کائنات پر غور و تدبر کی دعوت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی مخلوقات پر تدبر کے ساتھ نظریں ڈالیں اور دیکھیں کہ اس کی بے انتہا قدرت ان میں سے ہر ایک چیز سے کس طرح ظاہر ہوتی ہے اس کی پاک ذات پر ہر ایک چیز کس طرح دلالت کر رہی ہے اونٹ کو ہی دیکھو کہ کس عجیب و غریب ترکیب اور ہیئت کا ہے کتنا مضبوط اور قوی ہے اور اس کے باوجود کس طرح نرمی اور آسانی سے بوجھ لاد لیتا ہے اور ایک بچے کیساتھ کس طرح اطاعت گزار بن کر چلتا ہے ۔ اس کا گوشت بھی تمہارے کھانے میں آئے اس کے بال بھی تمہارے کام آئیں اس کا دودھ تم پیو اور طرح طرح کے فائدے اٹھاؤ ، اونٹ کا حال سب سے پہلے اس لیے بیان کیا گیا کہ عموما عرب کے ملک میں اور عربوں کے پاس یہی جانور تھا حضرت شریح قاضی فرمایا کرتے تھے آؤ چلو چل کر دیکھیں کہ اونٹ کی پیدائش کس طرح ہے اور آسمان کی بلندی زمین سے کس طرح ہے وغیرہ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَفَلَمْ يَنْظُرُوْٓا اِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنٰهَا وَزَيَّنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ Č ) 50-ق:6 ) کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا کیسے مزین کیا اور ایک سوراخ نہیں چھوڑا ، پھر پہاڑوں کو دیکھو کہ کیسے گاڑ دئیے گئے تاکہ زمین ہل نہ سکے اور پہاڑ بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ سکیں پھر اس میں جو بھلائی اور نفع کی چیزیں پیدا کی ہیں ان پر بھی نظر ڈالو زمین کو دیکھو کہ کس طرح پھیلا کر بچھا دی گئی ہے غرض یہاں ان چیزوں کا ذکر کیا جو قرآن کے مخاطب عربوں کے ہر وقت پیش نظر رہا کرتی ہیں ایک بدوی جو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر نکلتا ہے زمین اس کے نیچے ہوتی ہے آسمان اس کے اوپر ہوتا ہے پہاڑ اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور اونٹ پر خود سوار ہے ان باتوں سے خالق کی قدرت کاملہ اور صنعت ظاہرہ بالکل ہویدا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ خالق ، صانع ، رب عظمت و عزت والا مالک اور متصرف معبود برحق اور اللہ حقیقی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا اظہار کریں جسے ہم حاجتوں کے وقت پکاریں جس کا نام دود زباں بنائیں اور جس کے سامنے سر خم ہوں حضرت ضمام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو سوالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیے تھے وہ اس طرح کی قسمیں دے کر کیے تھے بخاری مسلم ترمذی نسائی مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بار بار سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا تو ہماری یہ خواہش رہتی تھی کہ باہر کا کوئی عقل مند شخص آئے وہ سوالات کرے ہم بھی موجود ہوں اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جوابات سنیں چنانچہ ایک دن بادیہ نشین آئے اور کہنے لگے اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کے قاصد ہمارے پاس آئے اور ہم سے کہا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنایا ہے آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا وہ کہنے لگا بتائیے آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا زمین کس نے پیدا کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا ان پہاڑوں کو کس نے گاڑ دیا ؟ ان سے یہ فائدے کی چیزیں کس نے پیدا کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا پس آپ کو قسم ہے اس اللہ کی جس نے آسمان و زمین پیدا کیے اور ان پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں فرمایا اس نے سچ کہا ۔ کہا اس اللہ کی آپ کو قسم ہے جس نے آپ کو بھیجا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مالوں میں ہم پر زکوٰۃ فرض ہے فرمایا سچ ہے پھر کہا آپ کو اپنے بھیجنے والے اللہ کی قسم کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ فرمایا ہاں مزید کہا کہ آپ کے قاصد نے ہم میں سے طاقت رکھنے والے لوگوں کو حج کا حکم بھی دیا ہے آپ نے فرمایا ہاں اس نے جو کہا سچ کہا وہ یہ سن کر یہ کہتا ہوا چل دیا کہ اس اللہ واحد کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے نہ میں ان پر کچھ زیادتی کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا ۔ بعض روایات میں ہے کہ اس نے کہا میں ضمام بن ثعلبہ ہوں بنو سعد بن بکر کا بھائی ابو یعلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اکثر یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت پہاڑ پر تھی اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا یہ عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے لڑکے نے اس سے پوچھا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا ؟ اس نے کہا اللہ نے ۔ پوچھا میرے ابا جی کو کس نے پیدا کیا ؟ اس نے کہا اللہ نے پوچھا مجھے؟ کہا اللہ نے پوچھا آسمان کو ؟ کہا اللہ نے ، پوچھا زمین کو؟ کہا اللہ نے ، پوچھا پہاڑوں کو؟ بتایا کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بچے نے پھر سوال کیا کہ اچھا ان بکریوں کو کس نے پیدا کیا ؟ ماں نے کہا انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بچے کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اللہ تعالیٰ بڑی شان والا ہے اس کا دل عظمت اللہ سے بھر گیا وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکا اور پہاڑ پر سے گر پڑا ، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ ابن دینار فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی یہ حدیث ہم سے اکثر بیان فرمایا کرتے تھے اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن جعفر مدینی ضعیف ہیں ۔ امام علی بن مدینی جو ان کے صاحبزادے اور جرح و تعدیل کے امام ہیں وہ انہیں یعنی اپنے والد کو ضعیف بتلاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم تو اللہ کی رسالت کی تبلیغ کیا کرو تمہارے ذمہ صرف بلاغ ہے حساب ہمارے ذمہ ہے آپ ان پر مسلط نہیں ہیں جبر کرنے والے نہیں ہیں ان کے دلوں میں آپ ایمان پیدا نہیں کر سکتے ، آپ انہیں ایمان لانے پر مجبور نہیں کر سکتے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم کیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے اپنے جان و مال مجھ سے بچا لیے مگر حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ( مسلم ترمذی مسند وغیرہ ) پھر فرماتا ہے مگر وہ جو منہ موڑے اور کفر کرے یعنی نہ عمل کرے نہ ایمان لائے نہ اقرار کرے جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى 31 ۙ ) 75- القيامة:31 ) نہ تو سچائی کی تصدیق کی نہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا اسی لیے اسے بہت بڑا عذاب ہو گا ابو امامہ باہلی حضرت خالد بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو کہا کہ تم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو آسانی سے آسانی والی حدیث سنی ہو اور اسے مجھے سنا تو آپ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں سے ہر ایک جنت میں جائیگا مگر وہ جو اس طرح کی سرکشی کرے جیسے شریر اونٹ اپنے مالک سے کرتا ہے ( مسند احمد ) ان سب کا لوٹنا ہماری ہی جانب ہے اور پھر ہم ہی ان سے حساب لیں گے اور انہیں بدلہ دیں گے ، نیکی کا نیک بدی کا بد ۔ سورہ غاشیہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔
17۔ 1 اونٹ عرب میں عام تھے اور ان عربوں کی غالب سواری یہ تھی، اس لیے اللہ نے اس کا تذکرہ کیا یعنی اونٹ کی خلقت پر غور کرو، اللہ نے اسے کتنا بڑا وجود عطا کیا اور کتنی قوت و طاقت اس کے اندر رکھی ہے۔ اس کے باوجود وہ تمہارے لئے نرم اور تابع ہے، تم اس پر جتنا چاہو بوجھ لادھ دو وہ انکار نہیں کرے گا اور تمہارا ماتحت ہو کر رہے گا علاوہ ازیں اس کا گوشت تمہارے کھانے کے لئے، اسکا دودھ تمہارے پینے کے لئے اور اس کی اون، گرمی حاصل کرنے کے کام آتی ہے۔
[٨] اللہ تعالیٰ نے عرب کے بدو اور خانہ بدوشوں کو سب سے پہلے اونٹ کی طرف توجہ دلائی جو ان کے نزدیک ایک قیمتی متاع اور صحرائی سفر میں ان کا مستقل رفیق تھا جو دس دس دن پانی پینے کے بغیر گزارہ ہی نہیں کرسکتا بلکہ بےتکلف سفر بھی جاری رکھ سکتا ہے۔ خار دار جھاڑیاں اور خشک گھاس اور پتے کھا کر شکم پروری کرلیتا ہے۔ ریت میں اس کے پاؤں نہیں دھنستے اور بےتکلف سفر کرتا چلا جاتا ہے۔ ریت کی وجہ سے تھک نہیں جاتا اور سب سے بڑھ کر یہ سب باربردار جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے۔ گویا یہ جانور ان لوگوں کی روح رواں تھا۔ عظیم الجثہ اور عجیب الخلقت۔ مثل مشہور ہے۔ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی۔ اور اہل عرب کی بالخصوص توجہ اس جانور کی طرف اس لیے دلائی گئی کہ انہیں صحرائی زندگی کے لیے اونٹ کے علاوہ کوئی دوسرا جانور کام ہی نہ دے سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حسب حال انہیں ایسا کارآمد جانور مہیا فرما دیا۔ اور اسی کی پیدائش میں غور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
(١) افلا ینظرون الی الابل …: قیامت اور قیامت کے دن جہنمیوں اور جنتیوں کا حال ذکر کرنے کے بعد ان چیزوں کو دیکھنے کی دعوت کا مقصد یہ ہے ہ اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں اور نہ کسی نے جنت یا جہنم میں جانا ہے تو ان چار چیزوں کو دیکھ لیں۔ اتنی عظیم الشان چیزیں پیدا کرنے والا پروردگار کیا ان لوگوں کو دوبارہ نہیں بنا سکتا ؟ - (٢) عرب کا بادیہ نشین تمام شہری تکلفات سے دور اونٹ پر سوار ہو کر سفر کر رہا ہو اورف طرت اپنی اصل صورت میں اس کے سامنے جلوہ گر ہو تو تھوڑا سا غور کرنے پر بھی ہر چیز میں اسے اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت نظر آئیگی۔ اوپر دیکھے تو سورج یا چاند ستاروں سے بھرا ہوا لامحدود محکم آسمان، نیچے دیکھے تو صفائی سے بچھی ہوئی وسیع زمین، دائیں بائیں دیکھے تو زمین میں گڑے ہوئے بلند و بالا پہاڑ اور اپنی سواری کو دیکھے تو صحرا کے مطابق بناوٹ رکھنے والا ہفتوں بھوک اور پیاس برداشت کرنے والا اونٹ ‘ کوئی چیز بھی تو اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں۔ اتنی عظیم مخلوق کے مالک کے لئے اس حقیر انسان کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے جسے پہلے بھی اسی نے پیدا کیا ہے ؟
افلاینظرون الی الابل کیف خلقت، آلایتہ :- قیامت کے احوال اور اس میں مومن و کافر کی جزاء و سزا کا بیان فرمانے کے بعد ان جاہل معاندین کی ہدایت کی طرف توجہ فرمائی جو اپنی بےوقوفی سے قیامت کا انکار اس بناء پر کرتے ہیں کہ انہیں مرنے اور مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا بہت بعید بلکہ محال نظر آتا ہے ان کی ہدایت کے لئے حق جل شانہ نے اپنی قدتر کی چند نشانیوں میں غور کرنے کا ان آیتوں میں ارشاد فرمایا ہے اور اللہ کی قدرت کی نشانیاں تو آسمان و زمین میں بیشمار ہیں، یہاں ان میں سے ایسی چار چزیوں کا ذکر فرمایا جو عرب کے بادیہ نشین لوگوں کے مناسب حال ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو کر بڑے بڑے سفر طے کرتے ہیں اس وقت ان کے سب سے زیادہ قریب اونٹ ہوتا ہے اوپر آسمان اور نیچے زمین اور دائیں بائیں اور آگے پیچھے پہاڑوں کا سلسلہ ہوتا ہے انیں چاروں چیزوں میں ان کو غور کرنے کا حکم دیا گیا کہ دوسری آیات قدرت کو بھی چھوڑو انہیں چار چیزوں میں غور کرو تو حق تعالیٰ کی ہر چیز پر قدرت کاملہ کا مشاہدہ ہوجائے گا۔- اور جانوروں میں اونٹ کی کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو خاص طور سے غور کرنے والے کے لئے حق تعالیٰ کی حکمت وقدرت کا آئینہ بن سکتی ہیں۔ اول تو عرب میں سب سے زیادہ بڑا جانور اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے اونٹ ہی ہے، ہاتھی وہاں ہوتا نہیں دوسرے حق تعالیٰ نے اس عظیم الحبثہ جانور کو ایسا بنادیا ہے کہ عرب کے بدو اور غریب مفلس آدمی بھی اس اتنے بڑے جانور کے پالنے رکھنے میں کوئی مشکل محسوس نہ کریں کیونکہ اس کو چھوڑ دیجئے تو یہ اپنا پیٹ خود بھر لیگا اونچے درختوں کے پتے توڑنے کی زحمت بھی آپ کو نہیں کرنا پڑتی یہ خود درختوں کی شاخیں کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔ ہاتھی اور دوسرے جانوروں کی سی اس کی خوراک نہیں جو بڑی گراں پڑتی ہے۔ عرب کے جنگلوں میں پانی ایک بہت ہی کمیاب چیز ہے، ہر جگہ ہر وقت نہیں ملتا۔ قدرت نے اس کے پیٹ میں ایک ریزرو ٹینکی ایسی لگا دی ہے کہ سات آٹھ روز کا پانی پی کر یہ اس ٹنکی میں محفوظ کرلیتا ہے اور تدریجی رفتار سے وہ اس کی پانی کی ضرورت کو پورا کردیتا ہے۔ اتنے اونچے جانور پر سوار ہونے کے لئے سیڑھی لگانا پڑتی مگر قدرت نے اس کے پاؤں کو تین تہہ میں تقسیم کردیا یعنی ہر پاؤں میں دو گھٹنے بنا دیئے کہ وہ طے کر کے بیٹھ جاتا ہے تو اس پر چڑھنا اور اترنا آسان ہوجاتا ہے۔ محنت کش اتنا ہے کہ سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ عرب کے میدانوں میں دن کا سفر دھوپ کی وجہ سے سخت مشکل ہے قدرت نے اس جانور کو رات بھر چلنے کا عادی بنادیا ہے۔ مسکین طبع ایسا ہے کہ ایک لڑکی بچی اس کی مہاپکڑ کر جہاں چاہے لیجائے اس کے علاوہ اور بہت سی خصوصیات ہیں جو انسان کو حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت بالغہ کا سبق دیتی ہیں۔ آخر سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے فرمایا کہ آپ کو ہم نے اس پر مسلط نہیں کیا کہ سب کو مومن ہی بنادیں لست علیھم بمصیطر بلکہ آپ کا کام تبلیغ کرنے اور نصیحت کرنے کا ہے وہ کر کے آپ بےفکر ہوجائیں، ان کا حساب کتاب اور جزا و سزا سب ہمارا کام ہے۔- تمت سورة الغاشیہ بحمداللہ لیلتہ یوم الاثنین 19 شعبان 1391 ھ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ١٧ ۪- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) - إبل - قال اللہ تعالی: وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ [ الأنعام 144] ، الإبل يقع علی البعران الکثيرة ولا واحد له من لفظه . وقوله تعالی: أَفَلا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ [ الغاشية 17] قيل : أريد بها السحاب فإن يكن ذلک صحیحاً فعلی تشبيه السحاب بالإبل وأحواله بأحوالها .- وأَبَلَ الوحشيّ يأبل أُبُولًا، وأبل أَبْلًا اجتزأ عن الماء تشبّها بالإبل في صبرها عن الماء .- وكذلك : تَأَبَّلَ الرجل عن امرأته : إذا ترک مقاربتها وأَبَّلَ الرجل : کثرت إبله، وفلان لا يأتبل أي : لا يثبت علی الإبل إذا ركبها، ورجل آبِلٌ وأَبِلٌ: حسن القیام علی إبله، وإبل مُؤَبَّلة : مجموعة . والإبّالة : الحزمة من الحطب تشبيهاً به، وقوله تعالی: وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْراً أَبابِيلَ- [ الفیل 3] أي : متفرّقة کقطعات إبلٍ ، الواحد إبّيل - ( اب ل ) الابل ۔ اونٹ کا گلہ ۔ اس کا واحد اس مادہ سے نہیں آتا قرآن میں ہے ۔ وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ [ الأنعام : 144] اور دو اونٹوں میں سے ۔ اور آیت کریمہ ۔ أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ [ الغاشية : 17] کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے عجیب ) پیدا کئے گئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ ابل بمعنی سحاب ہے یہ قول صرف معنی تشبیہ کے اعتبار سے صحیح ہوسکتا ہے کیونکہ کثرت اسفار میں بادل اور اونٹ میں یک گونہ مشابہت پائی جاتی ہے ۔ ابل الوحشی أُبُولًاوابل ابلا ۔ وحشی جانور کا اونٹ کی طرح پانی سے بےنیاز ہونا ۔ تَأَبَّلَ الرجل عن امرء ته ۔ عورت سے مقاربت ترک کرنا ابل الرجل ۔ بہت اونٹوں والا فلان لا یابل فلاں اونٹ پرجم کر سوار نہیں ہوسکتا ۔ رجل ابل وابل اونٹوں کا اچھی طرح انتظام کرنے والا ابل مؤبلۃ اکھٹے کئے ہوئے اونٹ الابالۃ ۔ لکڑیوں کو گٹھا ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ [ الفیل : 3] میں ابابیل کے معنی یہ ہیں کہ ان پر پرندے اونٹوں کی مختلف ٹکڑیوں کی طرح قطار در قطار بھیجے گئے اور ابابیل کا واحد اببیل ہی ۔- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے
(١٧۔ ٢٠) جب رسول اکرم نے لوگوں سے یہ چیزیں بیان کیں تو مکہ والے بولے کہ اپنی رسالت پر کوئی دلیل پیش کرو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مکہ والو اونٹ کی ساخت اور اس کی شدت قوت کو نہیں دیکھتے اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ تمام مخلوق پر کس طرح بلند کیا گیا اور پہاڑوں کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں زمین پر قائم کیا گیا کہ کوئی چیز بھی انہیں حرکت نہیں دے سکتی اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے پانی پر بچھائی گئی یہ سب نشانیاں ہیں۔- شان نزول : اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (الخ)- ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے جنت کی نعمتوں کو بیان کیا تو گمراہوں کی جماعت اس سے متعجب ہوئی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
آیت ١٧ اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ ۔ ” تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ انہیں کیسے بنایا گیا ہے “- کیا یہ لوگ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے ؟ اور نہیں تو یہ اونٹ کی تخلیق کو ہی دیکھ لیتے کہ اس جانور کے جسم کی ریگستان کے ماحول کے ساتھ کس قدر ہم آہنگی ہے ۔ ریگستان کی گرمی میں یہ کئی کئی دن کھائے پئے بغیر چلتا رہتا ہے۔ اس کے پائوں ایسے بنائے گئے ہیں کہ ریت میں نہیں دھنستے۔
2: عرب کے لوگ عام طور سے صحراوں میں اُونٹوں پر سفر کرتے تھے، اور اُونٹ کی تخلیق میں جو عجیب خصوصیات ہیں، ان سے واقف تھے، نیز اُونٹوں پر سفر کرتے وقت انہیں آسمان، زمین اور پہاڑ نظر آتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ اگر اپنے آس پاس کی چیزوں پر ہی غور کرلیں تو انہیں پتہ چل جائے کہ جس ذات نے کائنات کی یہ حیرت انگیز چیزیں پیدا فرمائی ہیں، اُسے اپنی خدائی میں کسی شریک کی ضرورت نہیں ہوسکتی، نیز یہ کہ جو اﷲ تعالیٰ کائنات کی ان چیزوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ یقینا اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ اِنسانوں کو مرنے کے بعد دُوسری زندگی عطا کر دے، اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے۔ کائنات کا یہ عظیم کارخانہ اﷲ تعالیٰ نے یونہی بے مقصد پیدا نہیں فرمایا ہے، بلکہ اس کا مقصد یہی ہے کہ نیک لوگوں کو ان کی نیکی کا اِنعام دیا جائے، اور بدکاروں کو اُن کی بدکاری کی سزا دی جائے۔