[١٥] یعنی جنت کی تمام نعمتوں سے مزے اڑائیں گے۔ شہنشاہوں کی طرح اونچی مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پررونق چہرے ہی یہ بتا رہے ہوں گے کہ وہ جنت کی نعمتوں میں بڑی خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی نگاہیں بڑی تیز ہوں گی۔ وہ وہاں بیٹھے بیٹھے ہی دوسرے اہل جنت کے اعمال دیکھ لیا کریں گے۔ اسی طرح اگر انہیں دنیا کا کوئی ایسا ساتھی یاد آئے گا جو دوزخ میں پڑا ہوگا۔ وہ اس کے حالات سے باخبر ہونا چاہیں گے تو اس کا بھی نظارہ کرسکیں گے۔
(تعرف فی وجوھھم نضرۃ النعیم : دنیا میں خوش حال لوگوں کے چہروں کی تازگی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ صاحب آسائش لوگ ہیں، اسی طرح جنتی لوگوں کے چہرے جنت کی نعمتوں سے ایسے ترو تازہ، پر ونق اور خوش و خرم ہوں گے کہ دیکھنے والا دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ وہ کس قدر نعمت اور عیش و آرام میں ہیں۔
تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِيْمِ ٢٤ ۚ- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- نضر - النَّضْرَةُ : الحُسْنُ کالنَّضَارَة، قال تعالی: نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] أي : رَوْنَقَهُ. قال تعالی: وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] ونَضَرَ وجْهُه يَنْضُرُ فهو نَاضِرٌ ، وقیل : نَضِرَ يَنْضَرُ. قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة 22- 23] ونَضَّرَ اللَّهُ وَجْهَهُ. وأَخْضَرُ نَاضِرٌ: غُصْنٌ حَسَنٌ. والنَّضَرُ والنَّضِيرُ : الذَّهَبُ لِنَضَارَتِهِ ، وقَدَحٌ نُضَارٌ:- خَالِصٌ کالتِّبْرِ ، وقَدَحُ نُضَارٍ بِالإِضَافَةِ : مُتَّخَذٌ مِنَ الشَّجَرِ.- ( ن ض ر ) النضرۃ والنضارۃ کے معنی حسن اور ترو تازگی کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کرلو گے ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] اور تازگی اور خوشدلی عنایت فر مائے گا ۔ اور یہ نضر وجھہ ینضر فھوا ناضر ( نصر ) سے آتا ہے ۔ اور بعض نے نضر ینضر یعنی باب علم سے مانا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة 22- 23] اسروز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے اور اپنے پروردگار کے محو دید ار ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ کو ترو تازہ ( یعنی خوش وخرم رکھے ۔ غصبن اخضر وناضر تر تازہ ٹہنی اور سونے کو بھی اس کی تر وتازگی اور حسن کے باعث نضر ونضیر کہا جاتا ہے وتدح نضا ر را ضافت کے ساتھ پیالہ کو کہتے ہیں جو عمدہ لکڑی سے بنا ہوا ہو ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔
آیت ٢٤ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ ۔ ” تم دیکھو گے ان کے چہروں پر تروتازگی کی علامات۔ “- جیسے دنیا میں انسان کی خوشحالی اور آسودگی کے اثرات اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن اہل جنت اپنے تروتازہ چہروں سے صاف پہچانے جائیں گے۔