10۔ 1 بار بار وضاحت سے مقصود مشرکین اور یہود کی اسلام دشمنی اور ان کے سینوں میں مخفی عداوت کے جذبات کو بےنقاب کرنا ہے۔
لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً : ان کی مذمت کی تاکید کے لیے دوبارہ ان کے اس فعل بد کا تذکرہ فرمایا۔ بعض مفسرین نے پہلی آیات سے مراد تمام مشرکین اور ان آیات سے مراد یہود مدینہ لیے ہیں، کیونکہ اللہ کی کتاب انھی کے پاس تھی جس کی آیات پر عمل کر کے مسلمان ہونے کے بجائے وہ دنیا کے مفاد کو ترجیح دیتے تھے، اگرچہ اللہ کے احکام کو رد کر کے دنیا کے مفاد کو ترجیح دینا مشرکین و یہود سب کا وتیرہ ہے۔ اس صورت میں ” بِاٰيٰتِ اللّٰهِ “ سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی آیات ہوں گی۔ - وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ : یعنی عہد شکنی اور زیادتی جب بھی ہوئی انھی کی طرف سے ہوئی۔
(آیت) فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ۔ یعنی اگر یہ لوگ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو اب یہ بھی تمہارے دینی بھائی ہیں۔- اس میں بتلا دیا کہ کوئی کیسا ہی دشمن ہو اور کتنی ہی ایذاء اس نے پہنچائی ہو جب وہ مسلمان ہوگیا تو جس طرح اللہ تعالیٰ اس کے سب پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ پچھلے سب معاملات کو دل سے بھلا دیں اور آج سے ان کو اپنا دینی بھائی سمجھیں اور برادرانہ تعلق کے حقوق ادا کریں۔- اسلام برادری میں داخل ہونے کی تین شرطیں :- اس آیت نے واضح کردیا کہ اسلامی برادری میں داخل ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں اول کفر و شرک سے توبہ دوسرے نماز تیسرے زکوٰة۔ کیونکہ ایمان و توبہ تو ایک امر مخفی ہے جس کی حقیقت کا عام مسلمانوں کو علم نہیں ہوسکتا اس لئے اس کی دو ظاہری علامتوں کو بیان کردیا گیا یعنی نماز اور زکوٰة۔- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس آیت نے اہل قبلہ مسلمانوں کے خون کو حرام کردیا، یعنی جو لوگ نماز، زکوٰة کے پابند ہوں اور اسلام کے خلاف کوئی قول و فعل ان کا ثابت نہ ہو وہ تمام احکام میں مسلمان سمجھے جائیں گے، اگرچہ ان کے دل میں صحیح ایمان نہ ہو، یا نفاق ہو۔- حضرت صدیق اکبر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد زکوٰة سے انکار کرنیوالوں پر جہاد کرنے کے لئے اسی آیت سے استدلال فرما کر صحابہ کرام کو مطمئن کیا تھا ( ابن کثیر )
لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُعْتَدُوْنَ ١٠- رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔- ( ذمّة)- اسم بمعنی العهد أو الضمان وقال بعضهم : سمّيت ذمّة لأن كل حرمة يلزمک من تضييعها الذّم يقال لها ذمّة۔ وقال الأزهريّ : الذمّة : الأمان، وزنه فعلة بکسر الفاء جاء عينه ولامه من حرف واحد .- - عدا - والاعْتِدَاءُ :- مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء 14] ،- ( ع د و ) العدو - الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔
(١٠) یہ لوگ کسی مسلمان کے بارے میں نہ کسی قرابت کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی قول وقرار کا اور اللہ سے ڈرتے نہیں ہیں۔ یہی لوگ بعدعہدی وغیرہ کے ذریعہ حرام کاموں کے مرتکب ہورہے ہیں۔