وَّزَرَابِيُّ مَبْثُوْثَۃٌ ١٦ ۭ- زرابيّ :- جمع زربيّة، اسم جامد لنوع من البسط والطنافس، وقیل جمع زربيّ بضمّ الزاي وکسرها۔ كما في القاموس۔ وتشدید الیاء، وقیل بتثلیث الزاي فيهما .. وزنه فعلیل أو فعلیلة، وزن زرابيّ فعالیل بفتح الفاء .- زرب - الزَّرَابِي : جمع زُرْبٍ ، وهو ضرب من الثیاب محبّر منسوب إلى موضع وعلی طریق التشبيه والاستعارة قال : وَزَرابِيُّ مَبْثُوثَةٌ [ الغاشية 16] ، والزَّرْبُ ، والزَّرِيبَةُ : موضع الغنم، وقترة الرّامي - ( ز ر ب ) الزرابی یہ زرب کی جمع ہے جو ایک عمدہ قسم کا کپڑا ہے اور ایک مقام کی طرف منسوب ہے ۔ پھر تشبیہ واستعارہ کے طورپر زرابی بمعنی فرش کے بھی آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَزَرابِيُّ مَبْثُوثَةٌ [ الغاشية 16] اور بچھائے ہوئے فرش ۔ اور زرب وزریبۃ بکریوں کے باڑہ اور تیر انداز کے چھپنے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں ۔- ( مبثوثة) ، مؤنّث مبثوث، اسم مفعول من الثلاثيّ بثّ ، وزنه مفعول .
آیت ١٦ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ ۔ ” اور مخمل کے نہالچے جگہ جگہ پھیلے ہوئے۔ “- اگلی چار آیات قرآن مجید کی ان آیات میں سے ہیں جو بقول علامہ اقبال شعوری مشاہدے پر زور دیتی ہیں کہ چیزوں کو دیکھو ‘ ان پر غور کرو اور اپنی عقل اور منطق کے مطابق ان سے نتائج اخذ کرو۔ ظاہر ہے عقل ‘ شعور اور حواس کی صلاحیتیں انسان کو اسی لیے دی گئی ہیں کہ اپنی زندگی میں وہ ان سے کام لے : وَلاَ تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً ۔ (بنی اسرائیل) ” اور مت پیچھے پڑو اس چیز کے جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں۔ یقینا سماعت ‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں بازپرس کی جائے گی “۔ واضح رہے کہ علم کے میدان میں یہ سائنٹیفک رجحان قرآن مجید نے متعارف کرایا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان ہرچیز کو پہلے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ عقل سے ماوراء صرف الہامی علم ہے۔ اس لیے وحی کی سند کے بغیر انسان کوئی ایسی بات تسلیم نہ کرے جس کے پیچھے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ ہو۔ قرآن مجید کا عطا کردہ یہی وہ اندازِ فکر ہے جس نے ہر قسم کی توہم پرستی کی جڑکاٹ کر رکھ دی ہے۔