جنگ تبوک میں عدم شمولیت سے پشیمان حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ جو آپ کے نابینا ہوجانے کے بعد آپ کا ہاتھ تھام کر لے جایا لے آیا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر میرے والد کے رہ جانے کا واقعہ خود کی زبانی یہ ہے کہ فرماتے ہیں میں اس کے سوا کسی اور غزوے میں پچھے نہیں رہا ۔ ہاں غزوہ بدر کا ذکر نہیں ، اس میں جو لوگ شامل نہیں ہوئے تھے ان پر کوئی سرزنش نہیں ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قافلے کے ارادے سے چلے تھے لیکن وہاں اللہ کی مرضی سے قریش کے جنگی مرکز سے لڑائی ٹھیر گئی ۔ تو چونکہ یہ لڑائی بےخبری میں ہوئی اس لیے میں اس میں حاضر نہ ہوسکا اس کے بجائے الحمد اللہ میں لیلۃ العقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا جب کہ ہم نے اسلام پر موافقت کی تھی اور میرے نزدیک تو یہ چیز بدر سے بھی زیادہ محبوب ہے گو بدر کی شہرت لوگوں میں بہت زیادہ ہے ۔ اچھا اب غزوہ تبوک کی غیر حاضری کا واقعہ سنئے اس وقت مجھے جو آسانی اور قوت تھی وہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی ۔ اس وقت میرے پاس دو دو اونٹنیاں تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس غزوے میں جاتے توریہ کرتے یعنی ایسے الفاظ کہتے کہ لوگ صاف مطلب نہ سمجھیں ۔ لیکن چونکہ اس وقت موسم سخت گرم تھا ، سفر بہت دور دراز کا تھا ، دشمن بڑی تعداد میں تھا ، پس آپ نے مسلمانوں کے سامنے اپنا مقصد صاف صاف واضح کر دیا کہ وہ پوری پوری تیاری کرلیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ رجسٹر میں ان کے نام نہ آسکے ۔ پس کوئی باز پرس نہ تھی جو بھی چاہتا کہ میں رک جاؤں وہ رک سکتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا رکنا مخفی رہ سکتا تھا ۔ ہاں اللہ کی وحی آجائے یہ تو بات ہی اور ہے ۔ اس لڑائی کے سفر کے وقت پھل پکے ہوئے تھے سائے بڑھے ہوئے تھے ۔ مسلمان صحابہ اور خود حضور تیاریوں میں تھے ، میری یہ حالت تھی کہ صبح نکلتا تھا کہ سامان تیار کرلوں لیکن ادھر ادھر شام ہو جاتی اور میں خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتا ۔ اور کہتا کوئی بات نہیں روپیہ ہاتھ تلے ہے ، کل خرید لوں گا اور تیاری کرلوں گا ۔ یہاں تک کہ یوں ہی صبح شام صبح شام آج کل آج کل کرتے کوچ کا دن آگیا اور لشکر اسلام بجانب تبوک چل پڑا میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک دو دن میں میں بھی پہنچتا ہوں ۔ یونہی آج کا کام کل پر ڈالا اور کل کا پرسوں پر یہاں تک کہ لشکر دور جا پہنچا ۔ گرے پڑے لوگ بھی چل دیئے میں نے کہا خیر دور ہوگئے اور کئی دن ہوگئے تو کیا میں تیز چل کر جا ملوں گا لیکن افسوس کہ یہ بھی مجھ سے نہ ہو سکا ارادوں ہی ارادوں میں رہ گیا ۔ اب تو یہ حالت تھی میں بازاروں میں نکلتا تو مجھے سوائے منافقوں اور بیمار لولے لنگڑے اندھے مریضوں اور معذور لوگوں کے اور کوئی نظر نہ آتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک پہنچ کر مجھے یاد فرمایا کہ کعب بن مالک نے کیا کیا ؟ اس پر بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا اسے تو اچھے کپڑوں اور جسم کی راحت رسانی نے روک رکھا ہے ۔ یہ سن کر حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا آپ یہ درست نہیں فرما رہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خیال تو کعب کی نسبت بہتر ہی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اب آپ لوٹ رہے ہیں تو میرا جی بہت ہی گھبرایا ۔ اور میں حیلے بہانے سوچنے لگا کہ یوں یوں بہانہ بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے نکل جاؤں گا اپنے والوں سے بھی رائے ملا لوں گا ۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے شریف کے قریب آگئے تو میں دل سے باطل اور جھوٹ بالکل الگ ہو گیا ۔ اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹے حیلے مجھے نجات نہیں دلوا سکے ۔ سچ ہی کا آخر بول بالا رہتا ہے ۔ پس میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ جھوٹ بالکل نہیں بولوں گا ۔ صاف صاف سچ سچ بات کہہ دونگا ۔ آپ خیر سے تشریف لائے اور حسب عادت پہلے مسجد میں آئے دو رکعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھے ۔ اسی وقت اس جہاد میں شرکت نہ کرنے والے آنے لگے اور عذر معذرت حیلے بہانے کرنے لگے ۔ یہ لوگ اسی سے کچھ اوپر اوپر تھے ۔ آپ ان کی باتیں سنتے اور اندرونی حالت سپرد اللہ کر کے ظاہری باتوں کو قبول فرما کر ان کے لیے استغفار کرتے ۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کے ساتھ تبسم فرمایا اور مجھے اپنے پاس بلایا میں قریب آن کر بیٹھ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیسے رک گئے؟ تم نے سواری بھی خرید لی تھی ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ کے سوا کسی اور کے پاس میں بیٹھا ہوتا تو بیسیوں باتیں بنا لیتا ۔ بولنے میں اور باتیں بنانے میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں ۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آج اگر جھوٹ سچ ملا کر آپ کے غصے سے میں آزاد ہو گیا تو ممکن ہے کل اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے مطلع فرما کر پھر مجھ سے ناراض کر دے ۔ اور آج میرے سچ کی بناء پر اگر آپ مجھے سے بگڑے تو ہو سکتا ہے کہ میری سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے پھر خوش کر دے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچ تو یہ ہے کہ واللہ مجھے کوئی عذر نہ تھا ۔ مجھے اس وقت جو آسانی اور فرست تھی اتنی تو کبھی اس سے پہلے میسر بھی نہیں ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو سچا ہے ۔ اچھا تم جاؤ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرے گا وہی ہوگا ۔ میں کھڑا ہو گیا ، بنو سلمہ کے چند شخص بھی میرے ساتھ ہی اٹھے اور ساتھ ہی چلے اور مجھ سے کہنے لگے اس سے پہلے تو تم سے کبھی کوئی اس قسم کی خطا نہیں ہوئی ۔ لیکن عجب ہے کہ تم نے کوئی عذر معذرت پیش نہیں کی جیسے کہ اوروں نے کی ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمہارے لیے استغفار کرتے تو تمہیں یہ کافی تھا ۔ الغرض کچھ اس طرح یہ لوگ میرے پیچھے پڑے کہ مجھے خیال آنے لگا کہ پھر واپس جاؤں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی پہلی بات کو جھٹلا کر کوئی حیلہ غلط سلط میں بھی پیش کردوں ۔ پھر میں نے پوچھا کیوں جی کوئی اور بھی میرے جیسا اس معاملے میں اور ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں دو شخص اور ہیں اور انہیں بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں ملا ہے ۔ میں نے کہا وہ کون کون ہیں انہوں نے جواب دیا مرارہ بن ربیع عامری اور حلال بن امیہ واقفی ان دونوں صالح اور نیک بدری صحابیوں کا نام جب میں نے سنا تو مجھے پورا اطمینان ہو گیا اور گھر چلا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا ۔ لوگ ہم سے الگ ہوگئے کوئی ہم سے بولتا چالتا نہ تھا یہاں تک کہ مجھے تو اپنا وطن پر دیس معلوم ہو نے لگا کہ گویا میں یہاں کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں ۔ پچاس راتیں ہم پر اسی طرح گزر گئیں ۔ وہ دو بدری بزرگ تو تھک ہار کر اپنے اپنے مکان میں بیٹھ رہے باہر اندر آنا جانا بھی انہوں نے چھوڑ دیا ۔ میں ذرا زیادہ آنے جانے والا اور تیز طبیعت والا تھا ۔ نہ میں نے مسجد جانا چھوڑا ، نہ بازاروں میں جانا آنا ترک کیا ۔ ہاں مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا ۔ نماز کے بعد جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو میں آتا اور سلام کرتا اور اپنے جی میں کہتا کہ میرے سلام کے جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلے بھی یا نہیں پھر آپ کے قریب ہی کہیں بیٹھ جاتا اور کنکھیوں سے آپ کو دیکھتا رہتا ۔ جب میں نماز میں ہوتا تو آپ کی نگاہ مجھ پر پڑتی لیکن جہاں میں آپ کی طرف التفات کرتا ، آپ میری طرف سے منہ موڑ لیتے ۔ آخر اس ترک کلامی کی طویل مدت نے مجھے پریشان کر دیا ۔ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کے باغ کی دیوار سے کود کر ان کے پاس گیا ۔ مجھے ان سے بہت ہی محبت تھی ۔ میں نے سلام کیا لیکن واللہ انہوں نے جواب نہ دیا ۔ میں نے کہا ابو قتادہ تجھے اللہ کی قسم کیا تو نہیں جانتا کہ میں اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں؟ اس نے خاموشی اختیار کی میں نے دوبارہ انہیں قسم دی اور پوچھا وہ پھر بھی خاموش رہے میں نے سہ بارہ انہیں قسم دے کر یہی سوال کیا اس کے جواب میں بھی وہ خاموش رہے اور فرمایا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ اب تو میں اپنے دل کو نہ روک سکا ۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بہت غمگین ہو کر پھر دیوار پر چڑھ کر باہر نکل گیا ۔ میں بازار میں جا رہا تھا کہ میں نے شام کے ایک قبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے آیا تھا یہ پوچھتے ہوئے کہ کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتا دے لوگوں نے اسے میری طرف اشارہ کر کے بتا دیا وہ میرے پاس آیا اور مجھے شاہ غسان کا خط دیا ۔ میں لکھا پڑھا تو تھا ہی ۔ میں نے پڑھا تو اس میں لکھا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سردار نے تم پر ظلم کیا ہے تم کوئی ایسے گرے پڑے آدمی نہیں ہو تم یہاں دربار میں چلے آؤ ہم ہر طرح کی خدمت گذاریوں کے لیے تیار ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا یہ ایک اور مصیبت اور منجانب اللہ آزمائش ہے ۔ میں نے تو جا کر چولھے میں اس رقعے کو جلا دیا ۔ چالیس راتیں جب گذر چکیں تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آرہا ہے اس نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو ۔ میں نے پوچھا یعنی کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا نہیں طلاق نہ دو لیکن ان سے ملو جلو نہیں ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیغام پہنچا ۔ میں نے تو اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ کردے ہاں حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی نے آن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے خاوند بہت بوڑھے ہیں ، کمزور بھی ہیں اور گھر میں کوئی خادم بھی نہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کا کام کاج کر دیا کروں ۔ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ تم سے ملیں نہیں ۔ انہوں نے کہا واللہ ان میں تو حرکت کی سکت ہی نہیں اور جب سے یہ بات پیدا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کے آنسو تھمے ہی نہیں ۔ مجھ سے بھی میرے بعض دوستوں نے کہا کہ تم بھی اتنی اجازت تو حاصل کرلو جتنی حضرت ہلال کے لیے ملی ہے ۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں کہوں گا ۔ اللہ جانے آپ جواب میں کیا ارشاد فرمائیں؟ ظاہر ہے کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان ہوں ۔ دس دن اس بات پر بھی گزر گئے اور ہم سے سلام کلام بند ہو نے کی پوری پچاس راتیں گزر چکیں ۔ اس پچاسویں رات کو صبح کی نماز میں نے اپنے گھر کی چھت پر ادا کی اور میں دل برداشتہ حیران و پریشان اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اپنی جان سے تنگ تھا ، زمین باوجود اپنی کشادگی کے مجھ پر تنگ تھی کہ میرے کان میں سلع پہاڑی پر سے کسی کی آواز آئی کہ وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک خوش ہوجا ۔ واللہ میں اس وقت سجدے میں گڑ پڑا اور سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل کی طرف سے قبولیت توبہ کی کوئی خبر آگئی ۔ بات بھی یہی تھی صبح کی نماز کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر صحابہ سے بیان فرمائی تھی اور یہ سنتے ہی وہ پیدل اور سوار ہم تینوں کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ ہمیں خبر پہنچائیں ۔ ایک صاحب تو اپنے گھوڑے پر سوار میری طرف خوشخبری لیے ہوئے آرہے تھے لیکن اسلم کے ایک صاحب نے دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ کر باآواز بلند میرا نام لے کر مجھے خوشخبری پہنچائی سوار سے پہلے ان کی آواز میرے کان میں آگئی ۔ جب یہ صاحب میرے پاس پہنچے تو میں نے اپنے پہنے ہوئے دونوں کپڑے انہیں بطور انعام دے دیئے واللہ اس دن میرے پاس اور کچھ بھی نہ تھا ۔ دو کپڑے اور ادھار لے کر میں نے پہنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو نے کے لیے گھر سے نکلا ۔ راستے میں جوق در جوق لوگ مجھ سے ملنے لگے اور مجھے میری توبہ کی بشارت مبارکباد دینے لگے ۔ کہ کعب اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ کو قبول فرما لینا تمہیں مبارک ہو ۔ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور دیگر صحابہ بھی حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی ۔ مہاجرین میں سے سوائے ان کے اور کوئی صاحب کھڑے نہیں ہوئے ۔ حضرت کعب حضرت طلحہ کی اس محبت کو ہمیشہ ہی اپنے دل میں لیے رہے ۔ جب میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا ، اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں خوشی سے چمک رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا کعب تم پر تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک آج جیسا خوشی کا دن کوئی نہیں گزرا ۔ میں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ عزوجل کی جانب سے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ مثل چاند کے ٹکڑے کے چمکنے لگ جاتا تھا اور ہر شخص چہرے مبارک کو دیکھتے ہی پہنچان لیا کرتا تھا ۔ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے تو میرا سب مال اللہ کے نام صدقہ ہے ۔ اس کے رسول کے سپرد ہے ۔ آپ نے فرمایا تھوڑا بہت مال اپنے پاس رکھ لو ، یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ میں نے کہا جو حصہ میرا خیبر میں ہے وہ تو میرا رہا باقی للہ خیرات ہے ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نجات کا ذریعہ میرا سچ بولنا ہے میں نے یہ بھی نذر مانی ہے کہ باقی زندگی بھی سوائے سچ کے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالوں گا ۔ میرا ایمان ہے کہ سچ کی وجہ سے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی وہ کسی مسلمان کو نہیں ملی ۔ اس وقت سے لے کر آج تک بحمد اللہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اور جو عمر باقی ہے ، اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مجھے یہی امید ہے ۔ اللہ رب العزت نے ( آیت لقد تاب اللہ ) سے کئی آیتیں تک ہماری توبہ کے بارے نازل فرمائیں ۔ اسلام کی نعمت کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جھوٹ بات نہ کہی جیسے کہ اوروں نے جھوٹی باتیں بنائیں ورنہ میں بھی ان کی طرح ہلاک ہوجاتا ۔ ان جھوٹے لوگوں کو کلام اللہ شریف میں بہت ہی برا کہا گیا ۔ فرمایا ( آیت سیحلفون باللہ لکم الخ ، ) یعنی تمہارے واپس آنے کے بعد یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر چاہتے ہیں کہ تم ان سے چشم پوشی کر لو ۔ اچھا تم چشم پوشی کر لو لیکن یاد رہے کہ اللہ کے نزدیک یہ لوگ گندے اور پلید ہیں ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ان کے عمل کا بدلہ ہو گا ۔ یہ تمہیں رضامند کرنے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں تم گو ان سے راضی ہو جاؤ لیکن ایسے فاسق لوگوں سے اللہ خوش نہیں ۔ تم تینوں کے امر ان لوگوں کے امر سے پیچھے ڈال دیا گیا تھا ۔ ان کے عذر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمائے تھے ، ان سے دوبارہ بیعت کر لی تھی اور ان کے لیے استغفار بھی کیا تھا ۔ اور ہمارا معاملہ تاخیر میں پڑ گیا تھا جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ۔ اسی لیے آیت کے الفاظ ( آیت وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا ) ہیں ۔ پس اس پیچھے چھوڑ دئیے جانے سے مراد غزوے سے رک جانا نہیں بلکہ ان لوگوں کے جھوٹے عذر کے قبول کئے جانے سے ہمارا معاملہ موخر کر دینا ہے ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے ۔ الحمد اللہ اس حدیث میں اس آیت کی پوری اور صحیح تفسیر موجود ہے ۔ کہ تینوں بزرگ انصاری تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ایک روایت میں مرارہ بن ربیعہ کے بدلے ربیع بن مرارہ آیا ہے ۔ ایک میں ربیع بن مرار یا مرار بن ربیع ہے ۔ لیکن صحیح وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے یعنی مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ ۔ ہاں زہری کی اوپر والی روایت میں جو یہ لفظ ہے کہ وہ دونوں بدری صحابی تھے جو حضرت کعب کی طرح چھوڑ دئیے گئے تھے یہ خطا ہے ۔ ان تینوں بزرگوں میں سے ایک بھی بدری نہیں واللہ اعلم ۔ چونکہ آیت میں ذکر تھا کہ کسی طرح ان بزرگوں نے صحیح سچا واقع کہہ دیا جس سے گو کچھ دنوں تک وہ رنج و غم میں رہے لیکن آخر سلامتی اور ابدی راحت ملی ۔ اس کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اے مومنو سچ بولا کرو اور سچائی کو لازم پکڑے رہو سچوں میں ہو جاؤ تاکہ ہلاکت سے نجات پاؤ ، غم رنجم سے چھوٹ جاؤ ۔ مسند احمد میں ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لوگو سچائی کو لازم کر لو ، سچ بھلائی کی رہبری کرتا ہے اور بھلائی جنت کی رہبری کرتی ہے ۔ انسان کے سچ بولنے اور سچ پر کار بند رہنے سے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بولتے رہنے سے اللہ کے ہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قصداً یا مذاقاً کسی حالت میں بھی جھوٹ انسان کے لائق نہیں ۔ کیونکہ اللہ مالک الملک فرماتا ہے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھی بن جاؤ ، پس کیا تم اس میں کسی کے لیے بھی رخصت پاتے ہو؟ بقول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سچوں سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں ۔ اگر سچوں کے ساتھ بننا چاہتے ہو تو دنیا میں بےرغبت رہو اور مسلمانوں کو نہ ستاؤ ۔
118۔ 1 خلفو کا وہی مطلب ہے جو مرجون کا ہے یعنی جن کا معاملہ مؤخر اور ملتوی کردیا گیا تھا اور پچاس دن کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ تین صحابہ تھے۔ کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رض) یہ تینوں نہایت مخلص مسلمان تھے۔ اس سے قبل ہر غزوے میں شریک ہوتے رہے۔ اس غزوہ تبوک میں صرف بوجہ غفلت شریک نہیں ہوئے بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، تو سوچا کہ ایک غلطی (پیچھے رہنے کی) تو ہو ہی گئی ہے۔ لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ چناچہ حاضر خدمت ہو کر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کرلیا اور اس کی سزا کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ نبی نے انکے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا تاہم اس دوران صحابہ کرام کو ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتٰی کے بات چیت تک کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں مذید دس دن گزرے تو توبہ قبول کرلی گئی اور مزکورہ آیت نازل ہوئی (اس واقعہ کی پوری تفصیل حضرت کعب بن مالک سے مروی حدیث میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو (صحیح بخاری) 118۔ 2 یہ ان ایام کی کیفیت کا بیان ہے۔ جس سے سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں گزرنا پڑا۔ 118۔ 3 یعنی پچاس دن کے بعد اللہ نے ان کی آہ وزاری اور توبہ قبول فرمائی۔
[١٣٤] سیدنا کعب بن مالک اور ان کے دوسرے ساتھیوں کا قصہ :۔ یہ وہ تین آدمی ہیں جن کا اجمالی ذکر اس سورة کی آیت نمبر ١٠٦ میں آچکا ہے اور وہ سیدنا کعب بن مالکص، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع ص تھے اور تینوں پہلے بارہا اپنے اخلاص کا ثبوت دے چکے تھے اور کعب بن مالک تو ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے لیلۃ العقبہ میں آپ سے بیعت کی تھی۔ آپ اگرچہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تاہم آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے لیلۃ العقبہ کی بیعت میں شمولیت غزوہ بدر میں شمولیت سے زیادہ عزیز ہے۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان کا قصہ خود انہی سے مروی ہے۔ ان میں سے دو احادیث ہم یہاں درج کرتے ہیں :- ١۔ کعب بن مالک خود بیان کرتے ہیں کہ جس غزوہ میں بھی نبی اکرم شریک ہوتے ہیں ان کے ساتھ ہوتا بجز دو لڑائیوں کے ایک غزوہ عسرہ (جنگ تبوک) اور دوسری غزوہ بدر۔ جنگ تبوک کے موقع پر میں نے پکی نیت کرلی کہ جب آپ چاشت کے وقت مدینہ تشریف لائیں گے تو آپ سے سچ سچ کہہ دوں گا۔ اور آپ اکثر جب سفر سے تشریف لاتے تو چاشت کے وقت ہی آتے۔ پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز ادا کیا کرتے۔ جب میں نے آپ کو سچ سچ بات بتلا دی تو آپ نے صحابہ کرام (رض) کو مجھ سے اور میرے (جیسے) دو ساتھیوں (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع) سے بات چیت کرنے سے منع کردیا۔ ہم تین آدمیوں کے سوا جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور (جھوٹے عذر پیش کر رہے تھے) ان کے لیے یہ حکم نہیں دیا۔ اب صحابہ نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دی اس حال میں زندگی مجھ پر دوبھر ہوگئی۔ مجھے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اسی حال میں مرگیا تو آپ میرے جنازے پر نماز بھی نہیں پڑھیں گے یا (خدانخواستہ) آپ کی وفات ہوجائے تو میں ساری عمر اسی مصیبت میں مبتلا رہوں گا نہ مجھ سے کوئی بات چیت کرے گا اور اگر مرگیا تو کوئی نماز بھی نہ پڑھے گا۔ آخر (پچاس دن گزرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی کا حکم رسول اللہ پر اتارا۔ اس وقت تہائی رات باقی تھی اور آپ ام المومنین ام سلمہ کے گھر میں تھے۔ ام سلمہ میری بھلائی کی فکر میں تھیں اور میری مدد کرنا چاہتی تھیں آپ نے ام سلمہ (رض) سے کہا ام سلمہ کعب بن مالک کی توبہ قبول ہوگئی۔ تو انہوں نے کہا میں کعب کو مبارک باد کہلا بھیجوں ؟ آپ نے فرمایا لوگ ہجوم کر آئیں گے اور تمہاری نیند خراب کردیں گے۔ پھر جب آپ نے صبح کی نماز پڑھی تو لوگوں کو ہماری توبہ قبول ہونے کی خبر دی۔ اور آپ کو جب بھی کوئی اچھی خبر ملتی تو آپ کا چہرہ یوں چمکنے لگتا جیسے چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ ہم تین آدمیوں کے لیے، جن کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے معافی کا حکم اتارا اور باقی جن لوگوں نے جھوٹے بہانے تراشے تھے ان کا ذکر بری طرح کیا گیا۔ اتنا برا ذکر اللہ نے اور کسی کا نہیں کیا۔ فرمایا جب تم ان کے پاس واپس آؤ گے تو وہ آپ کے سامنے معذرت شروع کردیں گے۔ آپ ان سے کہہ دیجئے بہانے نہ بناؤ، ہم تمہاری باتوں پر یقین نہیں کریں گے۔ کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتلا دیئے ہیں۔ اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لیں گے۔۔ تاآخر (آیت نمبر ٩٤) (بخاری کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدنا کعب بن مالک ان تین آدمیوں میں سے تھے جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور ان کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ کعب بن مالک آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور ان کے بیٹے عبداللہ بن کعب انہیں لے کر چلا کرتے تھے۔ عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ جب کعب اپنا قصہ بیان کرتے تو فرمایا کرتے کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا نہیں تھوڑا سا مال اپنے لیے بھی رکھ لو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- پہلی حدیث میں چند اہم باتیں مذکور نہیں جو دوسری احادیث میں مذکور ہیں اور وہ یہ ہیں :- ١۔ سیدنا کعب فرماتے ہیں کہ جن دنوں میرے ساتھ صحابہ کی گفتگو بند کی گئی تھی انہی دنوں میں شام کے عیسائیوں میں سے مجھے ایک شخص ملا اور اس نے شاہ غسان کا حریر میں لپٹا ہوا خط مجھے دیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر تشدد کیا ہے۔ تم ایسے حقیر آدمی نہیں جسے ضائع کیا جائے۔ اگر تم ہمارے پاس آجاؤ تو ہم تمہاری پوری پوری قدر کریں گے۔ میں نے یہ خط پڑھ کر سمجھ لیا کہ یہ ایک اور آزمائش مجھ پر نازل ہوئی ہے چناچہ میں نے اس خط کو فوراً چولہے میں جھونک دیا۔ - ٢۔ جب چالیس دن اسی حالت میں گزر گئے تو ہم تینوں کو حکم ہوا کہ ہم اپنی بیویوں سے بھی الگ رہیں۔ میں نے پوچھا طلاق دے دوں ؟ جواب ملا نہیں بس الگ رہو۔ ہلال بن امیہ کی بیوی آپ کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ ہلال بن امیہ نہایت کمزور ہے اور وہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔ آپ نے اسے اپنے خاوند کے پاس رہنے کی اجازت دے دی صحبت وغیرہ کی اجازت نہیں دی۔ مگر میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ۔ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ کر دے۔- ٣۔ مزید دس دن یعنی کل پچاس دن گزر جانے کے بعد ہم لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے ان مخلص صحابہ کا جو کڑا امتحان لیا تھا اس میں وہ پورے اترے۔ پھر اللہ نے نہایت شفقت بھرے الفاظ میں ان کی صرف توبہ ہی قبول نہیں فرمائی بلکہ اگلی آیت میں ان کی سچائی، راست بازی اور وفاداری کی تعریف بھی فرمائی۔
وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا : ” خُلِّفُوْا “ کا لفظی معنی اگرچہ پیچھے چھوڑے گئے ہے، مگر یہاں مراد یہ ہے کہ جن کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا۔ اسی بات کا تذکرہ اس سے پہلے آیت (١٠٧) (ۚوَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ ) میں گزرا ہے۔ ”ۙوَّعَلَي الثَّلٰثَةِ “ کا عطف ” عَلَي النَّبِيِّ “ پر ہے (یعنی انصار و مہاجرین پر مہربان ہونے اور انھیں معاف کرنے میں) وہ تین شخص بھی داخل ہوئے جن پر پچاس دن میں ایسی حالت گزری کہ موت سے بھی بدتر۔ (موضح) یہ تین صحابہ تھے کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رض) ، اس سے قبل تقریباً ہر غزوے میں یہ شریک ہوتے رہے، اس غزوۂ تبوک میں صرف سستی کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے، بعد میں انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو سوچا کہ ایک غلطی (پیچھے رہنے کی) تو ہو ہی گئی ہے، لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ چناچہ حاضر خدمت ہو کر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کرلیا اور اس کی سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا کہ وہی ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا، تاہم اس دوران میں آپ نے تمام صحابہ کو ان سے بائیکاٹ کا حکم دے دیا، حتیٰ کہ بات چیت تک سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں۔ یہ وہ وقت تھا جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے تین جملوں میں کھینچا ہے کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور خود ان کی جانیں ان پر تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کرلیا کہ بیشک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں۔ آخر مزید دس دن گزرنے کے بعد ان کی توبہ قبول کرلی گئی اور مذکورہ آیت اتری۔ کعب بن مالک (رض) نے یہ واقعہ نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ اپنی قلبی کیفیت کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے بڑی لمبی حدیث میں بیان فرمایا ہے جو صحیح بخاری کی کتاب المغازی اور مسلم کی کتاب التوبہ میں مذکور ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں بھی اسے مفصل نقل کیا گیا ہے۔ - اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّاب الرَّحِيْمُ : معلوم ہوا کہ توبہ کا قبول ہونا محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، ورنہ اس پر کسی کا زور نہیں۔
(آیت) وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا، اس میں خلفوا کے لفظی معنی یہ ہیں کہ جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے مراد یہ ہے کہ جن کی توبہ کا معاملہ مؤ خر کیا گیا، یہ تین حضرات، حضرت کعب بن مالک شاعر، اور مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ ہیں، تینوں انصاری بزرگ تھے، جو اس سے پہلے بیعت عقبہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دوسرے غزوات میں شریک رہ چکے تھے، مگر اس وقت اتفاقی طور سے اس لغزش میں مبتلا ہوگئے، اور منافقین جو اس جہاد میں اپنے نفاق کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے تھے انہوں نے بھی ان کو ایسے ہی مشورے دیئے جس سے ان کی ہمت ٹوٹ گئی، مگر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جہاد سے واپس آئے تو ان سب منافقین نے حاضر ہو کر جھوٹے اعذار پیش کرکے اور جھوٹی قسمیں کھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راضی کرنا چاہا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی باطنی حالت کو اللہ کے سپرد کیا، اور ظاہری قسموں کو قبول کرلیا، یہ لوگ آرام سے رہنے لگے، کچھ لوگوں نے ان تینوں انصاری بزرگوں کو بھی یہی مشورہ دیا کہ تم بھی جھوٹے عذر کر کے اپنی صفائی پیش کردو، مگر ان کے دلوں نے ملامت کی کہ ایک گناہ تو جہاد سے تخلف کا کرچکے ہیں، اب دوسرا گناہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جھوٹ بولنے کا کریں، اس لئے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کرلیا، جس کی سزا میں ان سے مقاطعہ سلام و کلام جاری کیا گیا، انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان سب کی حقیقت کھول دی، جھوٹی قسمیں کھا کر عذر کرنے والوں کا پردہ فاش کردیا، جس کا ذکر اور ان کے انجام بد کا حال اس سے پہلی کئی آیات میں (آیت) يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ سے عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ تک بیان ہوا ہے، اور ان تین بزرگوں نے جو سچ بولا اور اعتراف کیا ان کی توبہ اس آیت میں نازل ہوئی، اور پچاس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعراض اور صحابہ کرام کے مقاطعہ سلام و کلام کی انتہائی سخت مصیبت جھیلنے کے بعد بڑی سرخروئی اور مبارکبادوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سب مسلمانوں میں مقبول ہوئے۔- ان تینوں انصاری بزرگوں کے واقعہ کی تفصیل احایث صحیحہ سے : - صحیحین بخاری و سلم اور اکثر کتب حدیث میں اس واقعہ کے متعلق حضرت کعب بن مالک کی ایک طویل حدیث لکھی گئی ہے، جو بہت سے فوائد اور مسائل اور حقائق پر مشتمل ہے، اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس کا پورا ترجمہ یہاں نقل کردیا جائے، ان تین بزرگوں میں سے ایک کعب بن مالک (رض) تھے انہوں نے اپنے واقعہ کی تفصیل اس طرح بتلائی ہے کہ : - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جتنے غزوات میں شرکت کی میں ان سب میں بجز غزوہ تبوک کے آپ کے ساتھ شریک رہا، البتہ غزوہ بدر کا واقعہ چونکہ اچانک پیش آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو اس میں شریک ہونے کا حکم بھی نہیں دیا تھا، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی عتاب بھی نہیں فرمایا تھا اس میں بھی شریک نہ ہوسکا تھا، اور میں لیلتہ العقبہ کی بیعت میں بھی حاضر تھا جس میں ہم نے اسلام کی حمایت و حفاظت کا معاہدہ کیا تھا، اور مجھے یہ بیعت عقبہ کی حاضری غزوہ بدر کی حاضری سے بھی زیادہ محبوب ہے، اگرچہ غزوہ بدر لوگوں میں زیادہ مشہور ہے، اور میرا واقعہ غزوہ تبوک میں غیر حاضری کا یہ ہے کہ میں کسی وقت بھی اس وقت سے زیادہ خوش حال اور مالدار نہ تھا۔ بخدا میرے پاس کبھی اس سے پہلے دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں۔ جو اس وقت موجود تھیں۔- اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ غزوات کے معاملہ میں یہ تھی کہ مدینہ سے نکلنے کے وقت اپنے ارادے کے اخفا کے لئے ایسا کرتے تھے کہ جس سمت میں جا کر جہاد کرنا ہو تو مدینہ سے اس کے خلاف سمت کو نکلنے تھے، تاکہ منافقین مخبری کرکے فریق مقابل کو آگاہ نہ کردیں، اور فرمایا کرتے تھے کہ جنگ میں ( اس طرح کا) خداع ( دھوکہ) جائز ہے۔- یہان تک کہ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا، ( یہ جہاد کئی وجہ سے ممتاز تھا) آپ نے سخت گرمی اور تنگدستی کی حالت میں اس جہاد کا قصد فرمایا، اور سفر بھی بڑی دور کا تھا، مقابلہ پر دشمن کی قوت اور تعداد بہت زیادہ تھی، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جہاد کا کھل کر اعلان کردیا تاکہ مسلمان اس جہاد کے لئے پوری تیاری کرسکیں۔- اس جہاد میں شریک ہونے والوں کی تعداد صحیح مسلم کی روایت کے مطابق دس ہزار سے زائد تھی، اور حاکم کی روایت حضرت معاذ سے یہ ہے کہ ہم اس جہاد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے تو ہماری تعداد تیس ہزار سے زائد تھی۔- اور اس جہاد میں نکلنے والوں کی کوئی فہرست نہیں لکھی گئی تھی اس لئے جو لوگ جہاد میں جانا نہیں چاہتے تھے ان کو یہ موقع مل گیا کہ ہم نہ گئے تو کسی کو خبر بھی نہ ہوگی، جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جہاد کے لئے نکلے تو وہ وقت تھا کہ کہجوریں پک رہی تھیں، باغات والے ان میں مشغول تھے، اسی حالت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں نے سفر کی تیاری شروع کردی، اور جمعرات کے روز آپ نے اس سفر کا آغاز کیا، اور سفر کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمعرات کا دن پسند تھا، خواہ سفر جہاد کا ہو یا کسی دوسرے مقصد کا۔- میرا حال یہ تھا کہ میں روز صبح کو ارادہ کرتا کہ جہاد کی تیاری کروں مگر بغیر کسی تیاری کے واپس آجاتا، میں دل میں کہتا تھا کہ میں جہاد پر قادر ہوں مجھے نکلنا چاہئے، مگر یوں ہی امروز و فردا میں میرا ارادہ ٹلتا رہا، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمان جہاد کے لئے روانہ ہوگئے، پھر بھی میرے دل میں یہ آتا رہا کہ میں بھی روانہ ہوجاؤں اور کہیں راستہ میں مل جاؤں اور کاش کہ میں ایسا کرلیتا، مگر یہ کام ( افسوس ہے کہ) نہ ہوسکا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں مدینہ میں کہیں جاتا تو یہ بات مجھے غمگین کرتی تھی کہ اس وقت پورے مدینہ میں یا تو وہ لوگ نظر پڑتے تھے جو نفاق میں ڈوبے ہوئے تھے، یا پھر ایسے بیمار معذور جو قطعاً سفر کے قابل نہ تھے دوسری طرف پورے راستہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرا خیال کہیں نہیں آیا یہاں تک کہ تبوک پہنچ گئے اس وقت آپ نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ کعب بن مالک کو کیا ہوا وہ کہاں ہیں) ؟ - بنو سلمہ کے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو جہاد سے ان کے عمدہ لباس اور اس پر نظر کرتے رہنے نے روکا ہے، حضرت معاذ بن جبل نے عرض کیا کہ تم نے یہ بری بات کہی ہے، یا رسول اللہ بخدا میں نے ان میں خیر کے سوا کچھ نہیں پایا، یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔- حضرت کعب کا بیان ہے کہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لا رہے ہیں تو مجھے بڑی فکر ہوئی اور قریب تھا کہ میں اپنی غیر حاضری کا کوئی عذر گھبرا کر تیار کرلیتا اور ایسی باتیں پیش کردیتا جس کے ذریعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضی سے نکل جاتا اور اس کے لئے اپنے اہل اور دوستوں سے بھی مدد لے لیتا ( میرے دل میں یہ خیالات و وساوس گھومتے رہے) یہاں تک کہ جب یہ خبر ملی کہ حضور تشریف لے آئے ہیں تو خیالات فاسدہ میرے دل سے مٹ گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں آپ کی ناراضی سے کسی ایسی بنیاد پر نہیں نکل سکتا جس میں جھوٹ ہو اس لئے میں نے بالکل سچ بولنے کا عزم کرلیا مجھے صرف سچ ہی نجات دلا سکتا ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے تو ( حسب عادت) چاشت کے وقت یعنی صبح کو آفتاب کچھ بلند ہونے کے وقت مدینہ میں داخل ہوئے اور عادت شریفہ یہی تھی کہ سفر سے واپسی کا عموماً یہی وقت ہوا کرتا تھا، اور عادت یہ تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، دو رکعتیں پڑھتے، پھر حضرت فاطمہ کے پاس جاتے، اس کے بعد ازواج مطہرات سے ملتے تھے۔- اسی عادت کے مطابق آپ اول مسجد میں تشریف لے گئے دو رکعت ادا کی، پھر مسجد میں بیٹھ گئے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو غزوہ تبوک میں نہ جانے والے منافقین جن کی تعداد اسی (٨٠) سے کچھ اوپر تھی خدمت میں حاضر ہو کر جھوٹے عذر پیش کرکے اس پر جھوٹی قسمیں کھانے لگے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ظاہری قول قرار اور قسموں کو قبول کرلیا، اور ان کو بیعت کرلیا، ان کے لئے دعا مغفرت فرمائی اور ان کے باطنی حالات کو اللہ کے سپرد کیا۔- اسی حال میں میں بھی حاضر خدمت ہوگیا ‘ اور چلتے چلتے سامنے جا کر بیٹھ گیا ‘ جب میں نے سلام کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا تبسم فرمایا جیسے ناراض آدمی کبھی کیا کرتا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پنا رخ پھیرلیا ‘ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھ سے چہرہ مبارک کیوں پھیر تے ہیں ‘ خدا کی قسم میں نے نفاق نہیں کیا ‘ نہ دین کے معاملہ میں کسی شبہ وشک میں مبتلا ہوا ‘ نہ اس میں کوئی تبدیلی کی آپ نے فرمایا کہ پھر جہاد میں کیوں نہیں گئے ؟ کیا تم نے سواری نہیں خرید لی تھی ؟ - میں نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ اگر میں آپ کے سوا دنیا کے کسی دوسرے آدمی کے سامنے بیٹھتا تو مجھ یقین ہے کہ میں کوئی عذر گھڑ کر اس کی نارضی سے بچ جاتا ‘ کیونکہ مجھے جدال اور بات بنانے میں مہا رت حاصل ہے ‘ لیکن قسم ہے اللہ کی کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر میں نے آپ سے کوئی جھوٹی بات کہی جس سے آپ وقتی طور پر راضی ہوجائیں تو کچھ دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقت حال آپ پر کھول کر مجھ سے ناراض کردیں گے، اور اگر میں نے سچی بات بتلا دی جس سے بالفعل آپ مجھ پر ناراض ہوں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے، صحیح بات یہ ہے کہ جہاد سے غائب رہنے میں میرا کوئی عذر نہیں تھا، میں کسی وقت بھی مالی اور جسمانی طور پر اتنا قوی اور پیسے والا نہیں ہوا تھا جتنا اس وقت تھا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس شخص نے تو سچ بولا ہے، پھر فرمایا کہ اچھا جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ فرما دیں، میں یہاں سے اٹھ کر چلا تو بنی سلمہ کے چند آدمی میرے پیچھے لگے، اور کہنے لگے کہ اس سے پہلے تو ہمارے علم میں تم نے کوئی گناہ نہیں کیا یہ تم نے کیا بےوقوفی کی کہ اس وقت کوئی عذر پیش کردیتے جیسا دوسرے متخلفین نے پیش کیا، اور تمہارے گناہ کی معافی کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار کرنا کافی ہوجاتا، بخدا یہ لوگ مجھے بار بار ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال آگیا کہ میں لوٹ جاؤں، اور پھر جا کر عرض کروں کہ میں نے جو بات پہلے کہی تھی وہ غلط تھی، میرا عذر صحیح موجود تھا۔- مگر پھر میں نے دل میں کہا کہ میں ایک گناہ کے دو گناہ نہ بناؤں ایک گناہ تو تخلف کا سرزد ہوچکا ہے دوسرا گناہ جھوٹ بولنے کا کر گذروں، پھر میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ متخلفین میں کوئی اور بھی میرے ساتھ ہے جس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہو، ان لوگوں نے بتلایا کہ دو آدمی اور ہیں جنہوں نے تمہاری طرح اقرار جرم کرلیا، اور ان کو بھی وہی جواب دیا گیا جو تمہیں کہا گیا ہے، ( کہ اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرو) میں نے پوچھا کہ وہ دو کون ہیں ؟ انہوں نے بتلایا کہ ایک مرارہ ابن ربیع العمری دوسرے ہلال بن امیہ واقفی ہیں۔- ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ ان میں سے پہلے ( یعنی مرارہ) کے تخلف کا تو سبب یہ ہوا کہ ان کا ایک باغ تھا جس کا پھل اس وقت پک رہا تھا، تو انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ تم نے اس سے پہلے سے غزوات میں حصہ لیا ہے، اگر اس سال جہاد میں نہ جاؤ تو کیا جرم ہے، اس کے بعد جب انھیں اپنے گناہ پر تنبہ ہوا تو انہوں نے اللہ سے عہد کرلیا کر یہ باغ میں نے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔- اور دوسرے بزرگ حضرت ہلال بن امیہ کا یہ واقعہ ہوا کہ ان کے اہل و عیال عرصہ سے متفرق تھے، اس موقع پر سب جمع ہوگئے تو یہ خیال کیا کہ اس سال میں جہاد میں نہ جاؤں اپنے اہل و عیال میں بسر کروں، ان کو بھی جب اپنے گناہ کا خیال آیا تو انہوں نے یہ عہد کیا کہ اب میں اپنے اہل و عیال سے علحدگی اختیار کرلوں گا۔- کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے ایسے دو بزرگوں کا ذکر کیا جو غزوہ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں، تو میں نے کہا کہ بس میرے لئے انہی دونوں بزرگوں کا عمل قابل تقلید ہے، یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلا گیا۔- ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو ہم تینوں کے ساتھ سلام کلام کرنے سے منع فرمایا، اس وقت ہم تو سب مسلمانوں سے بدستور محبت کرتے تھے مگر ان سب کا رخ ہم سے پھر گیا تھا۔- ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ اب ہمارا حال یہ ہوگیا کہ ہم لوگوں کے پاس جاتے تو کوئی ہم سے کلام نہ کرتا نہ سلام کرتا نہ سلام کا جواب دیتا۔- مسند عبد الرزاق میں ہے کہ اس وقت ہماری دنیا بالکل بدل گئی ایسا معلوم ہونے لگا کہ نہ وہ لوگ ہیں جو پہلے تھے نہ ہمارے باغ اور مکان ہیں جو ان سے پہلے تھے، سب اجنبی نظر آنے لگے، مجھے سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اس حال میں مرگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے جنازہ کی نماز نہ پڑہیں گے، یا خدانخواستہ اس عرصہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو میں عمر بھر اسی طرح سب لوگوں میں ذلیل و خوار پھرتا رہوں گا، اس کی وجہ سے میرے لئے ساری زمین بیگانہ و ویرانہ نظر آنے لگی، اسی حال میں ہم پر پچاس راتیں گذر گئیں، اس زمانہ میں میرے دونوں ساتھی ( مرارہ اور ہلال) تو شکستہ دل ہو کر گھر میں بیٹھ رہے اور رات دن روتے تھے، لیکن میں جوان آدمی تھا، باہر نکلتا اور چلتا پھرتا تھا اور نماز میں سب مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں پھرتا تھا مگر نہ کوئی مجھ سے کلام کرتا نہ میرے سلام کا جواب دیتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں نماز کے بعد حاضر ہوتا اور سلام کرتا تو یہ دیکھا کرتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لب مبارک کو جواب سلام کیلئے حرکت ہوئی یا نہیں، پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑہتا تو نظر چرا کر آپکی طرف دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ جب میں نماز میں مشغول ہوجاتا ہوں تو آپ میری طرف دیکھتے ہیں اور جب میں آپکی طرف دیکھتا ہوں تو رخ پھیر لیتے ہیں۔- جب لوگوں کی یہ بیوفائی دراز ہوئی تو ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی قتادہ کے پاس گیا جو میرے سب سے زیادہ دوست تھے میں ان کے باغ میں دیوار پھاند کر داخل ہوا اور ان کو سلام کیا، خدا کی قسم انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے پو چھا کہ اے قتادہ کیا تم نہیں جانتے کہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت رکھتا ہوں، اس پر بھی قتادہ نے سکوت کیا، کوئی جواب نہیں دیا، جب میں نے بار بار یہ سوال دہرایا تو تیسری یا چوتھی مرتبہ میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ جانتا ہے اور اس کا رسول، میں رو پڑا اور اسی طرح دیوار پھاند کر باغ سے باہر آگیا، اسی زمانہ میں ایک روز میں مدینہ کے بازار میں چل رہا تھا کہ اچانک ملک شام کا ایک نبطی شخص جو غلہ فروخت کرنے کیلئے شام سے مدینہ میں آیا تھا اس کو دیکھا کہ لوگوں سے پوچھ رہا ہے کہ کیا کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتاسکتا ہے ؟ لوگوں نے مجھے دیکھ کر میری طرف اشارہ کیا، وہ آدمی میرے پاس آگیا اور مجھے شاہ غسان کا ایک خط دیا جو ایک ریشمی رومال پر لکھا ہوا تھا جس کا مضمون یہ تھا :- " اما بعد مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ کے نبی نے آپ سے بیوفائی کی اور آپ کو دور کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت اور ہلاکت کی جگہ میں نہیں رکھا ہے، تم اگر ہمارے یہاں آنا پسند کرو تو آجاؤ ہم تمہاری مدد کریں گے "۔- میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ اور ایک میرا امتحان اور آزمائش آئی کہ اہل کفر کو مجھ سے اس کی طمع اور توقع ہوگئی ( کہ میں ان کے ساتھ مل جاؤں) میں یہ خط لے کر آگے بڑھا ایک دکان پر تنور لگا ہوا تھا اس میں جھونک دیا۔- حضرت کعب فرماتے ہیں کہ جب پچاس میں سے چالیس راتیں گذر چکی تھیں تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک قاصد خزیمہ بن ثابت میرے پاس آرہے ہیں، آکر یہ کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے بھی علحدگی اختیار کرلو میں نے پوچھا کہ کیا طلاق دیدوں یا کیا کروں ؟ انہوں نے بتلایا کہ نہیں عملا اس سے الگ رہو قریب نہ جاؤ اسی طرح کا حکم میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی پہنچا میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکہ میں چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ فرما دیں۔- ہلال بن امیہ کی اہلیہ خولہ بنت عاصم یہ حکم سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ہلال بن امیہ ایک بوڑھے ضعیف آدمی ہیں اور کوئی ان کا خادم نہیں، ابن ابی شیبہ کی روایت یہ بھی ہے کہ وہ ضعیف البصر بھی ہیں کیا آپ یہ پسند نہیں فرمائیں گے کہ میں ان کی خدمت کرتی رہوں، فرمایا کہ خدمت کی ان میں کوئی حرکت ہی نہیں، اور واللہ ان پر تو مسلسل گریہ طاری ہے رات دن روتے رہتے ہیں۔- کعب بن مالک فرماتے ہیں مجھے بھی میرے بعض متعلقین نے مشورہ دیا کہ تم بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیوی کو ساتھ رکھنے کی اجازت لے لو جیسا کہ آپ نے ہلال کو اجازت دے دی ہے میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا، معلوم نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جواب دیں اس کے علاوہ میں جوان آدمی ہوں ( بیوی کو ساتھ رکھنا احتیاط کے خلاف ہے، چناچہ اسی حال پر میں نے دس راتیں اور گذاریں یہاں تک کہ پچاس راتیں مکمل ہوگئیں، مسند عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ اس وقت ہماری توبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک تہائی رات گزرنے کے وقت نازل ہوئی، ام المؤ منین حضرت ام سلمہ جو اس وقت حاضر تھیں انہوں نے عرض کیا کہ اجازت ہو تو کعب بن مالک کو اسی وقت اس کی خبر کردی جائے آپ نے فرمایا کہ ایسا ہوا تو ابھی لوگوں کا ہجوم ہوجائے گا رات کی نیند مشکل ہوجا ئیگی۔- کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ پچاسویں رات کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور حالت وہ تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے کہ مجھ پر میری جان اور زمین باوجود وسعت کے تنگ ہوچکی تھی، اچانک میں نے سلع پہاڑ کے اوپر سے کسی چلانے والے آدمی کی آواز سنی جو بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک بشارت ہو۔ - محمد بن عمرو کی روایت میں ہے کہ یہ بلند آواز سے کہنے والے ابوبکر تھے جنہوں نے جبل سلع پر چڑھ کر یہ آواز دی کہ اللہ نے کعب کی توبہ قبول فرمالی بشارت ہو، اور عقبہ کی روایت میں یہ ہے کہ یہ خوشخبری حضرت کعب کو سنانے کے لئے دو آدمی دوڑے ان میں سے ایک آگے بڑھ گیا تو جو پیچھے رہ گیا تھا اس نے یہ کیا کہ سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دے دی اور کہا جاتا ہے کہ یہ دوڑنے والے دو بزرگ حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم (رض) تھے۔- کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ یہ آواز سن کر میں سجدے میں گرگیا اور انتہائی فرحت سے رونے لگا، اور مجھے معلوم ہوگیا کہ اب کشادگی آگئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز کے بعد صحابہ کرام کو ہماری توبہ قبول ہونے کی خبر دی تھی، اب سب طرف سے لوگ ہم تینوں کو مبارکباد دینے کیلئے دوڑ پڑے، بعض لوگ گھوڑے پر سوار ہو کر میرے پاس پہنچے مگر پہاڑ سے آواز دینے والے کی آواز سب سے پہلے پہنچ گئی۔- کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری کے لئے نکلا تو لوگ جوق در جوق مجھے مبارکباد دینے کیلئے آرہے تھے، کعب فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہیں، آپ کے گرد صحابہ کرام کا مجمع ہے مجھے دیکھ کر سب سے پہلے طلحہ بن عبید اللہ کھڑے ہو کر میری طرف لپکے اور مجھ سے مصافحہ کرکے قبول توبہ پر مبارک باد دی طلحہ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولتا جب میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی کی وجہ سے چمک رہا تھا، آپ نے فرمایا کہ اے کعب بشارت ہو تمہیں ایسے مبارک دن کی جو تمہاری عمر میں پیدائش سے لے کر آج تک سب سے زیادہ بہتر دن ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ حکم آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، یہ حکم اللہ تعالیٰ کا ہے تم نے سچ بولا تھا اللہ تعالیٰ نے تمہاری سچائی کو ظاہر فرما دیا۔- جب میں آپ کے سامنے بیٹھا تو عرض کیا یا رسول اللہ میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سب مال و متاع سے نکل جاؤں کہ سب کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں، آپ نے فرمایا نہیں کچھ مال اپنی ضرورت کیلئے رہنے دو یہ بہتر ہے، میں نے عرض کیا کہ اچھا آدھا مال صدقہ کردوں آپ نے اس سے بھی انکار فرمایا، میں نے پھر ایک تہائی مال کی اجازت مانگی تو آپ نے اس کو قبول فرما لیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ہے اس لئے میں عہد کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کبھی سچ کے سوا کوئی کلمہ نہیں بولوں گا، پھر فرمایا کہ جب سے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سچ بولنے کا عہد کیا تھا الحمد اللہ آج تک کوئی کلمہ جھوٹ کا میری زبان پر نہیں آیا، اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھیں گے، کعب فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم اسلام کے بعد اس سے بڑی نعمت مجھے نہیں ملی کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سچ بولا جھوٹ سے پرہیز کیا کیونکہ اگر میں جھوٹ بولتا تو اسی طرح ہلاکت میں پڑجاتا جس طرح دوسرے جھوٹی قسمیں کھانیوالے ہلاک ہوئے جن کے بارے میں قرآن میں یہ نازل ہوا : (آیت) سَيَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْهِمْ سے لے کر فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ تک بعض حضرات نے فرمایا کہ ان تینوں حضرات سے مقاطعہ کا پچاس دن تک جاری رہنا شاید اس حکمت پر مبنی تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوہ تبوک میں پچاس دن ہی صرف ہوئے تھے ( یہ پوری روایت اور تفصیل واقعہ تفسیر مظہری سے لیا گیا ہے ) ۔- فوائد متعلقہ حدیث مذکورہ کعب بن مالک :- حضرت کعب بن مالک نے اپنے واقعہ کو جس شرح و بسط اور تفصیل سے بیان فرمایا ہے اس میں مسلمانوں کے لئے بہت سے فوائد اور ہدایات ہیں، اسی لئے اس جگہ اس حدیث کو پورا لکھا گیا ہے وہ فوائد یہ ہیں : - ا۔ اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت عام غزوات میں یہ تھی کہ جس طرف جانا ہوتا اس کی مخالف سمت سے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتے تاکہ مخالفین اسلام کو یہ معلوم نہ ہو کہ آپ کس قوم یا قبیلہ کے جہاد کے لئے جا رہے ہیں، اسی کو آپ نے فرمایا الحرب خدعۃ یعنی جنگ میں دھوکہ دینا جائز ہے، اس سے بعض لوگ اس مغالطہ میں پڑجاتے ہیں کہ جنگ و جہاد میں جھوٹ بول کر مخالف کو دھوکہ دینا جائز ہے یہ صحیح نہیں بلکہ مراد اس دھوکہ سے یہ ہے کہ اپنا عمل ایسا کرے جس سے مخالفین دھوکہ میں پڑجائیں، جیسے جہاد کیلئے مخالف سمت سے نکلنا، صریح جھوٹ بول کر دھوکہ دینا مراد نہیں وہ جنگ میں بھی جائز نہیں، اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ یہ عمل دھوکہ جس کو جائز قرار دیا ہے اس کا کوئی تعلق عہد و معاہدہ سے نہیں اور عہد شکنی صلح ہو یا جنگ کسی حال میں جائز نہیں۔- ٢۔ سفر کیلئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمعرات کا دن پسند تھا خواہ سفر جہاد کا ہو یا کسی دوسری ضرورت کا۔ - ٣۔ اپنے کسی بزرگ مرشد یا استاد یا باپ کو راضی کرنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز بھی نہیں اور اس کا انجام بھی اچھا نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو حقیقت حال کا علم بذریعہ وحی ہوجاتا تھا، اس لئے جھوٹ بولنے کا انجام برا تھا جیسا کہ کعب بن مالک اور دوسرے متخلفین کے واقعہ مذکورہ سے واضح ہوا، آپ کے بعد دوسرے بزرگوں کو وحی تو ہو نہیں سکتی الہام و کشف سے علم ہوجانا بھی ضروری نہیں، لیکن تجربہ شاہد ہے کہ جھوٹ بولنے کی ایک نحوست ہوتی ہے کہ قدرتی طور پر ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ بالاخر یہ بزرگ اس سے ناراض ہو ہی جاتا ہے۔- ٤۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ کسی گناہ کی سزا میں مسلمانوں کے امیر کو یہ بھی حق ہے کہ کسی شخص سے سلام و کلام قطع کردینے کا حکم دے دے جیسے اس واقعہ میں ان تین بزرگوں کے متعلق پیش آیا۔- ٥۔ اس واقعہ سے صحابہ کرام کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انتہائی محبت معلوم ہوئی کہ اس ناراضی اور مقاطعہ سلام و کلام کے زمانہ میں بھی غایت محبت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری بھی نہیں چھوڑی اور کن انکھیوں سے دیکھ کر آپ کی توجہ اور تعلق کا حال معلوم کرنے کی فکر رہی۔- ٦۔ کعب بن مالک کے گہرے دوست قتادہ کا معاملہ کہ ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور کوئی کلام نہ کیا، یہ ظاہر ہے کہ یہ کسی دشمنی یا مخالفت یا بغض سے نہیں بلکہ حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کی وجہ سے تھا، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بنایا ہوا قانون صرف لوگوں کے ظاہر پر نافذ نہ ہوتا تھا بلکہ دلوں پر بھی اس کی حکومت ہوتی تھی اور حاضر و غائب کسی حال میں اس کے خلاف نہ کرتے تھے اگرچہ اس میں کسی بڑے سے بڑے دوست عزیز کے خلاف ہی ہو۔- ٧۔ حضرت کعب کے پاس بادشاہ غسان کا خط آنے اور اس کو تنور میں ڈالنے کے واقعہ سے صحابہ کرام کے ایمان کی انتہائی پختگی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں کے مقاطعہ سے سخت پریشان ہونے کے عالم میں بھی ایک بڑے بادشاہ کے لالچ دلانے سے ان کے دل میں کوئی میلان پیدا نہیں ہوا۔- ٨۔ قبول توبہ نازل ہونے کے بعد صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور عام صحابہ کرام کا کعب بن مالک کو بشارت دینے کیلئے دوڑنا اور اس سے پہلے سب کا سلام و کلام تک سے سخت پرہیز کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مقاطعہ کے زمانے میں بھی ان سب کے دلوں میں حضرت کعب سے محبت اور تعلق تھا، مگر حکم رسول کے سامنے سب کچھ چھوڑا ہوا تھا، جب آیت توبہ نازل ہوئی تو ان کے گہرے تعلق کا انداز ہوا۔- ٩۔ صحابہ کرام کا حضرت کعب کو خوشخبری دینے اور مبارکباد کیلئے جانے سے معلوم ہوا کہ کسی خوشی کے موقع پر اپنے دوست احباب کو مبارکباد دینا سنت سے ثابت ہے۔- ١٠۔ کسی گناہ سے توبہ کے وقت مال کا صدقہ کرنا گناہ کے اثر کو زائل کرنے کے لئے بہتر ہے مگر تمام مال خیرات کردینا اچھا نہیں، ایک تہائی مال سے زائد صدقہ کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔
وَّعَلَي الثَّلٰثَۃِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْہِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللہِ اِلَّآ اِلَيْہِ ٠ ۭ ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ لِيَتُوْبُوْا ٠ ۭ اِنَّ اللہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ١١٨ ۧ- خلف پیچھے رہنا - وخَلَّفْتُهُ : تركته خلفي، قال فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ- [ التوبة 81] ، أي : مخالفین، وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا - [ التوبة 118] ، قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح 16] ، والخالِفُ :- المتأخّر لنقصان أو قصور کالمتخلف، قال :- فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة 83] ، والخَالِفةُ : عمود الخیمة المتأخّر، ويكنّى بها عن - المرأة لتخلّفها عن المرتحلین، وجمعها خَوَالِف، قال : رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة 87] ، ووجدت الحيّ خَلُوفاً ، أي : تخلّفت نساؤهم عن رجالهم، والخلف : حدّ الفأس الذي يكون إلى جهة الخلف، وما تخلّف من الأضلاع إلى ما يلي البطن، والخِلَافُ :- شجر كأنّه سمّي بذلک لأنّه فيما يظنّ به، أو لأنّه يخلف مخبره منظره، ويقال للجمل بعد بزوله : مخلف عام، ومخلف عامین . وقال عمر رضي اللہ عنه : ( لولا الخِلِّيفَى لأذّنت) «1» أي : الخلافة، وهو مصدر خلف .- قرآن میں ہے : ۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة 81] جو لوگ ( غزوہ تبوک ) میں پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا کی ( مرضی ) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے ۔ یعنی پیغمبر خدا کے مخالف ہوکر ۔ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة 118] اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا کیا تھا ۔ قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح 16] پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہدو ۔ الخالف ۔ نقصان یا کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہنے ولا اور یہی متخلف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة 83] پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو ۔ الخالفۃ خیمے کا پچھلا ستون بطور کنا یہ اس سے مراد عورت لی جاتی ہے کیونکہ یہ مجاہدین سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی جمع خوالف ہے - قرآن میں ہے : ۔ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة 87] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں ( گھروں میں ) بیٹھ رہیں ۔ یعنی مرد گئے ہوئے ہیں صرف عورتیں موجود ہیں ۔ الخلف ( ایضا ) کلہاڑی کی دھار ۔ پہلو کی سب سے چھوٹی پسلی جو پیٹ کے جانب سب سے آخری ہوتی ہے ۔ الخلاف بید کی قسم کا ایک درخت کیونکہ وہ امید کے خلاف اگتا ہے یا اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے : نہ سالگی یک یا دو سال گذستہ باشد ۔ الخلیفی ۔ خلافت ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے اگر بار خلافت نہ ہوتا تو میں خود ہی اذان دیا کرتا ( اذان کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے )- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- رحب - الرُّحْبُ : سعة المکان، ومنه : رَحَبَةُ المسجد، ورَحُبَتِ الدّار : اتّسعت، واستعیر للواسع الجوف، فقیل : رَحْبُ البطن، ولواسع الصدر، كما استعیر الضيّق لضدّه، قال تعالی: ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة 118] ، وفلان رَحِيبُ الفناء : لمن کثرت غاشیته . وقولهم : مَرْحَباً وأهلا، أي : وجدت مکانا رَحْباً. قال تعالی: لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص 59- 60] .- ر ح ب ) الرحب ( اسم ) جگہ کی وسعت کو کہتے ہیں ۔ اسی سے رحبۃ المسجد ہے جس کے معنی مسجد کے کھلے صحن کے ہیں اور رحبت الدار کے معنی گھر کے وسیع ہونے کے ۔ پھر یہ رحب کا لفظ استعارہ پیٹ یا سینہ کی وسعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے رحب البطن ( بسیارخور ) رحب الصدر ( فراخ سینہ ) عالی ظرف کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے برعکس ضیق الصدر کا لفظ مجازا تنگ سینہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة 118] اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ ہوگئی ۔ اور بطور استعارہ جس کے نوکر چاکر بہت زیادہ ہوں اسے رحیب الفناء کہا جاتا ہے ۔ مرحبا واھلا تو نے کشادہ جگہ پائی اور اپنے اہل میں آیا ( یہ لفظ خوش آمدید کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) قرآن میں ہے :َ لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص 59- 60] ان پر خدا کی مار بیشک یہ بھی دوزخ ہی میں آ رہے ہیں ( یہ سن کر وہ کہیں گے ) بلکہ تم پر خدا کی مار ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - ( ملجأ)- اسم مکان من فعل لجأ الثلاثيّ وزنه مفعل بفتح المیم والعین، فهو صحیح مضارعه مفتوح العین - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- تَّوَّاب - والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ- [ الرعد 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] .- التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔
قول باری ہے وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کردیا جن کے معاملے کو ملتوی کردیا گیا تھا ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت جابر (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ تین افراد حضرت کعب بن مالک (رض) ، حضرت بلال بن امیہ (رض) اور حضرت مرارہ بن الربیع تھے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ ان حضرات کی توبہ کا معاملہ موخر کردیا گیا تھا جبکہ قتادہ کے قول کے مطابق یہ حضرات غزوہ ٔ تبوک میں لشکر اسلام کے ساتھ جانے کی بجائے پیچھے رہ گئے تھے ۔ یہ تینوں حضرات دوسرے لوگوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے تھے حالانکہ ان کا اسلام پکا اور انکا ایمان پختہ تھا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لے آئے تو منافقین نے آپ کے پاس آ کر جھوٹی قسمیں کھائیں اور اپنا اپنا عذر بیان کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کی اصل حقیقت کی اطلاع ان آیات کے ذریعے دے دی سیعلفون باللہ لکم اذا القلبتم الیھم لتعرضوا عنھم فاعرضوا عنھم تمہاری واپس پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے صرف نظر کرو تو بیشک تم ان سے صرف نظر ہی کرو نیز یحلفون لکم لترضوا عنھم فان ترضوا عنھم فان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے راضی ہوجائے ۔ حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہرگز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرنے کا حکم دیا اور ان سے رضا مندی کے اظہار سے منع فرما دیا اس لیے کہ یہ لوگ اپنی معذرت خواہی میں جھوٹے تھے اور انہوں نے اپنے دلوں میں جو کچھ چھپا رکھا تھا اسے اپنی زبان پر نہیں لاتے تھے۔ رہ گئے وہ تین افراد جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے، وہ سچے مسلمان تھے اور انہوں نے اپنے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کسی دروغ بیانی سے کام نہیں لیا تھا بلکہ کھلے الفاظ میں اعتراف کرلیا تھا کہ ہم بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے اور لشر اسلام میں شامل نہیں ہوئے۔ انہوں نے اس پر اپنی شرمساری کا اظہار بھی کیا اور اللہ کے آگے تو بہ بھی کی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : تم لوگوں نے اپنے باری میں سچی بات بیان کردی ہے ، اب جائو ، میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں کیا حکم نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حکم نازل فرمایا اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے قطع کلامی کا امر فرمایا نیز یہ حکم بھی دیا کہ آپ مسلمانوں کو بھی ان سے کلام کرنے سے روک دیں ۔ ان تینوں نے اسی کیفیت میں تقریباً پچاس دن گزارے ۔ اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ ان کی توبہ رد کردی گئی تھی اس لیے کہ انہیں توبہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس کے پابند تھے۔ یہ بات حکمت الٰہیہ کے بالکل خلا ف ہے کہ اس شخص کی توبہ اس وقت قبول نہ کیا جائے جب وہ حسب امرالٰہی توبہ کرلے ۔ بلکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے قبول توبہ کے حکم کو دیر سے نازل کرکے نیز مسلمانوں کو ان سے کلام کرنے سے روک کر ان کی ابتلا اور آزمائش میں اور سختی پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کے اصلاح نیزدوسرے تمام اہل اسلام کی اصلاح کرنی چاہی تھی تا کہ آئندہ نہ وہ خود اور نہ ہی دوسرے مسلمان ایسی حرکت کریں اس لیے کہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ان لوگوں کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔ منافقین کے اندر یہ صورت حال نہیں تھی ، انہوں نے جھوٹے عذر اور بہانے تو کیے تھے لیکن ان کی اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے صرف نظر کرنے کا حکم دیا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان تینوں افراد سے لوگوں کو ترک کلام کا حکم نیز ان کی توبہ کا حکم نازل کرنے میں تاخیر سزا کے طور پر نہیں کی تھی ۔ بلکہ یہ ایک آزمائش تھی اور بندگی کی جہت سے نیز مکلف ہونے کی حیثیت سے ایک سختی تھی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسی ہم اس شخص پر واجب ہونے والی حد کے ایجاب کے سلسلے میں کہتے ہیں جس نے اپنے جرم سے توبہ کرلی ہو کہ اسے بطورسزا حد نہیں لگ رہی ہے بلکہ یہ صرف ایک آزمائش اور اظہار بندگی ہے اگرچہ ابتداء میں یہ سزا تھی اور اگر توبہ سے قبل اس کا اجزاء ہوتا تو یہ سزا ہی ہوتی ۔- قول باری ہے حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رجت جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی یعنی اپنی کشادگی کے باوجود زوضاقت علیھم انفسھم اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بارہونے لگیں یعنی ان کے سینے غم کے اس بوجھ کی بنا پر تنگ ہوگئے جو ان پر نزول توبہ کی تاخیر ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی طرف سے ترک کلام اور مقاطعہ نیز بیویوں کو ان سے علیحدہ رہنے کے حکم کی بنا پر آپڑا تھا۔- قول باری ہے وظنوا ان ملجا من اللہ الا الیہ اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کیلئے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے ذامن رحمت کے سوا نہیں ہے۔ یعنی انہیں یقین ہوگیا کہ جس ابتلاء اور آزمائش کے جال میں وہ پھنس چکے ہیں اس سے چھٹکارے کے لیے نیز اس سے بچ نکلنے کے لیے اللہ کی ذات کے سوا اور کوئی سہارا نہیں ہے۔ اللہ کی ذات کے سوا کسی اور کے قبضہ قدرت میں یہ نہیں ہے نیز ان کے لیے کسی اور ات سے اس کی طلب بھی جائز نہیں ہے۔ صرف اللہ کی عبادت کے ذریعے اور اس کی توجہ اور میلان کے ذریعے یہ رہائی حاصل ہوسکتی ہے۔ جب یہ لوگ یقین کے اس درجے پر پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول ہوجانے کا حکم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جو شخص تمام سہاروں سے یکسو ہوکر صرف اس کی ذات کو اپنا سہارا بنا لیتا ہے اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ اس کے غم کو اس کی ذات کے سوا اور کوئی دور نہیں کرسکتا تو اس وقت وہ اسے نجات بھی دلادیتا ہے اور اس کا غم بھی دور کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے ولما جاء ت رسلنا لوطا ً سی بھم وضاق بھم ذرعا ً وقال ھذا یومعصب اور جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا ، کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے تا قول بدی لو ان لی بکم قوۃ ً او اوی الی رکن شدید کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کردیتا یا کوئی مضبو ط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا۔ حضرت لوط نے اس موقع پر اپنی قوت و طاقت نیز دوسرے لوگوں کی مدد سے مکمل مایوسی اور بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں یقین ہوگیا کہ انہیں اس مصیبت سے صرف اللہ کی ذات نجات دلا سکتی ہے۔ اس وقت اللہ کی طرف سے اس پریشانی سے باہر نکلنے کا راستہ پیدا کردیا گیا اور فرشتوں نے ان سے کہا انا رسل ربک لن یصلوا الیک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے نیز ارشاد باری ہے ومن یتق اللہ یجعل لہل مخوجا اور جو شخص اللہ سے ڈ رتا رہتا ہے اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل پیدا کردیتا ہے۔ جو شخص تمام سہاروں کو چھوڑ کر صر ف اس کی ذات کو اپنا سہارا بنا لیتا ہے اور دنیاوی علائق سے کنارہ کشی اختیار کر کے صرف اسی کا ہو رہتا ہے تو جب بندہ اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی مخرج اور راستہ پیدا کردیتا ہے اس لیے کہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ضرور حاصل ہوجائے گی یا تو اللہ تعالیٰ اسے ابتلاء اور آزمائش کی کیفیت سے خلاصی دے گا اور اس طرح اسے چھٹکارا نصیب ہوجائے گا جس طرح انبیاء (علیہم السلام) سے ابتلاء اور آزمائش کی گھڑی میں ان کی زبان پر آنے والے کلمات کی قرآن کی آیات میں حکایت کی گئی ہے۔ مثلاً حضرت ایوب (علیہ السلام) کا قول قرآن کے الفاظ میں انی مسنی الشیطان بنصب و عذاب کہ شیطان نے مجھے رنج و آزار پہنچایا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلا م نے اللہ تعالیٰ سے اس وسوسہ سے نجات دلانے کے لیے التجاء کی جو شیطان ان کے دل میں ڈال رہا تھا کہ اگر اللہ کے ہاں تمہارا کوئی مرتبہ ہوتاتو تم اس مصیبت میں نہ پھنستے جس میں اس وقت پھنسے ہوئے ہو۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے شیطان کے ان وساوس کو کبھی قبول نہیں کیا تھا البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ یہ وساوس آپ کے دل و دماغ کو پریشان رکھتے اور آپ یکسو ہو کر وہ تدبر و تفکر نہ کرسکتے جو ان خیالات پریشان سے بہر حال بہتر تھے ۔ جب آپ اس مقام پر پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ارکض رجلک ھذا مغتسل باردو شراب اپنا پائوں زمین پر مارو، یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کا اور پینے کا یہی کیفیت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جو بایں معنی تقویٰ اختیار کرتا ہے کہ اللہ کی طرف پوری طرح مائل ہوجاتا ہے اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ ہی کی ذات اس کی اس تکلیف کو دور کرسکتی ہے، اس کی تکلیف دور کردینا کسی بندے کے بس کی بات نہیں اس صورت میں اس سے دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ضرور حاصل ہوجاتی ہے یا تو فوری رہائی نصیب ہوجاتی ہے یا پھر ابتلاء اور آزمائش پر صبر کرنے کی صورت میں اللہ کی طرف سے جس بدلے اور ثواب کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے اس پر اس کا دل پوری طرح مطمئن ہوجاتا ہے ، یقینا اللہ کی طرف سے دیا جانے والا ثواب اس کے حق میں دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتا ہے۔- قول باری ہے ثم تاب علیھم لیتم لوا پھر اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹتا ہے تا کہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں ۔ یعنی واللہ اعلم اللہ تعالیٰ نے ان تینوں افراد کی توبہ قبول کرلی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قبو ل توبہ نازل فرمادیا تا کہ اہل ایمان اپنے گناہوں سے اللہ کی طرف یہ جانتے ہوئے توبہ کریں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
(١١٨) اور ان تین حضرات یعنی حضرت کعب بن مالک (رض) اور ان کے ساتھیوں کی حالت پر بھی توجہ فرمائی جن کا توبہ کا معاملہ زیر التوا تھا، اس توبہ کی تاخیر سے زمین باوجود اتنی فراخی کے ان پر تنگی کرنے لگی اور وہ خود اپنی جانوں سے عاجز آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا اور اس بات کا کامل یقین کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی نجات صرف اسی میں تھی کہ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے پر سچی توبہ کرلی جائے، پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی اور ان کو معاف فرمایا تاکہ آئندہ بھی جن سے اس قسم کی غلطی صادر ہوجائے وہ اسی کی طرف رجوع کیا کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بہت توجہ فرمانے والے اور جو توبہ کرے اس کے حال پر بہت رحم فرمانے والے ہیں۔
آیت ١١٨ (وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ط) - یہ تین صحابہ کعب (رض) بن مالک ‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع (رض) کے لیے اعلان معافی ہے۔ ان تین اصحاب (رض) کا ذکر آیت ١٠٦ میں ہوا تھا اور وہاں ان کے معاملے کو مؤخر کردیا گیا تھا۔ پچاس دن کے معاشرتی مقاطعہ کی سزا کے بعد ان کی معافی کا بھی اعلان کردیا گیا اور انہیں اس حکم کی صورت میں قبولیت توبہ کی سند عطا ہوئی۔- (حَتّٰیٓ اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لاَّ مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ الآَّ اِلَیْہِ ط) - یہ ایسی کیفیت ہے کہ کوئی بچہ ماں سے پٹتا ہے مگر اس کے بعد اسی سے لپٹتا ہے۔ اللہ کے بندوں پر بھی اگر اللہ کی طرف سے سختی آتی ہے ‘ کوئی سزا ملتی ہے تو نہ صرف وہ اس سختی کو خوش دلی اور صبر سے برداشت کرتے ہیں ‘ بلکہ پناہ کے لیے رجوع بھی اسی کی طرف کرتے ہیں ‘ کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ انہیں پناہ ملے گی تو اسی کے حضور ملے گی ‘ ان کے دکھوں کا مداوا ہوگا تو اسی کی جناب سے ہوگا۔ علامہ اقبال ؔ نے اس حقیقت کو کیسے خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنایا ہے : - نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی - مرے جرم خانہ خراب کو ‘ ترے عفو بندہ نواز میں - تا کہ وہ اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرلیں اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرلیں۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :118 نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے ۔ ان میں ۸۰ سے کچھ زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن بھی تھے ۔ منافقین جھوٹے عذرات پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے ۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کر لیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصلہ کو ملتوی کر دیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے ، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے ۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ۔ ( یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ان تین اصحاب کا معاملہ ان سات اصحاب سے مختلف ہے جن کا ذکر حاشیہ نمبر ۹۹ میں گزر چکا ہے ۔ انہوں نے باز پرس سے پہلے ہی خود اپنے آپ کو سزا دے لی تھی ) ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :119 یہ تینوں صاحب کعب بن مالک ، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں ، تینوں سچے مومن تھے ۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے ۔ قربانیاں کر چکے تھے ۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوہ بدر کے شرکاء میں سےتھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی ۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ۔ ان خدمات کے باوجود جو سستی اس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہل ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا ، ان حضرات نے دکھائی اس پر سخت گرفت کی گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے ۔ ٤۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی ۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہوگیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے ۔ آخرکار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا ۔ ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے ۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے ، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے ، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلایا کرتے تھے ، یہ قصہ خود بیان کیا: غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی مسلمانوں سے شرکت جنگ کی اپیل کرتے تھے ، میں اپنے دل میں ارادہ کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے ، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہو تے کیا دیر لگتی ہے ۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا ۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو ، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا ۔ مگر پھر وہی سستی مانع ہوئی حتٰی کہ وقت نکل گیا ۔ اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز پڑھی ، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے ۔ اس مجلس میں منافقین نے آکر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے ۔ یہ ۸۰ سے زیادہ آدمی تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں ۔ ان کے ظاہری عذرات کو قبول کر لیا ، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے ۔ پھر میری باری آئی ۔ میں نےآگے بڑھ کر سلام عرض کیا ۔ ” خدا کی قسم اگر میں اہل دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں ، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا ۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاہے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں ، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کر سکوں ، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا “ ۔ اس پر حضور نے فرمایا ” یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی ۔ اچھا ، اٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے“ ۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا ۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا ۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنا دوں ۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں ( مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی ، تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے ۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے ، مگر میں نکلتا تھا ، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا ، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ہے ، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں ۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسب معمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تھا ، مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں ۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں ۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے ، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ہٹائی ۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قتادہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا ۔ مگر اس اللہ کے بندے نےسلام کا جواب تک نہ دیا ۔ میں نے کہا ” ابو قتادہ ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا ؟ “ وہ خاموش رہے ۔ میں نے پھر پوچحا ۔ وہ پھر خاموش رہے ، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ” اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے“ ۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا ۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا ۔ میں کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ” ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے ، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو ، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے ، ہمارے پس آجاؤ ، ہم تمہاری قدر کریں گے“ ۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی ، اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا ۔ چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آدمی حکم لے کی آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیٰحدہ ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں ، بس الگ رہو ۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے ۔ پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ” مبارک ہو کعب بن مالک “ میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہو گیا ہے ۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہوگئی ۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا ۔ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے ۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ”تجھے مبارک ہو ، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے“ میں نے پوچھا یہ معافی حضور کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے ، اور یہ آیات سنائیں ۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں ۔ فرمایا ” کچھ رہنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے “ ۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا ، باقی سب صدقہ کر دیا ۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتاری کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا ، چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلاف واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا ۔ یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں: سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفر و اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار ، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں ، بدنیتی سے بھی نہیں نیک نیتی سے ، تمام عمر بھی نہیں کسی ایک موقع ہی پر ، کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں اور دینداریاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں ، حتیٰ کہ ایسے عالی قدر لوگ بھی گرفت سے نہیں بچتے جو بدر و احد اور احزاب و حنین کے سخت معرکوں میں جانبازی کے جوہر دکھا چکے تھے اور جن کا اخلاص و ایمان ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا ۔ دوسری بات ، جو اس سے کچھ کم اہم نہیں یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات محض تساہل ہی تساہل میں آدمی کسی ایسے قصور کا مرتکب ہو جاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے ، اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا ۔ پھر یہ قصہ اس معاشرے کی روح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بنا تھا ۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب پر آشکارا ہیں ، مگر ان کے ظاہری عذر سن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے ، کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی ۔ دوسری طرح ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا ، صاف صاف قصور کا اعتراف کر لیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش برسا دی جاتی ہے ، نہ اس پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہو گیا ہے ، بلکہ اس بنا پر مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا ۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو ، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا ۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیہ میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتا ہے ، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کی نافذ کرتی ہے ، اس کا ہر پہلو بے نظیر ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے ۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں ، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے ۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے ۔ تو درست ہو جائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بے چین ہے ۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادہ اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا ۔ بلکہ اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہوگیا ہے ۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے زیادہ بے تابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشہ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے ۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایہ امید بس ایک ذرا سا لکہ ابر تھا جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا ۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عش عش کر جاتا ہے ۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ ادھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نکلا ادھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں ۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اسے بات نہیں کرتا ۔ بیوی تک اس سے الگ ہو جاتی ہے ۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے ، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے ، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں ، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو ۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا ، بلکہ اس پورے زمانہ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس معتوب بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں ۔ یہ نمونہ ہے اس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اس پس منظر میں جب ہم آیت زیر بحث کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان صاحبوں کو اللہ کے دربار سے جو معافی ملی ہے اور اس معافی کے انداز بیان میں جو رحمت و شفقت ٹپکی پڑ رہی ہے اس کی وجہ ان کا وہ اخلاص ہے جس کا ثبوت انہوں نے پچاس دن کی سخت سزا کے دوران میں دیا تھا ۔ اگر قصور کر کے وہ اکڑتے اور اپنے لیڈر کی ناراضی کا جواب غصے اور عناد سے دیتے اور سزا ملنے پر اس طرح بپھرتے جس طرح کسی خود پرست انسان کا غرور نفس زخم کھا کر بپھرا کرتا ہے ، اور مقاطعہ کے دوران میں ان کا طرز عمل یہ ہوتا کہ ہمیں جماعت سے کٹ جانا گوارا ہے مگر اپنی خودی کے بت پر چوٹ کھانا گوارا نہیں ہے ، اور اگر یہ سزا کا پورا زمانہ وہ اس دوڑ دھوپ میں گزارتے کہ جماعت کے اندر بددلی پھیلائیں اور بددل لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ساتھ ملائیں تاکہ ایک جتھا تیار ہو ، تو معافی کیسی ، انہیں تو بالیقین جماعت سے کاٹ پھینکا جاتا اور اس سزا کے بعد ان کی اپنی منہ مانگی سزا ان کو یہ دی جاتی کہ جاؤ اب اپنی خودی کے بت ہی کو پوجتے رہو ، اعلاء کلمۃ الحق کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سعادت اب تمہارےنصیب میں کبھی نہ آئے گی ۔ لیکن ان تینوں صاحبوں نے اس کڑی آزمائش کے موقع پر یہ راستہ اختیار نہیں کیا ، اگرچہ یہ بھی ان کے لیے کھلا ہوا تھا ۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ روش اختیار کی جو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں ۔ اس روش کو اختیار کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ خدا پرستی نے ان کے سینے میں کوئی بت باقی نہیں چھوڑا ہے جسے وہ پوجیں ، اور اپنی پوری شخصیت کو انہوں نے راہ خدا کی جدوجہد میں جھونک دیا ہے اور وہ اپنی واپسی کی کشتیاں اس طرح جلا کر اسلامی جماعت میں آئے ہیں کہ اب یہاں سے پلٹ کر کہیں اور نہیں جا سکتے ۔ یہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے مگر یہیں مریں گے اور کھپیں گے ۔ کسی دوسری جگہ بڑی سے بڑی عزت بھی ملتی ہو تو یہاں کی ذلت چھوڑ کر اسے لینے نہ جائیں گے ۔ اس کے بعد اگر انہیں اٹھا کر سینے سے لگا نہ لیا جاتا تو اور کیا کیا جا سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا ذکر ایسے شفقت بھرے الفاظ میں فرمایا تھا کہ” ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ ہماری طرف پلٹ آئیں“ ۔ ان چند لفظوں میں اس حالت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ آقا نے پہلے تو ان بندوں سے نظر پھیر لی تھی ، مگر جب وہ بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شان وفاداری دیکھ کر آقا سے خود نہ رہا گیا ۔ جوش محبت سے بے قرار ہو کر وہ آپ نکل آیا تاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لائے ۔
94: یہ ان تین صحابہؓ کی طرف اشارہ ہے جن کے بارے میں آیت نمبر۱۰۶ میں یہ فرمایا گیا تھا کہ ان کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا ہے۔ 95: جیسا کہ آیت ۱۰۶ کی تشریح میں عرض کیا گیا، ان تین حضرات کے بارے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں کوئی واضح حکم آئے، اس وقت تک تمام مسلمان ان کا معاشرتی بائیکاٹ کریں۔ چنانچہ پچاس دن ان حضرات پر ایسے گذرے ہیں جن میں کوئی مسلمان ان سے نہ بات کرتا تھا، نہ کوئی اور معاملہ۔ ان تین حضرات میں سے حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ عنہنے اس زمانے کے حالات صحیح بخاری کی ایک لمبی روایت میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں، اور بڑے اثر انگیز پیرائے میں یہ بتایا ہے کہ اس عرصے میں ان پر کیا قیامت گذر گئی تھی۔ ان کی یہ حدیث ان کے یہ ایمانی جذبے اور اُن کی نفسیاتی کیفیات کی انتہائی مؤثر اور فصیح و بلیغ ہے۔ یہ پوری حدیث یہاں نقل کرنا ممکن نہیں۔ البتہ ’’معارف القرآن‘‘ میں اس کا مفصل ترجمہ موجود ہے۔ جو حضرات چاہیں، اس میں مطالعہ فرما لیں۔ اس آیت میں ان حضرات کی اس نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔