شفع اور وتر سے کیا مراد ہے اور قوم عاد کا قصہ فجر تو ہر شخص جانتا ہے یعنی صبح اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح ، اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز ، اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں لوگوں نے پوچھا اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں؟ فرمایا یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ عشر سے مراد عیدالاضحی کے دس دن ہیں اور وتر سے مرادعرفے کا دن ہے اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے واللہ اعلم ۔ وتر سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے حضرت واصل بن سائب رضی اللہ عنہ نے حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وتر سے مراد یہی وتر نماز ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں شفع عرفہ کا دن ہے اور وتر عیدالاضحی کی رات ہے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ شفع کیا ہے اور وتر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا آیت ( فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ٢٠٣ ) 2- البقرة:203 ) میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ شفع ہے اور من تاخر میں جو ایک دن ہے وہ وتر ہے یعنی گیارہویں بارہویں ذی الحجہ کی شفع اور تیرھویں وتر ہے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن شفع ہے اور آخری دن وتر ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے وہ وتر ہے وتر کو دوست رکھتا ہے زید بن اسلم فرماتے ہیں اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں شفع بھی ہے اور وتر بھی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق شفع اور اللہ وتر ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع صبح کی نماز ہے اور وتر مغرب کی نماز ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع سے مراد جوڑ جوڑ اور وتر سے مراد اللہ عز و جل جیسے آسمان ، زمین ، تری ، خشکی جن انس سورج چاند وغیرہ قرآن میں ہے آیت ( وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 49 ) 51- الذاريات:49 ) ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کر لو یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے ایک حدیث میں ہے کہ شفع سے مراد وہ دن ہیں اور وتر سے مراد تیسرا دن ۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں شفع ہے جیسے صبح کی دو ظہر عصر اور عشاء کی چار چار اور وتر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے وتر ہیں اور اسی طرح آخری رات کا وتر ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے بعض صحابہ سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمران بن حصین پر موقوف ہے ، واللہ اعلم ۔ امام ابن جریر نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا ۔ پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور والفجر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ فجر کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہو گا ۔ جیسے آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ 17ۙ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ 18ۙ ) 81- التكوير:17 ) میں عکرمہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے حجر سے مراد عقل ہے ، حجر کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں ۔ ، خطیم کو بھی حجر البیت اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے حجر یمامہ اور اسی لیے عرب کہتے ہیں حجر الحاکم علی فلان جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ حجرا محجورا تو فرماتا ہے کہ ان میں عقل مندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے تو فرمایا ہے کہ کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کر دیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے ، اللہ کی نافرمانی کرتے ، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول حضرت ہود علیہ السلام آئے تھے یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بے ایمانوں کو تیز و تند خوفناک اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہو گئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے سورہ الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے ارم ذات العماد یہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہو جائے یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکے اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔ آیت ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 69 ) 7- الاعراف:69 ) یعنی یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی تمہیں چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو اور جگہ ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست طاقت و قوت والا ہے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے ارم ان کا دار السلطنت تھا ۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے ۔ مثلھا کی ضمیر کا مرجع عماد بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو لم یجعل کہا جاتا نہ کہ لم یخلق ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو یچارے سب کے سب دب کر مر جاتے حضرت ثور بن زید دیلی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں میں نے ستون بلند کیے ہیں میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں جو امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکالے گی غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند و بالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے تھے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آ چکا ہے یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے واللہ اعلم ۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ ارم ذات العماد ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہو سکتا ہے یا عطف بیان دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا ، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کر دیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑ جائے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسرے چاندی کی اس کے مکانات باغات محلے وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں پھل تیار ہیں ، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے در و دیوار خالی ہیں کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں ، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں کبھی یمن میں کبھی عراق میں کبھی کہیں کبھی کہیں ۔ وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں ، ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں اپنے گم شدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا ، گھوما پھرا ، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا ، ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سندا صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریض اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بےوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے کبھی بخور کے بہانے سے کبھی کسی اور طرح سے ان سے یہ مکار روپے وصول کر لیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے نہ کوئی دیو بھوت جن پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے ۔ امام ابن جریر نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد و لیکن ٹھیک نہیں یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کی تراش لیا کرتے تھے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ١٤٩ۚ ) 26- الشعراء:149 ) یعنی تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو ۔ اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں عربی شعر بھی ہیں ابن اسحاق فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القری میں رہتے تھے عادیوں کا قصہ پورا پورا سورہ اعراف میں ہم بیان کر چکے ہیں اب اعادہ کی ضرورت نہیں پھر فرمایا میخوں والا فرعون اوتاد کے معنی ابن عباس نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہو گئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی ، اللہ ان پر رحم کرے ، پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا ۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہو گئے ، تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے سن رہا ہے سمجھ رہا ہے وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم وجور سے پاک ہے یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے معاذ مومن حق کا قیدی ہے اے معاذ مومن تو امید و بیہم کی حالت میں ہی رہتا ہے جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہو جائے ۔ اے معاذ مومن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے قرآن اس کی دلیل ہے خوف اس کی حجت ہے شوق اس کی سواری ہے نماز اس کی پناہ ہے روزہ اس کی ڈھال ہے صدقہ اس کا چھٹکارا ہے سچائی اس کی امیر ہے شرم اس کا وزیر ہے اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے اس کے راوی یونس اللہ اور ابو حمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابو حمزہ ہی کا کلام ہو ، اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا لوگو جہنم کے ساتھ پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہو گا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہو گی یہاں امانتداری کا سوال ہو گا جو امانت دار ہو گا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہو گی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پا سکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہو گی اور یہ کہہ رہی ہو گی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جسے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں آیت ( ان ربک لبالمر صادر ) یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں ۔
1۔ 1 اس سے مراد مطلق فجر ہے، کسی خاص دن کی فجر نہیں۔
[١] فجر یا سپیدہ ئسحر کے نمودار ہونے کے وقت کی اہمیت یہ ہے کہ اس وقت غفلت سے سوئی ہوئی ساری دنیا کو بیداری کا پیغام ملتا ہے۔ رات کو انسان تھکن سے چور ہو کر سوتا ہے اور صبح جب بیدار ہوتا ہے تو یہ بالکل تازہ دم ہوتا ہے۔
والفجر :” الفجر “ سے مراد صبح ہے۔ سورة تکویر میں بھی یہ قسم مذکور ہے :(والصبح اذا تنفس) (التکویر : ١٨)” اور قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لیتی ہے۔ “ ضروری نہیں کہ اس سے کسی خاص دن کی صبح ہی مراد لی جائے، ہر صبح ہی قیامت کی دلیل ہے، جس کے ساتھ سوئی ہوئی مخلوق بیدار ہوجاتی ہے اور موت کے بعد اٹھنے کا منظر سامنے آجاتا ہے۔
خلاصہ تفسیر - قسم ہے (فجر کے وقت) کی اور (ذی الحجہ کی) دس راتوں (یعنی دس تاریخوں) کی کہ وہ نہایت فضیلت والی ہیں کذا فسر فی الحدیث) اور جفت کی اور طاق کی (جفت سے مراد دسویں تاریخ ذی الحجہ کی اور طاق سے نویں تاریخ، کذا فی الحدیث اور ایک حدیث میں ہے کہ اس سے نماز مراد ہے کہ کسی کی طاق رکعتیں ہیں کسی کی جفت، اور پہلی حدیث کو روایتہ بھی واضح کہا گیا ہے کہ، کذا فی الروح اور درایتہ بھی وہ ارجح ہے کیونکہ اس سورت میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی وہ سب زمانے اور اوقات کی قسم سے ہیں۔ درمیان میں شفع اور وتر بھی اوقات ہی کی قسم سے ہو تو تناسب واضح رہتا ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ شفع اور وتر بھی اوقات ہی کی قسم سے ہوت تو تناسب واضح رہتا ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ شفع و وتر سے مراد ہر وہ جفت اور طاق ہوں جو لائق تعظیم ہیں، اوقات و ایام بھی اس میں داخل ہیں اور عدد رکعات نماز بھی) اور (قسم ہے) رات کی جب وہ چلنے لگے (یعنی گزرنے لگے، کقولہ تعالیٰ والیل اذا ادبر۔ آگے بطور جملہ معترضہ کے تاکید کے لئے اس قسم کا عظیم ہونا بیان فرماتے ہیں کہ) کیا اس (قسم مذکور) میں عقلمند کے واسطے کافی قسم بھی ہے (یہ استفہام تقریر و تاکید کے لئے یعنی ان مذکورہ قسموں میں ہر قسم تاکید کلام کے لئے کافی ہے اور گو سب قسمیں جو قرآن میں مذکور ہیں ایسی ہی ہیں مگر اہتمام کے لئے اس کے کافی ہونے کی تصریح فرما دی کما مرفی قولہ تعالیٰ فی سورة الواقعہ وانہ لقسم لو تعلمون عظیم اور جواب قسم مقدر ہے کہ منکروں کو ضرور سزا ہوگی کما فی الجلالین جس پر آئندہ کلام رینہ ہے جس میں منکرین سابقین کی تعذیب کا ذکر ہے یعنی) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے پروردگار نے قوم عاد یعنی قوم ارم کے ساتھ کیا معاملہ کیا جن کے قدو قامت ستون (وعمود) جیسے (دراز) تھے (اور) جن کی برابر (زور و قوت میں دنیا بھر کے) شہروں میں کوئی شخص نہیں پیدا کی اگی (اس قوم کے دو لقب ہیں، عاد اور ارم، کیونکہ عاد بیٹا ہے عاص کا اور وہ ارم کا اور وہ سام بن نوح کا کبھی ان کو باپ کے نام پر عاد کہتے ہیں اور کبھی دادا کے نام پر ارم کہتے ہیں اور اس ارم کا ایک بیٹا عابر ہے اور عابر کا یٹا ثمود جس کے نام سے ایک قوم مشہور ہے پس عاد اور ثمود دونوں ارم میں جاملے ہیں۔ عاد بواسطہ عاص کے اور ثمود بواسطہ عابر کے اور یہاں ارم اس لئے بڑھا دیا کہ اس قوم عاد میں دو طبقے ہیں، ایک متقدمین جن کو عاد اولیٰ کہتے ہیں دوسرے متاخرین جن کو عاد اخری کہتے ہیں، پس ارم بڑھا دینے سے اشارہ ہوگیا کہ عاد اولیٰ مراد ہے کیونکہ بوجہ قرب و قلت وسائط کے ارم کا اطلاق عاد اولیٰ پر ہوتا ہے (کذا فی الروح و ہذا التحقیق عندی قابض علی ماسبق فی الاعراف والنجم واللہ اعلم) اور (آگے عاد کے بعد دوسری ہلاک ہونے والی امتوں کا بیان فرماتے ہیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ) قوم ثمود کے ساتھ (کیا معاملہ کیا) جو وادی القریٰ میں (پہاڑ کے) پتھروں کو تاشا کرتے تھے (اور مکانات بنایا کرتے تھے۔ وادی القریٰ ان کے شہروں میں سے ایک شہر کا نام ہے جیسا ایک کا نام حجر ہے اور یہ سب حجاز اور شام کے درمیان میں ہیں اور سب میں ثمود رتے تھے کذا فی بعض التفاسیر) اور میخوں والے رفعون کے ساتھ (درمنثور میں ابن مسعود و سعید بن جبیرو مجاہد و حسن وسدی سے اس کی تفسیر میں منقول ہے کہ وہ جس کو سزا دیتا اس کے چاروں ہاتھ پاؤں چار مخیوں سے باندھ کر سزا دیتا اور ایک تفسیر اس کی سورة ص میں گزر چکی آگے سب کی صفت مشترکہ فرماتے ہیں کہ) جنہوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا اور ان میں بہت فساد مچا رکھا تھا سو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا (یعنی عذاب نازل کیا پس عذاب کو کوڑے سے اور اس کے نازل کرنے کو برسانے سے تعبیر فرمایا، آگے اس عذاب کی علت اور موجودین کی عبرت کے لئے ارشاد ہے کہ) بیشک آپ کا رب نافرمانوں کی گھات میں ہے (جن میں سے مذکورین کو تو ہلاک کردیا اور موجودین کو عذاب کرنے والا ہے) سو (اس کا مقضنایہ تھا کہ کفار موجودین عبرت پکڑتے اور اعمال موجبہ للعذاب سے بچتے لیکن کافر) آدمی (کا یہ حال ہے کہ اعمال موجبہ للعذاب کو اختیار کرتا ہے جن سب کی اصل حب دنیا ہے چناچہ اس) کو جب اس کا پروردگار آزماتا ہے یعنی اس کو ظاہرا انعام اکرام دیتا ہے (مثل مال و جاہ وغیرہ جس سے مقصود اس کی شکر گزاری کا دیکھنا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو آزمانے سے تعبیر فرمایا) تو وہ (اس کو اپنا حق لازم سمجھ کر فخر و غرور سے) کہتا ہے کہ میرے رب نے میری قدر بڑھا دی (یعنی میں اس کا مقبول ہوں کہ مجھ کو ایسی ایسی نعمتیں دیں) اور جب اس کو (دوسری طرح) آزماتا ہے یعنی اس کی روزی اس پر تنگ کردیتا ہے (جس سے مقصود اس کے صبر و رضا کا دیکھنا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو آزمانے سے تعبیر فرمایا) تو وہ شکایت کرتا ہے) کہتا ہے کہ میرے رب نے میری قدر گھٹا دی (یعنی مجھ کو باوجود استحقاق اکرام کے اپنی نظر سے آج کل گرا رکھا ہے کہ دنیوی نعمتیں کم ہوگئیں، مطلب یہ کہ کافر دنیا ہی کو مقصود بالذات سمجھتا ہے کہ اس کی فراخی کو دلیل مقبولیت اور اپنے کو اس کا متحق اور تنگی کو دلیل مرد و دیت اور اپنے کو اس کا غیر مستحق سمجھتا ہے پس اس میں دو غلطیاں ہیں، ایک دنیا کو مقصود بالذات سمجھنا جس سے آخرت کا انکار اور اس سے اعراض پیدا ہوتا ہے اور دوسرے دعوائے استحقاق جس سے نعمت پر فخر و غرور اور ناشکری اور مصیبت پر شکوہ اور لئے صبری پیدا ہوتی ہوتی ہے اور یہ سب اعمال سبب عذاب ہیں، آگے اس پر زجر و تنبیہ ہے کہ) ہرگز ایسا نہیں (یعنی نہ تو دنیا مقصود بالذات ہے اور نہ اس کا ہونا نہ ہونا دلیل مقبولیت یا مخذولیت کی ہے اور نہ کوئی کسی اکرام کا مستحق ہے اور نہ کوئی صبر و شکر کے وجوب سے مستثنیٰ ہے آگے بصیغہ خطاب بطور التفات کے فرماے ت ہیں کہ تم لوگوں میں صرف یہی اعمال سبب عذاب نہی) بلکہ (تم میں اور اعمال بھی مذموم و نامرضی عنداللہ و موجب عذاب ہیں چنانچہ) تم لوگ یتیم کی (کچھ) قدر (اور خاطر) نہیں کرتے ہو (مطلب یہ کہ یتیم کی اہانت اور اس پر ظلم کرتے ہو کہ اس کا مال کھا جاتے ہو) اور دوسروں کو بھی مسکنی کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتے (یعنی دوسروں کے حقوق واجبہ نہ خود ادا کرتے ہو اور نہ اوروں کو حقوق واجبہ ادا کرنے کو کہتے ہو اور عملاً اس کے تارک اور اعتقاداً اس کے منکر ہو اور کافر کے لئے ترک واجب زیادتی عذاب کا سبب ہوتا ہے اور اعتقاد کا فاسد یعنی کفر و شرک اصل عذاب کی بنیاد ہی اور (تم) میراث کا مال سارا سمیٹ کر کھا جاتے ہو (یعنی دوسروں کا حق بھی کھا جاتے ہو اور میراث بتفصیل موجود گو مکہ مکرمہ میں مشروع نہ تھی مگر نفس میراث شرع ابراہیمی و اسماعیلی سے متوارث چلی آتی تھی چناچہ جاہلیت میں بچوں اور لڑکیوں کو میراث کا مستحق نہ سمجھنا اس کی دلیل ہے کہ میراث کا حکم پہلے سے بھی تھا جس کا بیان سورة نساء کے پہلے رکوع آیت للرجال نصیب الخ کے تحت میں گزر چکا ہے اور (تم لوگ) مال سے بہت ہی محبت رکھتے ہو (اور اعمال مذکورہ سب اسی کی فرع ہیں کیونکہ حب دنیا سب خطیبات کی اصل ہے۔ غرض یہ سب اعمال قولیہ وفعلیہ و حالہ موجب تعذیب ہیں۔ پس انسان کا یہ حال ہے کہ مضامین عبرت سن کر بجائے اس کے عبرت پکڑتا ایسے اعمال اختیار کرتا ہے جو اور زیادہ موجب عذاب ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا ہے کمال قال تعالیٰ ان ربک لبا لمرصاد آگے ان لوگوں پر زجر و تنبیہ ہے جو ان افعال کو سبب عذاب نہیں سمجھتے) ہرگز ایسا نہیں (جیسا تم سمجھتے ہو کہ ان اعمال پر عذاب نہ ہوگا، ضرور ہوگا، آگے جزاء و سزا کا وقت بتلاتے ہیں جس میں ان کو عذاب اور اہل اطاعت کو اجر وثواب ملے گا پس ارشاد ہے کہ) جس وقت زمین کے (کے بلند اجزاء پہاڑ وغیرہ) کو توڑ توڑ کر (اور) ریزہ کر کے زمین کو برابر کردیا جاوے گا (کقولہ تعالیٰ لا تری فیھا عوجاوہ امتا سورة طہ) اور آپ کا پروردگار اور جوق جوق فرشتے (میدان محشر میں) آویں گے (یہ حساب کے وقت ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا آنا متشابہات میں سے ہے جس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) اور اس روز جہنم کو لایا جاوے گا (جیسا سورة مدثر میں وما یعلم جنود ربک کے متعلق بیان ہوچکا ہے) اس روز انسان کو سمجھ آوے گی اور اب سمجھ آنیکا موقع کہاں رہا (یعنی اب سمجھ آنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ دار الجزاء رہے دارالعمل نہیں۔ آگے سمجھ آنے کے بعد جو اس کا قول ہوگا اس کا بیان ہے کہ وہ) کہے گا کاش میں اس زندگی (اخروی) کے لئے کوئی (نیک) عمل آگے بھیج لیتا پس اس روز نہ تو خدا کے عذاب کی برابر کوئی عذاب دینے والا نکلے گا اور نہ اس کے جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا نکلے گا (یعنی ایسی سخت سزا اور قید کرے گا کہ دنیا میں کبھی کسی نے کسی کو نہ اتنیھ سخت سزا دی ہوگی نہ ایسی سخت قید کی ہوگی یہ سزا تو ان لوگوں کی ہوگی جو اعمال عذاب کے مرتکب ہوئے اور جو اللہ کے فرمانبردار تھے ان کو ارشاد ہوگا کہ) اے اطمینان والی روح (یعنی جس کو امر حق میں یقین واذعان تھا اور کسی طرح کا شک و انکار نہ تھا اور تعبیر روح سے بااعتبار جزء اشرف کے ہے) تو اپنے پروردگار (کے جوار رحمت) کی طرف چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش، پھرا (ادھر چل کر) تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا (یہ بھی نعمت روحانی ہے کہ انس اور وہ تجھ سے خوش، پھر (ادھر چل کر) تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا ( یہ بھی نعمت روحانی ہے کہ انس کے لئے احباب سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں) اور میری جنت میں داخل ہوجا (لفظ مطمئنہ میں ان لوگوں کے اعمال حسنہ کی طرف اشارہ ہوگیا اور اعمال حسنہ کی طرف اشارہ اور اعمال عذاب کی تفصیل بیان فرمانا شاید اس لئے ہے کہ زیادہ مقصود یہاں اہل مکہ کو سنانا ہے اور اس وقت وہاں ایسے اعمال کے مرتکب زیادہ تھے) - معارف ومسائل - اس سورت میں پانچ چیزوں کی قسم کھا کر اس مضمون کی تاکید کی گئی ہے جو آگے ان ربک لبا لمرصاد میں بیان ہوا ہے یعنی اس دنیا میں تم جو کچھ کر رہے ہو اس پر جزاء و سزا ہونا لازمی اور یقینی ہے تمہارا رب تمہارے سب اعمال کی نگرانی میں ہے خواہ اسی جملے ان ربک لبالمرصاد کو جواب قسم کہا جائے یا مخدوف قرار دیا جائے۔- وہ پانچ چیزیں جن کی قسم کھائی ہے ان میں پہلی چیز فجر یعنی صبح صادق کا وقت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مراد ہر روز کی صبح ہو کر وہ عالم میں ایک انقلاب عظیم لاتی ہے اور حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ الفجر کے الف لام کو عہد کا قرار دے کر اس سے کسی خاص دن کی فجر مراد ہو مفسرین صحابہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت ابن عباس ابن زبیر سے پہلے معنے یعنی عام وقت فجر کسی روز کا ہو منقول ہے اور حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں اس سے مراد ماہ محرم کی پہلی تاریخ کی فجر ہے جو اسلامی قمری سال کا آغاز ہے۔ حضرت قتادہ نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔- اور بعض حضرات مفسرین نے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم النحر کی صبح اس کی مراد قرار دی ہے۔ مجاہد و عکرمہ کا یہی قول ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی ایک روایت میں یہ قول منقول ہے وجہ اس یوم النحر کی تخصیص کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن کے لئے ایک رات ساتھ لگائی ہے جو اسلامی اصول کے مطابق دن سے پہلے ہوتی ہے صرف یوم النحر ایسا دن ہے کہ اسکے ساتھ کوئی رات نہیں کیونکہ یوم النحر سے پہلے جو رات ہے وہ یوم النحر کی نہیں بلکہ شرعاً عرفہ ہی کی رات قرار دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی حج کرنے والا عرفہ کے دن میدان عرفان میں نہ پہنچ سکا رات کو صبح صادق سے پہلے کسی وقت بھی عرفات میں پہنچ گیا تو اس کا وقوف معتبر اور حج صحیح ہوجاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ روز عرفہ کی دو راتیں ہیں ایک اس سے پہلے دوسری اسکے بعد اور یوم النحر کی کوئی رات نہیں، اس لحاظ سے صبح یوم النحر تمام ایام دنیا میں ایک خاص شان رکھتی ہے (قرطبی)
وَالْفَجْرِ ١ ۙ- فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو
یہ پوری سورت مکی ہے اس میں تیس آیات اور ایک سو انتالیس کلمات اور پانچ سو ستانوے حروف ہیں۔
آیت ١ وَالْفَجْرِ ۔ ” قسم ہے فجر کی۔ “- سورة الفجر کی ابتدائی آیات قسموں کے حوالے سے مشکلات القرآن میں سے ہیں اور ان کے بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ بہرحال اس پہلی آیت کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ اس سے ١٠ ذی الحجہ کی فجر مراد ہے جس کے بعد قربانی ہوتی ہے اور یہ دن مناسک ِحج کے حوالے سے بنیادی اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔