Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 یعنی آپ نے وہاں جاکر نماز پڑھنے کا جو وعدہ فرمایا، اس کے مطابق وہاں جاکر نماز نہ پڑھیں چناچہ آپ نہ صرف یہ کہ وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ اپنے چند ساتھیوں کو بھیج کر مسجد گرا دی اور اسے ختم کردیا اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ جو مسجد اللہ کی عبادت کی بجائے، مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی غرض سے بنائی جائے، وہ مسجد ضرار ہے، اس کو ڈھا دیا جائے تاکہ مسلمانوں میں تفریق و انتشار پیدا نہ ہو۔ 108۔ 2 اس سے مراد کونسی مسجد ہے ا ؟ اس میں اختلاف بعض نے اسے مسجد قبا اور بعض نے مسجد نبوی قرار دیا ہے، سلف کی ایک جماعت دونوں کی قائل رہی ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آیت سے اگر مسجد قبا مراد ہے تو بعض احادیث میں مسجد نبوی کو مصداق قرار دیا گیا ہے ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اس لئے کہ اگر مسجد قبا کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ اول یوم سے ہی اس کی بنیاد تقوٰی پر رکھی گئی ہے تو مسجد نبوی تو بطریق اولی اس صفت کی حال اور اس کی مصداق ہے۔ 108۔ 3 حدیث میں آتا ہے کہ اس سے مراد اہل قبا ہیں۔ نبی نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری طہارت کی تعریف فرمائی ہے، تم کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ڈھیلے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔ (بحوالہ ابن کثیر کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایسی قدیم مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی غرض سے تعمیر کی گئی ہوں، نیز صالحین کی جماعت اور ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے جو مکمل وضو کرنے اور طہارت و پاکیزگی کا صحیح صحیح اہتمام کرنے والے ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢١] تقویٰ پر تعمیر شدہ مسجد کونسی ہے ؟ وہ مسجد کونسی تھی اور کیسے حالات میں تعمیر ہوئی ؟ اس کی وضاحت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔- ١۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے اس بات میں جھگڑا کیا کہ وہ کونسی مسجد ہے جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد رکھی گئی تھی۔ ایک نے کہا وہ مسجد قبا ہے اور دوسرے نے کہا وہ رسول اللہ کی مسجد ہے۔ تب آپ نے فرمایا کہ وہ یہی میری مسجد ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- ٢۔ مسجد نبوی کی تعمیر اور بعد میں وسعت :۔ سیدنا انسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند حصہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں اترے آپ چوبیس (اور ایک روایت کے مطابق چودہ) راتیں وہاں رہے۔ پھر بنی نجار کو بلا بھیجا جو تلواریں لٹکائے حاضر ہوئے آپ اونٹنی پر سوار ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) آپ کی خواصی میں اور بنی نجار کے سردار آپ کے اردگرد تھے۔ یہاں سے چل کر آپ ابو ایوب کے گھر میں اترے۔ آپ کو یہ بات پسند تھی کہ جہاں نماز کا وقت آئے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے تعمیر مسجد کا حکم دیا۔ اور بنی نجار کے سرداروں کو بلا بھیجا اور فرمایا تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے طے کرلو۔ وہ کہنے لگے۔ نہیں اللہ کی قسم ہم تو اس کی قیمت اللہ تعالیٰ سے ہی لیں گے۔ اس باغ میں کچھ تو مشرکوں کی قبریں تھیں، کچھ کھنڈر اور کچھ کھجور کے درخت۔ پھر آپ نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھنڈر برابر کیے گئے اور کھجور کے درخت کاٹ کر ان کی لکڑیاں قبلے کی طرف جما دی گئیں۔ اس کے دونوں طرف پتھروں کا پشتہ لگایا۔ صحابہ شعر پڑھ پڑھ کر پتھر ڈھو رہے تھے اور آپ بھی ان کے ساتھ شعر پڑھتے اور فرماتے :؎- اَللّٰھُمَّ لَاخَیْرَ اِلَّا خَیْرَالْاٰ خِرَۃَ ۔۔ فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃَ- (اے اللہ بھلائی تو وہی ہے جو آخرت کی ہو اے اللہ انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔ ) (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیہ)- ٣۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ (مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت) ہم ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے اور عمار (رض) دو دو اینٹیں۔ آپ نے عمار (رض) کو دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا افسوس عمار (رض) کو باغی جماعت مار ڈالے گی۔ یہ تو انہیں بہشت کی طرف بلائے گا اور وہ اسے دوزخ کی طرف بلائیں گے۔ چناچہ عمار (رض) کہا کرتے : میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب التعاون فی بناء المسجد )- ٤۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹ سے بنی ہوئی تھی، چھت پر کھجور کی ڈالیاں اور ستون کھجور کی لکڑی کے تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے (اپنے دور خلافت میں) کچھ نہیں بڑھایا اور سیدنا عمر نے مسجد کو بڑھایا لیکن عمارت ویسی ہی رکھی جیسی آپ کے زمانہ میں تھی یعنی اینٹوں اور کھجور کی ڈالیوں کی۔ البتہ کھجور کی لکڑی کے ستون دوبارہ لگائے گئے پھر سیدنا عثمان (رض) نے اسے بدل ڈالا اور بہت بڑھایا اور اس کی دیواریں نقشی پتھر اور گچ سے بنوائیں اور اس کے ستون بھی نقشی پتھر کے تھے اور اس کی چھت ساگوان سے بنوائی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب بنیان المسجد)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ آپ اس میں کبھی نماز نہ پڑھیں، کیونکہ قیام نماز کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسا کہ حدیث ہے : (مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا ) دوسرا یہ کہ نماز تو دور کی بات ہے آپ کبھی اس مسجد میں جا کر کھڑے بھی نہ ہوں، کیونکہ اس میں ان کی عزت افزائی ہوگی، جیسا کہ آپ کو منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہونے سے بھی منع فرمایا : (وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ) [ التوبۃ : ٨٤ ] چناچہ آپ نے راستے ہی سے آدمی بھیج کر اس مسجد کو جلوا کر مسمار کروا دیا۔ - لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ : اس مسجد سے کون سی مسجد مراد ہے ؟ سیاق وسباق سے واضح طور پر مسجد قبا ہی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس کی بنیاد مسجد ضرار کے برعکس پہلے دن ہی سے اللہ کے تقویٰ اور اس کی رضا کے حصول پر رکھی گئی تھی اور اس کی خاص فضیلت بھی صحیح احادیث میں آئی ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسجد قبا میں نماز عمرہ کی طرح ہے۔ “ [ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی مسجد قباء : ٣٢٤، عن أسید بن ظہیر (رض) ] عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ہفتہ کے دن مسجد قبا میں سوار ہو کر یا پیدل آیا کرتے تھے اور اس میں دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ [ مسلم، الحج، باب فضل مسجد قباء۔۔ : ١٣٩٩ ] - صحیح بخاری میں ہجرت سے متعلق طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے موقع پر پہلے بنوعمرو بن عوف میں دس سے کچھ زیادہ راتیں ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جو (اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ ) ہے اور آپ نے اس میں نماز پڑھی، پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ اونٹنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس مسجد کے پاس بیٹھ گئی جو مدینہ میں ہے اور وہ سہل اور سہیل (رض) کی کھجوریں سکھانے کی جگہ تھی۔ [ بخاری، مناقب الأنصار، باب ہجرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و أصحابہ إلی المدینۃ : ٣٩٠٦ ] اس سے بھی ظاہر ہے کہ اس سے مراد مسجد قبا ہے، مگر بعض احادیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مصداق مسجد نبوی کو قرار دیا، چناچہ ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو آدمیوں کی اس مسجد کے بارے میں بحث ہوگئی کہ وہ کون سی مسجد ہے جو (اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ ) ہے۔ ایک نے کہا، وہ مسجد قبا ہے۔ دوسرے نے کہا، وہ مسجد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یعنی مسجد نبوی ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ میری یہ مسجد (مسجد نبوی) ہے۔ “ [ ترمذی، تفسیر القرآن، سورة التوبۃ : ٣٠٩٩ ] اس کی سند بھی صحیح ہے اور احمد، مسلم اور نسائی میں مذکور احادیث میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مسجد نبوی ہی قرار دیا ہے۔ اہل علم نے فرمایا، ان دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ دونوں مسجدوں کی بنیاد پہلے دن ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور آپ کا مسجد نبوی کی صراحت کرنا اس لیے تھا کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھ لے کہ پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد صرف مسجد قبا کی رکھی گئی ہے، بلکہ واضح فرمایا کہ مسجد نبوی کی بنیاد بھی پہلے دن ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور وہ بالاولیٰ اس آیت کی مصداق ہے۔ - ہر وہ مسجد جس کی بنیاد مسلمانوں کو نقصان پہنچانے یا تفریق ڈالنے کے لیے رکھی جائے، اس میں نماز جائز نہیں اور اسے ڈھا دینا لازم ہے اور ایک مسجد کے ساتھ ہی دوسری مسجد بنانا درست نہیں، الا یہ کہ آبادی زیادہ ہو جو ایک مسجد میں نماز نہ پڑھ سکیں۔ اسی طرح کوئی بھی مسجد جس کے بنانے والوں نے اس کی بنیاد ہی مشرکانہ عقائد پھیلانے اور توحید اور اہل توحید و سنت کی عداوت اور مخالفت کے لیے رکھی ہو اور اس میں قبر بنادی ہو یا شرکیہ کلمات لکھے ہوں، اس میں بھی نماز پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہاں، جس مسجد کی بنیاد پوری بستی نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز ہی کے لیے رکھی ہو بعد میں کوئی مشرکانہ عقیدے والا اس میں شرک کی کوئی علامت نمایاں کر دے، جسے ختم کرنے پر آدمی قدرت نہ رکھتا ہو، یا کوئی قدیم مسجد جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اس کے بنانے والے نے اس کی بنیاد مشرکانہ عقیدے پر رکھی ہے، وہاں نماز پڑھنا جائز ہے، کیونکہ اس کی بنیاد تقویٰ پر ہے، جیسا کہ مشرکین نے کعبہ کے اندر اور اردگرد بت رکھ دیے تھے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ سے پہلے اس میں نماز پڑھتے اور طواف کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ قوت عطا فرمائے تو ان مساجد کو شرک کے مظاہر و علامات سے پاک کردیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا۔ - مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے بہت بڑا سبب ان کی باہمی تفریق ہے، اس لیے تمام کفار اور منافقین اسے زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ تفریق صوفیانہ فرقوں کی ہو یا فقہی فرقوں کی، یا سیاسی فرقوں کی مسلمانوں کی نجات، ترقی اور غلبہ تمام فرقے ختم کرکے صرف کتاب و سنت پر ایک ہوجانے میں ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی چاروں کی الگ مسجدیں، الگ مدرسے، الگ عدالتیں تھیں، حتیٰ کہ عین مسجد حرام میں چار الگ الگ مصلوں پر جماعتیں ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے سلطان عبد العزیز (رح) کو جنھوں نے تمام مملکت نجد و حجاز میں اور خانہ کعبہ میں یہ تفریق ختم کرکے سب کو ایک ہی امام پر جمع فرمایا۔ دوسرے ممالک میں ابھی تک ہر فرقے کی الگ الگ مسجدیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو فرقہ بازی چھوڑ کر توحید و سنت پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے، جیسا کہ مسلمانوں کا پہلا ایک سو سال کا روشن ترین زمانہ ان فرقوں اور الگ الگ عدالتوں اور مساجد سے پاک تھا اور تمام مسلمانوں کے کتاب و سنت پر متحد ہونے کی وجہ سے پوری دنیا پر ان کا غلبہ تھا۔ یہ تمام فرقے اور جن کے ناموں پر فرقے بنے ہیں سب بعد میں ظہور پذیر ہوئے، خیر القرون میں ان کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ - فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا : ” يَّتَطَهَّرُوْا “ اور ” الْمُطَّهِّرِيْنَ “ یہ ” طَھُرَ (کرم) “ میں سے باب تفعل یعنی ” تَطَھَّرَ یَتَطَھَّرَ “ کے صیغے ہیں، اس لیے ان کا معنی حروف میں اضافے کی وجہ سے بہت پاک ہونا اور رہنا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ آیت : (فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۭوَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ) اہل قبا کے متعلق اتری، وہ پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے۔ “ [ أبوداوٗد، الطھارۃ، باب فی الاستنجاء بالماء : ٤٤۔ ترمذی : ٣١٠٠۔ ابن ماجہ : ٣٥٥، و صححہ الألبانی ] - حافظ ابن حجر عسقلانی (رض) نے بلوغ المرام میں ابن عباس (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل قبا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعریف کرتا ہے (اس کی کیا وجہ ہے ؟ ) انھوں نے کہا کہ ہم پتھروں کے بعد پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس حدیث کی وجہ سے بہت سے لوگ جہاں پانی میسر ہو وہاں بھی پہلے ڈھیلے استعمال کرتے ہیں پھر پانی، جس سے گندگی بھی پھیلتی ہے اور گٹر بھی بند ہوتے ہیں۔ کئی لوگ استنجا خانے سے باہر شلوار ہاتھ میں پکڑ کر ڈھیلے سے پیشاب خشک کر رہے ہوتے ہیں جو نہایت بےہودہ دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل قبا کی تعریف اس لیے تھی کہ وہ پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے، پانی کی موجودگی میں ڈھیلے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی کو صرف پانی کے ساتھ طہارت سے تسلی نہیں ہوتی تو وہ وسوسے کا مریض ہے۔ یہ حدیث جس میں پتھروں کے بعد پانی کا ذکر ہے، اس کے متعلق خود حافظ ابن حجر (رض) نے بلوغ المرام میں فرمایا کہ اسے بزار نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اصل حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں ہے، جسے ابن خزیمہ نے ابوہریرہ (رض) سے صحیح کہا ہے اور وہ پتھروں کے ذکر کے بغیر ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) نے ” التلخیص الحبیر “ میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسے صرف محمد بن عبد العزیز راوی نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسے ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے۔ ہاں استنجا صرف پتھروں سے بھی جائز اور کافی ہے اور اگر کبھی اس کا اتفاق ہو اور اس کے بعد پانی سے مزید صفائی کرلے تو بہتر ہے، ورنہ پانی کی موجودگی میں پتھر استعمال کرنے کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس مسجد ضرار کے متعلق دوسری آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے (آیت) لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا، اس میں قیام سے مراد نماز کے لئے قیام ہے، مطلب یہ ہے یہ کہ آپ اس نام کی مسجد میں ہرگز نماز نہ پڑھیں۔- مسئلہ : اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی اگر کوئی نئی مسجد پہلی مسجد کے متصل بلا کسی ضرورت کے محض ریاء و نمود کے لئے یا ضد وعناد کی وجہ سے بنائی جائے تو اس میں نماز پڑھنا بہتر نہیں، اگرچہ نماز ہوجاتی ہے۔- اسی آیت میں آپ کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ آپ کا نماز پڑھنا اسی مسجد میں درست ہے جس کی بنیاد اول سے تقوٰی پر رکھی گئی ہے، اور اس میں ایسے لوگ نماز پڑھتے ہیں جن کو پاکی اور طہارت میں پوری احتیاط محبوب ہے، اور اللہ بھی ایسے مطہرین کو پسند کرتا ہے۔- سیاق آیت سے ظاہر یہ ہے کہ مراد اس سے مسجد قباء ہے جس میں اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھا کرتے تھے، اور بعض روایات حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، ( کما رواہ ابن مردویہ عن ابن عباس وعمرو بن شیبة عن سہل الانصاری وابن خزیمة فی صحیحہ عن عویمر بن ساعدہ، از مظہری ) ۔- اور بعض روایات میں جو یہ آیا ہے کہ اس سے مراد مسجد نبوی ہے وہ اس کے منافی نہیں، کیونکہ مسجد نبوی جس کی بنیاد وحی کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے رکھی ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد تقوٰی پر ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مطہر کون ہوسکتا ہے، اس لئے وہ بھی اس کی مصداق ضرور ہے، (کما رواہ الترمذی و صحیحہ عن ابی سعید الخدری مرفوعاً ، از قرطبی)- (آیت) فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا، آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے لئے اس مسجد کو احق قرار دیا، جسکی بنیاد اول سے تقوٰی پر رکھی گئی جس کے مفہوم میں مسجد قباء اور مسجد نبوی دونوں داخل ہیں اس مسجد کی ایک فضیلت یہ بھی بتلائی گئی کہ اس مسجد کے نمازی ایسے لوگ ہیں جو طہارت کا بہت زیادہ خیال اور اہتمام کرتے ہیں، طہارت کے مفہوم میں اس جگہ عام نجاسات اور گندگیوں سے پاکی بھی داخل ہے، اور معاصی اور اخلاق رذیلہ سے پاکی بھی، مسجد قباء اور مسجد نبوی کے نمازی عموماً ان سب اوصاف کے ساتھ متصف تھے۔- فائدہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مسجد کی فضیلت کا اصل مدار تو اس پر ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے بنائی گئی ہو، اس میں کسی ریاء اور نام و نمود کا یا کسی اور غرض فاسد کا کوئی دخل نہ ہو، یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازیوں کے نیک صالح، عالم، عابد ہونے سے بھی مسجد کی فضیلت بڑھ جاتی ہے، جس مسجد کے نمازی عام طور پر علماء، تقوٰی شعار ہوں اس میں نماز ادا کرنے کی فضیلت زیادہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا تَقُمْ فِيْہِ اَبَدًا۝ ٠ ۭ لَمَسْجِدٌ اُسِّــسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ فِيْہِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَہَّرُوْا۝ ٠ ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُطَّہِّرِيْنَ۝ ١٠٨- ابد - قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا .- وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل :- آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء .- وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد .- وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد :- الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب .- اب د ( الابد)- :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- أسَس - أَسَّسَ بنیانه : جعل له أُسّاً ، وهو قاعدته التي يبتنی عليها، يقال : أُسٌّ وأَسَاسٌ ، وجمع الأس :- إِسَاسٌ وجمع الإساس : أُسُس، يقال : کان ذلک علی أسّ الدهر ، کقولهم : علی وجه الدهر .- ( ا س س ) اسس بنیانہ ۔ (9 ۔ 9 ۔ 1) کے معنی ہیں اس نے عمارت کی بنیاد رکھی اور بنیاد کو اس و اساس کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع اساس اور اساس کی جمع اسس آتی ہے محاورہ ہے کان ذالک علی اس الدھر ( واست الدھر ) بود آں بر ہمشیگی زمانہ د اول آن ) یعنی وہ قدیم زمانہ سے ہے جیسا کہ علی وجہ الدھر کا محاورہ مشہور ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے فید رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المتطھرین اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند میں اس میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ اہل مسجد کی فضلیت اس مسجد کی اور اس میں نماز پڑھنے کی فضلیت ہوتی ہے۔ قول باری یحبون ان یتطھروا کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے کہ وہ لوگ گناہوں سے پاکیزگی اختیار کرنا پسند کرتے تھے ۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن العلاء نے ، انہیں معاویہ بن ہشام نے یونس بن الحارث سے ، انہوں نے ابراہیم بن ابی میمونہ سے ، انہوں نے ابو صالح سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ آیت اہل قبا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ روایت دو باتوں پر مشتمل ہے ۔ اول یہ کہ وہ مسجد جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی وہ مسجد قبا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پانی سے استنجاء کرنا ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کی بہ نسبت افضل ہے۔ ڈھیلوں سے استنجاء کی روایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولا ً اور رفعلا ً تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے پانی کے ساتھ بھی استنجاء کیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٨) جب اس مسجد کی یہ حالت ہے تو آپ اس تفرقہ پیدا کرنے والی مسجد میں کبھی نماز نہ پڑھیے۔- البتہ مسجد قبا جس کی بنیاد جب سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری پر رکھی گئی ہے، وہ واقعی اس قابل ہے کہ آپ اس میں نماز پڑھیں اور کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ منورہ کی سب سے پہلی مسجد ہے۔- اور مسجد قبا میں ایسے اچھے آدمی ہیں جو خوب پاک ہونے یعنی کہ پتھروں کے بعد پانی کے ساتھ استنجا کرنے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی لوگ کو جو پانی کے ساتھ استنجا کرتے ہیں پسند ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” والذین اتخذوا مسجدا ضرارا (الخ) ۔” لا تقم فیہ ابدا “۔ (الخ)- ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بواسطہ اکیمہ لیثی، ابورہم غفاری (رض) سے روایت کی ہے اور ابورہم غفاری (رض) ان حضرات میں سے ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی تھی، بیان کرتے ہیں کہ جنہوں نے مسجد ضرار بنائی تھی وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ تبوک کی طرف روانگی کی تیاری کررہے تھے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے یہ مسجد ضرورت مند اور حاجت مندوں اور سرد راتوں اور بارش والی راتوں کے لیے بنائی ہے اور ہماری یہ خواہش ہے کہ آپ ہمارے لیے اس مسجد میں تشریف لا کر نماز پڑھ دیجے۔- آپ نے فرمایا اس وقت تو ہم سفر کی تیاری میں ہیں، سفر سے واپسی پر آئیں گے تو انشاء اللہ تمہاری مسجد میں آکر نماز پڑھیں گے، جب آپ تبوک سے واپس ہوئے تو ذی ادان مقام پر پڑاؤ فرمایا، جہاں سے مدینہ منورہ کا ایک گھنٹے کا راستہ تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائیں۔- تو آپ نے مالک بن وحش اور معن بن عدی یا اس کے بھائی عاصم بن عدی کو بلایا اور فرمایا اس مسجد کی طرف چلو جس کے بنانے والے ظالم ہیں اور اس کو گرا دو اور جلا دو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کردیا۔- اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے عوفی کے ذریعے سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے مسجد قباء بنائی تو انصار میں سے کچھ آدمی گئے، ان میں سے کچھ اختلاف کرتے تھے، چناچہ انہوں نے جا کر مسجد نفاق بنالی، اس پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تفرقہ پیدا کرنے لیے ایسا کیا ہے ہلاکت ہو ان کے لیے کیا اراداہ کیا، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہمارا تو صرف نیکی ہی کا ارادہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔- نیز ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علی بن ابی طلحہ، کے ذریعے سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے مسجد بنالی تو ابوعامر نے ان سے کہا کہ اپنی مسجد کو آباد رکھو اور جو تمہیں ہتھیاروں وغیرہ کی قوت حاصل ہوا اس سے مضبوط رہو میں قیصر روم کے بادشاہ کے پاس جاؤں گا اور روم سے لشکر لا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو نکال دوں گا، چناچہ جب یہ لوگ اپنی مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم اپنی مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوگئے ہیں، اور یہ خواہش ہے کہ آپ اس میں نماز پڑھ لیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” لا تقم فیہ ابدا (الخ)- واحدی نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب ابو عامر راہب آیا تو منافقین نے اس کے سامنے مسجد قباء کے مقابلہ میں کے لیے ایک مسجد بنانے کی پیشکش کی تاکہ وہ ان کا امام بنے، چناچہ جب وہ اس مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ہے کہ ہم نے ایک مسجد بنائی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں آکر نماز پڑھ لیجیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” لا تقم فیہ ابدا “۔ (الخ)- ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ (آیت) ” فیہ رجال یحبون “۔ (الخ) یہ آیت اہل قبا کے متعلق نازل ہوئی، وہ حضرات پانی کے پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے، تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔- عمر بن شیبہ نے اخبار مدینہ میں بواسطہ ولید بن ابی سندر اسلمی، یحییٰ بن سہل، سہل انصاری (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اہل قباء کے بارے میں آئی ہے، وہ حضرات قضاحاجت کے بعد پانی سے استنجا کرتے تھے۔- ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ اہل قبا میں سے کچھ لوگوں نے پانی کے ساتھ استنجا کرنا شروع کردیا، ان کی فضیلت میں یہ آیت آئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (لاَ تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا ط) - مسجد بنانے کے بعد یہ منافقین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ درخواست لے کر آئے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لے آئیں تو بڑی برکت ہوگی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بروقت روک دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف نہ لے جائیں۔- (لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ ط) یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی تھی ‘ وہ زیادہ مستحق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں کھڑے ہوں (نماز پڑھیں) - اس سے مراد مسجد قبا ہے جو قریب ہی تھی اور جس کی بنیاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے رکھی تھی۔ یہ مقام اس وقت کے مدینہ کی آبادی سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہلا پڑاؤ تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقام پر قیام فرمایا تھا اور یہاں اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔- (فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ )- مسجد قبا والے مسلمانوں سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کے کس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی طہارت کی تعریف فرمائی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ قضائے حاجت کے بعد ڈھیلے بھی استعمال کرتے ہیں اور پھر پانی سے بھی طہارت حاصل کرتے ہیں۔ چناچہ عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں طہارت کے اس معیار کی تعریف فرمائی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :102 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے تشریف لے جانے سے پہلے قبیلہ خزرج میں ایک شخص ابو عامر نامی تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی راہب بن گیا تھا ۔ اس کا شمار علماء اہل کتاب میں ہوتا تھا اور رہبانیت کی وجہ سے اس کے علمی وقار کے ساتھ ساتھ اس کی درویشی کا سکہ بھی مدینے اور اطراف کے جاہل عربوں میں بیٹھا ہوا تھا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچےتو اس کی مسیحت وہاں خوب چل رہی تھی ۔ مگر یہ علم اور یہ درویشی اس کے اندر حق شناسی اور حق جوئی پیدا کرنے کے بجائے الٹی اس کے لئے ایک زبردست حجاب بن گئی اور اس حجاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد وہ نعمت ایمان ہی سے محروم نہ رہا بلکہ آپ کو اپنی مشیخت کا حریف اور اپنے کاروبار درویشی کا دشمن سمجھ کر آپ کی اور آپ کے کام کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا ۔ پہلے دو سال تک تو اسے یہ امید رہی کہ کفار قریش کی طاقت ہی اسلام کے مٹانے کے لئے کافی ہوگی ۔ لیکن جنگ بدر میں جب قریش نے شکست فاش کھائی تو اسے یارائے ضبط نہ رہا ۔ اسی سال وہ مدینہ سے نکل کھڑا ہوا اور اس نے قریش اور دوسرے عرب قبائل میں اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی ۔ جنگ احد جن لوگوں کی سعی سے برپا ہوئی ان میں یہ بھی شامل تھا اور کہا جاتا ہے کہ احد کے میدان جنگ میں اسی نے وہ گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گر کر زخمی ہوئے ۔ پھر جنگ احزاب میں جو لشکر ہر طرف سے مدینہ پر چڑھ آئے تھے ۔ ان کو چڑھا لانے میں بھی اس کا حصہ نمایاں تھا ۔ اس کے بعد جنگ حنین تک جتنی لڑائیاں مشرکین عرب اور مسلمانوں کے درمیان ہوئیں ان سب میں یہ عیسائی درویش اسلام کے خلاف شرک کا سرگرم حامی رہا ۔ آخرکار اسے اس بات سے مایوسی ہوگئی کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کے سیلاب کو روک سکے گی ۔ اس لئے عرب کو چھوڑ کر اس نے روم کا رخ کیا تاکہ قیصر کو اس “خطرے ” سے آگاہ کرے جو عرب سے سر اٹھا رہا تھا ۔ یہ وہی موقع تھا جب مدینے میں یہ اطلاعات پہنچیں کہ قیصر عرب پر چڑھائی کی تیاریاں کر رہا ہے اور اسی کی روک تھام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تبوک کی مہم پر جانا پڑا ۔ ابو عامر راہب کی ان تمام سرگرمیوں میں مدینہ کے منافقین کا ایک گروہ اس کے ساتھ شریک سازش تھا اور آخری تجویز میں بھی یہ لوگ اس کے ہمنوا تھے کہ وہ اپنے مذہبی اثر کو استعمال کر کے اسلام کے خلاف قیصر روم اور شمالی عرب کے عیسائی ریاستوں سے فوجی امداد حاصل کرے ۔ جب وہ روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس کے اور ان منافقوں کے درمیان یہ قرارداد ہوئی کہ مدینہ میں یہ لوگ اپنی ایک الگ مسجد بنالیں گے تاکہ عام مسلمانوں سے بچ کر منافق مسلمانوں کی علیحدہ جتھہ بندی اس طرح کی جاسکے کہ اس پر مذہب کا پردہ پڑا رہے اور آسانی سے اس پر کوئی شبہہ نہ کیا جاسکے ، اور وہاں نہ صرف یہ کہ منافقین منظم ہو سکیں اور آئندہ کارروائیوں کے لئے مشورے کر سکیں ، بلکہ ابو عامر کے پاس سے جو ایجنٹ خبریں اور ہدایات لے کر آئیں وہ بھی غیر مشتبہ فقیروں اور مسافروں کی حیثیت سے اس مسجد میں ٹھہر سکیں ۔ یہ تھی وہ ناپاک سازش جس کے تحت وہ مسجد تیار کی گئی تھی جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے ۔ مدینہ میں اس وقت دو مسجدیں تھیں ۔ ایک مسجد قبا جو شہر کے مضافات میں تھی ، دوسری مسجد نبوی جو شہر کے اندر تھی ۔ ان دو مسجدوں کی موجودگی میں ایک تیسری مسجد بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی ، اور وہ زمانہ ایسی احمقانہ مذہبیت کا نہ تھا کہ مسجد کے نام سے ایک عمارت بنا دینا بجائے خودکار ثواب ہو قطع نظر اس سے کہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو ۔ بلکہ اس کے برعکس ایک نئی مسجد بننے کے معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی جماعت میں خواہ مخواہ تفریق رونما ہو جسے ایک صالح اسلامی نظام کسی طرح گورا نہیں کر سکتا ۔ اس لئے یہ مجبور ہوئے کہ اپنی علیحدہ مسجد بنانے سے پہلے اس کی ضرورت ثابت کریں ۔ چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس تعمیر نو کے لئے یہ ضرورت پیش کی کہ بارش میں اور جاڑے کے راتوں میں عام لوگوں کو اور خصوصا ضعیفوں اور معذوروں کو ، جو ان دونوں مسجدوں سے دور رہتے ہیں ، پانچوں وقت حاضری دینی مشکل ہوتی ہے ۔ لہٰذا ہم محض نمازیوں کی آسانی کے لئے یہ ایک نئی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ ان پاکیزہ ارادوں کی نمائش کے ساتھ جب یہ مسجد ضرار بن کر تیار ہوئی تو یہ اشرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ایک مرتبہ خود نماز پڑھا کر ہماری مسجد کا افتتاح فرما دیں ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس وقت میں جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں اور ایک بڑی مہم درپیش ہے ۔ اس مہم سے واپس آکر دیکھوں گا ۔ اس کے بعد آپ تبوک کی طرف روانہ ہوگئے اور آپ کے پیچھے یہ لوگ اس مسجد میں اپنی جتھہ بندی اور سازش کرتے رہے ، حتی کے انہوں نے یہاں تک طے کر لیا کہ ادھر رومیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قلع قمع ہوا اور ادھر یہ فورا ہی عبداللہ ابن ابی کے سر پر تاج رکھ دیں ۔ لیکن تبوک میں جو معاملہ پیش آیا اس نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ واپسی پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب ذی ادان کے مقام پر پہنچے تو یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت چند آدمیوں کو مدینہ کی طرف بھیج دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے وہ اس مسجد ضرار کو مسمار کر دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

83: اس سے مراد وہ مسجد قبا بھی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت تعمیر فرمائی تھی۔ جب آپ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے تشریف لائے، اور قبا کی بستی میں چودہ دن قیام فرمایا۔ اور یہ پہلی باقاعدہ مسجد تھی جو آپ نے تعمیر فرمائی۔ اور وہ مسجد نبوی بھی اس کے مصداق میں داخل ہے جو آپ نے قبا سے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد تعمیر فرمائی۔ دونوں ہی کی بنیاد تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر تھی۔ اس مسجد کی فضیلت یہ بتائی گئی ہے کہ اس میں نماز پڑھنے والے پاکی اور صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اس میں جسم کی ظاہری پاکی بھی داخل ہے، اور اعمال و اخلاق کی پاکی اور صفائی بھی۔