[١٣] یعنی کسی کی عزت و ذلت کو ماپنے والی تمہاری قدر ہی سراسرا غلط ہے۔ عزت و ذلت کا اصل معیار پیسہ اور مال و دولت نہیں بلکہ اس کا اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار ہوتا ہے۔ مگر تمہارا یہ حال ہے کہ مال و دولت کو ہی اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو اور اسی پر مر مٹتے ہو۔ یتیموں اور بیواؤں کی عزت کرنا تو درکنار ان کے پاس اگر کوئی چیز موجود ہو تو اسے بھی اڑا لینے کی کوشش کرتے ہو۔ تمہاری پیسہ سے محبت اور بخل کا یہ حال ہے کہ کسی مسکین کی احتیاج دور کرنے کے لیے اسے کچھ دینا یا کھانا کھلانا تو درکنار دوسروں کو ترغیب بھی نہیں دیتے۔ میت کی وراثت سے بیوہ کو لڑکیوں کو اور بچوں سب کو محروم کردیتے ہو۔ اور جس کا زور چلتا ہے وہ ہی ساری میراث ہڑپ کرجاتا ہے تمہیں تو بس پیسہ ہی چاہیے اور اس کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ اختیار کرنے پر پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہو۔ تمہارے لچھن یہ ہوں تو اللہ کے نزدیک تمہاری عزت کیوں ہو ؟۔
چوتھی بڑی خصلت یہ بتلائی وتحبون المال حبا جما، جم کے معنے کثیر کے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم مال کی محبت بہت کرتے ہو، بہت کے لفظ سے اسطرف اشارہ ہوگیا کہ مال کی ایک درجہ میں محبت تو انسان کی فطری تقاضا ہے وہ سبب مذمت نہیں بلکہ اس کی محبت میں حد سے بڑھنا اور انہماک کرنا یہ سبب مذمت ہے۔ کفار کی ان بڑی خصلتوں کے بیان کے بعد پھر اصل مضمون کی طرف عود کیا گیا جو شروع سورت میں پانچ قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہے یعنی آخرت کی جزا وسزا، اس سلسلہ میں اول قیامت کے آنیکا ذکر فرمایا۔- اذا دکت الارض دکا دکا، لفظ دک کے لفظی معنے کسی چیز کو ضرب مار کر توڑنے کے ہیں مراد قیامت کا زلزلہ ہے جو پہاڑوں کو باہم ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دے گا اور دکا دکا کو مکرر لانے سے اسطرف اشارہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ یکے بعد دیگر مسلسل رہے گا۔
وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ٢٠ ۭ- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - جمّا :- صفة مشبّهة من الثلاثيّ جمّ الشیء۔ بالرفع۔ أي كثر باب ضرب، وهو أيضا مصدر سماعيّ للفعل وصف به مبالغة .. وزنه فعل بفتح فسکون .
آیت ٢٠ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ۔ ” اور تم مال سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہو۔ “- دنیوی مال و دولت کی محبت تمہارے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ سورتوں کے اس جوڑے یعنی سورة الفجر اور سورة البلد میں نزول قرآن سے قبل کے عرب معاشرے کے تمدن اور رسم و رواج کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ مثلاً طاقتوروں کے میراث کو زبردستی ہڑپ کر جانے ‘ مال و دولت کی غیر معمولی محبت اور اسی محبت کی وجہ سے خدمت خلق کے کاموں سے پہلوتہی کرنے کی مثالیں اس معاشرے میں عام تھیں۔
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :14 یعنی جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمہیں کوئی فکر نہیں ۔ جس طریقے سے بھی مال حاصل کیا جا سکتا ہو اسے حاصل کرنے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہو تا ۔ اور خواہ کتنا ہی مال مل جائے تمہاری حرص و طمع کی آگ کبھی نہیں بجھتی ۔