ایک قصہ ایک عبرت ، مسجد ضرار ۔ ان پاک آیتوں کا سبب نزول سنئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے شریف سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے ۔ اس سے پہلے مدینے میں ایک شخص تھا جس کا نام ابو عامر راہب تھا ۔ یہ خزرج کے قبیلے میں سے تھا ۔ جاہلیت کے زمانے میں نصرانی بن گیا تھا ، اہل کتاب کا علم بھی پڑھا تھا ۔ عابد بھی تھا اور قبیلہ خزرج اس کی بزرگی کا قائل تھا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں آئے ، مسلمانوں کا اجتماع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہونے لگا ۔ یہ قوت پکڑنے لگے یہاں تک کہ بدر کی لڑائی ہوئی اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں غالب رکھا تو یہ جل بھن گیا ۔ کھلم کھلا مخالفت و عداوت کرنے لگا اور یہاں سے بھاگ کر کفار مکہ سے مل گیا ۔ اور انہیں مسلمانوں سے لڑائی کرنے پر آمادہ کرنے لگا ۔ یہ تو عداوت اسلام میں پاگل ہو رہے تھے ، تیار ہوگئے اور اپنے ساتھ عرب کے اور بھی بہت سے قبائل کو ملا کر جنگ کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اور میدان احد میں جم کر لڑے ۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کا جو حال ہوا وہ ظاہر ہے ۔ انکا پورا امتحان ہو گیا ۔ گو انجام کار مسلمانوں کا ہی بھلا ہوا اور عاقبت اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہی ہے ۔ اسی فاسق نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان بہت سے گڑھے کھود رکھے تھے ، جن میں سے ایک میں اللہ کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے ، چہرے پر زخم آئے ۔ سامنے سے نیچے کی طرف کے چار دانت ٹوٹ گئے ۔ سر بھی زخمی ہوا ۔ صلوات اللہ وسلمہ علیہ ۔ شروع لڑائی کے وقت ہی ابو عامر فاسق اپنے قوم کے پاس گیا اور بہت ہی خوشامد اور چاپلوسی کی کہ تم میری مدد اور موافقت کرو ۔ لیکن انہوں نے بالاتفاق جواب دیا کہ اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی نہ کرے تو نامراد ہے ۔ اے بدکار اے اللہ کے دشمن تو ہمیں راہ حق سے بہکانے کو آیا ہے ، الغرض برا بھلا کہہ کر ناامید کر دیا گیا ۔ یہ لوٹا اور یہ کہتا ہوا کہ میری قوم تو میرے بعد بہت ہی شریر ہو گئی ہے ۔ مدینے میں اس ناہنجار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سمجھایا تھا قرآن پڑھ پڑھ کر نصیحت کی تھی اور اسلام کی رغبت دلائی تھی لیکن اس نے نہ مانا تھا ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے لئے بد دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے کہیں دور دراز ذلت و حقارت کے ساتھ موت دے ۔ جب اس نے دیکھا کہ احد میں بھی اس کی چاہت پوری نہ ہوئی اور اسلام کا کلمہ بلندی پر ہی ہے تو یہ یہاں سے شاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کے لئے آمادہ کیا ۔ اس نے بھی اس سے وعدہ کر لیا اور تمنائیں دلائیں ۔ اس وقت اس نے اپنے ہم خیال لوگوں کو جو منافقانہ رنگ میں مدینے شریف میں رہتے سہتے تھے اور جن کے دل اب تک شک و شبہ میں تھے لکھا کہ اب میں مسلمانوں کی جڑیں کاٹ دونگا ، میں نے ہرقل کو آمادہ کر دیا ہے وہ لشکر جرار لے کر چڑھائی کرنے والا ہے ۔ مسلمانوں کو ناک چنے جبوا دے گا اور ان کا بیج بھی باقی نہ رکھے گا ۔ تم ایک مکان مسجد کے نام سے تعمیر کرو تاکہ میرے قاصد جو آئیں وہ وہیں ٹھہریں ، وہیں مشورے ہوں اور ہمارے لئے وہ پناہ کی اور گھاٹ لگانے کی محفوظ جگہ بن جائے ۔ انہوں نے مسجد قبا کے پاس ہی ایک اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی اور تبوک کی لڑائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی سے پہلے ہی اسے خوب مضبوط اور پختہ بنا لیا اور آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مسجد میں تشریف لائیے اور نماز ادا کیجئے تاکہ ہمارے لئے یہ بات حجت ہو جائے اور ہم وہاں نماز شروع کر دیں ۔ ضعیف اور کمزور لوگوں کو دور جانے میں بڑی تکلیف ہوتی تھی ۔ خصوصاً جاڑے کی راتوں میں کمزور ، بیمار اور معذور لوگ دور دراز کی مسجد میں بڑی دقت سے پہنچتے ہیں اس لئے ہم نے قریب ہی یہ مسجد بنا لی ہے ۔ آپ نے فرمایا اس وقت تو سفر درپیش ہے پا بہ رکاب ہوں انشاء اللہ واپسی میں سہی ۔ اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کفر کے مورچے سے بچا لیا ۔ جب میدان تبوک سے آپ سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ، ابھی مدینے شریف سے ایک دن یا کچھ کم کے فاصلے پر تھے کہ اللہ کی وحی نازل ہوئی اور اس مسجد ضرار کی حقیقت آپ پر ظاہر کر دی گئی ۔ اور اس کے بانیوں کی نیت کا بھی علم آپ کو کرا دیا گیا ۔ اور وہاں کی نماز سے روک کر مسجد قبا میں جس کی بنیاد اللہ کے خوف پر رکھی گئی تھی ، نماز پڑھنے کا حکم صادر ہوا ۔ پس آپ نے وہیں سے مسلمانوں کو بھیج دیا کہ جاؤ میرے پہنچنے سے پہلے اس مسجد کو توڑ دو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابو عامر خبیث ان انصاریوں سے کہہ گیا تھا کہ تم مسجد کے نام سے عمارت بنا لو اور جو تم سے ہو سکے تیاری رکھو ، ہتھیار وغیرہ مہیا کر لو ، میں شاہ روم قیصر کے پاس جا رہا ہوں اور اس سے مدد لے کر محمد اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا ۔ پس یہ لوگ جب یہ مسجد تیار کر چکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہماری چاہت ہے کہ آپ ہماری اس مسجد میں تشریف لائیں ، وہاں نماز پڑھیں اور ہمارے لئے برکت کی دعا کریں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اس مسجد میں ہرگز کھڑے بھی نہ ہونا ۔ اور روایت میں ہے کہ جب آپ ذی اور اوان میں اترے اور مسجد کی اطلاع ملی آپ نے مالک بن و خشم رضی اللہ عنہ اور معن بن یزید رضی اللہ عنہ کو بلایا ، ان کے بھائی عمر بن عدی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ان ظالموں کی مسجد میں جاؤ اور اسے گرا دو بلکہ جلا دو ۔ یہ دونوں بزرگ تابڑ توڑ جلدی جلدی چلے ۔ سالم بن عوف کے محلے میں جا کر حضرت مالک نے حضرت معن سے فرمایا آپ یہیں ٹھہرئیے ، یہ میرے قبیلے کے لوگوں کے مکان ہیں یہاں سے آگ لاتا ہوں ۔ چنانچہ گئے اور ایک کھجور کا سلگتا ہوا تنا لے آئے اور سیدھے اس مسجد ضرار میں پہنچ کر اس میں آگ لگا دی اور کدال چلانی شروع کر دی ۔ وہاں جو لوگ تھے ادھر ادھر بھاگ گئے اور ان بزرگوں نے اس عمارت کو جڑ سے کھود ڈالا ۔ پس اس بارے میں یہ آیتیں اتری ہیں ۔ اس کے بانی بارہ شخص تھے ۔ خدام بن خالد بنو عبد بن زید میں سے جو بنی عمرو بن عوف میں سے ہیں اسی کے گھر میں سے مسجد شقاق نکلی تھی ۔ اور ثعلبہ بن حاطب جو بنی عبید میں سے تھا اور بنو امیہ کے موالی جو ابو لبابہ بن عبدالمنذر کے قبیلے میں سے تھے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہماری نیت نیک تھی ۔ لوگوں کے آرام کی غرض سے ہم نے اسے بنایا ہے ۔ لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے مسجد قبا کو ضرر پہنچانے اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور مومنوں میں جدائی ڈالنے اور اللہ و رسول کے دشمنوں کو پناہ دینے کے لئے اسے بنایا ہے ۔ یہ کمین گاہ ہے ابو عامر فاسق کی جو لوگوں میں راہب مشہور ہے ۔ اللہ کی لعنتیں اس پر نازل ہوں ۔ فرمان ہے کہ تو ہرگز اس مسجد میں نہ کھڑا ہونا ۔ اس فرمان میں آپ کی امت بھی داخل ہے ۔ انہیں بھی اس مسجد میں نماز پڑھنی حرام قرار دی گئی ۔ پھر رغبت دلائی جاتی ہے کہ مسجد قبا میں نماز ادا کرو ۔ جس کی بنیاد اللہ کے ڈر پر اور رسول کی اطاعت پر رکھی گئی ہے اور مسلمانوں کے اتفاق پر اور ان کی خیر خواہی پر بنائی گئی ہے ۔ اسی مسجد میں تمہارا نمازیں پڑھنا درست اور حق بجانب ہے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار اور پیدل اس مسجد میں آیا کرتے تھے ۔ اور حدیث میں ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے مدینے شریف پہنچے اور بنی عمر بن عوف میں ٹھہرے اور اس پاک مسجد کی بنیاد رکھی اس وقت خود حضرت جبرائیل علیہ السلام نے قبلہ کی جہت معین کی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ( آیت فیہ رجال ) مسجد قبا والوں کے بارے میں اتری ہے ، وہ پانی سے استنجاء کیا کرتے تھے ۔ یہ مسجد ضعیف ہے ۔ امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں ۔ طبرانی میں ہے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے عویم بن ساعدہ کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا کہ آخر یہ کون سے طہارت ہے جس کی ثناء اللہ رب العزت بیان فرما رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے جو مرد عورت پاخانے سے نکلتا ہے وہ پانی سے استنجاء کیا کرتا ہے ۔ اس نے فرمایا بس یہی وہ طہارت ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس مسجد قبا میں تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری مسجد کے بیان میں تمہاری طہارت کی آج تعریف کی ہے تو بتلاؤ کہ تمہاری وہ طہارت کیسے ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اور تو کچھ معلوم نہیں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسی یہودیوں کی نسبت جب سے یہ معلوم کیا کہ وہ پاخانے سے نکل کر پانی سے پاکی کرتے ہیں ، ہم نے اس وقت سے اپنا یہی وطیرہ بنا لیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ سوال حضرت عویم بن عدی رضی اللہ عنہ سے کیا تھا ۔ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ پانی سے طہارت کرنا ہی وہ پاکیزگی تھی جس کی تعریف اللہ عزوجل نے کی ۔ اور روایت میں ان کے جواب میں ہے کہ ہم توراۃ کے حکم کی رو سے پانی سے استنجاء کرنا لازمی سمجھتے ہیں ۔ الغرض جس مسجد کا اس آیت میں ذکر ہے وہ مسجد قبا ہے ۔ اس کی تصریح بہت سے سلف صالحین نے کی ہے ۔ لیکن ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ تقوے پر بننے والی مسجد مسجد نبوی ہے جو مدینے شریف کے درمیان ہے ۔ غرض ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ مسجد قبا شروع دن سے تقوے کی بنیادوں پر ہے تو مسجد نبوی اس وصف کی اس سے بھی زیادہ مستحق ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جو مسجد اللہ کے ڈر پر بنائی گئی ہے وہ یہ میری مسجد ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ دو شخصوں میں اس بارے میں اختلاف ہوا کہ اس آیت میں کونسی مسجد مراد ہے ، حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میری یہ مسجد ہے ۔ ان دونوں میں سے ایک کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد قبا ہے اور دوسرے کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد نبوی ہے ۔ یہ حدیث ترمذی نسائی وغیرہ میں ہے ۔ ان دونوں شخصوں میں سے ایک تو بنو خدرہ قبیلے کا تھا اور دوسرا بنو عمرو بن عوف میں سے تھا ۔ خدری کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد نبوی ہے اور عمری کہتا تھا مسجد قبا ہے ۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جا کر دریافت فرماتے ہیں کہ وہ مسجد کہاں ہے جس کی بنیادیں شروع سے ہی پرہیز گاری پر ہیں؟ آپ نے کچھ کنکر اٹھا کر انہیں زمین پر پھینک کر فرمایا وہ تمہاری یہی مسجد ہے ۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ سلف کی اور خلف کی ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ دونوں مسجدیں ہیں ، واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوا کہ جن اگلی مسجدوں کی پہلے دن سے بنیاد اللہ کے تقوے پر رکھی گئی ہو وہاں نماز پڑھنا مستحب ہے ۔ اور جہاں اللہ کے نیک بندوں کی جماعت ہو جو دین کے حامل ہوں ، وضو اچھی طرح کرنے والے ہوں ، کامل طہارت کے ساتھ رہنے والے ہوں ، گندگیوں سے دور ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی جس میں سورہ روم پڑھی ۔ اس میں آپ کو کچھ وہم سا ہو گیا نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا قرآن کریم کی قرأت میں خلط ملط ہو جانے کا باعث تم میں سے وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن وضو اچھی طرح نہیں کرتے ہمارے ساتھ کے نمازیوں کو وضو نہایت عمدہ کرنا چاہئے ۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ طہارت کا کمال اللہ کی عبادتوں کے بجا لانے انہیں پوری کرنے اور کامل کر کے اور شرعی حیثیت سے بجا لانے میں سہولت پیدا کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے ۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ پانی سے استنجا کرنا بیشک طہارت ہے ۔ لیکن اعلیٰ طہارت گناہوں سے بجنا ہے ۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں گناہوں سے توبہ کرنا اور شرک سے بچنا پوری پاکیزگی ہے ۔ اوپر حدیث گزر چکی کہ جب اہل قبا سے ان کی اس اللہ کی پسندیدہ طہارت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنے جواب میں پانی سے استنجا کرنا بیان کیا ۔ پس یہ آیت ان کے حق میں اتری ہے ۔ بزار ٰمیں ہے کہ انہوں نے کہا ہم پتھروں سے صفائی کر کے پھر پانی سے دھوتے ہیں ۔ لیکن اس روایت میں محمد بن عبدالعزیز کا زہری سے تفرد ہے اور ان سے بھی ان کے بیٹے کے سوا اور کوئی راوی نہیں ۔ اس حدیث کو ان لفظوں سے میں نے یہاں صرف اس لئے وارد کیا ہے کہ فقہاء میں یہ مشہور ہے لیکن محدثین کل کے کل اسے معروف نہیں بتاتے خصوصاً متاخرین لوگ واللہ اعلم ۔
107۔ 1 اس میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک مسجد بنائی۔ اور نبی کو باور کرایا کہ، بارش، سردی اور اس قسم کے موقع پر بیماروں اور کمزوروں کو زیادہ دور جانے میں دقت پیش آتی ہے ان کی سہولت کے لئے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے۔ آپ وہیں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تبوک کے لئے پایہ رکاب تھے، آپ نے واپسی پر نماز پڑھنے کا وعدہ فرمایا۔ لیکن واپسی پر وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اصل مقاصد کو بےنقاب کردیا کہ اس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، کفر پھیلانا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا اور اللہ اور اللہ کے رسول کے دشمنوں کے لئے کمین گاہ مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ 107۔ 2 یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر وہ نبی کو فریب دینا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے مکرو فریب سے بچا لیا اور فرمایا کہ ان کی نیت صحیح نہیں اور یہ جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں، اس میں جھوٹے ہیں۔
[١٢٠] مسجد ضرار اور راہب ابو عامر کا کر دار :۔ مسجد ضرار منافقین مدینہ نے تعمیر کی تھی اور اس کی تعمیر میں مرکزی کردار ابو عامر راہب تھا۔ یہ شخص انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ عیسائی عالم تھا جس نے درویشی طریقہ اختیار کرلیا تھا۔ اور عام لوگوں میں اس کی درویشی کی اچھی شہرت تھی۔ خصوصاً خزرج کا قبیلہ اس کے زہد اور درویشی کا بڑا معتقد اور اس کی بہت تعظیم کرتا تھا جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو جس طرح عبداللہ بن ابی منافق نے آپ کو اپنا سیاسی حریف سمجھ کر اسلام دشمنی کی منافقانہ روش اختیار کی تھی۔ ابو عامر نے آپ کو اپنا روحانی حریف سمجھ کر آپ سے عداوت کی راہ اختیار کرلی۔ کیونکہ آپ کی آمد کے بعد لوگوں کی توجہ ابو عامر کی طرف سے ہٹ کر رسول اللہ کی طرف مبذول ہوگئی تھی۔ پہلے تو یہ شخص اس انتظار میں رہا کہ قریش مکہ ہی اس شخص اور اس کے ساتھیوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر جب بدر میں قریش مکہ کو شکست فاش ہوئی تو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اس کی چھپی ہوئی عداوت بھڑک اٹھی۔ پھر بعد میں اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لاتے ہوئے عرب قبائل میں اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی۔ اور غزوہ بدر کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئی مثلاً جنگ احد اور جنگ خندق اور جنگ حنین وغیرہ ان میں خود بھی شریک رہا اور کفار کو جنگوں پر ابھارنے میں بڑا موثر کردار ادا کرتا رہا۔ اسلام کے خلاف کوئی سازش بھی کفار یا منافقین کی طرف سے تیار ہوتی تو اس میں اس کا عمل دخل ضرور ہوتا تھا۔- مسجد ضرار کی تعمیر کا مقصد :۔ جب حنین میں کافروں کو شکست ہوگئی تو اس نے سمجھ لیا کہ اب عرب کے اندر کوئی طاقت ایسی نہیں رہ گئی جو اسلام اور مسلمانوں کو کچل سکے۔ لہذا اس نے اپنے مذہب کے واسطہ سے قیصر روم کو مسلمانوں پر چڑھا لانے کا منصوبہ تیار کیا۔ مدینہ کے منافقین ایسے تمام کاموں میں اس کے ہمراز اور معاون تھے۔ جب وہ اس غرض کے لیے روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس نے منافقوں سے کہا کہ فوراً ایک مسجد تیار کرو جہاں ہم لوگ جمع ہو کر صلاح و مشورہ کرسکیں اور میں یا میرا کوئی قاصد آئے تو وہ وہاں اطمینان سے قیام کرسکے اور ایسی ناپاک سازشیں چونکہ مذہبی تقدس کے پردہ میں ہی چھپ سکتی تھیں۔ لہذا ایسی اغراض کے لیے مسجد ہی کی تعمیر ضروری سمجھی گئی۔- وہ مقصد جو مسلمانوں کو بتلایا گیا اور آپ سے افتتاح کی درخواست :۔ چناچہ مسجد قبا اور مسجد نبوی کے درمیان قبا سے قریب ایک تیسری مسجد تیار ہونے لگی اور اس کی ضرورت یہ بتلائی گئی کہ ہم میں سے بہت سے لوگ کمزور اور ناتواں ہیں جو بارش اور سردی کے موسم میں مسجد قبا تک نہیں پہنچ سکتے نیز مسجد قبا میں جگہ بھی تنگ ہے لہذا نمازیوں ہی کی سہولت کے لیے یہ مسجد بنائی جا رہی ہے۔ مسجد کی تعمیر کے بعد یہ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی کہ آپ وہاں چل کر افتتاح کے طور پر دو رکعت نماز پڑھا دیجئے۔ اس سے منافقوں کی غرض صرف مسلمانوں کو فریب دینا اور سازشوں سے شک و شبہ کے خطرات کو دور کرنا تھا۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ اس وقت تو میں جہاد پر جا رہا ہوں۔ واپسی پر دو رکعت نماز جا کر پڑھا دوں گا۔ - منافقین کے مشورے :۔ جب آپ غزوہ تبوک پر روانہ ہوگئے تو پیچھے رہ جانے والے منافق بغلیں بجانے لگے، انہیں یقین تھا کہ اب مسلمان بچ کر واپس نہیں آسکیں گے اور قیصر روم کی فوجیں مسلمانوں کو کچل کے رکھ دیں گی لہذا وہ اس مسجد میں بیٹھ کر یہ صلاح مشورہ کر رہے تھے کہ جونہی مسلمانوں کی شکست کی خبر ملے تو تاج شاہی عبداللہ بن ابی منافق کے سر پر رکھ دیا جائے۔ اور اسے اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا جائے۔- غزوہ تبوک کے نتائج :۔ مگر ان منافقوں کی توقعات کے علی الرغم اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا یہ کہ جب آپ تبوک پہنچے تو ملک غسان کو مقابلہ پر آنے کی ہمت ہی نہ پڑی اور اس کی وجہ دو تھیں۔ ایک یہ کہ ملک غسان کچھ عرصہ پہلے جنگ مؤتہ میں مسلمانوں کی جرأت ایمانی ملاحظہ کرچکا تھا کہ کس طرح اس کا ایک لاکھ کا لشکر ٣ ہزار مجاہدین پر بھی غالب نہ آسکا اور سیدنا خالد بن ولید نے کس بےدردی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا تھا اور اس غزوہ میں مسلمان مجاہدین کی تعداد بیس ہزار تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے قیصر روم سے مزید کمک کی توقع تھی۔ لیکن قیصر روم نے جب ابو سفیان سے بھرے دربار میں پیغمبر اسلام کے حالات سنے تو آپ کی صداقت سے اتنا متاثر ہوا کہ اسلام لانے کو تیار تھا مگر اپنے وزیروں مشیروں کے تیور دیکھ کر اس نے اسلام کا اعلان کرنے کی جرأت نہ کی اندریں صورت حال قیصر روم نے ملک غسان کو کمک بھیجنے سے انکار کردیا۔ اس طرح ملک غسان کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور مسلمانوں سے مقابلہ پر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔ آپ نے بیس دن تبوک میں رہ کر اس کا انتظار کیا۔ اس قیام سے ایک تو دشمن پر اپنی دھاک بٹھانا مقصود تھا۔ دوسرے بہت سے عربی قبائل جو پہلے قیصر روم کے باجگزار تھے اس سے کٹ کر اسلامی ریاست کے تابع ہوگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا۔- مسجد ضرار کا انہدام :۔ تبوک کے واپسی کے سفر میں جب آپ مدینہ کے قریب ذی اوان کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسجد ضرار کی تعمیر کی غرض وغایت اور منافقوں کی ناپاک سازشوں سے مطلع کردیا اور حکم دیا کہ آپ کو ہرگز اس مسجد میں افتتاح کے لیے نماز نہ پڑھانا چاہیے۔ چناچہ آپ نے وہیں سے دو صحابہ مالک بن خشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ فوراً جا کر اس مسجد کو آگ لگادیں۔ انہوں نے فوراً آپ کے حکم کی تعمیل کی اور آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس مسجد کو پیوند خاک کردیا گیا۔ اس آیت میں من حارب اللہ و رسولہ سے وہی مرکزی کردار ابو عامر فاسق مراد ہے۔
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا : یہ منافقین کے ایک اور قبیح کام کا ذکر ہے کہ انھیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منصوبے اور سازشیں بنانے کے لیے جمع ہونے اور اپنے راز مخفی رکھنے کے لیے کوئی موزوں جگہ نہیں ملتی تھی، چناچہ انھوں نے مسجد قبا کے ساتھ ہی ایک مسجد بنائی جس کے بنانے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے چار مقصد بیان فرمائے ہیں۔ چاروں مقصد مصدر کے لفظ کے ساتھ آئے ہیں : 1 ” ضِرَارًا “ یعنی یہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے نہیں بلکہ مومنوں کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کے لیے ہے۔ 2 ” وَّكُفْرًا “ یعنی مساجد کی بنیاد تو اللہ اور رسول پر ایمان اور اکیلے اللہ کو پکارنے کے لیے ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا) [ الجن : ١٨ ] مگر اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف دلوں میں چھپا ہوا کفر و شرک اور اس کی اشاعت ہے۔ 3 وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ “ مسجد قبا کی موجودگی میں اس کے ساتھ ہی مسجد بنانے کا واضح مطلب مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا تھا کہ وہ ایک جگہ نماز نہ پڑھیں، کیونکہ مسلمانوں کی اسلام کی وجہ سے باہمی محبت اور اتفاق و اتحاد سے منافقین کو شدید حسد تھا۔ 4 ” وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ “ اس سے پہلے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے رہے اور ان سے برسر جنگ رہے، خصوصاً منافقین اور وہ لوگ جو مدینہ سے بھاگ گئے تھے اور دشمنوں کی پناہ میں رہ کر اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے ان کے لیے اور ان کے بھیجے ہوئے آدمیوں کے لیے مسجد کے پردے میں چھپاؤ کی جگہ مہیا کرنا۔ مؤرخین نے خصوصاً یہاں ابوعامر راہب (جس کا نام مسلمانوں نے ابوعامر فاسق رکھا ہوا تھا) کا ذکر کیا ہے، جو مشہور صحابی حنظلہ غسیل الملائکہ کا والد تھا اور عیسائی ہو کر ہرقل کے پاس مسلمانوں کے خلاف کمک حاصل کرنے کے لیے گیا تھا، اس کی تجویز پر مسلمانوں سے جنگ کے لیے آنے والوں کے لیے بطور گھات اور کمین گاہ یہ مسجد بنائی گئی تھی۔ - منافقین نے مسلمانوں کے دلوں سے شک دور کرنے کے لیے مسجد بنانے کا بہانہ یہ بنایا کہ ہم نے بیماروں اور کمزوروں کی سہولت کے لیے یہ مسجد بنائی ہے، تاکہ وہ سردی اور بارش میں سہولت سے یہاں نماز پڑھ سکیں اور ساتھ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے درخواست کی کہ آپ وہاں چل کر نماز پڑھیں، تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ خواہش ان کی یہ تھی کہ آپ کے نماز پڑھنے سے ہماری مسجد تسلیم ہوجائے اور ہم اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ آپ اس وقت تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو واپسی پر میں تمہاری مسجد میں آ کر نماز پڑھوں گا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپسی پر مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو جبریل (علیہ السلام) یہ آیات لے کر نازل ہوئے جن میں اس مسجد ضرار کا پول کھولا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ یہ لوگ یقیناً قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا ارادہ اس مسجد بنانے سے بھلائی کے سوا کچھ نہ تھا، جب کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے کہ بلاشک و شبہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - اور بعضے ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ( اسلام کو) ضرر پہنچاویں اور ( اس میں بیٹھ بیٹھ کر) کفر ( یعنی عداوت رسول) کی باتیں کریں اور ( اس کی وجہ سے) ایمانداروں ( کے مجمع) میں تفریق ڈالیں ( کیونکہ جب دوسری مسجد بنائی جائے اور ظاہر کیا جائے کہ خوش نیتی سے بنی ہے تو ضرور ہے کہ پہلی مسجد کا مجمع کچھ نہ کچھ منتشر ہو ہی جاتا ہے) اور ( یہ بھی غرض ہے کہ) اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس ( مسجد بنانے) کے قبل سے خدا و رسول کا مخالف ہے ( مراد ابو عامر راہب ہے) اور ( پوچھو تو) قسمیں کھاویں گے (جیسا ایک دفعہ پہلے بھی پوچھنے پر کھاچکے ہیں) کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں ( بھلائی سے مراد آسائش اور گنجائش ہے) اور اللہ گواہ ہے کہ وہ ( اس دعوے میں) بالکل جھوٹے ہیں ( جب اس مسجد کی یہ حالت ہے کہ وہ واقع میں مسجد ہی نہیں بلکہ مضر اسلام ہے تو) آپ اس میں کبھی ( نماز کے لئے) کھڑے نہ ہوں، البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے ( یعنی روز تجویز سے) تقویٰ ( اور اخلاص) پر رکھی گئی ہے ( مراد مسجد قبا ہے) وہ ( واقعی) اس لائق ہے کہ آپ اس میں ( نماز کے لئے) کھڑے ہوں ( چناچہ گاہ بگاہ آپ وہاں تشریف لے جاتے اور نماز پڑہتے) اس ( مسجد قبا) میں ایسے ( اچھے) آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے ( جب دونوں مسجدوں کے بانیوں کا حال معلوم ہوگیا تو) پھر ( سمجھ لو) آیا ایسا شخص ( بہتر ہوگا) جس نے اپنی عمارت ( یعنی مسجد) کی بنیاد کسی گھاٹی ( یعنی غار) کے کنارہ پر جو کہ گرنے ہی کو ( ہو) رکھی ہو ( مراد اس سے اغراض باطلہ کفریہ ہیں ناپائیداری میں اس کے ساتھ تشبیہ دی گئی) پھر وہ ( عمارت) اس ( بانی کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے ( یعنی وہ عمارت تو گری بوجہ اس کے کہ کنارہ پر ہے، جب وہ کنارہ پانی سے کٹ کر گرے گا وہ عمارت بھی گرے گی، اور بانی گرا اس لئے کہ اس عمارت میں رہتا تھا اور چونکہ مراد اس سے اغراض کفریہ ہیں جو موصل الی النار ہیں اس لئے یہ فرمایا کہ وہ اس کو لے کر جہنم میں جا گری) اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ( دین کی) سمجھ ہی نہیں دیتا، ( کہ بنائی تو مسجد کے نام سے جو کہ دین کے شعائر میں سے ہے، اور غرضیں اس میں کیسی کیسی فاسد کرلیں) ان کی یہ عمارت ( یعنی مسجد) جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( کانٹا سا) کھٹکتی رہے گی، ( کیونکہ جس غرض سے بنائی تھی وہ پوری نہ ہوئی اور قلعی کھل گئی سو الگ، اور پھر اوپر سے منہدم کردی گئی، غرض کوئی ارمان نہ نکلا، اس لئے ساری عمر اس کا افسوس اور ارمان باقی رہے گا) ہاں مگر ان کے ( وہ) دل ہی ( جن میں وہ ارمان ہے) فنا ہوجاویں تو خیر ( وہ ارمان بھی اس وقت ختم ہوجاوے) اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں ( ان کی حالت کو جانتے ہیں اور اسی کے مناسب سزادیں گے ) ۔- معارف و مسائل - منافقین کے حالات اور خلاف اسلام ان کی حرکتوں کا ذکر اوپر بہت سی آیات میں آچکا ہے، مذکور الصدر آیات میں بھی ان کی ایک سازش کا ذکر ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک شخص ابو عامر نامی زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگیا تھا، اور ابو عامر راہب کے نام سے مشہور تھا یہ وہی شخص ہے جن کے لڑکے حنظلہ (رض) مشہور صحابی ہیں جن کی لاش کو فرشتوں نے غسل دیا اس لئے غسیل ملا کہ کے نام سے معروف ہوئے، مگر باپ اپنی گمراہی اور نصرانیت پر قائم رہا۔- جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ابو عامر راہب حاضر خدمت ہوا اور اسلام پر اعتراضات کئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب پر بھی اس بد نصیب کا اطمینان نہ ہوا، بلکہ یہ کہا کہ آپ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہو وہ مردود اور احباب و اقارب سے دور ہو کر مسافرت میں مرے، اور کہا کہ آپ کے مقابلہ میں جو بھی دشمن آئے گا میں اس کی مدد کروں گا چناچہ غزوہ حنین تک تمام غزوات میں مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ قتال میں شرکت کی، جب ہوازن کا بڑا اور قوی قبیلہ بھی شکست کھا گیا تو یہ مایوس ہو کر ملک شام بھاگ گیا، کیونکہ یہی ملک نصرانیوں کا مرکز تھا وہیں جا کر اپنے احباب و اقارب سے دور مرگیا، جو دعا کی تھی وہ اس کے سامنے آگئی، جب کسی شخص کی رسوائی مقدر ہوتی ہے تو وہ ایسے ہی کام کیا کرتا ہے، خود ہی اپنی دعا سے ذلیل و خوار ہوا۔- مگر جب تک زندہ رہا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں لگا رہا چناچہ قیصر ملک روم کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے لشکر سے مدینہ پر چڑھائی کردے، اور مسلمانوں کو یہاں سے نکال دے۔- اسی سازش کا ایک معاملہ یہ پیش آیا کہ اس نے منافقین مدینہ کو جن کے ساتھ اس کا ساز باز تھا خط لکھا کہ میں اس کی کوشش کر رہا ہوں کہ قیصر مدینہ پر چڑھائی کرے، مگر تم لوگوں کی کوئی اجتماعی طاقت ہونی چاہئے جو اس وقت قیصر کی مدد کرے، اس کی صورت یہ ہے کہ تم مدینہ ہی میں ایک مکان بناؤ اور یہ ظاہر کرو کہ ہم مسجد بنا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو شبہ ہو پھر اس مکان میں تم اپنے لوگوں کو جمع کرو، اور جس قدر اسلحہ اور سامان جمع کرسکتے ہو وہ بھی کرو یہاں مسلمانوں کے خلاف آپس کے مشورہ سے معاملات طے کیا کرو۔- اس کے مشورہ پر بارہ منافقین نے مدینہ طیبہ کے محلہ قبا میں جہاں اول ہجرت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیام فرمایا اور ایک مسجد بنائی تھی وہیں ایک دوسری مسجد کی بنیاد رکھی ان منافقین کے نام بھی ابن اسحاق وغیرہ نے نقل کئے ہیں، پھر مسلمانوں کو فریب دینے اور دھوکے میں رکھنے کے لئے یہ ارادہ کیا کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک نماز اس جگہ پڑھوا دیں تاکہ سب مسلمان مطمئن ہوجائیں کہ یہ بھی ایک مسجد ہے جیسا کہ اس سے پہلے ایک مسجد یہاں بن چکی ہے۔- ان کا ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قباء کی موجودہ مسجد بہت سے لوگوں سے دور ہے، ضعیف بیمار آدمیوں کو وہاں تک پہنچنا مشکل ہے اور خود مسجد قباء اتنی وسیع بھی نہیں کہ پوری بستی کے لوگ اس میں سما سکیں، اس لئے ہم نے ایک دوسری مسجد اس کام کے لئے بنائی ہے تاکہ ضعیف مسلمانوں کو فائدہ پہونچے، آپ اس مسجد میں ایک نماز پڑھ لیں تاکہ برکت ہوجائے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت غزوہ تبوک کی تیاری میں مشغول تھے، آپ نے یہ وعدہ کرلیا کہ اس وقت تو ہمیں سفر درپیش ہے واپسی کے بعد ہم اس میں نماز پڑھ لیں گے۔- لیکن غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت جبکہ آپ مدینہ طیبہ کے قریب ایک مقام پر فروکش ہوئے تو آیات مذکورہ آپ پر نازل ہوئیں جن میں ان منافقین کی سازش کھول دی گئی تھی، آیات کے نازل ہونے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چند اصحاب جس میں عامر بن سکن اور روحشی قاتل حمزہ وغیرہ شریک تھے، ان کو حکم دیا کہ ابھی جا کر اس مسجد کو ڈھا دو اور اس میں آگ لگا دو ، یہ سب حضرات اسی وقت گئے اور حکم کی تعمیل کر کے اس کی عمارت کو ڈھا کر زمین برابر کردی، یہ تمام واقعہ تفسیر قرطبی اور مظہری کی بیان کی ہوئی روایات سے اخذ کیا گیا ہے۔- تفسیر مظہری میں محمد بن یوسف صالحی کے حوالہ سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قباء سے مدینہ منورہ میں پہنچ گئے تو مسجد ضرار کی جگہ خالی پڑی تھی، آپ نے عاصم ابن عدی کو اس کی اجازت دی کہ وہ اس جگہ میں اپنا گھر بنالیں، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس جگہ کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوچکی ہیں میں تو اس منحوس جگہ میں گھر بنانا پسند نہیں کرتا، البتہ ثابت بن اقرم ضرورت مند ہیں ان کے پاس کوئی گھر نہیں ان کو اجازت دیدیجئے کہ وہ یہاں مکان بنالیں، ان کے مشورہ کے مطابق آپ نے یہ جگہ ثابت بن اقرم کو دے دی مگر ہوا یہ کہ جب سے ثابت اس مکان میں مقیم ہوئے ان کے کوئی بچہ نہیں ہوا یا زندہ نہیں رہا۔- اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ انسان تو کیا اس جگہ میں کوئی مرغی بھی انڈے بچے دینے کے قابل نہ رہی کوئی کبوتر اور جانور بھی اس میں پھلا پھولا نہیں، چناچہ اس کے بعد سے یہ جگہ آج تک مسجد قبا کے کچھ فاصلہ پر ویران پڑی ہے۔- واقعہ کی تفصیل سننے کے بعد آیات مذکورہ کے متن کو دیکھئے، پہلی آیت میں فرمایا (آیت) وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا، یعنی جس طرح اوپر دوسرے منافقین کے عذاب اور ذلت و رسوائی کا ذکر ہوا ہے یہ منافقین بھی ان میں شامل ہیں جنہوں نے مسجد کا نام رکھ کر ایک ایسی عمارت بنائی جس کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا۔- اس آیت میں مسجد مذکور کے بنانے کی تین غرضیں ذکر کی گئی ہیں، اول ضِرَارًا، یعنی مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کے لئے، لفظ ضرر اور ضرار دونوں عربی زبان میں نقصان پہنچانے کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں، بعض حضرات نے یہ فرق بیان کیا ہے کہ ضرر تو اس نقصان کو کہا جاتا ہے جس میں اس کے کرنے والے کا اپنا تو فائدہ ہو دوسروں کو نقصان پہونچے، اور ” ضرار “ دوسروں کو وہ نقصان پہونچانا ہے جس میں اس پہونچانے والے کا اپنا کوئی فائدہ بھی نہیں، چونکہ اس مسجد کا انجام یہی ہونے والا تھا کہ بنانے والوں کو اس سے کوئی فائدہ نہ پہونچے، اس لئے یہاں لفظ ضرار استعمال کیا گیا۔- دوسری غرض اس مسجد کی تَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ بتلائی گئی ہے، یعنی ان کا مقصد اس مسجد کے بنانے سے یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی جماعت کے دو ٹکڑے ہوجاویں، ایک ٹکڑا اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں کا الگ ہوجائے، اور یہ کہ قدیم مسجد قباء کے نمازی گھٹ جائیں اور کچھ لوگ یہاں نماز پڑھا کریں۔- تیسری غرض اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ بتلائی گئی، جس کا حاصل یہ ہے کہ اس مسجد سے یہ کام بھی لینا تھا کہ یہاں اللہ اور رسول کے دشمنوں کو پنا ملے اور وہ یہاں مسلمانوں کے خلاف سازش کیا کریں۔- اس مجوعہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس مسجد کو قرآن کریم نے مسجد ضرار قرار دیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس کو ڈھایا گیا اور آگ لگائی گئی، درحقیقت نہ وہ مسجد تھی نہ اس کا مقصد نماز پڑھنے کے لئے تھا بلکہ مقاصد وہ تین تھے جن کا ذکر اوپر آیا ہے، اس سے معلوم ہوگیا کہ آجکل اگر کسی مسجد کے مقابلہ میں اس کے قریب کوئی دوسری مسجد کچھ مسلمان بنالیں، تو اگرچہ ایسی مسجد بنانے والے کو ثواب تو نہ ملے گا بلکہ تفریق بین المؤ منین کی وجہ سے گناہگار ہوں، لیکن باایں ہمہ اس جگہ کو شرعی حیثیت سے مسجد ہی کہا جائے گا، اور تمام آداب اور احکام مساجد کے اس پر جاری ہوں گے، اس کا ڈھانا آگ لگانا جا ئز نہیں ہوگا، اور جو لوگ اس میں نماز پڑھیں گے ان کی نماز بھی ادا ہوجائے گی، اگرچہ ایسا کرنا فی نفسہ گناہ رہے گا۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس طرح ریاء و نمود کے لئے یا ضد وعناد کی وجہ سے جو مسلمان کوئی مسجد بنالے اگرچہ بنانے والے کو مسجد کا ثواب نہ ملے گا بلکہ گناہ ہوگا، مگر اس کو اصطلاح قرآن والی مسجد ضرار نہیں کہا جائے گا، بعض لوگ جو اس طرح کی مسجد کو مسجد ضرار کہہ دیتے ہیں یہ درست نہیں، البتہ اس کو مسجد ضرار کے مشابہ کہہ سکتے ہیں، اس لئے اس کے بنانے کو روکا بھی جاسکتا ہے، جیسا کہ حضرت فاروق نے ایک فرمان جاری فرمایا تھا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ ایک مسجد کے قریب دوسری مسجد نہ بنائی جائے جس سے پہلی مسجد کی جماعت اور رونق متاثر ہو ( تفسیر کشاف ) ۔
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ ٠ ۭ وَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰى ٠ ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّھُمْ لَكٰذِبُوْنَ ١٠٧- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- تفریق - والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ،- ( ف ر ق ) الفرق - التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - رصد - الرَّصَدُ : الاستعداد للتّرقّب، يقال : رَصَدَ له، وتَرَصَّدَ ، وأَرْصَدْتُهُ له . قال عزّ وجلّ : وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 107] ، وقوله عز وجل : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ- [ الفجر 14] ، تنبيها أنه لا ملجأ ولا مهرب . والرَّصَدُ يقال لِلرَّاصِدِ الواحد، وللجماعة الرَّاصِدِينَ ، ولِلْمَرْصُودِ ، واحدا کان أو جمعا .- وقوله تعالی: يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن 27] ، يحتمل کلّ ذلك . والمَرْصَدُ : موضع الرّصد، قال تعالی: وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة 5] ، والْمِرْصَادُ نحوه، لکن يقال للمکان الذي اختصّ بِالتَّرَصُّدِ ، قال تعالی: إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ 21] ، تنبيها أنّ عليها مجاز الناس، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم 71] .- ( ر ص د ) الرصد : گھات لگا کر بیٹھنا ۔ اور رصد لہ وترصد کے معنی ہیں کسی کے لئے گھات لگانا اور ارصدتہ کس کو گھات لگانے کے لئے مقرر کرنا اور ارصد لہ کے معنی پناہ دینا بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 107] اور ان لوگوں کو پناہ دیں جو اللہ اور رسول کے ساتھ پہلے لڑ چکے ہیں ۔ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] بیشک تیرا پروردگار ( نافرمانوں کی ) تاک میں ( لگا رہتا ہے ) رصد ( صیغہ صفت ) یہ معنی فاعلی اور مفعولی دونوں کے لئے آتا ہے اور واحد اور جمع دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن 27] تو ان کے آگے اور انکے پیچھے ( فرشتوں سے ) پہرہ دینے والے ان کے ساتھ رہتے ہیں ۔ تو یہاں رصدا سے واحد اور جمع دونوں مراد ہوسکتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة 5] اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھو ۔ اور مرصاد بمعنی مرصد آتا ہے لیکن مرصاد اس جگہ کو کہتے ہیں جو گھات کے لئے مخصوص ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ 21] بیشک دوزخ گھات میں ہے ۔ تو آیت میں اس بات پر بھی تنبیہ ہے کہ جہنم کے اوپر سے لوگوں کا گزر ہوگا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم 71] اور تم میں سے کوئی ( ایسا بشر ) نہیں جو جہنم پر سے ہو کر نہ گزرے ۔- حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب،- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور - حلف - الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير :- تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره .- والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :- إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر .- ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
مسجد ضرار کا مقصد - قول باری ہ والذین اتخذوا مسجد ا ً ضرانا ً و تعریقا ً بین المومنین وارصادا لمن حارب اللہ ورسولہ من قبل کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے دعوت حق کو نقصان پہنچائیں اور خدا کی بندگی کرنے کی بجائے کفر کریں اور اہل ایمان میں پھوٹ ڈالیں اور اس بظاہر عبادت گاہ کو اس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اسکے رسول کے خلاف برسر پیکارہوچکا ہے تا آخر سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ اس لوٹے میں اوس اور خزرج کے بارہ آدمی شامل تھے، ان حضرات نے ان کے نام بھی گنوائے ہیں ۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جاڑے کی راتوں نیز گرمی اور بارش میں نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد کی تعمیر کی اجازت مانگی ، حالانکہ یہ ان کا مقصد نہیں تھا، ان کا اصل ارادہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور ان میں گروہ بندی پیدا کرنے کا تھا کہ ایک گروہ ایک مسجد میں نماز ادا کرتا اور دوسرا گروہ دوسری مسجد میں اور اس طرح ان کے اتحاد و اتفاق میں رخنہ پڑجاتا ایک دوسرے کے ساتھ لگائو ختم ہوجاتا اور ان میں اجتماعیت کی جو کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس کا شیراز بکھر جاتا ، ان کے یہ ارادے بھی تھے کہ اس مسجد میں بیٹھ کر آزادی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف طعن و تشنیع سے کام لے کر اپنے کفر کا اظہار کریں گے۔ مسلمانوں کی گرفت سے بےخوف ہو کر مل بیٹھیں گے اور عملی اقدامات کے لیے باہم مشورے کریں گے اس لیے کہ اس مسجد میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی مسلمان نماز پڑھنے کے لیے نہ آتا۔- قول باری ( وارصادا ً لمن حارک اللہ ورسولہ من قبل کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ اس سے ابو عامر مردود مراد ہے ۔ اسے اس سے قبل ابو عامر راہب کہا جاتا تھا۔ اس کمبخت کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے شدید دشمنی تھی اس دشمنی کا سبب وہ حسد اور عناد تھا کو قبیلہ اوس کی سرداری کے ہاتھ سے نکل جانے کی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اس کے دل میں پیدا ہوگیا تھا۔ آپ کی ہجرت مدینہ سے قبل اسے قبیلہ اوس کے اندر یہ سرداری اور امتیازی حیثیت حاصل تھی ۔ اس کمبخت نے منافقین سے کہہ رکھا تھا کہ عنقریب شہنشاہ روم قیصر مدینے پر حملہ آورہونے والا ہے اس کے ساتھ میں بھی ایک لشکر لائوں گا اور پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو مدینے سے نکال دیں گے۔ ان منافقین نے یہ مسجد اس لیے بنائی تھی کہ اسے کمین گاہ کے طور پر استعمال کریں اور اس میں بیٹھ کر قیصر اور اس کے لشکر کا انتظار کریں۔ ایک فعل پر حسن و قبح کے لحاظ سے نتیجہ مرتب ہونے کی بنیاد ارادہ ہے ، ارادہ ہی وہ امر ہے جو فعل کے اندر وہ معانی پیدا کردیتا ہے جنہیں پیدا کرنا یا جن سے روکنا حکمت الٰہی کا تقاضا اور منشاء ہوتا ہے ۔ زیر بحث آیت ان باتوں پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ لوگ اس مسجد کی تعمیر میں اقامت صلوٰۃ کا ارادہ کرتے تو ان کا یہ کام عین طاقت الٰہی شمار ہوتا لیکن چونکہ ان کے ارادے کچھ اور تھے جن کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دے دی اس لیے تعمیر مسجد کے اس عمل میں نہ صرف قابل مذمت ٹھہرے بلکہ کافر قراردیے گئے۔- قول باری ہے لا تقسم فیہ ابدا ً المسجد اسس علی التقوی من اولی یوم احق ان تقوم فیہ تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہوناجو مسجد روز اول سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے تم اس میں عبادت کے لیے کھڑے ہو اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جو مسجد مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور معاصی کے ارتکاب کی خاطر بنائی جائے اس میں عبادت کے لیے کھڑا ہونا جائز نہیں ہے بلکہ اسے منہدم کردینا واجب ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس مسجد میں عبادت کے لیے کھڑے ہونے سے روک دیا تھا جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور ان میں فساد پھیلانے کی خاطر تعمیر کی گئی تھی اس مسجد کی تعمیر کرنے والوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام سے محروم کر کے ایک طرح ان کی تذلیل کی گئی اور ان کا مذاق اڑایا گیا جبکہ تقویٰ پر قائم ہونے والی مسجد کا معاملہ اس کے برعکس رکھا گیا ۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ بعض مقامات میں نماز کی ادائیگی دوسرے مقامات کی بہ نسبت اولیٰ ہوتی ہے ، نیز بعض مقامات میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہوتی ہے۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں نماز کی فضلیت کی بنیاد اس نیت پر ہوتی ہے جسے سامنے رکھ کر مسجد کی تعمیر کی گئی ہو، نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اس مسجد میں نماز کی فضلیت زیادہ ہوتی ہے جو پہلے بنائی گئی ہو ۔ یعنی بعد میں بننے والی مسجد میں نماز پڑھنے کی فضلیت کم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے اسس علی التقوی من اولی یوم اور یہی قول باری احق ان تقوم فیہ کے معنی ہیں ، کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اس مسجد ضرار میں نماز کے لیے کھڑا ہونا حق اور جائز بھی ہوتا تو بھی وہ مسجد جس کی بنیاد تقولی پر رکھی گئی ہے اس کی بہ نسبت نماز کے لیے قیام کی زیادہ مستحق ہوتی جب کہ مسجد ضرار میں قیام جائز ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں قیام سے منع فرما دیا تھا اگر یہاں یہ مفہوم نہ ہوتا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو عبارت کی ترتیب اس طرح ہوتی لمسجد اسس علی التقوی احق ان تقوم فیہ من مسجد لا یجوزا لقیام فیہ جس مسجد کی بنیادتقویٰ پر رکھی گئی ہے وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو بہ نسبت اس مسجد کے جس میں قیام جائز نہیں ہے اور پھر اس کلام کی وہی حیثیت ہوتی جو اس قول کی کہ فرض کی ادائیگی اسے ترک کردینے سے بہتر ہے ۔ اس مفہوم کی ہاں گنجائش ہوسکتی ہے لیکن پہلا مفہوم ہی کلام کی اصل توجیہ ہے۔- وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ، اس کی تعیین میں احتلاف ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) اور سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ یہ مدینہ کی مسجد ہے۔ حضرت ابی بن کعب (رض) اور حضرت ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ھو مسجدی ھذا وہ مسجد یہ میری مسجد ہے، حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری اور عطیہ سے مروی ہے کہ یہ مسجد قبا ہے۔
(١٠٧) عبداللہ بن ابی، جد بن قیس، معتب بن قثیر اور ان کے ساتھی جو کہ تقریبا سترہ ہیں، انہوں نے اس مقصد کے لے مسجد بنائی کہ اسلام اور مومنین کو نقصان پہنچائیں اور کفر ونفاق پر ثابت رہیں، اور اس وجہ سے کہ ایمان والوں میں نفاق ڈالیں کہ ایک جماعت ان کی مسجد میں نماز پڑھے اور ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں نماز پڑھے اور اس شخص کے قیام کا انتظار کریں جو ان سے پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا دشمن ہے، مراد اس سے ابوعامر راہب ہے جس نے نعوذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فاسق کہا تھا اور پوچھو تو قسمیں کھائیں گے کہ اس مسجد کے بنانے سے ماسوا مسلمانوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کے ہماری اور کوئی نیت نہیں تاکہ جس کی مسجد قبا میں نماز رہ جائے اور اسے وہاں جماعت نہ مل سکے وہ اس مسجد میں آکر نماز پڑھ لے اور اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ اپنی قسموں میں جھوٹے ہیں۔
آیت ١٠٧ (وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًام بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ ط) - ضِرَارًا باب مفاعلہ ہے ‘ یعنی انہوں نے مسجد بنائی ہے ضدم ضدا ‘ مقابلے میں اور دعوت حق کو نقصان پہنچانے کے لیے۔ یہ مسجد منافقین نے مسجد قبا کے قریبی علاقے میں بنائی تھی۔ اس کی تعمیر کے پیچھے ابو عامر راہب کا ہا تھ تھا۔ اس شخص کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ وہ زمانۂ جاہلیت میں عیسائیت قبول کر کے راہب بن گیا تھا اور عرب میں اہل کتاب کے بہت بڑے عالم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ جیسا کہ ورقہ بن نوفل ‘ جو قرشی تھے اور انہوں نے بھی بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی تھی ‘ اور اپنے زمانے کے اتنے بڑے عالم تھے کہ تورات عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ وہ بہت نیک اور سلیم الفطرت انسان تھے۔ جب حضرت خدیجہ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر ان کے پاس گئیں تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وہی ناموس آیا ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتا تھا۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حیرت سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہاں معاملہ ایسا ہی ہے ‘ آپ کی دعوت کے نتیجے میں آپ کی قوم آپ کی دشمن بن جائے گی۔- مگر ابو عامر راہب کا رویہ اس کے برعکس تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شدید ترین دشمن بن گیا۔ قریش مکہ کی بدر میں شکست کے بعد یہ شخص مکہ میں جا کر آباد ہوگیا اور اہل مکہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہا۔ چناچہ غزوۂ احد کے پیچھے بھی اسی شخص کی سازشیں کار فرما تھیں ‘ بلکہ میدان احد میں جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو اس نے لشکر سے باہر نکل کر انصار مدینہ کو خطاب کر کے انہیں ورغلانے کی کوشش بھی کی تھی۔ اس کے بعد بھی تمام جنگوں میں یہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار رہا ‘ مگر حنین کی جنگ کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب جزیرہ نمائے عرب میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی تو وہ مایوس ہو کر شام چلا گیا اور وہاں جا کر بھی مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ اس کے لیے اس نے منافقین مدینہ کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا اور اسی کے کہنے پر منافقین نے مسجد ضرار تعمیر کی جو نام کو تو مسجد تھی مگر حقیقت میں سازشی عناصر کی کمین گاہ اور فتنے کا ایک مرکز تھی۔ - (وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلاَّ الْحُسْنٰیط واللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ )- اب جواب طلبی پر یہ منافقین قسمیں کھا کھا کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہماری کوئی بری نیت نہیں تھی ‘ ہمارا ارادہ تو نیکی اور بھلائی ہی کا تھا ‘ اصل میں دوسری مسجد ذرا دور پڑتی تھی جس کی وجہ سے ہم تمام نمازیں جماعت کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے تھے ‘ اس لیے ہم نے سوچا کہ اپنے محلے میں ایک مسجد بنا لیں تاکہ تمام نمازیں آسانی سے باجماعت ادا کرسکیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔
82: ان آیات میں منافقین کے ایک نہایت شریر گروہ کا بیان ہے جنہوں نے ایک خطرناک سازش کے تحت ایک عمارت مسجد کے نام سے بنائی تھی۔ اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے قبیلے خزرج میں ابو عامر نام کا ایک شخص تھا جو عیسائی ہوگیا تھا، اور اس نے رہبانیت اور درویشی کی زندگی اختیار کرلی تھی۔ مدینہ منورہ کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے سے پہلے اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے اسے بھی دین حق کی دعوت دی، لیکن اس نے حق کو قبول کرنے کے بجائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا حریف سمجھ لیا، اور آپ کی دشمنی پر کمر باندھ لی۔ جنگ بدر سے لے کر جنگ حنین تک کفار مکہ سے جتنی جنگیں ہوئی، ان سب میں یہ مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی مدد اور تائید کرتا رہا۔ جب جنگ حنین میں بھی مسلمانوں کو فتح ہوئی تو یہ شام چلا گیا، اور وہاں سے مدینہ منورہ کے منافقین کو خط لکھا کہ میں یہ شام میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ روم کا بادشاہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کو ختم کر ڈالے۔ لیکن اس کام کے لیے ضروری ہے کہ تم لوگ اپنا ایک محاذ ایسا بناؤ کہ جب روم کا بادشاہ حملہ کرے تو تم اندر سے اس کی مدد کرسکو۔ اسی نے یہ مشورہ بھی دیا کہ تم ایک عمارت مسجد کے نام سے بناؤ جو بغاوت کے مرکز کے طور پر استعمال ہو اس میں خفیہ طور سے ہتھیار بھی جمع کرو۔ اور آپس میں مشورے بھی یہیں کیا کرو، اور میری طرف سے کوئی ایلچی آئے تو اسے بھی یہاں ٹھہراؤ، چنانچہ ان منافقین نے قبا کے علاقے میں یہ عمارت بنائی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درخواست کی کہ بہت سے کمزور لوگوں کو مسجد قبا دور پڑتی ہے، اس لیے ان کی آسانی کی خاطر ہم نے یہ مسجد تعمیر کی ہے۔ آپ کسی وقت یہاں تشریف لا کفر نماز پڑھیں، تاکہ اسے برکت حاصل ہو۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تبوک جانے کی تیار میں مصروف تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ ابھی تو میں تبوک جا رہا ہوں، واپسی پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں وہاں آکر نماز پڑھ لوں گا۔ لیکن جب آپ تبوک سے واپس تشریف لائے تو مدینہ منورہ سے کچھ پہلے ذو اوان کے مقام پر یہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں آپ پر اس نام نہاد مسجد کی حقیقت کھول دی گئی۔ اور اس میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا گیا۔ اس موقع پر آپ نے وہیں سے دو صحابیوں مالک بن دخشم اور معن بن عدی (رض) کو بھیجا کہ وہ اس عمارت کو تباہ کردیں، چنانچہ ان حضرات نے اس کو جلا کر خاک کردیا۔ (تفسیر ابن جریر)