22۔ 1 کہا جاتا ہے کہ جب فرشتے، قیامت والے دن آسمان سے نیچے اتریں گے تو ہر آسمان کے فرشتوں کی الگ صف ہوگی اس طرح سات صفیں ہونگیں۔ جو زمین کو گھیر لیں گی۔
[١٦] یہ آیت بھی عقل پرستوں کے لیے آزمائش ہے اور وہ طرح طرح سے اس کی تاویل کرتے ہیں۔ انہیں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے وہ آئے گا کہاں سے ؟ حالانکہ آیت کے الفاظ اتنے واضح ہیں کہ ان میں تاویل کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ فرمائے اسے من و عن تسلیم کرلینا چاہیے۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سات آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے۔ وہاں سے وہ کیسے آئے گا یہ جاننے کے ہم مکلف نہیں جیسے اس کی شان ہے ویسے ہی آئے گا۔ اور اس حال میں آئے گا کہ فرشتے صفیں باندھے قطار در قطار اس کے ساتھ ہوں گے۔ یہی وہ دن ہوگا جب تم لوگوں سے تمارے اعمال کی باز پرس ہوگی۔
(١) وجآء ربک والملک صفاً صفاً : اور دوسرے نفخہ کے ساتھ تمام لوگ زندہ ہو کر اس چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر اتنظار کر رہے ہوں گے، اس وقت رب تعالیٰ جس طرح اس کی شان کے لائق ہے نزول فرمائے گا۔ ساتھ ہی فرشتے صف در صف آئیں گے، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور اعمال نامے پیش کئے جائیں گے۔ انبیاء اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ دیکھیے سورة زمر (٦٩) کی تفسیر۔- (٢) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے خود صاف الفاظ میں اس دن اپنے آنے کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے آنے کے عجیب عجیب مطلب نکالے ہیں۔ چناچہ کسی نے کہا رب کا حکم آئے گا، کسی نے کہا یہ صرف تمثیلی انداز ہے، مطلب صرف یہ ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا رعب اس طرح طاری ہوگا جس طرح بادشاہوں کے آنے کے وقت ہوتا ہے۔ بعض بزرگوں نے ترجمے میں تبدیلی کر کے حاشیہ لکھا ہے :” اصل الفاظ ہیں ” وجآء ربک “ جن کا لفظی ترجمہ ہے ” اور تیرا رب آئے گا ” لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ “ ان بزرگوں کی غلطی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھا کہ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے تو اس کا پہلی جگہ سے منتقل ہونا لازم ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر اترنے یا زمین پر آنے کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ وہ عرش پر نہیں رہا۔ اب تو اللہ کی مخلوق میں بھی اس کے عجائبات ظاہر ہو رہے ہیں کہ بجلی اپنے مستقر میں ہونے کے باوجود ریموٹ کے ذریعے سے بغیر تار کے کہاں تک پہنچ جاتی ہے، خلاق کی صفت تو مخلقو سے بہت ہی برتر ہے۔ پھر اس میں صرف یہی خرابی نہیں کہ اللہ کے آنے کی صفت کا انکار کیا، بلکہ اسے مخلوق سے بھی عاجز جانا کہ مخلوق جہاں چاہے آجا سکتی ہے ، مگر خالق میدان محشر میں فیصلے کے لئے بھی نہیں آسکتا۔ مومن کا کام یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا کہ وہ قیامت کے دن آئے گا تو وہ اس پر ایمان رکھے اور یہ بات اللہ کے سپرد کر دے کہ وہ کس طرح آئے گا۔ یقیناً وہ اسی طرح آئے گا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے اور جس کی تفصیل سمجھنا عاجز مخلوق کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔
وجاء ربک والملک صفا صفا، یعنی آئے گا آپ کا رب اور فرشتے صف بصف مراد میدان حشر میں آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آنے کی کیا شان ہوگی اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ متشا بہات میں سے ہے اور فرشتوں کا صف بصف آنا بظاہر ہے وجای یومذ بجھنم، یعنی لاجائیگا اس روز جہنم کو، جہنم کو لائے جانے کا کیا مطلب ہے اور کس طرح میدان حشر میں لائی جائے گی اس کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ظاہر یہ ہے کہ جہنم جو اب ساتویں زمین کی تہ میں ہے اس وقت وہ بھڑک اٹھے گی اور سمندر سب آگ ہو کر اس میں شامل ہوجائیں گے اس طرح جہنم عرصہ حشر میں سب کے سامنے آجائے گی۔
وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ٢٢ ۚ- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- صف - الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً- [ طه 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ : ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف .- ( ص ف ف ) الصف - ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔
آیت ٢٢ وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ۔ ” اور آپ کا رب جلوہ فرما ہوگا جب کہ فرشتے قطار در قطار حاضر ہوں گے۔ “- سورة الحاقہ میں قیامت کے دن کا ایک منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَالْمَلَکُ عَلٰٓی اَرْجَآئِہَاط وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ۔ ” اور فرشتے ہوں گے اس کے کناروں پر ‘ اور اس دن آپ کے ربّ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے آٹھ فرشتے “۔ سورة الرحمن میں اس دن کے آسمان کی کیفیت کا ذکر یوں آیا ہے : فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ ۔ ” پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور ہوجائے گا گلابی ‘ تیل کی تلچھٹ جیسا۔ “- قرآن مجید میں قیامت کے دن سے متعلق جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ میدانِ حشر اسی زمین پر قائم ہوگا۔ زمین کو کھینچ کر چپٹا وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ۔ (الانشقاق) اور کوٹ کوٹ کر ایسے ہموار کردیا جائے گا کہ اس کے تمام نشیب و فراز ختم ہوجائیں گے لَا تَرٰی فِیْھَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا ۔ (طٰہٰ ) ۔ پہاڑوں کو روئی کے گالوں کی طرح اڑا دیا جائے گا۔ پھر زمین پر اللہ تعالیٰ کا نزول اجلال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تجلی کے ساتھ آٹھ فرشتے نازل ہوں گے۔ دوسرے فرشتے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت لگے گی ‘ حساب کتاب ہوگا اور یوں قصہ زمین برسرزمین ہی طے ہوگا۔ گویا جس زمین پر انسانون نے اپنے اچھے برے اعمال کا ارتکاب و اکتساب کیا ہے ‘ اسی زمین پر ان کا حساب ہوگا۔
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :16 اصل الفاظ ہیں جاء ربک جن کا لفظی ترجمہ ہے تیرا رب آئے گا ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، اس لیے لامحالہ اس کو ایک تمثیلی انداز بیان ہی سمجھنا ہو گا جس سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ اس وقت اللہ تعالی کے اقتدار اور اس کی سلطانی و قہاری کے آثار اس طرح ظاہر ہوں گے جیسے دنیا میں کسی بادشاہ کے تمام لشکروں اور راعیان سلطنت کی مدد سے وہ رعب طاری نہیں ہوتا جو بادشاہ کے بنفس نفیس خود دربار میں آ جانے سے طاری ہو تا ہے ۔