9۔ 1 یعنی وعظ و نصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہو کہ فائدہ مند ہوگی، یہ وعظ و نصیحت اور تعلیم کے لیے ایک اصول اور ادب بیان فرمایا۔ امام شوکانی کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، چاہے فائدہ دے یا نہ دے، کیونکہ انداز و تبلیغ دونوں صورتوں میں آپ کے لیے ضروری تھی۔
[٨] یعنی جب آپ دیکھیں کہ آپ کی نصیحت سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو ایسے لوگوں کو بار بار وغط و نصیحت کرتے رہیے۔ اور جو لوگ وعظ و نصیحت سے الٹا اثر لیں، مذاق اڑانے لگیں، یا مخالفت پر اتر آئیں تو ایسے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اجتناب کیجیے۔ واضح رہے کہ دعوت و تبلیغ اور چیز ہے اور وعظ و نصیحت اور چیز۔ نبی کی ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب لوگوں تک پہنچا دے خواہ وہ اسے قبول کریں یا برا مانیں۔ لیکن وعظ و نصیحت صرف ان کے لیے ہے جو وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں، سب کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس کے لیے جس کے دل میں کچھ اللہ کا ڈر ہو اور جو ڈرتا ہی نہیں اس کے لیے وعظ و نصیحت کچھ معنی نہیں رکھتے۔
(فذکر ان نفعت الذکری…:” تو نصیحت کر اگر صنیحت کرنا فائدہ دے “ اس پر سوال پیدا ہوتا کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے تو کیا نصیحت چھوڑ دی جائے ؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں، بلکہ نصیحت کرتے رہنا لازم ہے۔ تو پھر آیت کا مطلب کیا ہے ؟ آیت کی مختلف تفاسیر میں سیت ین تفسیریں زیادہق ریب ہیں :(١) تفسیر ثنئای میں ہے کہ اس آیت کی بنا پر بعض لوگ گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ نصیحت کے نفع دینے کی صورت میں نصیحت کرنے کا حکم ہے ورنہ نہیں، یہ ان کی غلطی ہے۔ آیت میں ” ان “ ہے کہ جب تک انسان کو کسی قطعی دلیل سے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں شخص کو نصیحت فائدہ نہ دے گی ” ان “ کا محل رہتا ہے اورق طعی دلیل صرف وحی الٰہی ہے۔ وحی کے بغیر ہر حال میں صنیحت کے مفید ہونے کا امکان باقی ہے، اس لئے جب تک تمہیں وحی الٰہی سے معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں کو نصیحت نفع نہ دیگی وعظ و نصیحت کرتے جاؤ۔ ظاہر ہے کہ تمہارے پاس وحی الٰہی نہیں، اسلئے تم ہمیشہ نصیحت کرتے رہو۔ (مختصراً )- (٢) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” فذکر ان نفعت الذکری “ (نصیحت کر، اگر نصیحت فائدہ دے) کا یہ مطلب نہیں کہ جسے نصیحت فائدہ دے اسے نصیحت کر دوسرے کو نہ کر، کیونکہ یہ تو معلوم ہی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نصیحت کر اگر کسی ایک کو بھی نصیحت فائدہ دے ۔ گویا ” نفعت “ کا مفعول محذوف ہے، یعنی ” ان نفعت الذکری احداً “ اور ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کو تو فائدہ ہوتا ہی ہے، اس لئے آپ ہر شخص کو نصیحت کرتے جائیں۔” سیذکر من یخشی…“ پھر ڈرنے والا قبول کرلے گا اور بدبخت اجتناب کرے گا، آپ کا کام نصیحت کرتے چلے جانا ہے اس امید پر کہ نصیحت کسی کو تو فائدہ دے گی۔ - (٣) تیسری تفسیر یہ ہے کہ ” ان “ حرف شرط ” اذ “ کے معنی میں ہے، یعنی نصیحت کر جب نصیحت کرنا فائدہ دے ۔ موقع و محل کا خیال رکھو، بےموقع بات موثر نہیں ہوتی۔ جب دیکھو کہ سننے کی طرف مائل ہیں تو نصیحت کرو اور جب ضد اور سرکشی پر اترے ہوئے ہوں تو کنارہ کشی اختیار کرو، یہ نہیں کہ صنیحت ہی چھوڑ دو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو، نوح اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام) نے اپنی اپنی اقوام کو ان پر عذاب آنے تک نصیحت ترک نہیں کی۔
فذکر ان نعفت الذکری، سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے فریضہ پیغمبری کے ادا کرنے میں حق تعالیٰ کیطرف سے دی ہوئی سہولتوں کا بیان تھا، اس آیت میں آپکو اس فریضہ کی ادائیگی کا حکم ہے اور معنے الفاظ آیت کے یہ ہیں کہ آپ لوگوں کو تبلیغ و نصیحت کیجئے اگر نصیحت نفع دیتی ہو، یہ الفاظ اگرچہ شرط کے آئے ہیں مگر درحقیقت مقصود کوئی شرط نہیں بلکہ اس کا تاکیدی حکم دینا ہے جس کی مثال ہمارے عرف میں یہ ہے کہ کسی شخص کو بطور تنبیہ کے کہا جائے کہ اگر تو ادمی ہے تو فلاں کام کرنا ہوگا یا اگر توفلاں کا بیٹا ہے تو تجھے ایسا کرنا چاہئے۔ یہاں مقصود شرط نہیں ہوتی بلکہ اس کا اظہار ہوتا ہے کہ جب تو آدمی زاد ہے یا جبکہ تو فلاں بزرگ یا شریف آدمی کا بیٹا ہے تو تجھ پر یہ کلام لازم ہے مطلب یہ ہے کہ نصیحت و تبلیغ کا نافع ومفید ہونا تو متعین اور متیقن ہے اسلئے اس نافع چیز کو آپ کسی وقت نہ چھوڑیں
فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى ٩ ۭ- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔
آیت ٩ فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی ۔ ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاد دہانی کراتے رہیے ‘ اگر یاد دہانی فائدہ دے۔ “- اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انذار و تذکیر کا فریضہ تبھی سرانجام دیں جب مخاطب کو اس سے کچھ فائدہ ہو رہا ہو یعنی وہ اس تذکیر کا اثر قبول کر رہا ہو۔ چناچہ اگلی آیت میں اس حوالے سے وضاحت کردی گئی ہے۔
سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :10 عام طور پر مفسرین نے ان دو فقروں کو الگ الگ سمجھا ہے ۔ پہلے فقرے کا مطلب انہوں نے یہ لیا ہے کہ ہم تمہیں ایک آسان شریعت دے رہے ہیں جس پر عمل کرنا سہل ہے ، اور دوسرے فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نصیحت کرو اگر وہ نافع ہو ۔ لیکن ہمارے نزدیک فذکر کا لفظ دونوں فقروں کو باہم مربوط کرتا ہے اور بعد کے فقرے کا مضمون پہلے فقرے کے مضمون پر مترتب ہوتا ہے ۔ اس لیے ہم اس ارشاد الہی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اے نبی ، ہم تبلیغ دین کے معاملہ میں تم کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے کہ تم بہروں کو سناؤ اور ا ندھوں کو راہ دکھاؤ ، بلکہ ایک آسان طریقہ تمہارے لیے میسر کیے دیتے ہیں ، اور وہ یہ ہے کہ نصیحت کرو جہاں تمہیں یہ محسوس ہو کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے تیار ہے ۔ اب رہی یہ بات کہ کون اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں ہے ، تو ظاہر ہے کہ اس کا پتہ تبلیغ عام ہی سے چل سکتا ہے اس لیے عام تبلیغ تو جاری رکھنی چاہیے ، مگر اس سے تمہارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے بندوں میں سے ان لوگوں کو تلاش کرو جو اس سے فائدہ اٹھا کر راہ راست اختیار کرلیں ۔ یہی لوگ تمہاری نگاہ التفات کے مستحق ہیں اور انہی کی تعلیم و تربیت پر تمہیں توجہ صرف کرنا چاہیے ۔ ان کو چھوڑ کر ایسےلوگوں کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جن کے متعلق تجربے سے تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ کوئی نصیحت قبول نہیں کرنا چاہتے ۔ یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو سورۃ عبس میں دوسرے طریقے سے یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ دا ری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے اس سے تم بے رخی برتتے ہو ۔ ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے ، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے ( آیات 5 تا 12 ) ۔