13۔ 1 یعنی ان پر آسمان سے اپنا عذاب نازل فرما کر ان کو تباہ برباد یا انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔
[١٠] ان تینوں تاریخی واقعات میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب اقوام آخرت کی منکر تھیں۔ اور جو فرد یا قوم آخرت پر ایمان نہ رکھتی ہو۔ وہ اپنی زندگی بےباکانہ اور شتر بےمہار کی طرح گزارتی اور فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اور جب وہ ایک مخصوص حد سے آگے بڑھ جاتی ہے تو اس کے گناہوں کا ڈول بھر جاتا ہے اور عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتی ہے۔ ان واقعات سے استدلال یہ پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا عقیدہ محض تصوراتی نظر یہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اور جس طرح انسان کسی ٹھوس حقیقت کے مقابلہ پر اتر آنے اور ٹکرانے سے پاش پاش ہوجاتا ہے۔ آخرت کے منکروں کا بھی یہی حال ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
(فصب علیھم ربم سوط عذاب : ان میں سے کسی پر ہم نے پتھر بسرانے والی آندھی بھیجی، کسی کو چیخ نے پکڑ لیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو غقر کردیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة عنکبوت کی آیت (٤٠) کی تفسیر۔
قصب علیہم ربک سوط عذاب، قوم عادوثمود اور قوم فرعون کے شروفساد کا تذکرہ فرماتے ہوئے جو عذاب ان پر نازل ہوا اس کو عذاب کو کوڑا برسانے کے عنوان سے تعبیر کیا ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جس طرح کوڑا مختلف اطراف بدن پر پڑتا ہے ان پر بھی مختلف قسم کے عذاب نازل کئے گئے۔
فَصَبَّ عَلَيْہِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ١٣ - صبب - صَبُّ الماء : إراقته من أعلی، يقال : صَبَّهُ فَانْصَبَّ ، وصَبَبْتُهُ فَتَصَبَّبَ. قال تعالی: أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس 25] ، فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] ، يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ، وصبا إلى كذا صبابة : مالت نفسه نحوه محبّة له، وخصّ اسم الفاعل منه بِالصَّبِّ ، فقیل : فلان صَبٌّ بکذا، والصُّبَّةُ کالصرمة «1» ، والصَّبِيبُ : الْمَصْبُوبُ من المطر، ومن عصارة الشیء، ومن الدّم، والصُّبَابَةُ والصُّبَّةُ : البقيّة التي من شأنها أن تصبّ ، وتَصَابَبْتُ الإناء : شربت صُبَابَتَهُ ، وتَصَبْصَبَ : ذهبت صبابته .- ( ص ب ب ) صب الماء کے معنی اوپر سے پانی گرانا کے ہیں محاورہ ہے صب الماء فانصب وصببتہ فتصب یعنی اس نے اوپر سے پانی گراناچنانچہ پانی گرگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس 25] بیشک ہم نے ہی ( اوپر سے ) پانی برسایافَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی گرایا جائیگا ۔ صب الیٰ کذا صبابۃ ۔ عاشق ہونا اور صفت کا صیغہ خاص کر صب ( بروزن فعل ) آنا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان صب بکذا فلاں اس پر فریفتہ ہے ۔ اور صرمۃ کی طرح صبۃ کے معنی بھی جانوروں کی ٹکڑی یا جماعت کے ہیں الصبیب بارش کا پانی ۔ کسی چیز کا عصارہ ۔ بہایا ہوا خون الصبابۃ والصبۃ کسی چیز کا باقی ماندہ جو گرانے کے لائق ہو تصاببت الاناء ( تفاعل ) میں نے برتن سے باقی ماندہ پانی بھی پی لیا ۔ تصبصب ( تفعلل کسی چیز کا باقی ماندہ بھی ختم ہوجانا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- سوط - السَّوْطُ : الجلد المضفور الذي يضرب به، وأصل السَّوْطِ : خلط الشیء بعضه ببعض، يقال : سُطْتُهُ وسَوَّطْتُهُ ، فالسّوط يسمّى سوطا لکونه مخلوط الطاقات بعضها ببعض، وقوله :- فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] تشبيها بما يكون في الدّنيا من العذاب بالسّوط، وقیل : إشارة إلى ما خلط لهم من أنواع العذاب، المشار إليه بقوله : حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ النبأ 25] .- ( س و ط ) السواط ( چمڑے کا کوڑا ) بٹے ہوئے چمڑے کو کہتے ہیں جس کے ساتھ پیٹا جاتا ہے اصل میں سوط کے معنی کسی چیز کو خلط ملط کرنا کے ہیں اور اس سے فعل سطتہ وسو طتہ آتا ہے اور کوڑے کو سوط اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں بھی چند تسمے بٹنے سے باہم خلط ملط ہوجاتے ہیں اور آیت : ۔ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا نازل کیا ۔ میں عذاب الہی کو دنیاوی سزا کے ساتھ تشبیہ دیکر سوط سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ نزول قرآن کے زمانہ میں کوڑے سے سزا دی جاتی تھی بعض نے کہا ہے کہ سوط عذاب کے لفظ سے انواع عذاب کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف کہ آیت حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ النبأ 25] میں اشارہ فرمایا گیا ہے ۔- عزب - العَازِبُ : المتباعد في طلب الکلإ عن أهله، يقال : عَزَبَ يَعْزُبُ ويَعْزِبُ «3» . قال تعالی: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس 61] ،- ( ع ز ب ) عزب - العازب وہ آدمی جو گھاس کی تلاش میں اپنے اہل عیال سے دور نکل جائے عزب یعزب ویعزب ( ض ن ) دور نکل جانا پوشیدہ ہوجا نا ۔ قرآن میں ہے : ۔- وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے
(16-13) سو آپ کے رب نے ان پر سخت عذاب نازل کیا، اللہ تعالیٰ ان کی گزر گاہ اور تمام مخلوق کی گزر گاہ پر بڑی گھات میں ہے، یا یہ کہ فرشتے راستوں پر بندوں کو سات مقامات پر روکتے ہیں اور سات خصلتوں کے بارے میں باز پرس کرتے ہیں لیکن کافر یعنی ابی بن خلف یا امیہ بن خلف، جب اللہ تعالیٰ اس کو مال و دولت بکثرت دے کر اور عیش و شرت عطا کر کے آزماتا ہے تو وہ بولتا ہے کہ اس سے میرے رب نے میری قدر بڑھا دی اور جب تنگی اور فاقہ کے ذریعے اس کو آزماتا ہے تو وہ بولتا ہے کہ اس سے میرے رب نے میری قدر بڑھا دی اور جب تنگی اور فاقہ کے ذریعے اس کو آزماتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اس سے میرے رب نے میری قدر گھٹا دی
آیت ١٣ فَصَبَّ عَلَیْہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ ۔ ” تو دے مارا ان کے اوپر آپ کے رب نے عذاب کا کوڑا۔ “- چناچہ یہ سب قومیں اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار بنیں اور دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔