Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یہ حضرت صالح کی قوم تھی اللہ نے اسے پتھر تراشنے کی خاص صلاحیت وقوت عطا کی تھی، حتی کہ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرلیتے تھے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے (وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ 149؀ۚ ) 26 ۔ الشعراء :149)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] ذکر قوم ثمود :۔ دوسری قوم ثمود تھی جسے عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ماہر سنگ تراش تھی۔ پہاڑوں کے اندر اپنے مکان تو کجا شہروں کے شہر پتھروں کو تراش تراش کر بنا رکھے تھے ان لوگوں کا مسکن وادی القریٰ تھا جو مدینہ اور تبوک کے راستہ پر پڑتا ہے۔ یہ بھی آخرت کے منکر فلہٰذا اللہ کے باغی تھے۔ اللہ نے انہیں زلزلے اور چیخ کے عذاب سے تباہ کردیا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ ان کے پتھروں کے مکانوں میں دراڑیں اور شگاف پڑگئے۔ پھر ان میں سے بہت سے مکان پہاڑ کے بوجھ کی وجہ سے کھنڈر بن گئے اور وہ خود زلزلہ اور چیخ کی تاب نہ لاکر مرگئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(وثمود الذین جابوا الصخر بالواد :” جابوا “” جاب یجوب جوباً “ (ن) کاٹنا۔” الصخر) اسم جنس ہے، چٹانیں، مفسرین کہتے ہیں کہ ثمود پہلے لوگ ہیں جنہوں ن ے پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنائے۔ (شوکانی) آج کل اس ” وادی القریٰ “ کا نام ” اعلائ “ ہے جو سعودی عرب میں ہے اور وہ مدائن صالح (جو ثمود کا مرکزی شہر تھا) سے تقریباً بیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ (دیکھیے سورة حجر : ٨٢) (اشرف الحواشی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۝ ٩ ۙ- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- جوب - الجَوْبُ : قطع الجَوْبَة، وهي کا لغائط من الأرض، ثم يستعمل في قطع کلّ أرض، قال تعالی: وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] ، ويقال : هل عندک جَائِبَة خبر ؟ وجوابُ الکلام : هو ما يقطع الجوب فيصل من فم القائل إلى سمع المستمع، لکن خصّ بما يعود من الکلام دون المبتدأ من الخطاب، قال تعالی: فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل 56]- والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - ( ج و ب ) الجوب رض ) اس کے اصل معنی جو بہ قطع کرنے کے میں اور یہ پست زمین کی طرح میں گڑھاسا ) ہوتا ہے ۔ پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] اور غمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی ( قریٰ ) میں پتھر تراشتے اور مکانات بناتے تھے ۔ الجائبتہ ۔ پھیلنے والی ) محاورہ ہے ھن عندک من جایبتہ خبر ۔ کیا تمہارے پاس کوئی نشر ہونے والی خبر ہے ۔ جواب الکلام اور کسی کلام کے جواب کو بھی جواب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قائل کے منہ سے نکل کر فضا کو قظع کرتا ہوا سامع کے کان تک پہنچتا ہے مگر عرف میں ابتداء کلام کرنے کو جواب نہیں کہتے بلکہ کلام کے لوٹا پر جواب کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل 56] تو ان کی قوم کے لوگ ( بولے تو ) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا ۔- جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - صخر - الصَّخْرُ : الحجر الصّلب . قال تعالی: فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ [ لقمان 16] ، وقال :- وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] .- ( ص خ ر ) الصخر - کے معنی سخت پتھر یا چٹان کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ [ لقمان 16] اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] . اور ثمود کے ساتھ ( کیا کیا ) جنہوں نے وادی ( قری ) میں چٹانیں تراش کر ( مکان بنائے )- وادي - قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی:- أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460-- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً- «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] أي : بقَدْرِ مياهها . - ( و د ی ) الوادی - ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(12-9) اور قوم ثمود کو کس طرح ہلاک کیا جو وادی قریٰ میں پہاڑ کے پتھروں کو تراشا کرتے تھے اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور میخوں والا اس واسطے نام پڑا کہ وہ جس کو عذاب دیتا تھا تو چار میخوں سے باندھ کر سزا دیتا تاکہ وہ مرجائے چناچہ اپنی بیوی حضرت آسیہ کو اسی طرح اس نے سزا دی تھی، اس نے سرزمین مصر میں کفر اور نافرمانیاں برپا کر رکھی تھیں اور اس میں قتل اور بتوں کی پرستش سے بہت فساد مچا رکھا رکھا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ۔ ” اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا آپ کے رب نے) جنہوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا تھا۔ “- قومِ ثمود کے لوگ پہاڑوں کو تراشنے کے ماہر تھے۔ وہ بڑے بڑے پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت کشادہ گھر اور محلات بناتے تھے۔ پہاڑوں سے تراشے ہوئے ان کے گھر اور محلات آج بھی موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :5 وادی سے مراد وادی القریٰ ہے جہاں اس قوم نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنائی تھیں غالباً تاریخ میں وہ پہلی قوم ہے جس نے چٹانوں کے اندر اس کی عمارتیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی 57 ۔ 59 ۔ الحجر ، حاشیہ 45 ۔ جلد سوم ، الشعراء حواشی 95 ۔ 99مع تصاویر ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: قومِ ثمود کے پاس حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا۔ ان کے تعارف کے لئے دیکھئے سورۃ اَعراف (۷:۷۳)