مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ممانعت مسند احمد میں ہے کہ ابو طالب کی موت کے وقت اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے گئے ۔ وہاں اس وقت ابو جہل اور عبداللہ بن ابی اُمیہ بھی تھا ۔ آپ نے فرمایا چچا لا الہ الا للہ کہہ لے اس کلمے کی وجہ سے اللہ عز وجل کے ہاں میں تیری سفارش تو کر سکوں ۔ یہ سن کر ان دونوں نے کہا کہ اے ابو طالب کیا تو عبدالمطلب کے دین سے پھر جائے گا ؟ اس پر اس نے کہا میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر میں جب تک منع نہ کر دیا جاؤں تیرے لیے بخشش مانگتا رہونگا ۔ لیکن ( اوپر والی آیت ) اتری ۔ یعنی نبی کو اور مومنوں کو لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں ۔ ان پر تو یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ مشرک جہنمی ہیں ۔ اسی بارے میں ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ 56 ) 28- القصص:56 ) بھی اتری ہے ۔ یعنی تو جسے محبت کرے اسے راہ نہیں دکھا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ دکھاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی زبانی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے استغفار سن کر اس سے کہا کہ تو مشرکوں کے لیے استغفار کرتا ہے اس نے جواب دیا کہ کیا حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں کیا ؟ فرماتے ہیں میں نے جاکر یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ کہا جب کہ وہ مرگیا پھر میں نہیں جانتا یہ قول مجاہد کا ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم تقریبا ایک ہزار آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، آپ منزل پر اترے ، دو رکعت نماز ادا کی پھر ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے انسو جاری تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر تاب نہ لا سکے ، اٹھ کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ ملی ۔ اس پر میری آنکھں بھر آئیں کہ میری ماں ہے اور جہنم کی آگ ہے ۔ اچھا اور سنو میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا اب وہ ممانعت ہٹ گئی ہے ۔ زیارت قبور سے منع کیا تھا ، اب تم کرو کیونکہ اس سے تمہیں بھلائی یاد آئے گی ۔ میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو روکنے سے منع فرمایا تھا اب تم کھاؤ اور جس طرح چاہو روک رکھو ۔ اور میں نے تمہیں بعض خاص برتنوں میں پینے کو منع فرمایا تھا لیکن اب تم جس برتن میں چاہو پی سکتے ہیں لیکن خبردار نشے والی چیز ہرگز نہ پینا ۔ ابن جریر میں ہے کہ مکہ شریف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نشان قبر کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ دیر خطاب کر کے آپ کھڑے ہوئے ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیا بات تھی؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے اپنی ماں کی قبر کے دیکھنے کی اجازت مانگی وہ تو مل گئی لیکن اس کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو نہ ملی ۔ اب جو آپ نے رونا شروع کیا تو ہم نے تو آپ کو کبھی ایسا اتنا روتے نہیں دیکھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ قبرستان کی طرف نکلے ، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ وہاں آپ ایک قبر کے پاس بیٹھ کر دیر تک مناجات میں مشغول رہے ، پھر رونے لگے ۔ ہم بھی خوب روئے پھر کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی کھڑے ہوگئے آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور ہمیں بلا کر فرمایا کہ تم کیسے روئے؟ ہم نے کہا آپ کو روتا دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ قبر میری ماں آمنہ کی تھی میں نے اسے دیکھنے کی اجازت چاہی تھی جو مجھے ملی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ دعا کی اجازت نہ ملی اور ( آیت ماکان الخ ، ) اتری پس جو ماں کی محبت میں صدمہ ہونا چاہیے مجھے ہوا ۔ دیکھو میں نے زیارت قبر کی تمہیں ممانعت کی تھی ۔ لیکن اب میں رخصت دیتا ہوں کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ تبوک کی واپسی میں عمرے کے وقت ثنیہ عسفان سے اترتے ہوئے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم عقبہ میں ٹھہرو ، میں ابھی آیا ۔ وہاں سے اتر کر آپ اپنی والدہ کی قبر پر گئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دیر تک مناجات کرتے رہے ۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا آپ کے رونے سے سب لوگ رونے لگے اور یہ سمجھے کہ آپ کی امت کے بارے میں کوئی نئی بات پیدا ہوئی جس سے آپ اس قدر رو رہے ہیں ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ کی امت کے بارے میں کوئی ایسا نیا حکم اترا جو طاقت سے باہر ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو بات یہ ہے کہ یہاں میری ماں کی قبر ہے ۔ میں نے اپنے پروردگار سے قیامت کے دن اپنی ماں کی شفاعت کی اجازت طلب کی لیکن اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائی تو میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا ۔ جبرائیل آئے اور مجھ سے فرمایا ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف ایک وعدے سے تھا جس کا وعدہ ہو چکا تھا لیکن جب اس پر کھل گیا تو کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے توہ وہ فوراً بیزار ہو گیا پس آپ بھی اپنی ماں سے اسی طرح بیزار ہو جائیے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے بیزار ہو گئے ۔ پس مجھے اپنی ماں پر رحم اور ترس آیا ۔ پھر میں نے دعا کی کہ میری امت پر سے چاروں سختیاں دور کر دی جائیں اللہ تعالیٰ نے دو تو دور فرما دیں لیکن دو کے دور فرمانے سے انکار فرما دیا ۔ ا ۔ آسمان سے پتھر برسا کر ان کی ہلاکت ٢ ۔ زمین انہیں دھنسا کر ان کی ہلاکت ۔ ٣ ۔ ان میں پھوٹ اور اختلاف کا پڑنا ۔ ٤ ۔ ان میں ایک کو ایک سے ایذائیں پہنچنا ۔ ان چاوروں چیزوں سے بچاؤ کی میری دعا تھی دو پہلی چیزیں تو مجھے عنایت ہوگئیں میری امت آسمانی پتھراؤ سے اور زمین میں دھنسائے جانے سے تو بچا دی گئی ۔ ہاں آپس کا اختلاف آپس کی سر پھٹول یہ نہیں اٹھی ۔ آپ کی والدہ کی قبر ایک ٹیلے تلے تھی اس لیے آپ راستے سے گھوم کر وہاں گئے تھے ۔ یہ روایت غریب ہے اور سیاق عجیب ہے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ غریب اور منکر وہ روایت ہے جو امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب بنام سابق لاحق میں مجہول سند سے وارد کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو زندہ کر دیا اور ایمان لائیں پھر مر گئیں ۔ اس طرح کی سہیلی کی ایک روایت ہے جس میں ایک نہیں کئی ایک راوی مجہول ہیں ۔ اس میں ہے کہ آپ کے ماں باپ دونوں دوبارہ زندہ ہوئے پھر ایمان لائے ابن دحیہ نے اسی روایت پر نظریں جما کر کہا ہے کہ یہ نئی زندگی اسی طرح کی ہے جس طرح مروی ہے کہ سورج ڈوب جانے کے بعد واپس لوٹا اور حضرت علی نے نماز عصر ادا کی ۔ طحاوی تو کہتے ہیں کہ سورج والی یہ روایت ثابت ہے ۔ قرطبی کہتے ہیں ان کی دوبار کی زندگی شرعاً یا عقلاً ممتنع نہیں ۔ کہتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ کے چچا ابو طالب کو بھی اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور آپ پر ایمان لایا ۔ میں کہتا ہوں اگر صیح روایت سے یہ روایتیں ثابت ہوں تو بیشک مانع کوئی نہیں ( لیکن تینوں روایتیں محض گپ ہیں ) واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آپ نے ارادہ کیا کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کریں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ۔ تو آپ نے حضرت ابراہیم کے استغفار کو پیش کیا ۔ اس کا جواب ( آیت ماکان استغفار الخ ، ) میں مل گیا ۔ فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے مشرکین کے لیے استغفار کیا جاتا تھا ۔ اب ممنوع ہو گیا ۔ ہاں زندوں کے لیے جائز رہا ۔ لوگوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے بڑوں میں ایسے بھی تھے جو پڑوس کا اکرام کرتے تھے ، صلہ رحمی کرتے تھے ، غلام آزاد کرتے تھے ، ذمہ داری کا خیال رکھتے تھے ۔ تو کیا ہم ان کے لیے استغفار نہ کریں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ، میں بھی اپنے والد کے لیے استغفار کرتا ہوں جیسے کہ حضرت ابراہیم اپنے والد کے لیے کرتے تھے ۔ اس پر ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ) 9 ۔ التوبہ:113 ) تک نازل ہوئی ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عذر بیان ہوا اور فرمایا ( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ ١١٤ ) 9- التوبہ:114 ) مذکور ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے چند باتیں وحی کی ہیں جو میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میرے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے حکم فرمایا گیا کہ میں کسی اس شخص کے لیے استغفار نہ کروں جو شرک پر مرا ہو ۔ اور یہ کہ جو شخص اپنا فالتو مال دے دے اس کے لیے یہی افضل ہے اور جو روک رکھے اسکے لیے برائی ہے ۔ ہاں برابر سرابر حسب ضرورت پر اللہ کے ہاں ملامت نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک یہودی مر گیا جس کا ایک لڑکا تھا لیکن وہ مسلمان تھا اس لیے اپنے باپ کے جنازے میں وہ شریک نہ ہوا ۔ جب حضرت عبداللہ بن عباس کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمانے لگے اسے جنازے میں جانا چاہیے تھا اور دفن میں بھی موجود رہنا چاہیے تھا اور باپ کی زندگی تک اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے تھی ۔ ہاں موت کے بعد اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ۔ پھر آپ نے ( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ ١١٤ ) 9- التوبہ:114 ) تلاوت فرمائی کہ حضرت ابراہیم نے یہ طریقہ نہیں چھوڑا ۔ اس کی صحت کی گواہ ابو داؤد وغیرہ کہ یہ روایت بھی ہو سکتی ہے کہ ابو طالب کی موت پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آکر کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ آپ کے بوڑھے چچا گمراہ مر گئے ہیں ۔ آپ نے فرمایا جاؤ انہیں دفنا کر سیدھے میرے پاس آؤ الخ ۔ مروی ہے کہ جب ابو طالب کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا میں تجھ سے صلہ رحمی کا رشتہ نبھا چکا ۔ حضرت عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں میں تو قبلہ کی طرف منہ کرنے والوں میں سے کسی کے جنازے کی نماز نہ چھوڑوں گا ۔ گو وہ کوئی حبشن زنا سے حاملہ ہی ہو ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر ہی نماز و دعا حرام کی ہے اور فرمایا ہے ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ) 9 ۔ التوبہ:113 ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سنا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے جو ابو ہریرہ اور اس کی ماں کے لیے استغفار کرے ۔ تو اس نے کہا باپ کے لیے بھی ۔ آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ میرا باپ شرک پر مرا ہے ۔ آیت میں فرمان الٰہی ہے کہ جب حضرت ابراہیم پر اپنے باپ کا اللہ کا دشمن ہونا کھل گیا ۔ یعنی وہ کفر ہی پر مر گیا ۔ مروی ہے کہ قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم سے ان کا باپ ملے گا ۔ نہایت سرا سیمگی پریشانی کی حالت میں چہرہ غبار آلود اور کالا پڑا ہوا ہوگا کہے گا کہ ابراہیم آج میں تیری نافرمانی نہ کروں گا ۔ حضرت ابراہیم جناب باری میں عرض کریں گے کہ میرے رب تو نے مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ اور میرا باپ تیری رحمت سے دور ہو کر عذاب میں مبتلا ہو یہ بہت بڑی رسوائی ہے ۔ اس پر فرمایا جائے گا کہ اپنی پیٹھ پیچھے دیکھو ۔ دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا ہوا کھڑا ہے ۔ یعنی آپ کے والد کی صورت مسخ ہو گئی ہوگی اور اس کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ فرماتا ہے کہ ابراہیم بڑا ہی دعا کرنے والا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اواہ کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا رونے دھونے والا ، اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کرنے والا ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں بہت ہی رحم کرنے والا ، مخلوق رب کے ساتھ نرمی اور سلوک اور مہربانی کرنے والا ۔ ابن عباس کا قول ہے پورے یقین والا ۔ سچے ایمان والا ، توبہ کرنے والا ، حبشی زبان میں اواہ مومن اور موقن یقین و ایمان والے کو کہتے ہیں ۔ ذوالنجادین نامی ایک صحابی کو اس بنا پر کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا تو وہ اسی وقت دعا کے ساتھ آواز اٹھاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اواہ فرمایا ۔ ( مسند احمد ) اواہ سے مراد تسبیح پڑھنے والا ۔ ضحٰی کی نماز پڑھنے والا ۔ اپنے گناہوں کی یاد آنے پر استغفار کرنے والا ۔ اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والا ۔ رب سے ڈرنے والا ۔ پوشیدہ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے والا بھی مروی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر ہوا کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ اواہ ہے ۔ ( ابن جریر ) اسی ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کو دفن کر کے فرمایا یقینا تو اواہ یعنی بکثرت تلاوت کلام اللہ شریف کرنے والا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے اپنی دوا میں اوہ اوہ کر رہا تھا ۔ اس کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دفن میں شامل تھے چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے آپ کے ساتھ چراغ بھی تھا ۔ ( ابن جریر ) یہ روایت غریب ہے ۔ کعب احبار فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم کے سامنے جہنم کا ذکر ہوتا تھا تو آپ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اواہ یعنی فقیہ امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ سب سے بہتر قول ان تمام اقوال میں یہ ہے کہ مراد اس لفظ سے بکثرت دعا کرنے والا ہے ۔ الفاظ کے مناسب بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر یہ فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لیے استغفار کیا کرتے تھے اور تھے بھی بکثرت دعا مانگنے والے ۔ بردبار بھی تھے ، جو آپ پر ظلم کرے ، آپ سے برا پیش آئے آپ تحمل کر جایا کرتے تھے ۔ باپ نے آپ کو ایذاء دی صاف کہہ دیا تھا کہ تو میرے معبودوں سے منہ پھیر رہا ہے تو اگر اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالوں گا ۔ وغیرہ لیکن پھر بھی آپ نے ان کے لیے استغفار کرنے کا وعدہ کر لیا ، پس اللہ فرماتا ہے کہ ابراہیم اواہ اور حلیم تھے ۔
113۔ 1 اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم بزرگوار ابو طالب کا آخری وقت آیا تو آپ ان کے پاس گئے جبکہ ان کے پاس ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا چچا جان لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ پڑھ لیں، تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے لئے تکرار پیش کرسکوں، ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا اے ابو طالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے انحراف کرو گے ؟ (یعنی مرتے وقت یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ حتٰی کہ اسی حال میں ان کا انتقال ہوگیا) نبی نے فرمایا، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جائے گا میں آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے (صحیح بخاری) سورة قصص کی آیت انک لا تھدی من احببت بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی والدہ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی اجازت طلب فرمائی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد ج 5، ص 355) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مشرک قوم کے لیے جو دعا فرمائی تھی اللھم اغفر لقومی فانھم لایعلمون۔ یا اللہ میری قوم بےعلم ہے اس کی مغفرت فرما دے، یہ آیت کے منافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا مطلب ان کے لیے ہدایت کی دعا ہے۔ یعنی وہ میرے مقام و مرتبہ سے ناآشنا ہے، اسے ہدایت سے نواز دے تاکہ وہ مغفرت کی اہل ہوجائے۔ اور زندہ کفار و مشرکین کے لیے ہدایت کی دعا کرنی جائز ہے۔
[١٢٩] رسول اللہ یتیم پیدا ہوئے تھے۔ آٹھ سال کی عمر تک آپ اپنے دادا عبدالمطلب کے زیر تربیت رہے۔ پھر عبدالمطلب بھی فوت ہوگئے تو وہ آپ کو آپ کے چچا ابو طالب کے سپرد کر گئے۔ ابو طالب نے آپ کی بہت پیار و محبت سے تربیت کی جب چالیس سال کی عمر میں آپ نے نبوت کا اعلان کیا تو آپ کی قوم آپ کی دشمن بن گئی لیکن ابو طالب نے آپ کی بھرپور حمایت کی اور اسلام نہ لانے کے باوجود ہر مشکل وقت میں ابو طالب نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے لیے ڈھال کا کام دیتے رہے۔ شعب ابی طالب میں تین سال آپ کے ساتھ رہے۔ آپ کو بھی ابو طالب سے بہت محبت تھی۔ نبوت کے آٹھویں سال ابو طالب کی وفات ہوگئی جس کا آپ کو شدید صدمہ ہوا۔ آپ نے ابو طالب کی پدرانہ شفقت اور اسلامی خدمات کے جذبات سے متاثر ہو کر اس کے حق میں استغفار کا وعدہ کیا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- مشرکین کے لئے دعائے مغفرت کی ممانعت اور قصہ ابو طالب :۔ مسیب بن حزن (سعید بن مسیب کے والد) کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ ان کے پاس گئے اس وقت ان کے پاس ابو جہل بیٹھا تھا۔ آپ نے ابو طالب سے کہا چچا لا الہ الا اللہ کہہ لو۔ مجھے اپنے پروردگار کے ہاں (تمہاری مغفرت کے لیے) ایک دلیل مل جائے گی۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : کیا تم عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دو گے ؟ دونوں برابر یہی سمجھاتے رہے آخر ابو طالب نے آخری بات جو کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر (مرتا) ہوں۔ اس وقت آپ نے فرمایا میں تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ جب تک مجھے اس سے منع نہ کیا جائے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ قصہ ابی طالب) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا منع نہ تھا۔
مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ابتدا سورت سے لے کر یہاں تک مشرکین اور منافقین سے کلی طور پر تعلق ختم کرنے کے اعلان و اظہار کا حکم دیا ہے۔ اب یہاں بتایا کہ جس طرح ان کے زندوں سے لاتعلقی کا اظہار ضروری ہے اسی طرح ان کے مردوں سے براءت کا اظہار بھی لازم ہے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کرنا جائز نہیں۔ مسیب بن حزن (رض) فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے تو اس کے پاس ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوطالب سے کہا : ” اے چچا تو ” لا الہ الا اللہ “ کہہ دے، میں اللہ کے پاس اس کلمے کی شہادت دوں گا۔ “ تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے ابوطالب سے کہا : ” کیا تو عبد المطلب کے دین سے منہ موڑ رہا ہے ؟ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سامنے یہی (کلمہ) پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ مرتے وقت آخری بات جو اس نے کہی : ( عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ) کہ میں عبد المطلب کے دین پر مر رہا ہوں۔ اس نے ” لا الٰہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی قسم میں تیرے لیے استغفار کرتا رہوں گا جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا۔ “ اس پر یہ آیت اتری۔ [ بخاری، الجنائز، باب إذا قال المشرک عند الموت لا إلٰہ إلا اللہ : ١٣٦٠۔ مسلم : ٢٤ ] دوسری کتب حدیث میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اس حدیث میں ابوطالب کے ” لا الٰہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کی صراحت موجود ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ دین عبد المطلب دین ابراہیم ہی تھا، اس لیے ابوطالب مسلمان تھے، ان کی بات کی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے۔ ابوطالب کے کفر پر مرنے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیحد غم اور صدمہ ہوا، اس پر یہ آیت اتری : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ ) [ القصص : ٥٦ ] ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔ “ - عبد اللہ بن عباس (رض) راوی ہیں کہ جہنم میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کو ہوگا، اسے (آگ کی) دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ [ مسلم، الإیمان، باب أھون أہل النار عذابا : ٢١٢ ]- مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ : جب تک کوئی کافر زندہ ہے اس کے ایمان کی امید ہے، اس لیے اس کی ہدایت اور مغفرت کی دعا جائز ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے لیے دعائے مغفرت سے منع نہیں کیا گیا، البتہ جب کفر پر موت کے بعد صاف واضح ہوگیا کہ وہ جہنمی ہے، اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ایمان والوں کو اس کے لیے بخشش کی دعا کرنا جائز نہیں، کیونکہ مشرک پر اللہ نے جنت حرام کردی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (٤٨) اور مائدہ (٧٢) ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی، آپ خود بھی روئے اور اپنے اردگرد والوں کو بھی رلایا، پھر آپ نے فرمایا : ” میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ اس کے لیے استغفار کروں مگر مجھے اجازت نہیں دی گئی اور میں نے اس سے اجازت مانگی کہ اس کی قبر کی زیارت کرلوں تو مجھے اجازت دے دی گئی، سو تم قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ وہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ “ [ مسلم، الجنائز، باب استئذان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ربہ عزوجل۔۔ : ١٠٨؍٩٧٦ ] مسند احمد وغیرہ میں اس مفہوم کی اور بھی احادیث ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (رض) بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ یہ سارے واقعات نزول آیت کا سبب بن سکتے ہیں۔ مگر جن روایات میں مذکور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین کو زندہ کیا گیا اور وہ ایمان لا کر پھر فوت ہوگئے ان روایات میں سے کوئی ایک بھی حافظ ابن کثیر اور دوسرے محققین کی تصریح کے مطابق ثابت نہیں۔
خلاصہ تفسیر - پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ( کیوں نہ) ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں ( اس وجہ سے کہ کافر ہو کر مرے ہیں) اور ( اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ سے شبہ ہو کہ انہوں نے اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کی تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ) ابراہیم ( علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت مانگنا ( وہ اس کے قبل تھا کہ اس کا دوزخی ہونا ظاہر ہوجاوے اور) وہ ( بھی) صرف وعدہ کے سبب سے تھا جو انہوں نے اس سے وعدہ کرلیا تھا ( اس قول میں سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ ، غرض جواز تو اس لئے تھا کہ اس کا دوزخی ہونا ظاہر نہ ہوا تھا، اور وقوع کو اس سے ترجیح ہوگئی تھی کہ وعدہ کرلیا تھا، ورنہ باوجود جواز کے بھی وقوع نہ ہوتا) پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ خدا کا دشمن ( یعنی کافر ہو کر مرا) ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے ( کہ استغفار بھی چھوڑ دیا، کیونکہ اس وقت دعائے مغفرت کرنا بےمعنی ہے، کیونکہ کافر میں احتمال مغفرت کا ہے ہی نہیں، بخلاف حالت حیات کے کہ دعاء مغفرت کے معنی اس وقت طلب توفیق ہدایت ہوسکتے ہیں کہ توفیق ہدایت کے لئے مغفرت لازم ہے، اور رہا یہ کہ وعدہ کیوں کرلیا تھا وجہ اس کی یہ ہے کہ واقعی ابراہیم ( علیہ السلام) بڑے رحیم المزاج حلیم الطبع تھے ( کہ باوجودیکہ باپ نے ان کو کیسی کیسی سخت باتیں کہیں، مگر حلم سے کام لیا، اور مزید براں یہ کہ شفقت کے جوش سے وعدہ کرلیا اور احتمال نفع تک اس وعدہ کو پورا فرمایا، جب یاس ہوگیا ہار کر چھوڑ دیا، بخلاف تمہارے استغفار کے کہ مشرکین کے مرنے کے بعد ہو رہا ہے، جن کا حالت شرک پر مرنا ظاہر مشاہد سے معلوم ہے اور احکام شرعیہ میں ایسا ظاہر کافی ہے، پھر قیاس کب صحیح ہے، اور اس قیاس پر شبہ کب مبنی ہوسکتا ہے ) ۔- معارف و مسائل - سورة توبہ پوری کفار و مشرکین سے تبری اور علیحدگی کے احکام پر مشتمل ہے، سورة کا شروع ہی بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ ، سے ہوا ہے، اور اسی لئے اس سورة کا ایک نام سورة براءت بھی معروف ہے اوپر جس قدر احکام آئے وہ دنیوی زندگی میں کفار و مشرکین سے براءت اور قطع تعلق کے متعلق ہیں، اس آیت میں یہی حکم براءت اور قطع تعلق کا اخروی زندگی کے لئے آیا ہے کہ مرنے کے بعد کافر و مشرک کے لئے دعاء مغفرت کرنا بھی جائز نہیں، جیسا کہ اس سے پہلے ایک آیت میں منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع کیا گیا ہے۔- واقعہ نزول اس آیت کا صحیح بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب اگرچہ مسلمان نہ ہوئے تھے مگر عمر بھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت و حفاظت کرتے رہے، اور اس معاملہ میں برادری کے کسی فرد کا کہنا نہیں مانا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کا بڑا اہتمام تھا کہ کسی طرح یہ کلمہ اسلام پڑھ لیں، اور ایمان لے آئیں تو شفاعت کا موقع مل جائے گا اور یہ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گے، مرض وفات میں جب ان کا آخری وقت ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑی فکر تھی کہ اس وقت بھی کلمہ شریف پڑھ لیں تو کام ہوجائے، چناچہ اس حالت میں آپ ان کے پاس پہونچے، مگر ابوجہل، عبداللہ بن امیہ پہلے سے وہاں موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ میرے چچا کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں تو میں آپ کی بخشش کے لئے کوشش کروں گا، مگر ابو جہل بول اٹھا کہ کیا آپ عبد المطلب کے دین کو چھوڑ دیں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی مرتبہ پھر اپنا کلام دہرایا، مگر ہر مرتبہ ابو جہل یہی بات کہہ دیتا، یہاں تک کہ آخری کلام میں ابو طالب نے یہی کہا کہ میں عبد المطلب کے دین پر ہوں، اسی حالت میں وفات ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھائی کہ میں آپ کے لئے برابر استغفار کرتا رہوں گا، جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے، اس پر یہ آیت ممانعت کی نازل ہوئی، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سب مسلمانوں کو کفار و مشرکین کے لئے دعاء مغفرت کرنے سے منع فرما دیا، اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی ہوں۔
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ١١٣- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - جحم - الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما .- ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔
(١١٣) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان حضرات کے لیے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہیں یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ یہ لوگ جہنمی ہیں، اس وجہ سے کہ یہ لوگ حالت کفر میں مرے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ماکان للنبی “۔ (الخ)- حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ومسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بواسطہ ان کے والد سے نقل کیا ہے کہ جب ابوطالب کی موت کا وقت قریب آیا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لے گئے، ابوطالب کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھا تھا، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے چچا کلمہ ” لا الہ الا اللہ “۔ پڑھ لو تاکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہاری سفارش کرسکوں، یہ سن کر ابوجہل اور عبداللہ کہنے لگے اے ابوطالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے اعراض کرتے ہو، یہ دونوں مسلسل ابوطالب سے گفتگو کرتے رہے بالآخر ان کا آخری کلام یہی تھا کہ ملت عبدالمطلب پر مرتا ہوں۔- اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہارے لیے برابر استغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، تب یہ آیت اتری۔- اور ابوطالب ہی کے واقعہ میں یہ آیت بھی نازل ہوئی ہے۔ (آیت) ” انک لاتھدی من احببت “۔ (الخ) اس حدیث کا سیاق اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔- امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحسین کے ساتھ اور امام حاکم نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا کہ وہ اپنے والدین کے لیے استغفار کر رہا ہے حالانکہ وہ مشرک تھے، میں نے اس سے کہا کہ کیا اپنے مشرک والدین کے لیے بخشش طلب کرتے ہو، وہ کہنے لگا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنے والد کے لیے بخشش طلب کی تھی، حالانکہ وہ مشرک تھے میں نے اس کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے۔ الخ۔- امام حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اور بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دلائل میں اور ان کے علاوہ دیگر حضرات نے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن قبرستان تشریف لے گئے اور ایک قبر کے پاس بیٹھ کر بہت لمبی دعا فرمائی اس کے بعد روئے اور آپ کے رونے کے ساتھ میں بھی رویا، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس قبر کے پاس میں بیٹھا تھا وہ میری ماں کی قبر تھی، میں نے اپنے پروردگار سے ان کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی، مگر مجھے اس کی اجازت نہیں ملی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بریدہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا آپ نے مقام عسفان پر قیام فرمایا پھر اپنی ماں کی قبردیکھی تو وضور فرما کر نماز پڑھی اور روئے اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے پروردگار سے ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی اجازت مانگی تھی مگر اس کی مجھے اجازت نہیں ملی، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- حضرت امام طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے باقی اس میں یہ ہے کہ یہ واقعہ تبوک سے واپسی کا ہے جب کہ آپ مکہ مکرمہ کی طرف عمرہ کا احرام باندھ کر تشریف لے جارہے تھے تو آپ نے عسفان کی گھاٹی پر ٹھہرے ،- حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ممکن ہے کہ نزول آیت کے چند اسباب ہوں جن میں سے پہلا سبب ابو طالب کا واقعہ اور آخری سبب حضرت آمنہ کا واقعہ اور حضرت علی (رض) کا واقعہ ہو اور دیگر حضرات نے ان متعدد اسباب نزول کو جمع فرمادیا ہے۔- حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے حضرت کعب بن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے بدر کے علاوہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بھی غزوہ کیا ہے میں آپ سے پیچھے نہیں رہا، جب غزوہ کا وقت آیا اور یہ آخری جہاد ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور لوگوں کو جہاد کے لیے روانہ ہونے کا اعلان فرمایا الخ۔ اس کے بعد پوری روایت بیان کی اور اس میں ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبولیت نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین وانصار کے حال پر بھی نیز اسی میں ہے کہ ہمارے بارے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی، (آیت) ” اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین “۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :111 ” کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازما یہ معنی رکھتی ہے کہ اول تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں ، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابل معافی سمجھتے ہیں ۔ یہ دونوں باتیں اس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفاداروں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہگار ہو ۔ لیکن جو شخص کھلا ہوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابل معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولا غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہو جاتی ہے ۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے ، یہ چاہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے ، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بے لاگ نہیں ہے ، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کر لے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرور بخش دے خواہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے ۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں ، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو ، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو “ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ” تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو “ ۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں ، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابل معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو ۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملہ میں دخل انداز ہوتی ہو ۔ رہی انسانی ہمدردی اور دنیوی تعلقات میں صلہ رحمی ، مواساۃ ، اور رحمت و شفقت کا برتاؤ ، تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے ۔ رشتہ دار خواہ کافر ہو یا مومن ، اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے ۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مدد کی جائے گی ۔ حاجت مند آدمی کو بہر صورت سہارا دیا جائے گا ۔ بیمار اور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی ۔ یتیم کے سر پر یقینا شفقت کا ہاتھ رکھا جائے گا ۔ ایسے معاملات میں ہرگز یہ امتیاز نہ کیا جائے گا کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم ۔
88: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس آیت کا شان نزول یہ بیان ہوا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب نے اگرچہ آپ کی بڑی مدد کی تھی، لیکن انہوں نے آخر وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ترغیب دی کہ وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائیں، مگر اس وقت ابو جہل وغیرہ نے مخالفت کی۔ اور وہ مسلمان نہیں ہوئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت یہ فرمایا تھا کہ میں آپ کے لیے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔ چنانچہ اس آیت نے آپ کو ان کے لیے استغفار سے منع فرمادیا۔ اس کے علاوہ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں روایت ہے کہ بعض مسلمانوں نے اپنے مشرک باپ دادوں کے لیے استغفار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لیے استغفار کیا تھا، اس لیے ہم بھی کرسکتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔