10۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ بڑے لشکروں والا تھا جس کے پاس خیموں کی کثرت تھی جنہیں میخیں گاڑ کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یا اس کے ظلم وستم کی طرف اشارہ ہے کہ میخوں کے ذریعے وہ لوگوں کو سزائیں دیتا تھا۔
[٩] فرعون اور قوم فرعون :۔ تیسری سرکش قوم فرعون اور اس کی قوم تھی۔ اور فرعون کو میخوں والا کہنے کی بھی کئی توجیہات بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ میخوں والے سے مراد اس کی سلطنت کی مضبوطی ہے جیسے اس سلطنت کی جڑیں میخوں کی طرح زمین میں ٹھونک دی گئی ہوں۔ دوسری یہ کہ میخوں سے مراد اس کی افواج اور لاؤ لشکر ہیں جن کے بل بوتے پر وہ اللہ کا باغی اور مدمقابل بن بیٹھا تھا۔ تیسری یہ کہ جب اس کے لشکر نقل و حرکت کرتے تو خیموں کو نصب کرنے کے لیے بڑی بڑی میخیں استعمال کرتے تھے۔ اور چوتھی یہ کہ جب اس نے کسی کو سولی چڑھانا ہوتا تو اسے تختہ دار پر رسیوں سے کسنے کے بجائے اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھونک دیا کرتا تھا اور یہ سب باتیں اس کی قوت، اس کی نخوت، غرور اور سنگدلی پر دلالت کرتی ہیں۔ فرعون اور اس کی قوم بھی آخرت کی منکر اور اللہ کی نافرمان تھی۔ ان لوگوں کو اللہ نے بحر قلزم میں غرق کرکے دنیا کو ان کے وجود سے پاک کردیا۔
(وفرعون ذی الاوتاد :” الاوتاد “ ” وتد “ کی جمع ہے، لکڑی یا لوہے وغیرہ کی میخیں۔ ” ذی اوتاد “ ” مخیوں والا “ یعنی بڑے لشکروں والا، جن کے خیمے گاڑنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں میخیں مہیا رہتی تھیں، یا سخت ظالم کہ جس پر ناراضی ہوتا اس کے ہاتھ پاؤں میں میخیں ٹھکرا دیتا تھا۔
و فرعون ذی الاوتاد، اوتاد، وتد کی جمع ہے میخ کو کہتے ہیں۔ فرعون کو ذی الاوتاد کہنے کی مختلف وجوہ حضرات مفسرین نے بیان فرمائی ہیں، مشہور جمہور مفسرین کے نزدیک وہی ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر آچکی ہے کہ اس لفظ میں اسکے ظلم وجور اور وحشیانہ سزاؤں کا ذکر ہے وہ جس پر خفا ہوتا اس کے ہاتھ پاؤں چار میخوں میں باندھ کر یا خود ان میں میخیں گاڑ کر اس کو دھوپ میں لٹا دیتا اور اس پر سانپ بچھو چھوڑ دیتا تھا۔ اور بعض مفسرین نے اس کی اپنی بیوی حضرت آسیہ کے متعلق ایک طویل قصہ انکے مومن ہونے اور پھر فرعون کے سامنے اظہار ایمان کرنے کا اور پھر فرعون کی اسی قسم کی سزا کے ذریعہ ہلاک کرنے کا ذکر کیا ہے۔ (مظہری)
وَفِرْعَوْنَ ذِي الْاَوْتَادِ ١٠ ۠- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- وتد - الوَتِدُ والوَتَدُ ، وقد وَتَدْتُهُ أَتِدُهُ وَتْداً. قال تعالی: وَالْجِبالَ أَوْتاداً- [ النبأ 7] وكيفية كون الجبال أوتادا يختصّ بما بعد هذا الباب، وقد يسكّن التاء ويدغم في الدال فيصير ودّا، والوَتِدَان من الأذن تشبيها بالوتد للنّتوّ فيهما .- ( و ت د ) الوتد والوتد ( ج اوتادا ) کے معنی میخ کے ہیں ۔ وتد تہ اتدہ وتدا کے معنی کسی چیز میں میخ لگا کر اسے مضبوط کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 7] اور پہاڑوں کو ( اس کی ) میخیں نہیں ٹھہرایا ۔ اور پہاڑوں کی زمین کی میخیں ٹھہرانے کی کیفیت اس کے بعد بیان ہوگی ۔ اور کبھی وتد کی تاء کو ساکن اور پھر دال میں ادغام کرکے ود بھی پڑھ لیتے ہیں ۔ الواتدان دونوں کانوں کے سامنے کے حصے جو میخ کی طرح ابھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔
آیت ١٠ وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ ۔ ” اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو میخوں والا تھا۔ “- اوتاد (وتد کی جمع) لوہے کی میخوں کو بھی کہتے ہیں اور لکڑی کے کھونٹوں کو بھی جن کے ساتھ خیموں کی رسیاں باندھی جاتی ہیں۔ چناچہ ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ اس کے لشکروں کے خیموں کے کھونٹوں کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ اس کے لشکر بہت بڑے تھے اور وہ بڑی شان و شوکت کا مالک تھا۔ جب وہ چڑھائی کرتا تو لشکروں کے خیمے نصب کرنے کے لیے کھونٹوں کا ایک بڑا ذخیرہ ان کے ہمراہ ہوتا۔ ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ وہ جس سے ناراض ہوتا اسے صلیب پر چڑھا کر اس کے جسم میں میخیں لگوا دیتا تھا۔ (واللہ اعلم )
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :6 فرعون کے لیے ذوالاوتاد ( میخوں والا ) کے الفاظ اس سے پہلے سورہ ص آیت 12 میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس کی فوجوں کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہو اور میخوں والا کا مطلب فوجوں والا ہو ، کیونکہ انہی کی بدولت اس کی سلطنت اس طرح ہوئی تھی جیسے خیمہ میخوں کے ذریعہ سے مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد فوجوں کی کثرت ہو اور مطلب یہ ہو کہ اس کے لشکر جہاں بھی جا کر ٹھیرتے تھے وہاں ہر طرف ان کے خیموں کی میخیں ہی ٹھکی نظر آتی تھیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد وہ میخیں ہوں جن سے ٹھوک کر وہ لوگوں کو عذاب دیتا تھا ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اہرام مصر کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہو کیونکہ وہ فراعنہ کی عظمت و شوکت کے وہ آثار ہیں جو صدیوں سے زمین پر جمے کھڑے ہیں ۔
6: فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو سزا دینے کے لئے اُن کے ہاتھ پاوں میں میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔