19۔ 1 یعنی جس طریقے سے بھی حاصل ہو، حلال طریقے سے حرام طریقے سے۔
تیسری بری خصلت یہ بیان فرمائی وتاکلون التراث اکلا لما، لم کے معنے جمع کرنیکے ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم میراث کا مال حلال و حرام سب کو جمع کرکے کھا جاتے ہو اپنے حصے کے ساتھ دوسوں کا حصہ بھی غصب کرلیتے ہو۔ یہاں خصوصیت سے میراث کے مال کا ذکر کیا گیا حالانکہ ہر ایک مال جس میں حلال و حرام کو جمع کیا گیا ہونا جائز ہی ہے۔ وجہ خصوصیت کی شاید یہ ہو کہ میراث کے مال پر زیادہ نظر رکھنا اور اسکے درپے ہونا بڑی کم ہمتی اور کم حوصلہ ہونے کی دلیل ہے کہ مردار خور جانوروں کی طرح تکئے رہیں کہ کب ہمارا مورث مرے اور کب ہمیں یہ مال تقسیم کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اولو العزم اور باہمت لوگ اپنی کمائی پر خوش ہوتے ہیں۔ مردوں کے مال پر ایسی حریصانہ نظر نہیں ڈالتے۔
وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا ١٩ ۙ- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - لمَم - تقول : لَمَمْتُ الشیء : جمعته وأصلحته، ومنه : لَمَمْتُ شعثه . قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ أَكْلًا لَمًّا[ الفجر 19] واللَّمَمُ : مقاربة المعصية، ويعبّر به عن الصّغيرة، ويقال : فلان يفعل کذا لَمَماً. أي : حينا بعد حين، وکذلک قوله : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] وهو من قولک : أَلْمَمْتُ بکذا . أي : نزلت به، وقاربته من غير مواقعة، ويقال : زيارته إِلْمَامٌ. أي : قلیلة .- ( ل م م ) الممت الشئی کے معنی کسی معنی کو جمع کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ اسی سے لممت شعثہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کی پراگندہ حالت کو سنوارنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ أَكْلًا لَمًّا[ الفجر 19] اور میراث کے مال کو سمیٹ کر کھاجاتے ہو۔ اللمم کے اصل معنی معصیت ک قریب جانے کے ہیں کبھی اس سے صغیر گناہ بھی مراد لے لئے جاتے ہیں محاورہ ہے : فلان یفعل کذا لمما وہ کبھی کبھار یہ کام کرتا ہے ۔ اور ایت کریمہ : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] جو صغیرہ گناہوں کے سو ابڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ میں لمم کا لفظ الممت بکذا سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی کسی چیز کے قریب جانا کے ہیں یعنی ارادہ کرنا مگر مرتکب نہ ہونا ۔ نیز محاورہ ہے : زیارتہ المام یعنی اس کی زیارت مختصر ہوتی ہے ۔
آیت ١٩ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا ۔ ” اور تم ساری کی ساری میراث سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔ “- اس آیت میں انسانوں کے بنائے ہوئے غیر متوازن اور ظالمانہ قوانین وراثت کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس سے یہ بھی مراد ہے کہ تم میں سے جو طاقتور ہے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے تمام وراثت پر قبضہ کرلینا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ قرآن مجید نے دنیا کو مفصل ‘ جامع اور متوازن قوانین وراثت عطا کیے ہیں - اسلام سے قبل عرب معاشرے میں باپ کی پوری وراثت بڑے بیٹے کو منتقل ہوجاتی تھی اور چھوٹے تمام بہن بھائیوں کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ دنیا کے بعض ممالک میں ایسے ظالمانہ قوانین آج بھی نافذ العمل ہیں۔
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :13 عرب میں عورتوں اور بچوں کو تو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ اس باب میں یہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں ۔ اس کے علاوہ مرنے والے کے وارثوں میں جو زیادہ طاقتور اور با اثر ہوتا تھا وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا اور ان سب لوگوں کا حصہ مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے ہوں ۔ حق اور فرض کی کوئی اہمیت ان کی نگاہ میں نہ تھی کہ ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض سمجھ کر حق دار کو اس کا حق دیں خواہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔