Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 دل پاش پاش ہوجائیں، کا مطلب موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ یعنی موت تک یہ عمارت ان کے دلوں میں مذید شک و نفاق پیدا کرنے کا ذریعہ بنی رہے گی، جس طرح کہ بچھڑے کے پجاریوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] گو یہ عمارت گرائی جا چکی ہے مگر ان منافقوں کے دلوں میں نفاق کا روگ اس قدر جڑ پکڑ چکا ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکے گا۔ الا یہ کہ ان کے دلوں کے اندر اتنے چھید ہوجائیں کہ جڑ پکڑنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے مراد ان کا مرجانا ہے یعنی مرتے دم تک نفاق ان کے دلوں سے نکل نہیں سکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَزَالُ بُنْيَانُھُمُ الَّذِيْ بَنَوْا رِيْبَةً : ” رِيْبَةً “ بےچینی، جیسا کہ حسن بن علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلصِّدْقُ طُمَانِیْنَۃٌ وَالْکِذْبُ رِیْبَۃٌ ) [ أحمد : ١؍٢٠٠، ح : ١٧٢٨۔ ترمذی : ٢٥١٨، و صححہ الألبانی ] ” سچ اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ بےچینی کا باعث ہے۔ “ یعنی یہ مسجد ضرار گرائے جانے کے بعد اس کے بنانے والوں کے دلوں کو بےچین رکھے گی کہ ہمارا نفاق و کفر ظاہر ہوگیا، اب کوئی مسلمان ہمیں دل سے اپنا سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوگا، ان کی یہ حالت موت تک ایسے ہی رہے گی۔ (اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ ) کا یہی معنی ہے، نہ ان کا دل نفاق سے پاک ہوگا نہ انھیں اطمینان نصیب ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آگے فرمایا کہ ان کی یہ تعمیر ہمیشہ ان کے شک اور نفاق کو بڑھاتی ہی رہے گی، جب تک کہ انکے قلوب قطع نہ ہوجائیں یعنی جب تک انکی زندگی ختم نہ ہوجائے ان کا شک و نفاق اور حسد و غیظ بڑہتا ہی رہے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَزَالُ بُنْيَانُھُمُ الَّذِيْ بَنَوْا رِيْبَۃً فِيْ قُلُوْبِہِمْ اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ١١٠ ۧ- زال ( لایزال)- مَا زَالَ ولا يزال خصّا بالعبارة، وأجریا مجری کان في رفع الاسم ونصب الخبر، وأصله من الیاء، لقولهم : زَيَّلْتُ ، ومعناه معنی ما برحت، وعلی ذلك : وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] ، وقوله : لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110] ، وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] ، فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] ، ولا يصحّ أن يقال : ما زال زيد إلّا منطلقا، كما يقال : ما کان زيد إلّا منطلقا، وذلک أنّ زَالَ يقتضي معنی النّفي، إذ هو ضدّ الثّبات، وما ولا : يقتضیان النّفي، والنّفيان إذا اجتمعا اقتضیا الإثبات، فصار قولهم : ما زَالَ يجري مجری (کان) في كونه إثباتا فکما لا يقال : کان زيد إلا منطلقا لا يقال : ما زال زيد إلا منطلقا .- ( زی ل ) زالہ یزیلہ زیلا - اور مازال اور لایزال ہمیشہ حرف نفی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور یہ کان فعل ناقص کی طرح اپنے اسم کی رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں اور اصل میں یہ اجوف یائی ہیں کیونکہ عربی زبان میں زیلت ( تفعیل ) یاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مازال کے معنی ہیں مابرح یعنی وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ - وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110]- وہ عمارت ہمیشہ ( ان کے دلوں میں باعث اضطراب بنی ) رہیگی ۔ وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] کافر لوگ ہمیشہ ۔۔۔ رہیں گے ۔ فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] تم برابر شبہ میں رہے ۔ اور محاورہ میں مازال زید الا منطلقا کہنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ ماکان زید الا منطلقا کہاجاتا ہے کیونکہ زال میں ثبت گی ضد ہونے کی وجہ نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، ما ، ، و ، ، لا ، ، بھی حروف نفی سے ہیں اور نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے لہذا مازال مثبت ہونے میں گان کیطرح ہے تو جس طرح کان زید الا منطلقا کی ترکیب صحیح نہیں ہے اس طرح مازال زید الا منطلقا بھی صحیح نہیں ہوگا ۔ - بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٠) ان کی یہ عمارت گرنے کے بعد اس کی حسرت وندامت ان کے دلوں میں ہمیشہ کھٹکتی رہے گی ہاں ان کی دل ہی فنا ہوجائیں تو خیر اور اللہ تعالیٰ ان کی مسجد ضرار بنانے اور ان کی نیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور اس مسجد کو ختم کروانے اور اس کے جلادینے کا فیصلہ فرمانے میں بڑی حکمت والے ہیں۔- غزوہ تبوک سے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ نے عامر بن قیس (رض) اور مولی مطعم بن عدی (رض) کو روانہ کیا، انہوں نے اس مسجد ضرار کو گرا کر اسے جلا دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠ (لاَ یَزَالُ بُنْیَانُہُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِہِمْ الآَّ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُہُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ ) - ان منافقین کے دلوں کے اندر منافقت کی جڑیں اتنی گہری جا چکی ہیں کہ اس کے اثرات کا زائل ہونا اب ممکن نہیں رہا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر کسی کے پورے جسم میں کینسر پھیل چکا ہو تو معمولی آپریشن کرنے سے وہ ٹھیک نہیں ہوسکتا ‘ کیونکہ کینسر کے اثرات تو جسم کے ایک ایک ریشے میں سرایت کرچکے ہیں۔ اب اگر سارے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تب شاید اس کی جڑوں کو نکالنا ممکن ہو۔ لہٰذا ان منافقین کے دل ہمیشہ شکوک و شبہات کے اندھیروں میں ہی ڈوبے رہیں گے ‘ انہیں ایمان و یقین کی روشنی کبھی نصیب نہیں ہوگی ‘ اِلا یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔ - اب اگلی دو آیات میں بہت اہم مضمون آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :105 یعنی ان لوگوں کو منافقانہ مکر و دغا کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر کے اپنے دلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایمان کی صلاحیت سے محروم کر لیا ہے اور بے ایمانی کا روگ اس طرح ان کے دلوں کے ریشے ریشے میں پیوست ہو گیا ہے کہ جب تک ان کے دل باقی ہیں یہ روگ بھی ان میں موجود رہے گا ۔ خدا سے کفر کرنے لیے جو شخص علانیہ بت خانہ بنائے ، یا اس کے دین سے لڑنے کے لیے کھلم کھلا مورچے اور دمدمے تیار کرے ، اس کی ہدایت تو کسی نہ کسی وقت ممکن ہے ، کیونکہ اس کے اندر راستبازی ، اخلاص اور اخلاقی جرأت کا وہ جوہر تو بنیادی طور پر محفوظ رہتا ہے جو حق پرستی کےلیے بھی اسی طرح کام آسکتا ہے جس طرح باطل پرستی کے کام آتا ہے ۔ لیکن جو بزدل جھوٹا اور مکار انسان کفر کےلیے مسجد بنائے اور خدا کے دین سے لڑنے کے لیے خدا پرستی کا پرفریب لبادہ اوڑھے ، اس کی سیرت کو تو نفاق کی دیمک کھا چکی ہوتی ہے ۔ اس میں یہ طاقت ہی کہاں باقی رہ سکتی ہے کہ مخلصانہ ایمان کا بوجھ سہار سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

85: جو عمارت ان منافقین نے بنائی تھی، اس کے لیے آیت 107 میں تو یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ عمارت انہوں نے مسجد کے نام پر بنائی تھی اور ان کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ مسجد ہے، اس لیے وہاں اس عمارت کے واسطے مسجد کا لفظ استعمال کیا گیا تھا، لیکن اس آیت میں اس کی حقیقت بتائی گئی ہے، اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ نے اسے عمارت کہا ہے، مسجد نہیں کہا، کیونکہ حقیقت میں وہ مسجد تھی ہی نہیں۔ بنانے والے حقیقت میں کافر تھے۔ اور بنانے کا مقصد اسلام دشمنی تھی۔ اسی لیے اسے جلایا گیا۔ ورنہ اگر کوئی مسلمان مسجد بنائے تو اسے جلانا جائز نہیں ہے۔ اور اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ عمارت ان منافقوں کے دل میں برابر شک پیدا کرتی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمارت کے جلائے جانے سے ان منافقین پر بھی یہ بات کھل گئی کہ ان کی شرارت کا راز مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا ہے۔ اب وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مسلسل شک میں مبتلا رہیں گے کہ نجانے مسلمان اب ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں۔ ان کی بےیقینی کی یہ کفییت اسی وقت ختم ہوگی جب ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے یعنی ان کو موت آجائے گی۔