مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا ۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے ۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے ۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے ۔ اسی لئے مجاہدین جب جہاد کے لئے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسنے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا ۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوالیں ۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا ، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا ۔ اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے ۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے ، مرتے ہیں اور مارتے ہیں ۔ ایسوں کے لئے یقینا جنت واجب ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے ، رسولوں کی سچائی مان کر ، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے ۔ حضرت موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں ، حضرت عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے ۔ جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے ، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے ۔
111۔ 1 یہ اللہ کے ایک خاص فضل و کرم کا بیان ہے کہ اس نے مومنوں کو، ان کی جان و مال کے عوض، جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیے، جنت عطا فرما دی، جب کہ یہ جان و مال بھی اسی کا عطیہ ہے۔ پھر قیمت اور معاوضہ بھی جو عطا کیا یعنی جنت وہ نہایت ہی بیش قیمت ہے۔ 111۔ 2 یہ اسی سودے کی تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچا وعدہ پچھلی کتابوں میں بھی اور قرآن میں بھی کیا ہے۔ اور اللہ سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے۔ 111۔ 3 یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے لیکن یہ خوشی اسی وقت منائی جاسکتی ہے جب مسلمان کو بھی یہ سودا منظور ہو۔ یعنی اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے انہیں دریغ نہ ہو۔
[١٢٤] جان ومال فروخت کرنے کا مفہوم :۔ اس کا ایک مفہوم تو ترجمہ سے ہی واضح ہوجاتا ہے یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرتے ہیں پھر خواہ وہ شہید ہوجائیں یا بچ کر آجائیں بہرصورت ان کو جنت ضرور ملے گی۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ حقیقت میں تو ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مومنوں کی جانوں اور اموال کا بھی ہے لیکن اس نے یہ چیزیں بطور امانت دے رکھی ہیں اور ان میں تصرف کا اختیار بھی انسان کو دے رکھا ہے۔ اسی اختیار سے دستبردار ہوجانے اور اس اختیار کو اللہ کی رضا کے تابع بنا دینے کی قیمت یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت عطا کرے گا اور چونکہ یہ قیمت یعنی جنت نقد بہ نقد نہیں ملتی بلکہ ادھار ہے جو مرنے کے بعد ہی ملے گی۔ لہذا یہ توثیق بھی فرما دی۔ اللہ کا یہ وعدہ سب الہامی کتابوں میں بالخصوص تورات، انجیل اور قرآن میں موجود ہے مزید برآں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ لہذا مومنوں کے لیے اس وعدہ میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔- اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اہل ایمان نے اپنی جانوں اور اموال میں تصرف کے جملہ اختیارات تو اللہ کے ہاتھ فروخت کردیئے ہیں اور بوقت ضرورت جان و مال کا نذرانہ پیش کرنا اور جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا پھر شہید ہوجانا یا بچ کر آجانا یہ سب کچھ وقتی باتیں اور اسی اصل معاہدہ بیع کا ایک حصہ ہیں۔ اصل معاہدہ بیع یہی ہے کہ مومن اپنی جان میں اور اموال میں اللہ کی مرضی کے مطابق ہی تصرف کرے گا۔ یہ معاہدہ بیع انسان کی موت تک چلتا ہے۔ اس سے پہلے یہ پتہ چل ہی نہیں سکتا کہ انسان نے یہ معاہدہ بیع اپنی عمر بھر نبھایا بھی ہے یا نہیں۔ اور جب موت آجاتی ہے تو اس وقت اسے اس کی قیمت یعنی جنت فوراً مل جاتی ہے۔ اس صورت میں ادھار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مفہوم کے مطابق یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی شخص کو زندگی بھر جہاد کا موقع ہی میسر نہ آیا ہو۔ مگر اس نے اپنی جان اپنے مال اور اپنے اختیار تصرف کو اللہ کی مرضی کے تحت رکھا ہو تو اس سے بھی جنت کا وعدہ ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ : ” فَاسْـتَبْشِرُوْا “ ” اَلْاِسْتِبْشَارُ “ ایسی زبردست خوشی جس کے اثرات بشرے یعنی چہرے پر بھی ظاہر ہوں۔ سین اور تاء کے اضافے سے بشریٰ ، یعنی خوش خبری کے مفہوم میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ - بعض علماء نے فرمایا کہ جہاد کی اس سے بہتر اور اس سے بڑھ کر مؤثر ترغیب آپ کسی آیت میں نہیں پائیں گے، کیونکہ اسے ایک سودے اور معاہدے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو سودا رب العزت کے ساتھ ہے۔ سودے کا سامان مومنوں کی جانیں اور مال ہیں اور قیمت اس کی اتنی قیمتی اور بےمثال ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی، نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک آیا۔ یہ سودا اور معاہدہ صرف اس پر نہیں کہ وہ قتل کیے جائیں گے تو قیمت ملے گی، بلکہ اللہ کے دین کی نصرت اور اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے وہ کفار کو قتل کریں گے تب بھی یہی قیمت ملے گی۔ پھر اس معاہدے کی باقاعدہ تسجیل (رجسٹری) آسمانی کتابوں تورات، انجیل اور قرآن میں کی گئی، اس سے بڑھ کر سودے کی پختگی کا تحریری ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے، پھر اسے اللہ تعالیٰ کا سچا پکا عہد قرار دے کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنا عہد کون پورا کرنے والا ہے۔ سو اس کا ادھار دوسرے تمام نقدوں سے بڑھ کر ہے، پھر اس کا ادھار وعدہ جنت یقینی ہے۔ اس آیت کے علاوہ دیکھیے سورة حدید (٢١) ، سورة صف (١٠ تا ١٢) اور سورة توبہ (٢٠ تا ٢٢) اور اگر کچھ زندگی باقی ہے تو وہ بھی اس کے بےپایاں انعام سے خالی نہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ جو اس کے راستے میں جہاد کرے اور اسے اس کے راستے میں نکالنے والی چیز اس کی راہ میں جہاد اور اس کی باتوں کو سچا یقین کرنے کے سوا کچھ نہ ہو تو وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا، یا اسے اس کے گھر میں اجر یا غنیمت سمیت واپس لائے گا جس گھر سے وہ نکل کر گیا تھا۔ “ [ بخاری، فرض الخمس، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : أحلت لکم الغنائم : ٣١٢٣ ]- مغیرہ بن شعبہ (رض) اور ان کے ساتھی مجاہدین ایران میں جہاد کے لیے گئے تو کسریٰ کے جرنیل نے مسلمانوں کے سفیر مغیرہ بن شعبہ (رض) سے پوچھا : ” تم لوگ کیا ہو ؟ “ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کا تعارف کرانے کے بعد فرمایا : ” ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہمارے رب کا پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے جو قتل کردیا جائے گا وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں جائے گا جو کبھی کسی کے دیکھنے میں نہیں آئیں اور جو ہم میں سے باقی رہے گا وہ تمہاری گردنوں کا مالک بنے گا۔ “ [ بخاری، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ ۔۔ : ٣١٥٩ ] جہاد کے بیشمار فضائل کے لیے کتب احادیث ملاحظہ فرمائیں۔ - وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : اس میں حصر کے لیے ” ھُوَ “ ضمیر لا کر اور خبر ” الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ “ پر الف لام لا کر واضح فرمایا کہ فوز عظیم ہے تو بس یہ ہے، اس کے سوا کوئی کامیابی عظیم نہیں، بلکہ معمولی اور بےوقعت ہے۔ - حسن بصری (رض) سے بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھیے، جانیں ہیں تو اسی نے دیں، اموال ہیں تو اس نے عطا فرمائے، پھر وہ ہم ہی سے سودا کر رہا ہے کہ ہم اس کے راستے میں خرچ کریں گے اور وہ ہمیں اس کے بدلے جنت میں داخل ہی نہیں کرے گا بلکہ وہ اسے ہماری ملکیت بنا دے گا۔ ” لَھُمُ “ پہلے آنے سے حصر کا معنی حاصل ہوا ” بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ “ کہ جنت انھی کی ہے۔
خلاصہ تفسیر - بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ( اور خدا کے ہاتھ مال و جان بیچنے کا مطلب یہ ہے کہ) وہ لوگ اللہ کی راہ میں ( یعنی جہاد میں) لڑتے ہیں جس میں ( کبھی) قتل کرتے ہیں اور ( کبھی) قتل کئے جاتے ہیں ( یعنی وہ بیع جہاد کرنا ہے خواہ اس میں قاتل ہونے کی نوبت آئے یا مقتول ہونے کی) اس ( قتال) پر ( ان سے جنت کا) سچا وعدہ کیا گیا ہے توریت میں ( بھی) اور انجیل میں ( بھی) اور قرآن میں ( بھی) اور ( یہ مسلم ہے کہ) اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے ( اور اس نے اس بیع پر وعدہ جنت کا کیا ہے) تو ( اس حالت میں) تم لوگ ( جو کہ جہاد کر رہے ہو) اپنی اس بیع ( مذکور) پر جس کا تم نے ( اللہ تعالیٰ سے) معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ کیونکہ اس بیع پر تم کو حسب وعدہ مذکورہ جنت ملے گی) اور یہ ( جنت ملنا) بڑی کامیابی ہے ( تو ضرور تم کو یہ سودا کرنا چاہئے) وہ ( مجاہدین ایسے ہیں جو علاوہ جہاد کے ان اوصاف کمال کیساتھ بھی موصوف ہیں کہ گناہوں سے) توبہ کرنے والے ہیں ( اور اللہ کی) عبادت کرنے والے ( ہیں اور اللہ کی) حمد کرنے والے ( ہیں اور) روزہ رکھنے والے ( ہیں اور) رکوع اور سجدہ کرنے والے ( ہیں یعنی نماز پڑھتے ہیں اور) نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے ( ہیں) اور بری باتوں سے باز رکھنے والے ( ہیں) اور اللہ کی حدود کا ( یعنی احکام کا) خیال رکھنے والے ( ہیں) اور ایسے مؤمنین کو ( جن میں جہاد اور یہ صفات ہوں) آپ خوش خبری سنا دیجئے ( کہ ان سے جنت کا وعدہ مذکور ہے۔- معارف و مسائل - ربط آیات : سابقہ آیات میں جہاد سے بلا عذر رکنے کی مذمت کا بیان تھا، ان آیات میں مجاہدین کی فضیلت کا بیان ہے۔- شان نزول : حسب تصریح اکثر حضرات مفسرین یہ آیات بیعت عقبہ کے شرکاء کے متعلق نازل ہوئی ہیں جو ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں انصار مدینہ سے لی گئی تھی اسی لئے پوری سورت کے مدنی ہونے کے باوجود ان آیات کو مکی کہا گیا ہے۔- عقبہ پہاڑ کے حصہ کو کہا جاتا ہے اس جگہ وہ عقبہ مراد ہے جو منیٰ میں جمرہ عقبہ کے ساتھ پہاڑ کا حصہ ہے ( آجکل حجاج کی کثرت کے سبب پہاڑ کا یہ حصہ صاف کرکے میدان بنادیا گیا ہے صرف جمرہ رہ گیا ہے اس عقبہ پر مدینہ طیبہ کے حضرات سے تین مرتبہ بیعت لی گئی ہے پہلی بیعت بعثت نبوی سے گیارہویں سال میں ہوئی، جس میں چھ حضرات مسلمان ہو کر بیعت کرکے مدینہ واپس ہوئے، تو مدینہ کے گھر گھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چرچا ہونے لگا، اگلے سال موسم حج میں بارہ حضرات اسی جگہ جمع ہوئے، جن میں پا نچ پہلے اور سات نئے تھے، سب نے بیعت کی، اب مدینہ میں مسلمانوں کی خاصی تعداد ہوگئی، جو چالیس نفر سے زائد تھی، انہوں نے درخواست کی کہ ہمیں قرآن پڑھانے کے لئے کسی کو بھیج دیا جائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت مصعب بن عمیر کو بھیج دیا، انہوں نے موجودہ مسلمانوں کو قرآن بھی پڑھایا اور اسلام کی تبلیغ بھی کی جس کے نتیجہ میں مدینہ کی بڑی جماعتیں اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئیں۔- اس کے بعد بعثت نبوی کے تیرہویں سال میں ستر مرد دو عورتیں اسی جگہ جمع ہوئے، یہ تیسری بیعت عقبہ ہے جو آخری ہے، اور عموماً بیعت عقبہ سے یہی بیعت مراد ہوتی ہے، یہ بیعت اسلام کے اصولی عقائد و اعمال کے ساتھ خصوصی طور پر کفار سے جہاد اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ پہونچیں تو آپ کی حفاظت و حمایت پر لی گئی، اس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس وقت معاہدہ ہو رہا ہے، آپ جو شرائط اپنے رب کے متعلق یا اپنے متعلق کرنا چاہیں وہ واضح کردی جائیں، آپ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے تو یہ شرط رکھتا ہوں کہ آپ سب اس کی عبادت کریں گے، اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے، اور اپنے لئے یہ شرط ہے کہ میری حفاظت اس طرح کریں گے جیسے اپنی جانوں اور اپنے اموال و اولاد کی حفاظت کرتے ہو، ان لوگوں نے دریافت کیا کہ اگر ہم یہ دونوں شرطیں پوری کردیں تو ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت ملے گی، ان سب حضرات نے خوش ہو کر کہا کہ ہم اس سودے پر راضی ہیں، اور ایسے راضی ہیں کہ اب اس کو نہ خود فسخ کرنے کی درخواست کریں گے، نہ اس کے فسخ کرنے کو پسند کریں گے۔- اس جگہ چونکہ اس بیعت میں ظاہراً صورت ایک لین دین کے معاملے کی بن گئی تو اس پر یہ آیت بہ لفظ بیع و شراء نازل ہوئی، (آیت) اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ، یہ آیت سن کر سب سے پہلے حضرت براء بن معرور اور ابو الہیثم اور اسعد (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ دیا کہ ہم اس معاملہ پر تیار ہیں، آپ کی حفاظت اپنی عورتوں بچوں کی طرح کریں گے، اور آپ کے مقابلہ پر اگر دنیا کے کالے اور گورے سب جمع ہوجائیں تو ہم سب کا مقابلہ کریں گے۔- جہاد کی سب سے پہلی یہی آیت ہے : - مکہ معظمہ میں جہاد و قتال کے احکام نہیں تھے، یہ سب سے پہلی آیت ہے جو مکہ مکرمہ ہی میں قتال کے متعلق نازل ہوئی، اور اس کا عمل ہجرت کے بعد شروع ہوا، اس کے بعد دوسری آیت نازل ہوئی، (آیت) اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ جب یہ بیعت عقبہ کفار قریش مکہ سے خفیہ مکمل ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ سے مدینہ کی ہجرت کا حکم دیدیا، اور تدریجا صحابہ کرام کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملنے کے منتظر رہے، صدیق اکبر نے ہجرت کا قصد کیا تو آپ نے ان کو اپنے ساتھ کے لئے روک لیا ( یہ پورا واقعہ تفسیر مظہری میں حوالہ کے ساتھ مذکور ہے ) ۔- (آیت) يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ( الی) فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ ، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد و قتال کا حکم تمام پچھلی امتوں کے لئے بھی سب کتابوں میں نازل کیا گیا، اور یہ جو مشہور ہے کہ انجیل میں جہاد کا حکم نہیں، ممکن ہے کہ بعد کے لوگوں نے جو تحریفات اس میں کی ہیں اس میں احکام جہاد کو خارج کردیا گیا ہو، واللہ اعلم۔- (آیت) فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ ، اس واقعہ بیعت عقبہ میں جو معاہدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوا اس کی ظاہری صورت بیع و شراء کی بن گئی، اس لئے شروع آیت میں شراء کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا، اس جملہ میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ معاملہ یبع تمہارے لئے نفع کا سودا اور مبارک ہے، کیونکہ ایک فانی چیز جان و مال دے کر ہمیشہ باقی رہنے والی چیز بدلے میں مل گئی اور غور کیا جائے تو خرچ صرف مال ہوا، جان تو یعنی روح تو مرنے کے بعد بھی باقی رہے گی اور ہمیشہ رہے گی، اور مال پر غور کیا جائے تو وہ بھی تو حق تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے، انسان تو اپنی پیدائش کے وقت خالی ہاتھ آیا تھا، اسی نے سب سامان اور مال و دولت کا اس کو مالک بنایا ہے، اپنے ہی عطیہ کو آخرت کی نعمتوں اور جنت کا معاوضہ بنا کر جنت دیدی، اسی لئے حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ یہ عجیب یبع ہے کہ مال اور قیمت دونوں تمہیں ہی دے دیے۔- حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ سنو یہ کیسی نفع کی تجارت ہے جو اللہ نے ہر مومن کیلئے کھول دی ہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہیں مال بخشا ہے تم اس میں سے تھوڑا خرچ کرکے جنت خرید لو ( مظہری ) ۔
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ٠ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ٠ ۣ وَعْدًا عَلَيْہِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ ٠ ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ ٠ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ١١١- شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰم و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- توراة- التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] .- ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - بيع - البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :- إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع :- الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل :- وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه .- وأَبَعْتُ الشیء : عرضته، نحو قول الشاعر :- فرسا فلیس جو ادنا بمباع والمبَايَعَة والمشارة تقالان فيهما، قال اللہ تعالی: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] ، وقال : وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] ، وقال عزّ وجل : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] ، لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، وبَايَعَ السلطان : إذا تضمّن بذل الطاعة له بما رضخ له، ويقال لذلک : بَيْعَة ومُبَايَعَة . وقوله عزّ وجل : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] ، إشارة إلى بيعة الرضوان المذکورة في قوله تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وإلى ما ذکر في قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] ، وأمّا الباع فمن الواو بدلالة قولهم : باع في السیر يبوع : إذا مدّ باعه .- ( ب ی ع )- البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں ؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔ ابعت الشئی کسی چیز کو بیع کے لئے پیش کرنا ۔ شاعر نے کہا ہے یعنی ہم عمدہ گھوڑی فروخت کے لئے پیش نہیں کریں گے ۔ المبایعۃ والمشارۃ خریدو فروخت کرنا ۔ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] اور خرید فروخت ترک کردو ) لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا نہ دوستی ( کام آئے گی ) بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرار یبعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو ۔ میں بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] میں پایا جاتا ہے ۔ الباع - ( دونوں بازوں کے پھیلانے کی مقدار جو تقریبا 2 فٹ ہوتی ہے ) یہ مادہ وادی سے ہے کیونکہ باع فی السیر یبوع کہا جاتا ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے کے لمبے لمبے قدم رکھنا کے ہیں ۔- فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔
خدا کی خریداری کا مطلب - قول باری ہے ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔ یہاں خریدنے کا ذکر بطور مجاز کیا گیا ہے اس لیے کہ حقیقت میں خریدار وہ ہوتا ہے جو ایسی چیز کی خریداری کرتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہوتی جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری جانوں اور اموال کا مالک ہے ۔ لیکن یہ طرز بیان اسی طرح ہے جس طرح یہ قول ہے من ذالذی یقرض اللہ قرضا ً حسنا ً کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ؟ اللہ نے آیت زیر بحث میں اسے خرید کر نام سے موسوم کیا جس طرح یہاں صدقہ کو قرض کے نام سے موسوم کیا اس لیے کہ دونوں صورتوں میں ثواب کی ضمانت دی گئی ہے اس لیے لفظ کو اس صورت پر محمول کیا گیا جس میں معاملہ کرنے والا مالک نہیں ہوتا اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو جہاد اور صدقہ کی ترغیب دی جائے اور انہیں اس طرف مائل کیا جائے۔- قول باری ہے السائعون اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے ایک قول کے مطابق اس سے مراد روز دار ہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا سیاحۃ امتی الصوم روزہ میری امت کے لیے سیاحت ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد روزہ ہے۔
(١١١) اللہ تعالیٰ نے خالص مسلمانوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا یعنی وہ لوگ اطاعت خداوندی میں لڑتے ہیں جس میں کبھی دشمن کو قتل کرتے ہیں اور کبھی دشمن ان کو قتل کردیتا ہے، اس قتال اور جہاد پر ان سے ایسا سچا وعدہ کیا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ضرور پورا کریں گے، اور یہ بات طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے وعدہ کو کون پورا کرنے والا ہے تو اب تم اپنی تجارت پر جس کا تم نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ ٹھہرایا ہے جنت کی خوشخبری مناؤ اور جنت کا ملنا تمہارے حق بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ان اللہ اشتری “۔ (الخ)- ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ عبدالل بن رواحہ (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اپنے پروردگار کے لیے اور اپنی ذات کے لیے جو آپ چاہیں شرط قرار دیدیں، آپ نے فرمایا اپنے پروردگار کے لیے تو یہ شرط قرار دیتا ہوں کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور اپنی ذات کے لیے یہ شرط قرار دیتا ہوں کہ جن سے اپنی حفاظت کرتے ہو ان سے میری حفاظت کرو، صحابہ کرام (رض) یہ سن کر بولے یہ تجارت تو بہت ہی کامیاب ہے نہ ہم اس کو واپس دیں گے اور نہ واپس لیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں جنت کے بدلے میں خرید لی ہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
آیت ١١١ (اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ ط) - یہ دو طرفہ سودا ہے جو ایک صاحب ایمان بندے کا اپنے رب کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ بندہ اپنے جان و مال بیچتا ہے اور اللہ اس کے جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیتا ہے۔- (یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف) - جیسے جنگ بدر میں مسلمانوں نے ستر کافروں کو جہنم رسید کیا ‘ اور میدان احد میں ستر اہل ایمان شہید ہوگئے۔- (وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط) - یہاں بین السطور میں دراصل یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ یہ سودا اگرچہ ادھار کا سودا ہے مگر یہ ایک پختہ عہد ہے جس کو پورا کرنا اللہ کے ذمہ ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں کوئی وسوسہ تمہارے دلوں میں نہ آنے پائے۔ دراصل یہ اس سوچ کا جواب ہے جو طبع بشری کی کمزوری کے سبب انسانی ذہن میں آتی ہے۔ انسان کو بنیادی طور پر نو نقد نہ تیرہ ادھار والا فلسفہ ہی اچھا لگتا ہے کہ کامیاب سودا تو وہی ہوتا ہے جو ایک ہاتھ دو اور دوسرے ہاتھ لو کے اصول کے مطابق ہو۔ مگر یہاں تو دنیوی زندگی میں سب کچھ قربان کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور اس کے انعام کے لیے وعدۂ فردا کا انتظار کرنے کو کہا جا رہا ہے کہ اس قربانی کا انعام مرنے کے بعد آخرت میں ملے گا۔ لہٰذا ایک عام انسان اس جنت موعودہ کا ہلکا سا تصور ہی اپنے ذہن میں لاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں یقین کی پختگی تو صرف خواص کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ چناچہ اہل ایمان کو ادھار کے اس سودے پر اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے اس وعدے کی توثیق تین دفعہ ہوچکی ہے ‘ تورات میں ‘ انجیل میں اور پھر قرآن مجید میں بھی۔ - (وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖط وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) - بَایَعْتُمْ بِہٖیعنی آپس میں جو سودا تم نے کیا۔ مبایعت باب مفاعلہ بایَعَ یُبَایِعُ (آپس میں سودا کرنا) ثلاثی مجرد باع یَبِیْعُ (بیچنا) سے ہے۔ یہیں سے لفظ بیعت نکلا ہے۔ ایک بندہ جو بیعت کرتا ہے اس میں وہ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرتا ہے۔ لہٰذا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر صحابہ (رض) نے جو بیعت کی ‘ اس کا مطلب یہی تھا کہ انہوں نے خود کو اللہ کے سپرد کردیا۔ اللہ تو چونکہ سامنے موجود نہیں تھا اس لیے بظاہر یہ بیعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ مبارک پر ہوئی تھی ‘ مگر اللہ نے اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں دراصل وہ اللہ سے ہی بیعت کرتے ہیں اور وقت بیعت ان کے ہاتھوں کے اوپر ایک تیسرا غیر مرئی ہاتھ اللہ کا بھی موجود ہوتا ہے۔ ( الفتح : ١٠) - یہ سودا اور یہ بیع جس کا ذکر آیت زیر نظر میں ہوا ہے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سودا کرنے کی توفیق عطافرمائے کہ ہم اللہ کے ہاتھ اپنی جانیں اور اپنے اموال بیچ دیں۔ اب اس سودے کے اثرات عملی طور پر جب انسانی شخصیت پر مترتب ہوں گے تو اس میں سے اعمال صالحہ کا ظہور ہوگا۔ لہٰذا اس کیفیت کا نقشہ آئندہ آیت میں کھینچا گیا ہے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :106 یہاں ایمان کے اس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے ، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا ۔ اس اہم مضمون کے تضمنات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع کی حقیقیت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے ۔ جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے ، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ، کیونکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے ۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید و فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے ، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے ۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیۃ اس کے حوالے کر دیا ہے ، اور وہ ہے اس کا اختیار یعنی اس کا اپنے انتخاب وارادہ میں آزاد ہونا اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خود مختاری حاصل ہو جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کر دے ۔ بالفاظ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور ان اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں ، مالک ہو گیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے ۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خد ا کے مالکانہ حقوق کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے ۔ بلکہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے ، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے ، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے ، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا و رغبت ( نہ کہ بمجبوری ) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے ، اور زندگی بھر اس میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے ، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا ۔ اس طرح اگر تو دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو ( جو تیری حاصل کردہ نہیں بلکہ میری عطا کردہ ہے ) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورت جنت ادا کروں گا ۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کر لے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے ۔ اور جو شخص اس سے انکار کر دے ، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے ، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے ۔ بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تضمنات کا تجزیہ کیجیے: ( ۱ ) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے ۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اتر آئے ۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے ، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو جائے ۔ ( ۲ ) دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضی شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے ۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت کہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیۃ دست بردار ہو جائے ۔ پس اگر کوئی شخص کلمہ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا ، اپنے دل و ماغ اور بدن کی قوتوں کا ، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا ، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو ، تو ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے ، مگر خدا کے ہاں یقینا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا کیونکہ اس نےخدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے ۔ جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا ، یہ دونوں طرز عمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے ، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے ۔ ( ۳ ) ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویہ زندگی اور کافرانہ رویہ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے ۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو ، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا ۔ الا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع کو بھول کر کوئی خود مختارانہ حرکت کر بیٹھے ۔ اسی طرح جو گروہ اہل ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی ، کوئی سیاست ، کوئی طرز تمدن و تہذیب ، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانون شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کر سکتا ۔ اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبیہ ہوگی اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویہ کی طرف پلٹ آئے گا ۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں ، بہر حال ایک کافرانہ رویہ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ”مسلمان“ کے نام سے موسوم ہوں یا ”غیر مسلم“ کے نام سے ۔ ( ٤ ) اس بیع کی رو سے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے ۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرا لینا اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدہ بیع کے قطعی خلاف ہے ۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا رویہ ٔزندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو ۔ یہ اس بیع کے تضمنات ہیں ، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملہ میں قیمت ( یعنی جنت ) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمہ پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ”بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا “ ۔ بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ” بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے“ ۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہو گی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدہ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحہ تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں ۔ اس سے پہلے وہ از روئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔ ان امور کی توضیح کے ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلہ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے ۔ اوپر سے جو سلسلہ تقریر چل رہا تھا اس میں ان لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا ۔ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر ، بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے ، اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت ، اپنے مال ، اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا ۔ لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویہ پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایمان ، جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے ، محض یہ مان لینے کا نام نہیں ہے کہ خدا ہے اور وہ ایک ہے ، بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے کہ خدا ہی تمہارے نفس اور تمہارے مال کا مالک ہے ، پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اس نفس و مال کو خدا کے حکم پر قربان کر نے سے جی چراتے ہو ، اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو خدا کے منشاء کے خلاف استعمال کرتے ہو ، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو ۔ سچے اہل ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں ۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انہیں بے دریغ قربان کرتے ہیں ، اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنی سا جز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :107 اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ توراۃ اور انجیل میں موجود نہیں ہے ۔ مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیاد ہیں ۔ جو اناجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں ، مثلا ” مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں ، کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہی کی ہے“ ( متی ۱۰:۵ ) ”جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا“ ( متی ۳۹:۱۰ ) ” جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا “ ( متی ۲۹:۱۹ ) البتہ توراۃ جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا ، اور یہی مضمون کیا ، وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے ۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جزو لاینفک رہا ہے ۔ لیکن موجودہ توراۃ میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ واقعی توراۃ اس سے خالی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانہ تنزل میں کچھ ایسے مادہ پرست اور دنیا کی خوشحالی کے بھوکے ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو ۔ اسی لیے کتاب الہٰی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے ۔ مثال کے طور پر توراۃ میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے : ” سن اے اسرائیل خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر“ ( استثناء ٦ : ٤ : ۵ ) اور یہ کہ: ” کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا “ ( استثنا ۳۲ : ٦ ) لیکن اس تعلق باللہ کی جو جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اس ملک کے مالک ہو جاؤ گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ، یعنی فلسطین ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو وہ پوری نہیں ہے ، اور پھر وہ خالص کلام الہٰی پر بھی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے ۔ اس کے اندر یہودیوں کی قومی روایات ، ان کے نسلی تعصبات ، ان کے اوہام ، ان کی آرزؤوں اور تمناؤں ، ان کی غلط فہمیوں ، اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلہ عبارت میں کلام الہٰی کے ساتھ کچھ اس طرح رل مل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو ان زوائد سے ممیز کرنا قطعا غیر ممکن ہو جاتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ آل عمران ، حاشیہ نمبر۲ ) ۔