119۔ 1 سچائی ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان تینوں صحابہ کی غلطی نہ صرف معاف فرما دی بلکہ ان کی توبہ کو قرآن بنا کر نازل فرما دیا۔ (رض) و رضوا عنہ۔ اس لئے مومنین کو حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اس کا مطلب یہ ہی کہ جس کے اندر تقوٰی (یعنی اللہ کا خوف) ہوگا، وہ سچا بھی ہوگا اور جو جھوٹا ہوگا، سمجھ لو کہ اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ مومن سے کچھ اور کوتاہیوں کا صدور تو ہوسکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوتا۔
[١٣٥] سچ بولنے کی فضیلت اور فائدہ :۔ کعب بن مالک غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کا قصہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے : اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ اللہ نے کسی شخص کو سچ کہنے کی توفیق دے کر اس پر اتنا احسان کیا ہو جیسا کہ مجھ پر کیا۔ میں نے اسی وقت سے لے کر آج تک قصداً کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اللہ تعالیٰ نے اسی باب میں یہ آیات اتاریں (لَقَدْ تَّاب اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١١٧ۙ ) 9 ۔ التوبہ :117) (بخاری۔ کتاب التفسیر)
وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ : یہ صادقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مخلص صحابہ کرام (رض) ہیں۔ صدق نیت، قول اور فعل تینوں میں ہو تو صدق ہے، ورنہ فعل قول کی تکذیب کرے تو یہ بھی صدق نہیں، اس لیے جو لوگ اپنے اخلاص نیت اور قول کے مطابق عملاً تبوک کی طرف نکلے بھی وہی صادقین ٹھہرے اور ان کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا۔ ان تینوں نے بھی سچ کہا، اپنی خطا مانی اس لیے بخشے گئے، نہیں تو منافقین میں ملتے۔ (موضح) اللہ تعالیٰ نے سچے مومن قرار ہی ان لوگوں کو دیا ہے جو ایمان لانے کے بعد شک میں مبتلا نہیں ہوئے اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، فرمایا کہ صادق صرف یہی لوگ ہیں۔ دیکھیے سورة حجرات (١٥) اور سورة حشر (٨) کعب بن مالک (رض) کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام مجھ پر یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سچ بولا، ورنہ میں بھی جھوٹ بول کر ہلاک ہوجاتا جس طرح دوسرے ہلاک ہوگئے۔ [ بخاری، المغازی، باب حدیث کعب بن مالک (رض) ۔۔ : ٤٤١٨] بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سچ بولنے کے انعام میں ان کی توبہ کا تذکرہ قرآن میں فرمایا جو قیامت تک پڑھا جائے گا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سچ کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ کہتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچ جاؤ، کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی آگ کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ کہتا رہتا ہے اور جھوٹ کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ : ( یأیھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ ۔۔ ) : ٦٠٩٤۔ مسلم : ٢٦٠٧ ]
(آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ، سابقہ آیات میں جو واقعہ تخلف عن الجہاد کا بعض مخلصین سے پیش آیا پھر ان کی توبہ قبول ہوئی یہ سب نتیجہ ان کے تقوٰی اور خوف خدا کا تھا، اس لئے اس آیت میں عام مسلمانوں کو تقوٰی کیلئے ہدایت فرمائی گئی، اور كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ صفت تقوٰی حاصل ہونے کا طریقہ صالحین و صادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے اس میں شاید یہ اشارہ بھی ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت مجالست اور ان کے مشورہ کو بھی دخل تھا، اللہ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہئے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہئے، اس جگہ قرآن حکیم نے علماء صلحاء کے بجائے صادقین کا لفظ اختیار فرما کر عالم و صالح کی پہچان بھی بتلا دی ہے کہ صالح صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، نیت و ارادے کا بھی سچا ہو قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ١١٩- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔
قول باری ہے یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصارقین ۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے ان کی یہ تفسیر مروی ہے کہ سچائی کو لازم پکڑو اور اس سے ہرگز روگردانی نہ کرو اس لیے کہ جھوٹ کی کسی حالت میں بھی گنجائش نہیں ہے ؟ نافع اور ضحاک کا قول ہے کہ دنیا میں عمل صالح کے ذریعے انبیاء اور صدیقین کی معیت حاصل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا لیس البر ان تولوا وجو ھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف کرلو لیکن نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور ریوم آخر پر ایمان لائے ۔ تا قول باری اولیک الذی صدقوا یہی لوگ سچے ہیں۔- اجماع صحابہ (رض) حجت ہے - درج بالا آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام یعنی حضرات مہاجرین و انصار کی صفت بیان کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمایا کونوا مع الصادقین اور سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔ ان سب آیات کا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کی پیروی اور انکے نقش قدم پر چلنا لازم ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں یہ بتادیا کہ جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے۔ وہ سچے ہوں گے اور پھر اس آیت میں فرمایا وکونوا مع الصادقین یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام کا اجماع ہمارے لیے دلیل اور حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمارے لیے ان کی مخالفت کسی طرح جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی پیروی کا حکم دیا ہے۔- قول باری ہے لقد تاب اللہ علی النبی والمھاجرین والانصار الذین اتبعوا فی ساعۃ السعرۃ ۔ اللہ نے معاف کردیا نبی ؐ کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کی تعریف کی گئی ہے ۔ یعنی وہ حضرات مہاجرین و انصار جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوۂ تبوک میں گئے تھے نیز اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کے باطن کی صحت اور قلب و ضمیر کی طہارت کی بھی اطلاع دی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر ، کہ اس نے انہیں معاف کردیا صر ف اسی وقت دی ہے جبکہ وہ ان سے راضی ہوگیا اور ان کے افعال اسے پسند آ گئے آیت ان لوگوں کی تردید کے لیے نص ہے جو صحابہ کرام پر زبان طعن و تشنیع دراز کرتے اور ایسے افعال کی طرف ان کی نسبت کرتے ہیں جن کی طرف اللہ نے ان کی نسبت نہیں کی ہے، اللہ نے ان کی نسبت پاکیزگی اور طہارت کی طرف کی ہے اور انہیں اس وصف سے متصف فرمایا ہے کہ ان کے قلوب پاکیزہ اور ان کا باطن درست ہے (رض)
(١١٩) یعنی حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں اور دیگر مومنوں کو جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان باتوں میں اس کی اطاعت کرو اور اٹھنے بیٹھنے اور اس کے راستہ میں جانے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے ساتھیوں کا ساتھ دو ۔
آیت ١١٩ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) - یہ گویا جماعتی زندگی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور جماعتی زندگی سے منسلک رہنے کے بہت سے فوائد اور بہت سی برکتیں ہیں ‘ جیسا کہ اس سے پہلے ہم سورة الانعام کی آیت ٧١ میں پڑھ آئے ہیں : (لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْہُدَی اءْتِنَا ط) ۔ جماعتی زندگی دراصل ایک قافلے کی مانند ہے۔ قافلے میں دوران سفر اگر کسی ساتھی کی ہمت جواب دے رہی ہو یا کوئی معذوری آڑے آرہی ہو تو دوسرے ساتھی اسے سہارا دینے ‘ ہاتھ پکڑنے اور ہمت بندھانے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
96: یہ ان تین حضرات کے واقعے سے ملنے والا سبق ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے منافقین کی طرح جھوٹے سچے بہانے نہیں بنائے، بلکہ جو حقیقت تھی، وہ سچ سچ بیان کردی کہ ان کے پاس کوئی عذر نہیں تھا۔ ان کی اس سچائی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نہ صرف توبہ قبول فرمائی، بلکہ سچے لوگوں کی حیثیت سے قیامت تک کے لیے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں زندہ جاوید کردیا گیا۔ اس آیت میں یہ تعلیم بھی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سے سچے لوگوں کے ساتھ رکھنی چاہئے، جو زبان کے بھی سچے ہوں، اور عمل کے بھی سچے۔