23۔ 1 ستر ہزار لگاموں کے ساتھ جہنم جکڑی ہوئی ہوگی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہونگے جو اسے کھینچ رہے ہونگے (صحیح مسلم) اسے عرش کے بائیں جانب کھڑا کردیا جائے گا پس اسے دیکھ کر تمام مقرب اور انبیاء گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے اور یارب نفسی نفسی پکاریں گے۔ (فتح القدیر) 23۔ 2 یعنی یہ ہولناک منظر دیکھ کر انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنے کفر و معاصی پر نادم ہوگا، لیکن اس روز ندامت اور نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
[١٧] یعنی جب آخرت اور جنت و دوزخ کے منکرین جہنم کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ آج ہمیں جو بھی نصیحت کی جائے اور حکم دیا جائے ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ مگر اس وقت چونکہ ان کی فرمانبرداری اختیاری نہیں اضطراری ہوگی۔ ان کا ایمان لانا بالغیب نہیں بلکہ بالشہادت ہوگا لہذا اس کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ کسی چیز کو دیکھ کر تو ہر کوئی یقین کر ہی لیتا ہے۔ اس دن ایسے لوگ بڑی حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں یہ نصیحت قبول کرلی ہوتی۔ اور آج کے دن کے لیے ہم نے بھی کچھ اچھے کام کیے ہوتے۔
(وجای یومئذ بجھنم : عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یوتی بجھنم یومئذ لھا سبعون الف زمام، مع کل زمام سبعون الف ملک یجزونھا) (مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب جھنم اعادنا اللہم نھا : ٢٨٣٢)” اس دن جہنم اس حال میں لائیج ائیگ ی کہ اس کی ستر ہزار لگا میں ہوں گی، ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔ “
یومئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکری، اس جگہ تذکر سے مراد سمجھ میں آجاتا ہے یعنی کافر کو اس روز سمجھ آئے گی کہ مجھے دنیا میں کیا کرنا چاہئے تھا اور میں نے کیا کیا مگر اس وقت یہ سمجھ میں آنا بےسود ہوگا کہ عمل اور اصلاح حال کا زمانہ گزرچکا آخرت دارالعمل نہیں دارالجزا ہے آگے اس تذکر کا بیان ہے کہ وہ تمنا کرے گا کہ کاش میں دنیا میں کچھ نیک عمل کرلیتا۔ یلیتنی قدمت لحیاتی، پھر اس میں تمنا کا باطل اور غیر مفید ہونا بتلایا کہ اب جبکہ کفر و شرک کی سزا سامنے آگئی اب اس تمنا سے کچھ فائدہ نہیں اب تو عذاب اور پکڑ کا وقت ہے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی برابر کوئی پکڑ نہیں ہوسکتی۔ کفار کے عذاب بیان کرنے کے بعد آخر میں مومن کا ثواب اور ان کا جنت میں داخل کیا جانا ذکر فرمایا ہے۔
وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍؚبِجَہَنَّمَ ٠ۥۙ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى ٢٣ ۭ- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔
(24-26) اور تمنا کرے گا کہ کاش میں اس ابدی حیات کے لیے حیات فانیہ میں کچھ کرلیتا اور اس زندگی کے لیے کچھ نیک اعمال بھیج دیتا، سو قیامت کے دن نہ تو اللہ کے عذاب کے برابر کوئی عذاب دینے والا نکلے گا اور نہ جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا ہوگا، یا یہ مطلب ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کو عذاب دینے پر غلبہ اور قدرت حاصل ہے کسی کو نہیں ہوسکتی۔
آیت ٢٣ وَجِایْٓئَ یَوْمَئِذٍم بِجَہَنَّمَ لا ” اور لے آئی جائے گی اس روز جہنم بھی “- جہنم کا ظہور بھی شاید زمین کے اندر سے ہی ہوگا۔ یعنی جب زمین کو کھینچ کر چپٹا کیا جائے گا تو اس کے اندر کا کھولتا ہوا لاوا باہر نکل آئے گا ‘ جو جہنم کا سماں پیدا کر دے گا۔ (واللہ اعلم )- یَوْمَئِذٍ یَّـتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَـہُ الذِّکْرٰی ۔ ” اس دن انسان کو سمجھ آئے گی ‘ لیکن اب سمجھنے کا کیا فائدہ “- شاہ عبدالقادر (رح) صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” اس دن انسان چیتے گا “ یعنی اس دن انسان کو بہت کچھ یاد آجائے گا کہ وہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لے کر آیا تھا اور اسے نصیحت بھی حاصل ہوجائے گی۔ لیکن اس وقت کی نصیحت سے اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ظاہر ہے فائدہ تو تب ہوتا اگر اس نے دنیا میں نصیحت پکڑی ہوتی۔
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :17 اصل الفاظ ہیں یومیذ یتذکر الانسان و انی لہ الذکری ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس روز انسان یاد کرے گا کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کر کے آیا ہے اور اس پر نادم ہو گا ، مگر اس وقت یاد کرنے اور نادم ہونے کا کیا فائدہ ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس روز انسان کو ہوش آئے گا ، اسے نصیحت حاصل ہو گی ، اس کی سمجھ میں یہ بات آئے گی کہ جو کچھ اسے انبیاء نے بتایا تھا وہی صحیح تھا اور ان کی بات نہ مان کر اس نے حماقت کی ، مگر اس وقت ہوش میں آنے اور نصیحت پکڑنے اور اپنی غلطی کو سمجھنے کا کیا فائدہ ۔
8: اُس وقت اگر کوئی شخص ایمان لانا بھی چاہے تو ایمان اُس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ ایمان تو وہی معتبر ہے جو قیامت اور موت کے آنے سے پہلے پہلے ہو۔