مومنین کی صفات جن مومنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں ، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں ، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں ، ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لئے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں ۔ کھانے پینے کو ، جماع کو ترک کر دیتے ہیں ۔ یہی مراد لفظ سائحون سے یہاں ہے ۔ یہی وصف آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے اور یہی لفظ سائحات وہاں بھی ہے ۔ رکوع سجود کرتے رہتے ہیں ۔ یعنی نماز کے پابند ہیں ۔ اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں ۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں ۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں ۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں ۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں ۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مومنوں کے ہیں ۔ انہیں خو شخبریاں ہوں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سیاحت سے مراد روزہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے ۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ۔ کہ اس امت کی سیاحت روزہ ہے ۔ مجاہد ، سعید ، عطاء ، عبدالرحمن ، ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد سائحون سے صائمون ہے ۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں ۔ ابو عمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد سائحون سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا ۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے ۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے ۔ آپ نے فرمایا میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں ۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں ۔ بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا ، سفر میں رہنا ، ادھر ادھر جانا آنا ، پہاڑوں ، دوروں ، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے ، یہ محض غلط فہمی ہے ، یہ سیاحت مشروع نہیں ۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے ۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں قریب ہے کہ مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے ، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے ۔
112۔ 1 یہ انہیں مومنین کی مذید صفات بیان کی جا رہی ہیں جن کی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ نے کرلیا ہے، وہ توبہ کرنے والے، یعنی گناہوں اور فواحش سے بچتے اور اپنے رب کی عبادت کرنے والے، زبان سے اللہ کی حمد اور ثنا بیان کرنے والے اور دیگر ان صفات کے حامل ہیں جو آیت میں مذکور ہیں۔ سیاحت سے مراد اکثر مفسرین نے روزے لیے ہیں اور اسی کو ابن کثیر نے صحیح ترین اور مشہور ترین قول قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے۔ تاہم سیاحت سے زمین کی سیاحت مراد نہیں ہے جس طرح کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عبادت کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں غاروں اور سنسان بیابانوں میں جاکر ڈیرے لگا لینا بھی اس سے مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رہبانیت اور جوگی پن کا ایک حصہ ہے جو اسلام میں نہیں ہے۔ البتہ فتنوں کے ایام میں اپنے دین کو بچانے کے لیے شہروں اور آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور بیابانوں میں جاکر رہنے کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان، باب من الدین الفرار من الفتن و کتاب الفتن باب التعرب۔ ای السکنی مع الاعراب۔ فی الفتنہ) 112۔ 2 مطلب یہ ہے کہ مومن کامل وہ ہے جو قول اور عمل اسلام کی تعلیمات کا عمدہ نمونہ ہو اور ان چیزوں سے بچنے والا ہو جن سے اللہ نے اسے روک دیا ہے اور یوں اللہ کی حدوں کو پامال نہیں، بلکہ ان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ ایسے ہی کامل مومن خوشخبری کے مستحق ہیں یہ وہ بات ہے جسے قرآن میں (اٰ مَنُوْ ا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) کے الفاظ میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہاں اعمال صالحہ کی قدرے تفصیل بیان کردی گئی ہے۔
[١٢٥] معاہدہ بیع میں پورا اترنے والوں کی صفات :۔ سابقہ آیات میں گزر چکا ہے کہ جو سچے مومن غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کس طرح سچے دل سے توبہ کی۔ گویا بعض اوقات سچے مومن بھی بہ تقاضائے بشر یہ اس معاہدہ بیع کو بھول جاتے ہیں جس کی رو سے مومنوں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنی جانوں اور اموال میں تصرف اسی کی مرضی کے تابع رہ کر کریں گے۔ اور جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے تو ایسے مومنوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ سے ہر ایسے موقع پر توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔- [١٢٦] سائح کا لغوی مفہوم :۔ سائح کا ایک معنی روزہ دار ہے۔ ایسا روزہ جس میں روزہ دار کھانے پینے کی پابندیوں کے علاوہ اخلاقی پابندیوں کا بھی لحاظ رکھے۔ جیسے جھوٹ، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے بھی پرہیز کرے اور صاحب منجد کے نزدیک وہ روزہ دار ہے جو مسجد میں قیام پذیر ہو۔ جبکہ صائم کا معنی محض روزہ دار ہے اگرچہ اسے بھی اخلاقی پابندیوں کی تاکید کی گئی ہے۔ اور اس کا دوسرا معنی سیاحت کرنے والا ہے۔ سیر و تفریح کے لیے نہیں بلکہ طلب علم کے لیے، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کسب حلال کے لیے، آثار اقوام قدیمہ سے عبرت حاصل کرنے کے لیے، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پھیلی ہوئی آیات کا مشاہدہ کرنے کے لیے، دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے اور ہر اس کام کے لیے جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ - [١٢٧] یعنی جو لوگ صرف اپنی اصلاح نفس پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ازراہ خیر خواہی دوسروں کو بھی حسب استطاعت اپنے ہاتھ سے یا زبان و قلم سے اچھے کاموں کی تلقین کرتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔ جو مومنوں کے لیے ایک نہایت اہم فریضہ ہے۔- [١٢٨] ان حدود کا دائرہ بہت وسیع ہے جو انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد عبادات، اخلاق، معاشرت، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ اور جن مومنوں میں مذکورہ سب صفات پائی جائیں انہی کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس معاہدہ بیع کے پابند ہیں جس کے عوض میں انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچے مجاہد مومنوں کی نو صفات بیان فرمائی ہیں۔ پہلی چھ صفات میں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے، ساتویں اور آٹھویں صفت کا تعلق مخلوق سے ہے اور آخری کا تعلق دونوں سے ہے۔ - اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ : اپنے گناہوں پر نادم ہو کر ان کو چھوڑنے کا عزم کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے والے، کیونکہ توبہ ان تینوں کے جمع ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔ میدان قتال میں توبہ و استغفار سے زیادہ کوئی چیز مفید نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نبیوں کے ہمراہ قتال کرنے والوں کی دعا ذکر فرمائی : (وَمَا كَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ) [ آل عمران : ١٤٧ ] ” اور ان کا کہنا اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے کہا اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہماری زیادتی کو بھی اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافر لوگوں پر ہماری مدد فرما۔ “- الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ : مشکل اور آسانی، خوشی اور ناخوشی، آرام اور تکلیف ہر حال میں اللہ کی عبادت کرنے والے اور ہر حال میں اس کی تعریف کرنے والے اور اس پر راضی رہنے والے۔- السَّاۗىِٕحُوْنَ : ” سَاحَ یَسِیْحُ سِیَاحَۃً “ کا معنی پانی کا زمین پر چلنا، پھیل جانا۔ ” اَلسِّیَاحَۃُ “ عبادت کے لیے (گھر بار چھوڑ کر) زمین میں نکل جانا۔ (قاموس) چونکہ اس میں آرام و آسائش کا ترک اور دنیا کا ترک پایا جاتا ہے۔ نصرانیت میں اس نے رہبانیت کی صورت اختیار کی جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا، چناچہ فرمایا : (وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ) [ الحدید : ٢٧ ]” اور رہبانیت (دنیا سے کنارہ کشی) تو انھوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا۔ “ اب اس کی صورت اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت (وطن چھوڑنا) ہے کہ جہاں اللہ کے دین پر عمل نہ کرسکے، نہ اس کی دعوت دے سکے، اسے چھوڑ کر اللہ کی زمین میں کہیں اور نکل جائے۔ دیکھیے سورة نساء (٩٧ تا ١٠٠) ، زمر (١٠) اور عنکبوت (٥٣) ایک صورت جہاد فی سبیل اللہ ہے جس میں مجاہد گھر سے نکل کر آرام و آسائش ترک کرکے اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے اللہ کی زمین کے مشکل سے مشکل اور خوبصورت سے خوبصورت مقامات پر پھرتا ہے اور ہر جگہ اللہ کا بول بالا کرتا ہے۔ ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ) ” میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ “ [ أبوداوٗد، الجھاد، باب فی النھی عن السیاحۃ : ٢٤٨٦، و صححہ الألبانی ] بعض علماء کے مطابق ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ میں وہ طالب علم بھی آجاتے ہیں جو اللہ کا دین سیکھنے کے لیے شہر بہ شہر سفر کرتے ہیں۔ ایک صورت ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ کی روزہ کی ہے کہ اس میں انسان تمام گناہ چھوڑنے کے ساتھ اپنی سب سے زیادہ مرغوب تین چیزیں کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت ترک کردیتا ہے۔ ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ کا معنی ” روزہ رکھنے والے “ ابن عباس، ابن مسعود (رض) اور کئی تابعین سے آیا ہے۔ (ابن کثیر) ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلسَّاءِحُوْنَ ھُمُ الصَّاءِمُوْنَ ) ” سائحون روزہ دار ہی ہیں۔ “ مستدرک وغیرہ مگر شیخ البانی (رض) نے سلسلہ ضعیفہ (٣٧٢٩) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ - شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ بےتعلق رہنا روزہ ہے یا ہجرت ہے یا دل نہ لگانا دنیا کے مزوں میں۔ (موضح) ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ کے لغوی معنی اور صحیح حدیث کو مدنظر رکھیں تو ہجرت یا جہاد اور اعلائے دین کے لیے یا دوسرے نیک مقاصد کے لیے زمین میں پھرنے والے ہی اس کا اصل مصداق ٹھہرتے ہیں۔ پاسپورٹ اور ویزا کا نظام کفار نے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو ختم کرنے ہی کے لیے اپنے اور مسلمانوں کے ملکوں میں نافذ کروا دیا ہے، کیونکہ سفر کے ذریعے ہی سے ہجرت، جہاد، طلب علم، تبلیغ دین، تجارت اور بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں جو اس وقت تک حاصل رہے جب تک مسلمان ساری زمین پر پھرتے رہے اور اس قوت سے سرفراز رہے۔ جب وہ گھروں میں بیٹھ گئے اور آرام طلبی اختیار کی تو کفار کی مراد بر آئی۔- الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ : اس کے اولین مصداق تو وہ ہیں جو فرض نمازوں کے علاوہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں، جن کے متعلق کفار نے بھی شہادت دی : ” ھُمْ باللَّیْلِ رُھْبَانٌ وَبِالنَّھَارِ فُرْسَانٌ“ کہ وہ رات کو راہب اور دن کو شاہ سوار ہوتے ہیں۔ ورنہ کم از کم فرض نمازوں کے پابند ہونا تو اس کے لیے بنیادی چیز ہے۔ ترک نماز کے ساتھ اپنے آپ کو جنت کے سوداگر سمجھنا اپنی جان کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ - الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ : یعنی دوسروں کو نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے منع کرکے کفار کو مسلمان بنانے والے اور مسلمانوں کو اسلام پر عمل کی تاکید کرنے والے اور صرف دوسروں ہی کو نہیں خود بھی اللہ کی ہر حد کی پابندی اور ہر حکم کی اطاعت کرنے والے۔ ” الْمُؤْمِنِيْنَ “ میں الف لام کی وجہ سے ” ان مومنوں کو “ ترجمہ کیا ہے کہ خوش خبری کے حق دار ان صفات کے حامل مومن ہیں، فقط دعویٰ رکھنے والے نہیں۔
(آیت) اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الایة، یہ صفات انہی مؤمنین کی ہیں جن کے بارے میں اوپر یہ فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کی جان اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔ نزول اس کا ایک خاص جماعت شرکاء بیعت عقبہ کے لئے ہوا، مگر مفہوم آیت تمام مجاہدین فی سبیل اللہ کو شامل ہے، اور جو اوصاف ان کے التَّاۗىِٕبُوْنَ الخ سے بیان کئے گئے، یہ شرط کے طور پر نہیں، کیونکہ جنت کا وعدہ مطلقًا جہاد فی سبیل اللہ پر آیا ہے، ان اوصاف کے بیان سے مقصد یہ ہے کہ جو لوگ جنت کے اہل ہوئے ہیں ان کے ایسی اوصاف ہوا کرتے ہیں، خصوصاً بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے صحابہ کا یہی حال تھا۔- السَّاۗىِٕحُوْنَ کے معنی جمہور مفسرین کے نزدیک صَائِمُون یعنی روزہ داروں کے ہیں، اصل میں یہ لفظ سیاحت سے ماخوذ ہے، اسلام سے پہلے دین نصرانیت میں سیاحت ایک عبادت سمجھی جاتی تھی کہ انسان اپنے گھر بار کو چھوڑ کر عبادت کے لئے نکل کھڑا ہوا، اسلام میں اس کو رہبانیت قرار دیا گیا، اور اس سے منع کیا گیا اس کے قائم مقام روزہ کی عبادت مقرر کی گئی، کیونکہ سیاحت کا مقصد ترک دنیا تھا، روزہ ایسی چیز ہے کہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے ایک معین وقت میں دنیا کی تمام خواہشات کو ترک کردینا ہوتا ہے اور اسی بنا پر بعض روایات میں جہاد کو بھی سیاحت قرار دیا گیا ہے۔ ابن ماجہ، حاکم، بیہقی نے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سیاحۃ امتی الجھاد فی سبیل اللہ، یعنی اس امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔- حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں سائحین کا لفظ آیا ہے اس سے مراد صائمین ہیں، حضرت عکرمہ نے سائحین کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ طالب علم ہیں جو طلب علم کیلئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلتے ہیں ( مظہری) ۔- اس جگہ مؤمنین مجاہدین کے اوصاف تائبون، عابدون، حامدون، سائحون، راکعون، ساجدون، آمرون بالمعروف، والناہوں عن المنکر، سات چیزیں بیان فرمانے کے بعد آٹھواں وصف الحفظون الحدود اللہ فرمایا، یہ درحقیقت تمام اوصاف مذکورہ سابقہ کا ایک جامع لفظ ہے، گویا سات اوصاف میں جو تفصیل بتلائی گئی اس کا اجمال یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ہر کام اور کلام میں حدود اللہ یعنی احکام شرعیہ کے پابند ہیں، ان کی حفاظت کرتے ہیں۔- آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَبَشِّرِ الْمُؤ ْمِنِيْنَ یعنی جن مؤمنین کے یہ اوصاف ہوں جو اوپر بیان کئے گئے ان کو ایسی نعمتوں کی خوش خبری سنا دیجئے جن کو کسی کا وہم و خیال بھی نہیں پاسکتا، اور نہ کسی عبادت سے اس کو سمجھایا جاسکتا ہے، اور نہ کسی کے کانوں نے ان کا تذکرہ سنا ہے، مراد جنت کی نعمتیں ہیں۔
اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ١١٢- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔- ساح - السَّاحَةُ : المکان الواسع، ومنه : سَاحَةُ الدّار، قال : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات 177] ، والسَّائِحُ : الماء الدّائم الجرية في ساحة، وسَاحَ فلان في الأرض : مرّ مرّ السائح قال : فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، ورجل سائح في الأرض وسَيَّاحٌ ، وقوله : السَّائِحُونَ- [ التوبة 112] ، أي : الصائمون، وقال : سائِحاتٍ [ التحریم 5] ، أي : صائمات، قال بعضهم : الصّوم ضربان : حكميّ ، وهو ترک المطعم والمنکح، وصوم حقیقيّ ، وهو حفظ الجوارح عن المعاصي کالسّمع والبصر واللّسان، فَالسَّائِحُ : هو الذي يصوم هذا الصّوم دون الصّوم الأوّل، وقیل : السَّائِحُونَ هم الذین يتحرّون ما اقتضاه قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج 46] .- ( س ی ح ) الساحتہ کے معنی فراخ جگہ کے ہیں اسی اعتبار سے مکان کے صحن کو ساحتہ الدار کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات 177] مگر جب وہ ان کے میدان میں اترے گا ۔ اور وسیع مکان میں ہمیشہ جاری رہنے والے پانی کو سائح کہا جاتا ہے اور ساح فلان فی الارض کے معنی پانی کی طرح زمین میں چکر کاٹنا کے ہیں قرآن میں ہے فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو ( مشرکو تم ) زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ اور اسی سے ہمیشہ سفر کرنے والے آدمی کو سائح یا سیاح کہا جاتا ہے ۔ اور آیت السَّائِحُونَ [ التوبة 112] روزہ رکھنے والے ۔ میں سائحون بمعنی کے ہے ۔ اسی طرح السائحات روازی رکھنے والی عورتیں مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ روزہ دوقسم پر ہے ایک حقیقی روزہ جو کھانے پینے اور جماع کو ترک کرنے سے عبارت ہوتا ہے اور دوسرا روزہ حکمی ہے ۔ جو کہ جوارح یعنی آنکھ کان ور زبان وغیرہ کو معاصی سے روکنے کا نام ہے ۔ تو سائیحون سے دوسری قسم کے روزہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سائحون سے وہ لوگ مراد ہیں جو آیت : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج 46] . کیا ان لوگوں کے ملک میں سیر نہیں کہ تاکہ ان کے دل ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سن سکتے ۔ کے مقتضیٰ کے تحت زمین میں سفر کرتے ہیں ( یعنی قدرت الہی کے آثار وعجائبات دیکھتے اور ان پر غور وفکر کرتے رہتے ہیں ۔- ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] - اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا
قول باری ہے والحافظون لحدود اللہ اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے اللہ کی اطاعت کرنے ، اس کے اوامر پر ڈٹے رہنے اور اس کے نواہی سے رکے رہنے کے وصف کو مبالغہ کے طور پر بیان کرنے کا یہ سب سے بلیغ اور بھر پور انداز ہے ، وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوامر ، اپنے نواہی ، اپنی ترغیبات کو مستحبات یا اباحات کے حدود مقرر کردیے ہیں ۔ اسی طرح بندوں کو بعض احکامات کے اندر دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلینے نیز غیر اولیٰ کو چھوڑ کر اولیٰ پر عمل کرنے کی گنجائش ملی ہیں تا کہ اس کے ذریعہ اللہ کے حکم کی موافقت کی حتیٰ الامکان جستجو ہوجائے۔ یہ تمام باتیں حدود اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس وصف سے متصف کردیا ہے جو لوگ ایسے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ تمام فرائض کو ادا کرنے والے اور اس کے تمام احکامات کو بروئے کار لانے والے قرار پائیں گے۔ ان لوگوں سے کون مراد ہیں اس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوچکا ہے ، یعنی وہ صحابہ کرام جنہوں نے بیعۃ الرضوان کے موقع پر درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ، چناچہ ارشاد باری فاستبشروا ببیعکم الذین بایعتم بہ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے ، پھر اس پر اس قول کو عطف کیا التائبون توبہ کرنے والے تا آخر آیت ۔ اس آیت میں دینداری اور اسلام کے اندر ان کے مرتبہ ومقام اور اللہ کے ہاں ان کی قدر و منزلت کو بیان کیا گیا ہے۔ بندوں کی اللہ تعالیٰ کی طاعت پر کمر بستگی کی صفت کو اس سے زیادہ بلیغ اور پر شکوہ انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا جو قول باری والحافظون لحدود اللہ میں بیان ہوا ہے۔
(١١٢) اب اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کی صفات کو بیان فرماتے ہیں کہ وہ ان اوصاف کمال کے ساتھ بھی موصوف ہیں۔ کہ گناہوں سے توبہ کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اور اس کی حمد وثناء بیان کرنے والے اور روزہ رکھنے والے اور پانچوں نمازوں میں رکوع و سجدہ کرنے والے اور توحید و احسان کا حکم کرنے والے اور کفر اور ان باتوں سے جن کا شریعت اور سنت میں کہیں ذکر نہیں باز رہنے والے اور فرائض خداوندی کو قائم کرنے والے ہیں آپ ایسے مسلمانوں کو جنت کی خوشخبری سنا دیجیے۔
آیت ١١٢ (اَلتَّآءِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ) - ’ سَاءِحُوْنَ ‘ کا معنی ہے سیاحت کرنے والے۔ لیکن اس سے مرادمحض سیر و سیاحت نہیں بلکہ عبادت و ریاضت کے لیے گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہونا ہے۔ پچھلی امتوں میں روحانی ترقی کے لیے لوگ لذات دنیوی کو ترک کر کے اور انسانی آبادیوں سے لا تعلق ہو کر جنگلوں میں چلے جاتے تھے اور رہبانیت اختیار کرلیتے تھے ‘ مگر ہمارے دین میں ایسی سیاحت اور رہبانیت کی اجازت نہیں۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لاَ رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ وَلَا سِیَاحَۃَ ) (١) اسلام میں نہ رہبانیت ہے نہ سیاحت۔ سابقہ ادیان کے برعکس اسلام نے سیاحت اور رہبانیت کا جو تصور متعارف کرایا ہے اس کے لیے ابوامامہ باہلی (رض) سے مروی یہ حدیث ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : - (اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ سِیَاحَۃَ وَاِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘ وَاِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَہْبَانِیَّۃٌ وَرَھْبَانِیَّۃُ اُمَّتِی الرِّبَاطُ فِیْ نُحُوْرِ الْعَدُوِّ ) (٢)- ہر امت کے لیے سیاحت کا ایک طریقہ تھا اور میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے ‘ اور ہر امت کی ایک رہبانیت تھی ‘ جبکہ میری امت کی رہبانیت دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے - ایک صحابی (رض) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ‘ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (٣)- گویا ہماری امت کے لیے ’ سیاحت ‘ کا اطلاق جہاد و قتال کے لیے گھر سے نکلنے اور اس راستے میں صعوبتیں اٹھانے پر ہوگا۔- یہ چھ اوصاف جو اوپر گنوائے گئے ہیں ان کا تعلق انسانی شخصیت کے نظریاتی پہلو سے ہے۔ اب اس کے بعد تین ایسی خصوصیات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو انسان کی عملی جدوجہد سے متعلق ہیں اور دعوت و تحریک کی صورت میں معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔- (الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) - امر بالمعروف گویا دین کے لیے عملی جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ جدوجہد جب آگے بڑھ کر نہی عن المنکر بالید کے مرحلے تک پہنچتی ہے تو پھر ان خدائی فوجداروں کی ضرورت پڑتی ہے جن کو یہاں (وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط ) کا لقب دیا گیا ہے۔ یہ لوگ اگر پوری طرح منظم ہوں تو اپنی تنظیمی طاقت کے بل پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ اب ہم اپنے معاشرے میں منکرات کا سکہ نہیں چلنے دیں گے اور کسی کو اللہ کی حدود کو توڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اللّٰھم رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ منہج انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس مرحلے کے ضمن میں آج اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں نہی عن المنکر بالید کے لیے اجتماعی اور منظم جدوجہد کی صورت کیا ہوگی۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :108 متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ” توبہ کرنے والے“ ہے ۔ لیکن جس انداز کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہل ایمان کی مستقل صفات میں سے ہے ، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں ۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں ، لہذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں“ ۔ مومن اگرچہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے ، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اس کا اپنا ہے ، اور یہ بات کہ اس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے ، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتھ اپنے معاملہ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خودمختارانہ طرز عمل اختیار کر بیٹھتا ہے ۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے ، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے ، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے ۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے ۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعوری حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آکر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس کی قابل تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار بار اسی راہ کی طرف آتا ہے ، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے ۔ پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے ۔ اوپر سے جو سلسلہ کلام چلا آرہا ہے اس میں روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا ۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضی بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اولین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہ بندگی سے پھسل جائے وہ فورا اس کی طرف پلٹ آئیں ، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دور نکلتے چلے جائیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :109 متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ ( روزہ رکھنے والے ) سے کی ہے ۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ ، مجازی معنی ہیں ۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس لفظ کیے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں ، اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں ہے ۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں ۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقًا انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اس سے راہ خدا میں خرچ کرنا ہے ، اسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہوں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو ۔ مثلا اقامت دین کے لیے جہاد ، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت ، دعوت دین ، اصلاح خلق ، طلب علم صالح ، مشاہدہ آثار الہٰی اور تلاش رزق حلال ۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں نے نہیں نکلتے تھے ان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :110 یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد ، عبادات ، اخلاق ، معاشرت ، تمدن ، معیشت ، سیاست ، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں ، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں ، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کاروائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے ۔ لہٰذا سچے اہل ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتے ہیں ، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں ۔
86: قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ 87: قرآن کریم نے بہت سے مواقع پر ’’ اللہ کی قائم کی ہوئی حدود‘‘ اور ان کی حفاظت کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام دئیے ہیں۔ وہ کچھ حدود کے پابند ہیں۔ ان حدود میں رہ کر ان کو انجام دیا جائے تو وہ درست اور نیک کام ہیں۔ اور اگر حدود سے نکل جائیں تو وہی کام ناپسندیدہ اور بعض اوقات گناہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص عبادت میں اتنا منہمک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق رکھے ہیں، ان کو پامال کرنے لگے، تو وہ عبادت بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ تہجد کی نماز بڑی عظیم فضیلت کی چیز ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ نمازیں اس طرح پڑھے جس سے سونے والوں کی نیند میں خلل آئے تو یہ ناجائز ہے۔ والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نفلی عبادت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے لگے تو یہ گناہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں بہت سی نیکیوں کا بیان کرنے کے بعد آخر میں حدود کی حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ حضرت تمام نیکیاں ان حدود میں رہ کر انجام دیتے ہیں جو ان کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں۔ ان حدود کی تعلیم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول اور فعل سے دی ہے اور ان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ انسان کسی اللہ ولاے کی صحبت میں رہے، اور اس کے طرز عمل کو دیکھ دیکھ ان حدود کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں ان کو اتارنے کی کوشش کرے۔