Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یعنی عمل کرنے والو ایسے عملوں میں سبقت کرنی چاہیے جس کے صلے میں جنت اور اس کی نعمتیں حاصل ہوں۔ جیسے فرمایا، (لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ 61؀) 37 ۔ الصافات :61)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] جنت کی شراب کے خواص :۔ دنیا کی شراب بدبودار ہوتی ہے اور ذائقہ تلخ، پینے سے اس کی سڑانڈ فوراً دماغ تک جاپہنچتی ہے جس سے انسان کے حواس مختل ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جنت میں شراب کی یہ خاص قسم رحیق کی خوشبو ایسی ہوگی جیسے کستوری کی۔ اس کی مہر میں لاکھ یا مٹی یا موم کے بجائے کستوری لگائی گئی ہوگی اور اس میں دنیا کی شراب والی کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ناپاک شراب اس قابل نہیں کہ بھلے آدمی اس کی طرف رغبت کریں۔ ہاں یہ رحیق یقیناً ایسی نعمت ہے جس پر لوگوں کو ٹوٹ پڑنا چاہیے اور اس کے حصول کے لیے نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ ، تنافس کے معنے ہے چند آدمیوں کا کسی خاص مرغوب و محبوب چیز کے حاصل کرنے کے لئے جھپٹا دوڑنا تاکہ دوسروں سے پہلے وہ اس کو حاصل کرلیں، یہاں جنت کی نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد حق تعالیٰ نے غفلت شعار انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ آج تم لوگ جن چیزوں کو مرغوب مطلوب سمجھ کر ان کے حاصل کرنے میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہو۔ یہ ناقص اور فانی نعمتیں اس قابل نہیں کہ ان کو مقصود زندگی سمجھ کر ان کے لئے مسابقت کرو بلکہ ان میں تو اگر قناعت وایثار سے کام لے کر یہ سمجھ لو کہ یہ چند روزہ راحت کا سامان ہاتھن سے نکل ہی گیا تو کچھ بڑے صدمے کی بات نہیں، ایسا خسارہ نہیں جس کی تلافی نہ ہوسکے، البتہ تنافس اور مسابقت کرنے کی چیز یہ جنت کی نعمتیں ہیں جو ہر حیثیت سے مکمل بھی ہیں اور دائمی بھی، اکبر مرحوم نے خوب فرمایا - یہ کہاں کا فسانہ ہے سود و زیاں، جو گیا سو گیا جو ملا سوملا - کہو ذہن سے فرصت عمر ہے کم، جو دلا تو خدا ہی کی یاد دلا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

خِتٰمُہٗ مِسْكٌ۝ ٠ ۭ وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۝ ٢٦ ۭ- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - مُنَافَسَةُ :- مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ للتشبه بالأفاضلِ ، واللُّحُوقِ بهم من غير إِدْخال ضَرَرٍ علی غيرِه . قال تعالی: وَفِي ذلِكَ فَلْيَتَنافَسِ الْمُتَنافِسُونَ [ المطففین 26] وهذا کقوله : سابِقُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ الحدید 21]- المنا فسۃ کے معنی نفوس فاضلہ کے ساتھ اتصال اور تشبیہ حاصل کرنے کے لئے مجاہدہ نفسانی ( نفسی کشی ) کے ہیں بدوں اس کے کہ دوسروں کو اس سے ضرور پہنچے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَفِي ذلِكَ فَلْيَتَنافَسِ الْمُتَنافِسُونَ [ المطففین 26] تو ( نعمتوں کے ) شائقین کو چاہیئے کہ اسی سے رغبت کریں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ” اس کی مہر ہوگی مشک کی۔ “- وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ ۔ ” اس چیز کے لیے سبقت لے جانے کی کوشش کریں سبقت لے جانے والے۔ “- اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی حقیر چیزوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے ان دوامی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور مسابقت کریں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :10 اصل میں الفاظ ہیں ختمہ مسک ۔ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جن برتنوں میں وہ شراب رکھی ہو گی ان پر مٹی یا موم کے بجائے مشک کی مہر ہو گی ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ شراب کی ایک نفیس ترین قسم ہو گی جو نہروں میں بہنے والی شراب سے اشرف و اعلی ہو گی اور اسے جنت کے خدام مشک کی مہر لگے ہوئے برتنوں میں لا کر اہل جنت کو پلائیں گے ۔ دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ شراب جب پینے والوں کے حلق سے اترے گی تو آخر میں ان کو مشک کی خوشبو محسوس ہو گی ۔ یہ کیفیت دنیا کی شرابوں کے بالکل برعکس ہے جن کی بوتل کھلتے ہی بو کا ایک بھپکا ناک میں آتا ہے ، پیتے ہوئے بھی ان کی بدبو محسوس ہوتی ہے ، اور حلق سے جب وہ اترتی ہے تو دماغ تک اس کی سڑانڈ پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے بد مزگی کے آثار ان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani