13۔ 1 یہ جواب قسم ہے، یعنی کھول کر بیان کرنے والا ہے جس سے حق اور باطل دونوں واضح ہوجاتے ہیں۔
(انہ لقول فصل) بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ قرآن قول فصل ہے، اس میں شک نہیں کہ قرآن قول فصل ہے، مگر پچھلی آیت ا اور قسموں کی مناسبت کو مدنظر رکھیں تو یہاں مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ قول فصل سے مراد قیامت بپا کرنے اور انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہونے کی بات ہے، یعنی آسمان سے بار بار برسنے والی بارش اور اس کی نمی سے پھٹ کر بیج کو اگا کر باہر لے آنے والی زمین شاہد ہے کہ تمہارے دوبارہ زندہ کئے جانے کی بات دو ٹوک بات ہے۔ قیامت کے دن تم بھی اسی طرح زندہ ہو کر زمین سے نکل آؤ گے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(مابین النفختین اربعون …ثم ینزل اللہ من السماء ماء فینبتون کما ینبت البقل، لیس من الانسان شیء الا یبلی الاعطماً واحداً و ھو عجب الذنب ومنہ یرکب الخلق یوم القیامۃ) (بخاری، التفسیر، باب : (یوم بنف، فی الصور…):(٣٩٣٥۔ مسلم ٢٩٥٥)” وہ نفخوں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہوگا…پھر آسمان سے بارش بر سے گی تو لوگ اس طرح اگیں گے جس طرح سبزی اگتی ہے اور انسان کا کوئی حصہ نہیں جو بوسیدہ نہ ہو، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ دم کی ہڈی ہے، قیامت کے دن اسی سے مخلوق کو جوڑا جائے گا۔ “
انہ لقول فصل، یعنی قرآن کریم ایک فیصلہ کن قول ہے جو حق و باطل میں فیصلہ کرتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔- حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ قرآن کے متعلق فرمایا کتاب فیہ خبر ما قبلکم وحکم ما بعد کم وھو الفصل لیس بالھزل یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں تم سے پہلی امتوں کے حالات واخبار ہیں اور تمہارے بعد آنیوالوں کے لئے احکام ہیں وہ فیصلہ کن قول ہے ہنسی مذاق نہیں۔- تمت سورة الطارق بحمد اللہ تعالیٰ ٧١ شوال ٩١٣١
اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ ١٣ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- فصل ( جدا)- الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] - ( ف ص ل ) الفصل - کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔