جس نے صلوۃ کو بروقت ادا کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کر لیا احکام اسلام کی تابعداری کی نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے کی گواہی دے اس کے سوال کسی کی عبادت نہ کرے اور میری رسالت کو مان لے اور پانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پا گیا ( بزار ) ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نماز ہے حضرت ابو العالیہ نے ایک مرتبہ الو خلدہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا جب میں گیا تو مجھ سے کہا کچھ کھا لیا ہے میں نے کہا ہاں ، فرمایا نہا چکے ہو؟ میں نے کہا ہاں فرمایا زکوٰۃ فطر ادا کر چکے ہو؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت میں یہی مراد ہے ۔ اہل مدینہ فطرہ سے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی لوگوں کو فطرہ ادا کرنے کا حکم کرتے پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے ، حضرت ابو الاحواص فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرے اور کوئی سائل آ جائے تو اسے خیرات دے دے پھر یہی آیت پڑھی ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے اپنے مال کو پاک کر لیا اور اپنے رب کو راضی کر لیا پھر ارشاد ہے کہ تم دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہو اور دراصل تمہاری مصلحت تمہارا نفع اخروی زندگی کو دنیوی زندگی پر ترجیح دینے میں ہے دنیا ذلیل ہے فانی ہے آخرت شریف ہے باقی ہے کوئی عاقل ایسا نہیں کر سکتا کہ فانی کو باقی کی جگہ اختیار کر لے اور اس فانی کے انتظام میں پڑ کر اس باقی کے اہتمام کو چھوڑ دے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں نہ ہو دنیا اس کا مال ہے جس کا مال وہاں نہ ہو اسے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جو بیوقوف ہیں ابن جریر میں ہے کہ حضرت عرفجہ ثقفی اس سورت کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے تو تلاوت چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ سچ ہے ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی لوگ خاموش رہے تو آپ نے پھر فرمایا کہ اس لیے کہ ہم دنیا کے گرویدہ ہو گئے کہ یہاں کی زینت کو یہاں کی عورتوں کو یہاں کے کھانے پینے کو ہم نے دیکھ لیا آخرت نظروں سے اوجھل ہے اس لیے ہم نے اس سامنے والی کی طرف توجہ کی اور اس نظر نہ آنے والی سے آنکھیں پھیر لیں یا تو یہ فرمان حضرت عبداللہ کا بطور تواضع کے ہے یا جنس انسان کی بابت فرماتے ہیں واللہ اعلم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا تم اے لوگو باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دو ، مسند احمد پھر فرماتا ہے کہ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سب بیان ان صحیفوں میں بھی تھا ( بزار ) نسائی میں حضرت عباس سے یہ مروی ہے اور جب آیت ( وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ 37ۙ ) 53- النجم:37 ) نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے کو نہ اٹھانا ہے سورہ نجم میں ہے آیت ( اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى 36ۙ ) 53- النجم:36 ) آخری مضمون تک کی تمام آیتیں یعنی یہ سب احکام اگلی کتابوں میں بھی تھے اسی طرح یہاں بھی مراد سبح اسم کی یہ آیتیں ہیں بعض نے پوری سورت کہی ہے بعض نے قد افلح سے ابقی تک کہا ہے زیادہ قوی بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم ۔ الحمد اللہ سورہ سبح کی تفسیر ختم ہوئی واللہ الحمد والمنہ وبہ التوفیق والعصمہ
14۔ 1 جنہوں نے اپنے نفس کو اخلاق رذیلہ سے اور دلوں کو شرک کی آلودگی سے پاک کرلیا۔
[١٠] یعنی جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک عقائد فاسدہ سے اور اخلاقی رذیلہ سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یہاں بعض لوگوں نے تزکی ٰسے مراد زکوٰۃ اور بالخصوص صدقہ فطر اور (وذکر اسم ربہ) سے مراد تکبیرات عیدین اور فصلی سے مراد نماز عید لی ہے۔ اور اگر اس آیت کو اس کے عام مفہوم میں لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو پاکیزہ بنا لے پھر اللہ کو زبان سے بھی یاد کرتا رہے اور دل میں بھی یاد رکھے۔ پھر اسی کی تائید کے طور پر باقاعدگی سے نمازیں ادا کرتا رہے تو سمجھ لو کہ اس کی زندگی سنور گئی اور کامیاب ہوگیا۔ یہاں کامیابی سے مراد اخروی کامیابی تو یقینی ہے اور اس دنیا میں اس کی کامیاب زندگی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے کیونکہ دارالجزا آخرت ہے یہ دنیا نہیں۔
(قد افلح من تزکی…:) یعنی کفر و شرک اور گناہوں سے پاک ہو کر اللہ اکبر کہہ کر پانچوں نمازیں پڑھیں۔
زکوة کہتے ہیں کہ وہ باقی مال کو انسان کے لئے پاک کردیتی ہے یہاں لفظ تزکی کا مفہوم عام ہے جس میں ایمانی اور اخلاقی تزکیہ و طہارت بھی داخل ہے اور مال کی زکوٰة دینا بھی ہے۔ وذکر اسم ربہ فصلی، یعنی اپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کی نماز فرض ونفل شامل ہے، بعض مفسرین نے جو خاص نماز عید سے اس کی تفسیر کی ہے وہ بھی اس میں داخل ہے۔ بل تو ثرون الحیوة الدنیا، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ عام لوگوں میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کیوجہ یہ ہے کہ دنیا کی نعمت و راحت تو نقد و حاضر ہے اور آخرت کی نعمت و راحت نظروں سے غائب اور ادھار ہے۔ حقیقیت سے ناآشنا لوگوں نے حاضر کو غائب پر اور نقد کو ادھار پر ترجیح دے دیجو انکے لئے دائمی خسارہ کا سبب بنی، اسی خسارے سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ آخرت کی نعمتوں، راحتوں کو ایسا واضح کردیا کہ گویا وہ حاضر موجود ہیں اور یہ بتلا دیا کہ جس چیز کو تم نقد سمجھ کر اختیار کرتے ہو یہ متاع کا سدوناقص اور بہت جلد فنا ہوجانیوالا ہے عقلمند کا کام نہیں کہ ایسی چیز پر اپنا دل ڈالے اور اس کے لئے اپنی توانائی صرف کرے اسی حقیقیت کو واضح کرنے کے لئے آگے ارشاد فرمایا والاخرة خیروابقی، دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والوں کو تنبیہ ہے کہ ذرا عقل سے کام لو، کس چیز کو اختیار کر رہے اور کس کو چھوڑ رہے ہو دنیا جس پر تم فریفتہ ہو اول تو اس کی بڑی سے بڑی راحت و لذت بھی رنج وغم اور کلفت ومشقت کی آمیزش سے خالی نہیں دوسرے اس کا کوئی قرار وثبات نہیں، آج کا بادشاہ کل کا فقیر، آج کا جوان شہ زور کل کا ضعیف و عاجز ہونا رات دن دیکھتے ہو۔ نجلاف آخرت کے کہ وہ ان دونوں عیبوں سے پاک ہے اس کی ہر نعمت و راحت خیر ہی خیر ہے اور دنیا کی نعمت و راحت سے اس کو کوئی نسبت نہیں اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ القی ہے یعنی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ انسان ذرا غور کرے کہ اگر اس کو کہا جائے کہ تمہارے سامنے دو مکان ہیں، ایک عالیشان محل اور بنگلہ تمام سازو سامان سے آراستہ ہے اور دوسرا ایک معمولی کچا مکان ہے اور یہ سامان بھی اس میں نہیں تمہیں ہم اختیار دیتے ہیں کہ یا تو یہ بنگلہ لے لو مگر صرف مہینہ دو مہینہ کیلئے اسکے بعد اسے خالی کرنا ہوگا، یا یہ کچا مکان لیلو جو تمہاری دائمی ملکیت ہوگی تو عقلمند انسان ان دونوں میں کس کو ترجیح دے گا، اس کا مقتضا تو یہ ہے کہ آخرت کی نعمتیں اگر بالفرض ناقص اور دنیا سے کم درجہ کی بھی ہوتیں مگر انکے دائمی ہونے کی وجہ سے وہی قابل ترجیح تھیں اور جبکہ وہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں خیر اور افضل اور اعلیٰ بھی ہیں اور دائمی بھی تو کوئی احمق بدنصیب ہی انکو چھوڑ کر دنیا کی نعمت کو ترجیح دے سکتا ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ١٤ ۙ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَحُ أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة 22] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى- [ الأعلی 14] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون 1] ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة 189] ، إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون 117] ، فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر 9] ، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه 64] ، فيصحّ أنهم قصدوا به الفلاح الدّنيويّ ، وهو الأقرب، وسمّي السّحور الفَلَاحَ ، ويقال : إنه سمّي بذلک لقولهم عنده : حيّ علی الفلاح، وقولهم في الأذان : ( حي علی الفَلَاحِ ) أي : علی الظّفر الذي جعله اللہ لنا بالصلاة، وعلی هذا قوله ( حتّى خفنا أن يفوتنا الفلاح) أي : الظّفر الذي جعل لنا بصلاة العتمة .- ( ف ل ح ) الفلاح - الفلح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة 22] ( اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] جس نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون 1] بیشک ایمان والے رستگار ہوئے ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة 189] تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون 117] کچھ شک نہیں کہ کافر رستگاری نہیں پائیں گے ۔ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر 9] وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه 64] اور آج جو غالب رہا وہ کامیاب ہوا ۔ میں یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے فلاح دنیوی مراد لی ہو بلکہ یہی معنی ( بلحاظ قرآن ) اقرب الی الصحت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور سحور یعنی طعام سحر کو بھی فلاح کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت حی علی الفلاح کی آواز بلند کی جاتی ہے اور اذان میں حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ اس کامیابی کیطرف آؤ جو نما زکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اور حدیث (76) حتی خفنا ان یفوتنا الفلاح ( حتی کہ فلاح کے فوت ہوجانے کا ہمیں اندیشہ ہوا ) میں بھی فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو صلاۃ عشا ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔
نماز کا افتتاح ذکر الٰہی سے ہو - قول باری ہے (قد افلح من تزکی وذکر اسم ربہ فصلی۔ فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی) حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز اور ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ ” وہ شخص فلاح پا گیا جس نے صدقہ فطر ادا کیا اور پھر عید کی نماز کے لئے نکل گیا۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے صدقہ فطرادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ نماز سے پہلے تم صدقہ فطرادا کرو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (وذکراسم ربہ فصلی ) سے تمام اذکار کے ذریعے نماز کے افتتاح کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب اسم اللہ کے یاد کے متصل بعد نماز کا ذکر کیا اور حرف فاء تعقیب پر دلالت کرتا ہے جس میں تراخی نہ ہو تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس سے افتتاح صلوٰۃ مراد ہے۔
(١٤۔ ١٥) وہ شخص کامیاب ہوا جس نے قرآن سن کر نصیحت حاصل کی اور توحید خداوندی کا قائل ہوا اور اپنے پروردگار کے حکم سے پانچوں نمازیں باجماعت پڑھتا رہا، یا یہ مطلب کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس نے عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کیا اور آتے جاتے راستہ میں تکبیر و تہلیل کرتا رہا اور عید کی نماز امام کے ساتھ پڑھی۔
آیت ١٤ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ۔ ” یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے خود کو پاک کرلیا۔ “- ان آیات میں بہت اہم اور بنیادی نوعیت کے مضامین بیان ہوئے ہیں۔ اگلی سورتوں میں مختلف مقامات پر ان مضامین کی مزید وضاحت آئے گی۔ تَزَکّٰیسے مراد یہاں روح کی پاکیزگی ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی روح بہت بلند اور اعلیٰ چیز ہے۔ سورة التین کی اس آیت میں دراصل انسان کی روح کی تخلیق ہی کا ذکر ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ کہ ہم نے انسان کو بہت عمدہ تخلیق پر بنایا ہے ۔ لیکن جب اس روح کو جسد حیوانی میں قید کر کے دنیا میں بھیجا گیا تو وقتی طور پر روح اپنے اعلیٰ مقام سے گر کر پستی میں چلی گئی ‘ جس کا ذکر سورة التین کی اگلی آیت میں بایں الفاظ آیا ہے : ثُمَّ رَدَدْنٰـہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ۔ کہ پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف لوٹا دیا۔ چناچہ انسان کی دنیوی زندگی کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو پستی سے نکال کر دوبارہ بلندی کی طرف لے جائے۔ اگر تو اس نے یہ ہدف حاصل کرلیا تو وہ کامیاب ہے ورنہ ناکام۔ اس کامیابی کے لیے اسے ایک طرف جسد حیوانی کے داعیات یعنی اپنی نفسانی خواہشات کو دبانا ہوگا اور دوسری طرف اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ غذا فراہم کرنے کا سامان کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے حیوانی داعیات کمزور ہوں گے تو تبھی روح کو تقویت ملے گی ۔ ماہ ِ رمضان کے چوبیس گھنٹے کے معمولات کے ذریعے سے اہل ایمان کو دراصل اسی ” دو طرفہ “ پروگرام کی مشق کرائی جاتی ہے کہ دن کو روزہ رکھ کر حیوانی جسم اور اس کے داعیات کو کمزور کرو اور رات کو قیام اللیل کے دوران انوارِ قرآن کی بارش سے اپنی روح کو سیراب کرو تاکہ تمہاری روح کو ترفع اور اللہ کا قرب حاصل ہو سکے۔ یہ ہے تَزَکّٰی کا اصل مفہوم اور اس کا بنیادی فلسفہ۔
سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :13 پاکیزگی سے مراد ہے کفر و شرک چھوڑ کر ایمان لانا ، برے اخلاق چھوڑ کر اچھے اخلاق اختیار کرنا ، اور برے اعمال چھوڑ کر نیک اعمال کرنا ، فلاح سے مراد دنیوی خوشخالی نہیں ہے بلکہ حقیقی کامیابی ہے ، خواہ دنیا کی خوشحالی اس کے ساتھ میسر ہو یا نہ ہو ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 32 ۔ جلد سوم ، المومنون ، حواشی1 ۔ 11 ۔ 50 ۔ جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ4 ) ۔