15۔ 1 ان کے برعکس اہل ایمان روئیت باری تعالیٰ سے مشرف ہوں گے۔
[١٠] اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہونے کی نعمت صرف اہل جنت کو حاصل ہوگی اور لذت و سرور کے لحاظ سے یہ نعمت جنت کی دوسری تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی اور جب اللہ اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا تو جنتی لوگ بس ادھر ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔ جو لوگ روز آخرت کے منکر تھے انہیں یہ نعمت کبھی میسر نہ ہوسکے گی۔
کلا انھم عن زبھم…: یہ کافر جو کہتے ہیں کہ اگر قیامت ہوئی بھی تو دنیا کی طرح وہاں بھی پروردگار کی نوازشیں ہمیں پر ہوں گی ، ان کا یہ کہنا ہرگز درست نہیں، انہیں تو پروردگار کے قریب تک نہیں آنے دیا جائے گا، بکلہ وہ حجاب میں رکھے جائیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس دن نافرمان اللہ تعالیٰ سے معجوب ہوں گے اور اہل ایمان کو وہ نظر آئے گا۔ اگر دیدار الٰہی کے منکروں کے کہنے کے مطابق اللہ تعالیٰ کسی کو بھی نظر نہیں آئے گا تو یہ آیت بےمعنی ہوجاتی ہے۔ دوسری جگہ صریح الفاظ میں فرمایا :(وجوہ یومئذ ناصرۃ، الی ربھا ناظرۃ) (القیامۃ : ٢٢، ٢٣)” کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ “ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کی نعمتوں میں سب سیب ڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو ایمان والوں کو حاصل ہوگی۔ (اللہ اپنے فضل سے ہمیں بھی اپنا دیدار نصیب فرمائے) اس کے ساتھ انہیں کھانے پینے، نکاح وغیرہ یعنی جنت کی دوسری نعمتیں بھی میسر ہوں گی۔ نافرمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلا عذاب یہ ذکر فرمایا کہ وہ اپنے رب سے حجاب میں رکھے جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ پھر وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ (اعاذنا اللہ منھما)
(آیت) كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ، یعنی قیامت کے روز یہ کفار فجار اپنے رب کی زیارت سے محروم پس پردہ روک دیئے جاویں گے، یہ انکے اس عمل کی سزا ہوگی کہ انہوں نے دنیا میں حق کو نہیں پہچاناتو اب اپنے رب کی زیارت کے قابل نہیں رہے۔ حضرت امام مالک (رح) اور شافعی (رح) نے فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومنین اور اولیا اللہ کو حق تعالیٰ کی زیارت ہوگی ورنہ پھر کفار کے محبوب رہنے کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا۔- فائدہ - بعض اکابر علماء نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت سے حق تعالیٰ کی محبت پر مجبور ہے اسی لئے دنیا کے عام کفار و مشرکین چاہے کتنے ہی کفر و شرک میں مبتلا ہوں اور اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کے متعلق باطل عقیدے رکھتے ہوں مگر اتنی بات سب میں مشترک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت سب کے دلوں میں ہوتی ہے اور اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اسی کی جستجو اور رضا جوئی کے لئے عبادتیں کرتے ہیں، راستہ غلط ہوتا ہے اس لئے منزل مقصود پر نہیں پہنچتے مگر طلب اسی منزل حق کی ہوتی ہے وجہ استدلال کی یہ ہے کہ اگر کفار میں حق تعالیٰ کی زیارت کا شوق نہ ہوتا تو ان کی سزا میں شہ کہنا جاتا کہ وہ زیارت سے محروم رہیں گے کیونکہ جو شخص کسی کی زیارت کا طالب ہی نہیں بلکہ متنفر ہے اس کے لئے یہ کوئی سزا نہیں کہ اس کو اس کی زیارت سے محروم کیا جائے۔
كَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ١٥ ۭ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- حجب - الحَجْب والحِجَاب : المنع من الوصول، يقال : حَجَبَه حَجْباً وحِجَاباً ، وحِجَاب الجوف :- ما يحجب عن الفؤاد، وقوله تعالی: وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] ، ليس يعني به ما يحجب البصر، وإنما يعني ما يمنع من وصول لذّة أهل الجنّة إلى أهل النّار، وأذيّة أهل النّار إلى أهل الجنّة، کقوله عزّ وجل : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقال عزّ وجل : وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، أي : من حيث ما لا يراه مكلّمه ومبلّغه، وقوله تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] ، يعني الشّمس إذا استترت بالمغیب . والحَاجِبُ : المانع عن السلطان، والحاجبان في الرأس لکونهما کالحاجبین للعین في الذّب عنهما . وحاجب الشمس سمّي لتقدّمه عليها تقدّم الحاجب للسلطان، وقوله عزّ وجلّ : كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] ، إشارة إلى منع النور عنهم المشار إليه بقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] .- ( ح ج ب ) الحجب - والحجاب ( ن ) کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہوجانا اور وہ پر وہ جو دل اور پیٹ کے درمیان حائل ہے اسے حجاب الجوف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] اور ان دونوں ( بہشت اور دوزخ ) کے درمیان پر وہ حائل ہوگا ۔ میں حجاب سے وہ پر دہ مراد نہیں ہے جو ظاہری نظر کو روک لیتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتوں کو اہل دوزخ تک پہنچنے سے مانع ہوگی اسی طرح اہل جہنم کی اذیت کو اہل جنت تک پہنچنے سے روک دے گی ۔ جیسے فرمایا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار گھڑی کردی جائے گی اس کے باطن میں رحمت ہوگی اور بظاہر اس طرف عذاب ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بات کرے مگر الہام ( کے زریعے ) سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ میں پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں وہ ذات الہی کو دیکھ نہیں سکتا اور آیت کریمہ ؛ ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] کے معنی ہیں حتی ٰ کہ سورج غروب ہوگیا ۔ الحاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روک دیتا ہے ۔ اور حاجبان ( تنبہ ) بھویں کو کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں کے لئے بمنزلہ سلطانی دربان کے ہوتی ہیں ۔ حاجب الشمس سورج کا کنارہ اسلئے کہ وہ بھی بادشاہ کے دربان کی طرح پہلے پہل نمودار ہوتا ہے اور آیت کریمۃ ؛۔ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے رو ز تجلٰ الہی کو ان سے روک لیا جائیگا ( اس طرح وہ دیدار الہی سے محروم رہیں گے ) جس کے متعلق آیت کریمۃ ؛۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
آیت ١٥ کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ۔ ” نہیں یقینایہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے۔ “- قیامت کے دن یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم کردیے جائیں گے۔ اس کے برعکس نیکوکار لوگوں کے لیے سورة القیامہ میں یہ خوشخبری سنائی گئی ہے : وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ۔ کہ اس دن کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے اور وہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میدانِ حشر میں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کے دیدار یا اس کی کسی خاص شان کے مشاہدے سے سرفراز فرمایا جائے گا جس کے باعث اس دن کے سخت مراحل ان کے لیے آسان ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے ہمارے عام مفسرین کی رائے بھی یہی ہے کہ میدانِ حشر میں بھی مومنین صادقین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار کرایا جائے گا ۔ آیت زیر مطالعہ سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس وقت میدانِ حشر میں کفار و مشرکین بھی کھڑے ہوں گے لیکن انہیں اس نعمت سے محروم کردیا جائے گا۔ میدانِ حشر کے ایسے ہی ایک منظر کی جھلک سورة نٓ کی اس آیت میں بھی دکھائی گئی ہے : یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ۔ ” جس دن پنڈلی کھولی جائے گی ‘ اور انہیں پکارا جائے گا (اللہ کے حضور) سجدے کے لیے ‘ لیکن وہ کر نہیں سکیں گے “۔ یعنی اہل ایمان جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے کرتے تھے وہ تو اس حکم کو سنتے ہی سجدے میں گرجائیں گے لیکن دوسرے لوگوں کی کمریں تختہ ہو کر رہ جائیں گی ‘ وہ تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود سجدہ نہیں کرسکیں گے۔
سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :8 یعنی دیدار الہی کا جو شرف نیک لوگوں کو نصیب ہو گا اس سے یہ لوگ محروم رہیں گے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم ، القیامہ ، حاشیہ 17 ۔ )