Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

وہ کہ جس نے اللہ کے ڈر اور اللہ کی رضا کی طلب کے لئے بنیاد رکھی اور جس نے مسلمانوں کو ضرر پہنچانے اور کفر کرنے اور پھوٹ ڈلوانے اور مخالفین اللہ و رسول کو پناہ دینے کے لئے بنیاد رکھی یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ یہ دوسرے قسم کے لوگ تو اپنی بنیاد اس خندق کے کنارے پر رکھتے ہیں ۔ جس میں آگ بھری ہوئی ہو اور ہو بھی وہ بنیاد ایسی کمزور کہ آگ میں جھک رہی ہو ظاہر ہے کہ ایک دن وہ آگ میں گر پڑے گی ۔ ظالموں اور فسادیوں کا کام بھی نیک نتیجہ نہیں ہوتے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد ضرار سے دھواں نکلتے دیکھا ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس مسجد کو توڑا اور اس کی بنیادیں اکھیڑ پھینکیں انہوں نے اس کے نیچے سے دھواں اٹھتا پایا ۔ خلف بن بامعین کہتے ہیں میں نے منافقوں کی اس مسجد ضرار کو جس کا ذکر ان آیتوں میں دیکھا ہے کہ اس کے ایک پتھر سے دھواں نکل رہا تھا اب وہ کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنی ہوئی ہے ۔ ان کے ایک بد کرتوت کی وجہ سے ان کے دل میں نفاق جگہ پکڑ گیا ہے جو کبھی بھی ٹلنے والا نہیں یہ شک شبہ میں ہی رہیں گے جیسے کہ بنی اسرائیل کے وہ لوگ جنہوں نے بچھڑا پوجا تھا ان کے دلوں میں بھی اس کی محبت گھر کر گئی تھی ۔ ہاں جب ان کے دل پاش پاش ہو جائیں یعنی وہ خود مر جائیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال سے خبردار ہے ۔ اور خیر و شر کا بدلہ دینے میں باحکمت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 اس میں مومن اور منافق کے عمل کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ مومن کا عمل اللہ کے تقوٰی پر اور اس کی رضامندی کے لئے ہوتا ہے۔ جب کہ منافق کا عمل ریاکاری اور فساد پر مبنی ہوتا ہے۔ جو اس حصہ زمین کی طرح جس کے نیچے سے وادی کا پانی گزرتا ہے اور مٹی کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ وہ حصہ نیچے سے کھوکھلا رہ جاتا ہے۔ جس پر کوئی تعمیر کرلی جائے تو فوراً گرپڑے۔ ان منافقین کا مسجد بنانے کا عمل بھی ایسا ہی ہے جو انہیں جہنم میں ساتھ لے گرے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٢] جرف سے مراد دریا وغیرہ کا ایسا کنارہ ہے جس کے نیچے کی زمین دریا بہا کرلے گیا ہو اور وہ کسی وقت بھی پانی کی ایک ہی ٹکر سے گر کر دریا میں گرپڑے۔ اس آیت میں اللہ کے خوف اور اس کی رضا کو پختہ اور ٹھوس زمین سے اور نفاق کو کھوکھلے گڑھے یا کھائی سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی جس عمل کی بنیاد نفاق پر ہو وہ خواہ دیکھنے میں اچھا نظر آتا ہو، جیسے کوئی مسجد بنانا وہ اسے جہنم کی گہرائیوں میں جاپٹکے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي تَقْوٰى : ” شَفَا “ کنارا ” جُرُفٍ “ ندی نالے یا دریا کا کنارا جس کے نیچے سے پانی مٹی بہا کرلے گیا ہو اور وہ بس گرنے ہی والا ہو، کیونکہ اس کے نیچے کوئی بنیاد ہی نہیں کہ ٹھہر سکے، صرف مٹی کا نیچے سے کھوکھلا تودا ہے۔ ” ھَارٍ “ اسم فاعل ہے ” ھَارَ یَھَارُ (خَافَ یَخَافُ ) “ سے یا ھار یَھُوْرُ (قَالَ یَقُوْلُ ) “ سے۔ اصل ” ھَاءِرٌ“ تھا، جیسا کہ ” خَاءِفٌ“ یا ” قَاءِلٌ“ ، پھر اس میں قلب واقع ہوا تو ” ھَارِیٌ“ ہوگیا اور ” رَاضِیٌ“ سے یاء گرنے کے بعد ” رَاضٍ “ کی طرح ” ھَارِیٌ“ سے ” ھَارٍ “ ہوگیا۔ ” فَانْهَارَ “ باب انفعال ” اِنْھِیَارٌ“ سے ماضی معلوم ہے۔ - یہ دو شخصوں کی مثال ہے، ایک وہ جس کے عقیدہ و عمل کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور اس کی رضا پر ہے، دوسرا وہ جس کے عقیدہ وعمل کی بنیاد محض کفر و نفاق پر ہے۔ اول الذکر کی عمارت کی بنیاد مضبوط ومستحکم ہے، وہ کبھی گرنے والی نہیں اور دوسرے کی عمارت ایسی چیز پر ہے جو دکھائی تو دیتی ہے مگر نیچے سے خالی ہے، گویا اس کی بنیاد ہی نہیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوگا کہ وہ عمارت ہر حال میں اسے بھی لے کر گرے گی اور کفر و نفاق (جس کا انجام آگ ہے) کے اوپر کھڑی ہونے کی وجہ سے جہنم کی آگ میں لے کر گرے گی۔ - وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : یعنی بےانصافی (ظلم) کی یہ شامت پڑتی ہے کہ نیک عمل کرنا بھی چاہیں تو بن نہیں آتا۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری اور چوتھی آیت میں اس مسجد مقبول کے مقابلہ میں منافقین کی بنائی ہوئی مسجد ضرار کی مذمت بیان کی گئی ہے کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے دریا کے کنارے بعض اوقات پانی زمین کے حصہ کو اندر سے کھا لیتا ہے اور اوپر زمین کی سطح ہموار نظر آتی ہے، اس پر اگر کوئی تعمیر کرے تو ظاہر ہے کہ وہ فوراً گر جائے گی، اسی طرح اس مسجد ضرار کی بنیاد ناپائدار تھی، اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ گر پڑی، اور جہنم کی آگ میں گئی، جہنم کی آگ میں جانا مجازی معنی کے لئے بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے بنانے والوں کے لئے اس نے جہنم کا راستہ ہموار کردیا، اور بعض حضرات نے اس کو حقیقت پر بھی محمول کیا ہے کہ حقیقۃً جب یہ مسجد گرائی گئی ہے تو جہنم میں گئی۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ اَسَّـسَ بُنْيَانَہٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللہِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّـسَ بُنْيَانَہٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ١٠٩- أسَس - أَسَّسَ بنیانه : جعل له أُسّاً ، وهو قاعدته التي يبتنی عليها، يقال : أُسٌّ وأَسَاسٌ ، وجمع الأس :- إِسَاسٌ وجمع الإساس : أُسُس، يقال : کان ذلک علی أسّ الدهر ، کقولهم : علی وجه الدهر .- ( ا س س ) اسس بنیانہ ۔ (9 ۔ 9 ۔ 1) کے معنی ہیں اس نے عمارت کی بنیاد رکھی اور بنیاد کو اس و اساس کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع اساس اور اساس کی جمع اسس آتی ہے محاورہ ہے کان ذالک علی اس الدھر ( واست الدھر ) بود آں بر ہمشیگی زمانہ د اول آن ) یعنی وہ قدیم زمانہ سے ہے جیسا کہ علی وجہ الدھر کا محاورہ مشہور ہے ۔- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - شفا (کناره)- شَفَا البئر وغیرها : حرفه، ويضرب به المثل في القرب من الهلاك . قال تعالی: عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة 109] ، وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران 103] ، وأَشْفَى فلان علی الهلاك، أي : حصل علی شفاه، ومنه استعیر : ما بقي من کذا إلّا شَفاً أي : قلیل کشفا البئر . وتثنية شفا شَفَوَانِ ، وجمعه أَشْفَاءٌ ، ( ش ف و ) شفا۔ کنوئیں وغیرہ کے کنارہ کو کہتے ہیں ۔ یہ قرب ہلاکت کے لئے ضرب المثل ہے ۔ قرآن میں ہے : عَلى شَفا جُرُفٍ [ التوبة 109] گرجانے والی کھائی کے کنارہ پر ۔ وَكُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ [ آل عمران 103] ( اور تم ) آگ کے گڑھے کے کنارے تک فلاں ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور ہر کہا جاتا ہے ما بقي من کذا إلّا شَفاً ۔۔ کہ فلاں چیز تھوڑی سی باقی رہ گئی ہے ( یہ چاند یا سورج کے غروب ہونے یا کسی کی موت کے وقت بولا جا تا ہے ) شفا کا تثنیہ شفوان اور جمع اشفاء آتی ہے ۔- جرف - قال عزّ وجل : عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ [ التوبة 109] ، يقال للمکان الذي يأكله السیل فيجرفه۔ أي : يذهب به۔: جُرْف، وقد جَرَفَ الدهر ماله، أي : اجتاحه تشبيها به، ورجل جُرَاف : نكحة، كأنه يجرف في ذلک العمل .- ( ج ر ف) قرآن میں ہے ۔ گرجانے والی کھائی کے کنارے پر ۔ الجرف دریا کے اس کنارے سے کو کہتے ہیں جو کٹ کٹ کر نیچے گر رہا ہو ۔ محاورہ ہے :۔ جرن الدھرمالہ حوادث زمانہ نے اس کے مال کو تباہ کردیا ۔ رجل جراف مرد بسیار جماع شادیاں گویا وہ اس شغل میں بہہ رہا ہے ۔- هار - يقال : هَارَ البناء، وتَهَوَّرَ : إذا سقط نحو : انْهَارَ. قال تعالی: عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] وقرئ :(هَائِرٌ ) . يقال : بئر هَائِرٌ ، وهَارٌ ، وهَارٍ ، ومُهَارٌ ، ويقال : انْهَارَ فلان : إذا سقط من مکان عال، ورجل هَارٍ وهَائِرٌ: ضعیف في أمره تشبيها بالبئر الهَائِرِ ، وتَهَوَّرَ اللیل : اشتدّ ظلامه، وتَهَوَّرَ الشّتاءُ : ذهب أكثره، وقیل : تَهَيَّرَ ، وقیل : تَهَيَّرَهُ فهذا من الیاء، ولو کان من الواو لقیل تهوّره .- ( ھ و ر ) ھار البناء تھو ر ۔ کے معنی ہیں عمارت مہده م ہوگئی اور یہی معنی انھار کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : . قال تعالی: عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] ۔ اگر جانے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ میں لے گری ۔ ایک قرات میں ھار ہے اور بئر ھا ئر وھار وھار ومھار ویران کنویں کو کہتے ہیں پھر ویران کنویں کی مناسبت سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمزور اور عاجز آدمی کو بھی ھار یا ھائر کہا جاتا ہے ۔ تھو راللیل رات کا سخت تاریک ہونا۔ تھو ر الشتآء کے معنی جاڑے کا اکثڑ موسم گزر جانے کے ہیں اور بعض نے تھیرکہا ہے جو اجوف یائی ( ھ ی ( سے ) ہے کیونکہ اگر یہ وادی ہوتا تو تھیر کی بجائے تھو ر کہا جاتا ۔- ھار - ۔ اسم فاعل مجرور۔ ھور۔ مادہ۔ قریب السقوط۔ گرنے کے قریب۔ ھار کی اصل ھ اور یا ھائر تھی۔ اول ھ اور کے واؤ کو یا ھائر کے ہمزرہ کو نقل مکانی کرکے راء سے آخر میں کردیا۔ یعنی راء کو مقدم کردیا اور واؤ یا ہمزہ کو مؤخر کردیا۔ ھارو اور ھارء ہوگیا۔ پھر واؤ اور ہمزہ کو یاء سے بدل کر ھاری کردیا اور حالت جر کی وجہ سے ی کو ساقط کردیا اس طرح ھار ہوگیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ھ اور کے واؤ یا ھائر کے ہمزہ کو بغیر نقل مکانی کے تخفیفاً حذف کردیا۔ اس صورت میں را پر مختلف حالات میں تینوں اعراب آسکتے ہیں۔- بعض اہل لغت کے نزدیک ھار اسم فاعل کا صیغہ نہیں ہے بلکہ اس کی اصل ھور یا ہیر تھی واؤ ۔ اور یاء کو ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے الف سے بدل دیا گیا ھار ہوگیا اس صورت میں پھر اس پر تینوں اعراب آئیں گے۔ جرف ھار موصوف و صفت مل کر مضاف شفا۔ مضاف الیہ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ - (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٩) پھر سمجھ لو آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت یعنی مسجد قباء کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری اور اس کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وہ شخص بہتر ہوگا جس نے اپنی عمارت یعنی مسجد شقاق کی بنیاد کسی گھاٹی یا غار کے کنارہ پر جو گرنے ہی کو ہورکھی، پھر وہ عمارت اس بانی کو لے کر آتش دوزخ میں گرپڑے، اللہ تعالیٰ ان منافقین کی نہ مغفرت فرماتے ہیں اور نہ ہی ان کو نجات دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی تَقْوٰی مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ) - (اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ ط) - یعنی جب انسان کوئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے کسی مضبوط اور ٹھوس جگہ کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر وہ کسی کھوکھلی جگہ پر یا کسی کھائی وغیرہ کے کنارے پر عمارت تعمیر کرے گا تو جلد یا بدیر وہ عمارت گر کر ہی رہے گی۔ دراصل یہ منافقین کی تدبیروں اور سازشوں کی مثال دی گئی ہے کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے وہ جہنم کی گہری کھائی کے کنارے پر اپنی عمارتیں تعمیر کر رہے ہوں ‘ چناچہ وہ کنارہ بھی گر کر رہے گا اور خود ان کو اور ان کی تعمیرات کو بھی جہنم میں گرائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :103 متن میں لفظ ”جرف“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق عربی زبان میں کسی ندی یا دریا کے اس کنارے پر ہوتا ہے جس کے نیچے کی مٹی کو پانی نے کاٹ کاٹ کر بہا دیا ہو اور اوپر کا حصہ بے سہارا کھڑا ہو ۔ جو لوگ اپنے عمل کی بنیاد خدا سے بے خوفی اور اس کی رضا سے بے نیازی پر رکھتے ہیں ان کی تعمیر حیات کو یہاں اس عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے ایک کھوکھلے بے ثبات کنارہ دریا پر اٹھائی گئی ہو ۔ یہ ایک بے نظیر تشبیہ ہے جس سے زیادہ بہتر طریقہ سے اس صورت حال کی نقشہ کشی نہیں کی جا سکتی ۔ اس کی پوری معنویت ذہن نشین کر نے کے لیے یوں سمجھیے کہ دنیوی زندگی کی وہ ظاہری سطح جس پر مومن ، منافق ، کافر ، صالح ، فاجر ، غرض تمام انسان کام کرتے ہیں ، مٹی کی اس اوپری تہ کے مانند ہے جس پر دنیا میں ساری عمارتیں بنائی جاتی ہیں ۔ یہ نہ اپنے اندر خود کوئی پائیداری نہیں رکھتی ، بلکہ اس کی پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے ٹھوس زمین موجود ہو ۔ اگر کوئی نہ ایسی ہو جس کے نیچے کی زمین کسی چیز ، مثلا دریا کے پانی سے کٹ چکی ہو تو جو ناواقف انسان اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر اس پر اپنا مکان بنائے گا اسے وہ اس کے مکان سمیت لے بیٹھے گی اور وہ نہ صرف خود ہلاک ہوگا بلکہ اس ناپائیدار بنیاد پر اعتماد کر کے اپنا جو کچھ سرمایہ زندگی وہ اس عمارت میں جمع کرے گا وہ بھی برباد ہو جائے گا ۔ بالکل اسی مثال کے مطابق حیات دنیا کی وہ ظاہری سطح بھی جس پر ہم سب اپنے کارنامہ زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں ، بجائے خود کوئی ثبات و قرار نہیں رکھتی بلکہ اس کی مضبوطی و پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے خدا کے خوف ، اس کے حضور جوابدہی کے احساس اور اس کی مرضی کے اتباع کی ٹھوس چٹان موجود ہو ۔ جو نادان آدمی محض حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر لیتا ہے اور دنیا میں خدا سے بے خوف اور اس کی رضا سے بے پروا ہو کر کام کرتا ہے وہ دراصل خود اپنی تعمیر زندگی کے نیچے سے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بے بنیاد سطح ، جس پر اس نے اپنی عمر بھر کا سرمایہ عمل جمع کیا ہے ایک دن یکایک گر جائے اور اسے اس کے پورے سرمایے سمیت لے بیٹھے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :104 ”سیدھی راہ“ یعنی وہ راہ جس سے انسان بامراد ہوتا اور حقیقی کامیابی کی منزل پر پہنچتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

84: قرآن کریم نے جو لفظ استعمال فرمایا ہے۔ وہ ’’ جرف‘‘ ہے۔ یہ در اصل کسی زمین یا ٹیلے یا پہاڑ کے اس حصے کو کہتے ہیں جس کا نچلا حصہ پانی کے سیلاب وغیرہ کی وجہ سے بہہ گیا ہو، اور اوپر کھوکھلی مٹی رہ گئی ہو جو کسی بھی وقت گر سکتی ہو۔ اردو میں ایسی جگہ کو ڈھانگ کہتے ہیں۔ اس لیے ترجمے میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔