[٦] اگرچہ احادیث میں ان اصحاب الاخدود کے انجام کے متعلق کچھ صراحت مذکور نہیں تاہم مفسرین لکھتے ہیں کہ یہی آگ ان آگ میں جلانے والوں کے کنٹرول سے باہر ہوگئی اور ان کے گھروں تک پہنچ کر ان کے گھروں کو خاکستر کر ڈالا اور یہ بھی ممکن ہے کہ (وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ 10ۭ ) 85 ۔ البروج :10) کا جملہ عذاب جہنم ہی کی صفت کے طور پر مذکور ہوا ہو۔ علاوہ ازیں یہ آیت صرف اصحاب الاخدود سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ عام ہے اور اس میں کفار مکہ کو انتباہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی مومن مردوں اور عورتوں کو صرف اس لیے ایذائیں پہنچاتے ہیں کہ وہ ایک اللہ پر ایمان لائے ہیں۔ ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔
ان الذین فتنوا المومنین…:” فتنہ “ کا معین ہے، کھرے کھوٹے کی آزمائش کے لئے سونے کو آگ میں ڈالنا۔ پھر یہ لفظ جلانے، ستانے ، عذاب دینے اور حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔” ان الذین فتنوا “ سے مراد اصحاب الاخدودبھی ہیں، جنہوں نے اہل ایمان کو آگ کی خندقوں میں ڈالا اور کفار قریش اور بعد میں آنے والے وہ تمام ظالم بھی جو انواع و اقسام کے عذاب دے دے کر اہل ایمان کو ایمان سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔” فلھم عذاب جھنم ولھم عذاب الحریق “ جہنم میں کئی طرح کا عذاب ہے، سب سے سخت عذاب جلنے کا ہے، اس لئے اس کا ذکر خاص طور پر فرمایا، اس کے علاوہ اہل ایمان کو جلانے والوں کے حسب حال جلنے ہی کا عذاب ہے۔ “ ثم لم یتوبوا “ (پھر توبہ نہیں کی) اللہ کی شان کریمی دیکھیے کہ اہل ایمان کو جلانے والوں کو بھی جہنم کی سزا تب سنائی جب وہ توبہ کے بغیر مریں، کیونکہ توبہ کرنے سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس سے توبہ کی ترغیب بھی نکل رہی ہے۔
ان الذین فتنوالمومنین یہ ان ظالموں کی سا کا بیان ہے جنہوں نے مسلمانوں کو صرف ان کے ایمان کی بناء پر اگٓ کی خندق میں ڈال کر جلایا تھا، اور سزا میں دو باتیں ارشاد فرمائیں فلھم عذاب جھنم یعنی ان کے لئے آخرت میں جہنم کا عذاب ہے، دوسرا ولھو عذاب الحریق یعنی ان کے لئے جلنے کا عذاب ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرا جملہ پہلے ہی جملے کا بیان اور تاکید ہو اور معنے یہ ہوں کہ جہنم میں جا کر اس کو ہمیشہ آگ میں جلتے رہنے کا عذاب ملے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے جملے میں ان کی اسی دنیا میں سزا کا ذکر ہو، جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ جن مؤمنین کو ان لوگوں نے آگ کی خندق میں ڈالا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو تو تکلیف سے اس طرح بچا دیا کہ آگ کے چھونے سے پہلے ہی ان کی ارواح قبض کرلی گئیں آگ میں مردہ جسم پڑے، پھر یہ آگ اتنی بھڑک اٹھی کہ خندق کے حدود سے نکل کر شہر میں پھیل گئی اور ان سب لوگوں کو جو مسلمانوں کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے اس آگ نے جلا دیا، صرف بادشاہ یوسف ذونواس بھاگ نکلا اور آگ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا اس میں غرق ہو کر مراد (مظہری) - ان لوگوں کے لئے عذاب جہنم اور عذاب حریق کی خبر کے ساتھ قرآن کریم نے یہ قید بھی لگا دی کہ ثم لم یتوبوا یعنی یہ عذاب ان لوگوں پر پڑیگا جو اپنے اس فعل پر نادم ہو کر تائب نہیں ہوئے اس میں ان لوگوں کو توبہ کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس جو دو کرم کو دیکھو کہ ان لوگوں نے اللہ کے اولیاء کو زندہ جلا کر ان کا تماشا دیکھا اور حق تعالیٰ اس پر بھی ان کو توبہ اور مغفرت کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ (ابن کثیر) - تمت سورة البروج والحمد اللہ 16 شعبان 1391 ھ
اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ ١٠ ۭ- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - حرق - يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ، و ( لنحرقنّه) «3» ، قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :- إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق «4» ، وحَرَقَ الشیء : إذا برده بالمبرد، وعنه استعیر : حرق الناب، وقولهم : يحرق عليّ الأرّم «5» ، وحرق الشعر : إذا انتشر، وماء حُرَاق : يحرق بملوحته، والإحراق : إيقاع نار ذات لهيب في الشیء، ومنه استعیر : أحرقني بلومه : إذا بالغ في أذيّته بلوم .- ( ح ر ق )- احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ حرق ( ن ) الشئی ریتی سے رگڑنا اسی سے حرق الناب کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت پیسنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یحرق علی الارم یعنی وہ مجھ پر دانت پیستا ہے ۔ حرق الشعر ۔ بالوں کا منتشر ہونا ۔ ماء حراق بہت کھاری پانی جو کھا ری پن سے جلا ڈالے ۔ الاحراق کسی چیز کو جلانا اسی سے استعارۃ جب کہ بہت زیادہ ملامت کرکے اذیت پہنچائے تو کہا جاتا ہے ۔ احرقبی بلومہ یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا ۔
آیت ١٠ اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا ” یقینا جن لوگوں نے ظلم و ستم توڑا مومن مردوں اور مومن عورتوں پر پھر انہوں نے توبہ بھی نہیں کی “- اگر ان میں سے کسی نے مرنے سے پہلے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا تو اس کا یہ جرم معاف ہوسکتا ہے۔ - فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ ۔ ” تو ان کے لیے ہوگا جہنم کا عذاب اور جلا ڈالنے والا عذاب۔ “
سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :6 جہنم کے عذاب سے الگ جلائے جانے کی سزا کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ انہوں نے مظلوم لوگوں کو آگ کے گڑھے میں پھینک کر زندہ جلایا تھا ۔ غالباً یہ جہنم کی عام آگ سے مختلف اور اس سے زیادہ سخت کوئی آگ ہو گی جس میں وہ جلائے جائیں گے ۔