114۔ 1 یعنی ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی جب یہ بات واضح ہوگئی کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے اور جہنمی ہے تو انہوں نے اس سے اظہار نجات کردیا اور اس کے بعد مغفرت کی دعا نہیں کی۔ 144۔ 2 اور ابتداء میں باپ کے لئے مغفرت کی دعا بھی اپنے اسی مزاج کی نرمی اور حلیمی کی وجہ سے کی تھی۔
[١٣٠] سیدنا ابراہیم کے باپ آزر کا انجام :۔ یعنی جب سیدنا ابراہیم کے باپ آزر نے ان سے کہا تھا کہ یہاں سے نکل جاؤ اور میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ ورنہ میں تمہیں سنگسار کر دوں گا (١٩ : ٤٧) تو اس وقت آپ نے باپ سے کہا تھا : تم سلامت رہو میں جا رہا ہوں البتہ تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا اور یہ بات میرے اختیار میں نہیں کہ میں تمہیں اللہ کی گرفت سے بچا سکوں (٦٠ : ٤) چناچہ اسی وعدہ کے مطابق آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اے اللہ میرے باپ کو معاف فرما دے کیونکہ وہ گمراہوں سے ہے اور اس دن مجھے رسوا نہ کرنا جب سب لوگ اٹھائے جائیں گے (٢٦ : ٨٦، ٨٧) پھر جب سیدنا ابراہیم کو معلوم ہوگیا کہ وہ راہ راست کی طرف آنے والا نہیں۔ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اپنی بےزاری کا اظہار کردیا۔ اور جو دعا آپ نے اپنے حق میں کی تھی کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا، اس کی تفصیل درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ابراہیم قیامت کے دن اپنے والد آزر کو دیکھیں گے کہ ان کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار ہوگا۔ آپ اس سے کہیں گے میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ میری نافرمانی نہ کرنا۔ آپ کا باپ کہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا اس وقت سیدنا ابراہیم عرض کریں گے پروردگار تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں قیامت کے دن تجھے رسوا نہ کروں گا۔ اور اس سے بڑھ کر کیا رسوائی ہوسکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم ذرا اپنے پاؤں تلے تو دیکھو۔ اسی وقت انہیں باپ کی جگہ ایک نجاست سے لتھڑا ہوا بجو نظر آئے گا۔ فرشتے اس کے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیں گے۔ (بخاری کتاب الانبیاء۔ باب (وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا ١٢٥۔ ) 4 ۔ النسآء :125)- گویا اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کے لیے رسوائی کو اس طرح دور کیا کہ ان کے باپ کی شکل ہی بدل دی اور رسوائی کا دار و مدار تو شناخت پر ہے۔ جب یہ شناخت ہی نہ رہے کہ کیا چیزدوزخ میں پھینکی گئی تو پھر کسی کی رسوائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔- [١٣١] اواہ کے معنی آہیں بھرنے والا، آہ وزاری کرنے والا، بہت دعائیں کرنے والا۔ رقیق القلب اور نرم دل سب کچھ آتے ہیں۔ ان کی نرم دلی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ باپ تو کہہ رہا ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ تمہیں رجم کر دوں گا اور آپ اس کو جواب دیتے ہیں کہ میں تو جا رہا ہوں تم سلامت رہو اور میں تمہارے لیے اپنے رب سے معافی بھی مانگوں گا۔
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ : علی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے استغفار کر رہا تھا، جب کہ وہ مشرک تھے۔ میں نے کہا تم ان کے لیے بخشش کی دعا کر رہے ہو جب کہ وہ مشرک تھے، تو اس نے کہا، کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں کیا تھا ؟ چناچہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ سے یہ بات ذکر کی تو یہ آیت نازل ہوئی : (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ )” اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدہ کی وجہ ہے جو اس نے اس سے کیا تھا۔ “ [ نسائی، الجنائز، باب النہی عن الاستغفار للمشرکین : ٢٠٣٨، و حسنہ الألبانی ] ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مشرک باپ سے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب اس نے انھیں توحید کی دعوت کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا۔ دیکھیے سورة مریم (٤٧) چناچہ حسب وعدہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی۔ دیکھیے سورة شعراء (٨٦) قیامت کو بھی سفارش کریں گے کہ یا اللہ میرے باپ کے جہنم میں ہونے سے زیادہ میری کیا رسوائی ہے تو حکم ہوگا کہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھو، دیکھیں گے تو ان کے والد کی شکل گندگی میں آلودہ بجو کی بنادی جائے گی اور فرشتے اسے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیں گے کہ نہ کوئی اسے پہچانے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا والد ہے اور نہ ان کی رسوائی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو رسوائی سے بچا لیا مگر مشرک کو جہنم سے نہیں بچایا۔ [ دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( واتخذ اللہ إبراھیم خلیلا ۔۔ ) : ٣٣٥٠ ] - فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ : یعنی قیامت کے دن سفارش کے بعد اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کو دیکھ کر جب انھیں اپنے والد کا ابدی جہنمی، شرف انسانیت سے محروم اور اللہ تعالیٰ کا دشمن ہونا خوب واضح ہوگیا تو وہ اس سے بری اور لاتعلق ہوگئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا خلیل اپنے خلیل کے دشمن سے دوستی یا تعلق کیسے رکھ سکتا ہے، چناچہ ان کے دل میں جو تعلق باقی تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔- اگر کسی کا کوئی کافر رشتے دار یا دوست فوت ہوجائے تو مسلمان اس کی تجہیز و تکفین میں شریک تو ہوسکتا ہے، مگر اس کے لیے دعائے مغفرت نہیں کرسکتا۔ (ابن کثیر)- اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ : ” لَاَوَّاهٌ“ کا معنی بہت آہ، آہ کہنے والا ہے اور یہ دل کی نرمی کی علامت ہے، یعنی وہ اللہ کے حضور بہت آہیں بھرنے والے، بڑے حلم والے تھے۔ یہ ابتدا میں اپنے والد کے حق میں ان کی نرمی اور استغفار کی وجہ بیان فرمائی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تھے ہی ایسے کہ اگر کوئی سختی سے پیش آتا تو اسے نرمی سے جواب دیتے۔
اس پر بعض مسلمانوں کو یہ شبہ ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی تو اپنے کافر باپ کے لئے دعا کی تھی، اس کے جواب میں دوسری آیت نازل ہوئی (آیت) مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ الایة، جس کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو اپنے والد کے لئے دعا کی تھی اس کا معاملہ یہ ہے کہ شروع میں جب تک ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ معلوم نہ تھا کہ آخر تک کفر ہی پر قائم رہے گا، اسی پر مرے گا، تو اس کا دوزخی ہونا یقینی نہیں تھا، اس وقت انہوں نے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ میں آپ کے لئے دعا مغفرت کروں گا، سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ ، پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے یعنی کفر ہی پر اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اس سے بےتعلقی اختیار کرلی اور استغفار کرنا چھوڑ دیا۔- قرآن مجید کے مختلف مواقع میں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کے لئے دعا مغفرت کرنا منقول ہے وہ سب اسی پر محمول ہونا چاہئے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کو ایمان و اسلام کی توفیق دے تاکہ ان کی مغفرت ہو سکے۔- غزوہ احد میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک کو کفار نے زخمی کردیا تو آپ چہرہ سے خون صاف کرتے ہوئے یہ دعا فرما رہے تھے " اللھم اغفر لقومی انھم لا یعلمون " یعنی یا اللہ میری قوم کی مغفرت فرما دے وہ نادان ہیں، کفار کے لئے اس دعا مغفرت کا حاصل بھی یہی ہے کہ ان کو ایمان و اسلام کی توفیق عطا فرمادے کہ یہ مغفرت کے قابل ہوجائیں۔- امام قرطبی نے فرمایا کہ اس سے ثابت ہوا کہ زندہ کافر کے لئے اس نیت سے دعا مغفرت کرنا جائز ہے کہ اس کو ایمان کی توفیق ہو اور یہ مستحق مغفرت ہوجائے۔- (آیت) اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ، لفظ اواہ بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے قرطبی نے اس میں پندرہ قول نقل کئے ہیں، مگر سب معانی متقاربہ ہیں، کوئی اختلاف حقیقی نہیں، ان میں سے چند معانی یہ ہیں، بکثرت آہ کرنے والا، یا بکثرت دعا کرنے والا، اللہ کے بندوں پر رحم کرنے والا، حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہی معنی منقول ہیں۔
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ ٠ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ٠ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِيْمٌ ١١٤- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - أوَّه - الأَوَّاه : الذي يكثر التأوّه، وهو أن يقول : أَوَّه أَوَّه، وکل کلام يدل علی حزن يقال له : التَّأَوُّه، ويعبّر بالأوّاه عمّن يظهر خشية اللہ تعالی، وقیل في قوله تعالی: أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] أي :- المؤمن الداعي، وأصله راجع إلى ما تقدّم . قال أبو العباس رحمه اللہ : يقال : إيها : إذا کففته، وويها : إذا أغریته، وواها : إذا تعجّبت منه .- ( ا و ہ ) الاواہ ۔ وہ شخص جو بہت زیادہ تاوہ کرتا ہو اور تاؤہ کے معنی ہیں حزن وغم ظاہر کرنے کے لئے آوہ زبان پر لانا اور ہر وہ کلمہ جس سے تاسف اور حزن کا اظہار ہوتا ہو اسے تاوہ سے تعبیر کرلیتے ہیں لہذا اواہ کا لفظ ہر اس شخص پر بولاجاتا ہے جو خشیت الہی کا بہت زیادہ اظہار کرنیوالا ہو ۔ اور آیت کریمہ :۔ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ ( سورة هود 75) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ) مومن اور بہت زیادہہ دعا کرنے والے تھے مآں کے اعتبار سے یہ معنی بھی ماتقدم کی طرف راجع ہے ۔ ابوالعباس فرماتے ہیں کہ کام کے روکنے کے لئے کلمہ ، ، ایھا ، ، اور ترغیب دینے کے لئے وبھا کہا جاتا ہے اور اظہار تعجب کے لئے داھا کہتے ہیں ۔- حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] ، - ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔
(١١٤) اور باقی رہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دعا کرنا تو وہ اسلام لانے کے وعدہ کی وجہ سے تھا، پھر جب ان کے والد کافر ہو کر فوت ہوئے تو وہ اپنے والد اور ان کے دین سے محض بےتعلق ہوگئے، واقعی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بہت دعا فرمانے والے حلیم الطبع تھے۔- یا یہ رحیم المزاج یا یہ کہ سردار یا یہ کہ آہ وزاری کرنے والے یا یہ کہ آگ میں داخل ہونے سے پہلے آگ سے پناہ چاہی۔
آیت ١١٤ (وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ الاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُ ج) - جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے آپ ( علیہ السلام) کو گھر سے نکالا تھا تو جاتے ہوئے آپ ( علیہ السلام) نے یہ وعدہ کیا تھا ‘ اس وعدے کا ذکر سورة مریم میں اس طرح کیا گیا ہے : (سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ) میں اپنے رب سے آپ کے لیے بخشش کی درخواست کروں گا ‘ بیشک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے - (فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُط اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ ) - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وعدے کے مطابق اپنے والد کی زندگی میں اس کے لیے دعا کرتے رہے کہ جب تک وہ زندہ تھا تو امید تھی کہ شایدا للہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق دے دے ‘ لیکن جب اس کی موت واقع ہوگئی تو آپ ( علیہ السلام) نے استغفار بند کردیا کہ زندگی میں جب وہ کفر پر ہی اڑا رہا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوگئی تو ثابت ہوگیا کہ اب اس کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :112 اشارہ ہے اس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے کہی تھی کہ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ( مریم ۔ آیت ٤۷ ) ” آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے ، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے“ ۔ اور لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ ( الممتحنہ آیت ٤ ) ” میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا ، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں“ ۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر ابراہیم علیہ وسلم نے اپنے باپ کے لیے یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ ( الشعراء آیات ۸٦ تا ۸۹ ) ” اور میرے باپ کو معاف کر دے ، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا ، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ سب انسان اٹھائے جائیں گے ، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد ، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو“ ۔ یہ دعا اول تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی ۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا ، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا ، تو وہ اس سے بھی باز آگئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبری کر دی ، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :113 متن میں اَوَّاہٌ اور حَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اَوَّاہٌ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا ، زاری کرنے والا ، ڈرنے والا ، حسرت کرنے والا ۔ اور حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو ، نہ غصے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو ، نہ محبت اور دوستی اور تعلق خاطر میں حد اعتدال سے تجاوز کر جائے ۔ یہ دونوں لفظ اس مقام پر دوہرے معنی دے رہے ہیں ۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ وہ نہایت رقیق القلب آدمی تھے ، اس خیال سے کانپ اٹھے تھے کہ میرا یہ باپ جہنم کا ایندھن بن جائے گا ۔ اور حلیم تھے ، اس ظلم و ستم کے باوجود جو ان کے باپ نے اسلام سے ان کو روکنے کے لیے ان پر ڈھایا تھا ۔ ان کی زبان اس کے حق میں دعا ہی کے لیے کھلی ۔ پھر انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا باپ خدا کا دشمن ہے اس سے تبری کی ، کیونکہ وہ خدا سے ڈرنے والے انسان تھے اور کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کر نے والے نہ تھے ۔
89: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد سے استغفار کا وعدہ کرنا سورۂ مریم (۱۹:۴۷) اور سورۂ ممتحنہ (۶۰:۴) میں اور اس وعدے کے مطابق استغفار کرنا سورۂ شعراء (۲۶:۸۶) میں مذکور ہے۔ 90: اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا انتقال کفر ہی کی حالت میں ہوگا، اور وہ آخر وقت تک اﷲ تعالیٰ کے دُشمن بنے رہیں گے تو انہوں نے استغفار کرنا بھی چھوڑ دیا۔ اس سے علمائے کرام نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کسی کافر کے لئے اس نیت سے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے کہ اسے ایمان لانے کی توفیق ہوجائے، اور اس طرح اس کی مغفرت ہوجائے، لیکن جس شخص کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے، اس کے لئے مغفرت کی دعا جائز نہیں ہے۔ 91: یہ قرآنِ کریم کے لفظ ’’اواہٌ‘‘ کا ٹھیٹھ ترجمہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑے نرم دل اور رقیق القلب تھے۔ اﷲ تعالیٰ کی یاد اور آخرت کی فکر میں وہ آہیں بھرتے تھے اور ان پر گریہ طاری ہوجاتا تھا۔