Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰى۝ ١٥ ۭ- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ۔ ” اور اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔ “- اس آیت کے الفاظ کی عملی تصویر جمعہ کا اجتماع ہے۔ اجتماعِ جمعہ میں بھی پہلے خطبہ کی صورت میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے پھر نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں اجتماعِ جمعہ کے حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معمول نقل ہوا ہے :- (کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُطْبَتَانِ کَانَ یَجْلِسُ بَیْنَھُمَا ‘ یَـقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیُذَکِّرُ النَّاسَ ) (١)- ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو خطبے ہوتے تھے ‘ ان کے دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن حکیم پڑھ کر سناتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دونوں خطبات بہت مختصر ہوتے تھے۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ ان کے درمیان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھکان کی وجہ سے تو نہیں بیٹھتے تھے۔ میری رائے اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ دو خطبات نماز ظہر کی دو رکعتوں کے قائم مقام ہیں۔ (نماز ظہر میں فرضوں کی چار رکعتیں ہیں جبکہ نماز جمعہ میں دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں) چناچہ اس دوران حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیٹھنا دراصل اپنے خطاب کو باقاعدہ دو خطبوں کی شکل دینے کے لیے ہوتا تھا۔ ان خطبات میں جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیاتِ قرآنی کے ذریعے تذکیر فرماتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام سامعین چونکہ قرآن کی زبان کو بخوبی سمجھتے تھے اس لیے ” از دل خیزد بر دل ریزد “ کے مصداق قرآن مجید کا مفہوم بغیر کسی وضاحت اور تشریح کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں چونکہ عام سامعین عربی خطبہ کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے ان کی تذکیر کے لیے خطبہ سے پہلے ” خطاب “ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اجتماعِ جمعہ کے موقع پر ذکر و تذکیر کی اسلام میں کیا اہمیت ہے ‘ اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے ۔ اجتماعِ جمعہ میں بروقت حاضری کو یقینی بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (اِذَا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ کَانَ عَلٰی کُلِّ بَابٍ مِنْ اَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِکَۃُ ، یَکْتُبُوْنَ الْاَوَّلَ فَالْاَوَّلَ ، فَاِذَا جَلَسَ الْاِمَامُ طَوَوُا الصُّحُفَ ، وَجَاؤُوا یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ ) (١)- ” جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ وہ پہلے آنے والوں کو پہلے لکھتے ہیں۔ پھر جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر سمیٹ لیتے ہیں اور ذکر سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے فرمان میں جمعہ کے لیے جلدی مسجد آنے والوں کے لیے درجہ بدرجہ فضیلت کی وضاحت بھی ملتی ہے :- (مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ غُسْلَ الْجَنَابَۃِ ثُمَّ رَاحَ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّانِیَۃِ فَکَاََنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّالِثَۃِ فَکَاَنَّمَا قَرَّبَ کَبْشًا أَقْرَنَ ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الرَّابِعَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ دُجَاجَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الْخَامِسَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَیْضَۃً فَإِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ ) (٢)- ” جو آدمی جمعہ کے دن غسل ِجنابت (کی طرح اہتمام کے ساتھ غسل) کرے پھر وہ صبح صبح مسجد میں جائے تو وہ اس طرح ہے گویا اس نے ایک اونٹ قربان کیا ‘ اور جو آدمی دوسری ساعت میں جائے تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی ‘ اور جو آدمی تیسری ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا ‘ اور جو چوتھی ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک مر غی قربان کی ‘ اور جو پانچویں ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا قربان کر کے اللہ کا قرب حاصل کیا۔ پھر جب امام (خطبہ کے لیے ) نکلے تو فرشتے بھی (اندراج کا سلسلہ ختم کر کے ) ذکر سننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔ “- اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علماء نے لفظ ” ساعت “ کی مختلف تاویلیں کی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) کی رائے اس ضمن میں یہ ہے (ذاتی طور پر مجھے اس رائے سے اختلاف ہے) کہ اس لفظ کا تعلق وقت کی ظاہری تقسیم سے نہیں بلکہ ان ” ساعتوں “ سے مخفی ساعتیں مراد ہیں۔ البتہ اس حدیث میں جس خطبہ کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد مسنون خطبہ ہے۔ اس حکم کا اطلاق ہمارے ائمہ اور خطباء کی مقامی زبانوں میں کی جانے والی تقاریر پر نہیں ہوتا۔ خطبہ شروع ہونے کے بعد حاضری کا اندراج نہ ہونے کے حوالے سے شاہ ولی اللہ (رح) کی رائے یہ ہے کہ اس کے بعد آنے والے جمعہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے ‘ البتہ ان کے فرض کی ادائیگی ہوجائے گی ‘ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران بھی شامل ہوگا تو فرض کی ادائیگی کی حد تک اس کی حاضری بھی قبول سمجھی جائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :14 یاد سے مراد دل میں بھی اللہ کو یاد کرنا ہے اور زبان سے بھی اس کا ذکر کرنا ہے ۔ دونوں چیزیں ذکر الہی کی تعریف میں آتی ہیں ۔ سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :15 یعنی صرف یاد کر کے رہ نہیں گیا بلکہ نماز کی پابندی اختیار کر کے اس نے ثابت کر دیا کہ جس خدا کو وہ اپنا خدا مان رہا ہے اس کی اطاعت کے لیے وہ عملاً تیار ہے اور اس کو ہمیشہ یاد کرتے رہنے کا اہتمام کر رہا ہے ، اس آیت میں علی الترتیب دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پہلے اللہ کو یاد کرنا ، پھر نماز پڑھنا ، اسی کے مطابق یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے کہ اللہ اکبر کہہ کر نماز کی ابتدا کی جائے ۔ یہ من جملہ ان شواہد کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اس کے تمام اجزاء قرآنی اشارات پر مبنی ہیں ۔ مگر اللہ کے رسول کے سوا ان ارشادات کو جمع کر کے کوئی شخص بھی نماز کی یہ ہیئت ترتیب نہیں دے سکتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani