروردگار کی زیات سے روک دیے جائیں گے پھر یہ دوزخ میں داخل ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ کَلَّا بَلْ سکتۃ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ ” نہیں بلکہ (اصل صورت حال یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر زنگ آگیا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے ۔ “- اس ’ زنگ ‘ کی تشریح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمائی ہے کہ ” بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرلے ‘ اس گناہ سے باز آجائے اور استغفار کرے تو اس کے دل کا یہ داغ صاف ہوجاتا ہے ‘ لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو وہ داغ بڑھتے جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ سارے دل کو گھیر لیتے ہیں۔ “ (مسند احمد ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ وغیرہ)- گناہگار اہل ِایمان کے دلوں کے اندر ان کی روحوں کا ” نور “ تو موجود ہوتا ہے لیکن دلوں کے ” شیشے “ زنگ آلود ہوجانے کی وجہ سے یہ نور خارج میں اپنے اثرات نہیں دکھا سکتا ۔ جیسے کسی فانوس یا لالٹین کا شیشہ اگر دھوئیں سے سیاہ ہوجائے تو اس کے اندر جلنے والے شعلے کی روشنی باہر نہیں آسکتی اور باہر کی روشنی اندر نہیں جاسکتی۔ انسانی دل کی اس کیفیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا علاج بھی تجویز فرمادیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر - روایت کرتے ہیں کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَائُ ) قِیْلَ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا جِلَائُ ھَا ؟ قَالَ : (کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ ) (١)- ” ان دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہا پانی پڑنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے “۔ دریافت کیا گیا : یارسول اللہ اس زنگ کو دور کس چیز سے کیا جائے ؟ فرمایا : ” موت کی بکثرت یاد اور قرآن مجید کی تلاوت “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :7 یعنی جزا و سزا کو افسانہ قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، لیکن جس وجہ سے یہ لوگ اسے افسانہ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن گناہوں کا یہ ارتکاب کرتے رہے ہیں ان کا زنگ ان کے دلوں پر پوری طرح چڑھ گیا ہے اس لیے جو بات سراسر معقول ہے وہ ان کو افسانہ نظر آتی ہے ۔ اس زنگ کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی ہے کہ بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کر لےتو وہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پورے دل پر وہ چھا جاتا ہے ( مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جریر ، حاکم ، ابن ابی حاتم ، ابن حبان وغیرہ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani