Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تپتے صحرا ، شدت کی پاس اور مجاہدین سرگرم سفر مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت جنگ تبوک کے بارے میں اتری ہے اس جنگ میں جانے کے وقت سال بھی قحط کا تھا ، گرمیوں کا موسم تھا ، کھانے پینے کی کمی تھی ، راستوں میں پانی نہ تھا ۔ شام کے ملک تک کا دور دراز کا سفر تھا ۔ سامان رسد کی اتنی کمی کہ دو دو آدمیوں میں ایک ایک کھجور بٹتی تھی ۔ پھر تو یہ ہو گیا تھا کہ ایک کھجور ایک جماعت کو ملتی یہ چوس کر اسے دیتا وہ اور کو اور ایک ایک چوس کر پانی پی لیتا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ان پر لازم کر دی اور انہیں واپس لایا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس سختی کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ۔ سخت گرمیوں کے زمانے میں ہم نگلنے کو تھے ، ایک منزل میں تو پیاس کے مارے ہماری گردنیں ٹوٹنے لگیں یہاں تک کہ لوگ اپنے اونٹوں کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی نچوڑ کر اس پانی کو پیتے اور پھر اسے اپنے کلیجے سے لگا لیتے اس وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو ہمیشہ ہی قبول فرمایا ہے ۔ اب بھی دعا کیجئے کہ اللہ قبول فرمائے آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی اس وقت آسمان پر ابر چھا گیا اور برسنے لگا اور خوب برسا جس کے پاس جتنے برتن تھے سب بھر لیے پھر بارش رک گئی اب جو ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے لشکر کے احاطے سے باہر ایک قطرہ بھی کہیں نہیں برسا تھا ۔ پس اس جہاد میں جنہوں نے روپے پیسے سے ، سواری سے ، خوراک سے ، سامان رسد اور ہتھیار سے پانی وغیرہ سے غرض کسی طرح بھی مومنوں کی مدد کی تھی ، ان کی فضیلت و برتری بیان ہو رہی ہے ۔ یہی وہ وقت تھا کہ بعض کے دل پھر جانے کے قریب ہو گئے تھے ۔ مشقت شدت اور بھوک پیاس نے دلوں کو ہلا دیا تھا ، مسلمان جھنجھوڑ دیئے گئے تھے لیکن رب نے انہیں سنبھال لیا اور اپنی طرف جھکا لیا اور ثابت قدمی عطا فرما کر خود بھی ان پر مہربان ہوگیا ، اللہ تعالیٰ جیسی رافعت و رحمت اور کس کی ہے؟ وہ ان پر خوب ہی رحمت و کرم رکھتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

117۔ 1 جنگ تبوک کے سفر کو تنگی کا وقت قرار دیا۔ اس لئے کہ ایک تو موسم سخت گرمی کا تھا دوسرے، فصلیں تیار تھیں، تیسرے، سفر خاصا لمبا تھا اور چوتھے وسائل کی بھی کمی تھی۔ اس لئے اسے (تنگی کا قافلہ یا لشکر) کہا جاتا ہے۔ توبہ کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے گناہ یا غلطی کا ارتکاب ہو۔ اس کے بغیر بھی رفع درجات اور غیر شعوری طور پر ہونے والی کوتاہیوں کے لئے توبہ ہوتی ہے۔ یہاں مہاجرین و انصار کے اس سے پہلے گروہ کی توبہ اس مفہوم میں ہے جنہوں نے بلا تأمل نبی کے حکم جہاد پر لبیک کہا۔ 117۔ 2 یہ اس دوسرے گروہ کا ذکر ہے جسے مزکورہ وجوہ سے ابتداءً تردد ہوا۔ لیکن پھر جلد ہی وہ اس کیفیت سے نکل آیا اور بخوشی جہاد میں شریک ہوا۔ دلوں میں تزلزل سے مراد دین کے بارے میں کوئی تزلزل یا شبہ نہیں ہے بلکہ مزکورہ دنیاوی اسباب کی وجہ سے شریک جہاد ہونے میں جو تذبذب اور تردد تھا وہ مراد ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٣] اس آیت میں تنگی کے وقت سے مراد غزوہ تبوک پر روانگی کا وقت ہے جبکہ شدید گرمی کا موسم تھا قحط سالی تھی، فصلیں پکنے والی تھیں بےسرو سامانی کی حالت تھی، سفر طویل اور پر مشقت تھا۔ چناچہ اس وقت بعض سچے مسلمان بھی جہاد پر روانہ ہونے سے گھبرانے لگے تھے۔ آخر ان کے ایمان کی پختگی ان کے نفس پر غالب آئی اور وہ پورے عزم کے ساتھ جہاد پر نکل کھڑے ہوئے اور یہاں اللہ کی مہربانی سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اس گھبراہٹ کے عالم میں انہیں روانگی کے لیے ہمت و جرأت عطا فرمائی اور نبی پر مہربانی سے مراد وہ آیت ہے جس کا آغاز ہی اس طرح ہوا تھا کہ اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ایسے ہٹے کٹے، تنومند اور کھاتے پیتے منافقوں کو جہاد پر جانے سے رخصت کیوں دے دی (٩ : ٤٣)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ تَّاب اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ : ” تَّابَ “ کے معانی لوٹ آنا، مہربان ہوجانا، معافی مانگنا، معاف کردینا، آئندہ غلطی سے باز آنا اور توبہ قبول کرلینا سبھی آتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور مہاجرین و انصار پر مہربان ہونے اور معاف فرمانے کا مطلب ” فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ “ کے الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے۔ تنگی کی گھڑی سے مراد غزوۂ تبوک پر روانگی کا وقت ہے جب شدید گرمی کا موسم تھا، قحط سالی تھی، فصلیں پکنے والی تھیں اور بےسروسامانی کی حالت تھی، ادھر چھ سو کلو میٹر کا طویل اور پر مشقت سفر سامنے تھا۔ دس آدمیوں کے لیے صرف ایک اونٹ تھا، سواریوں، زاد راہ اور پانی تینوں کی سخت تنگی تھی۔ چناچہ اس وقت بعض سچے مخلص مسلمان بھی جہاد پر روانہ ہونے سے گھبرانے لگے، آخر ان کے ایمان کی پختگی ان کے نفس پر غالب آئی اور وہ پورے عزم کے ساتھ جہاد پر نکل کھڑے ہوئے۔ یہاں اللہ کی مہربانی سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اس گھبراہٹ کے عالم میں انھیں روانگی کے لیے ہمت و جرأت عطا فرمائی اور ان کے دل میں آنے والے خطرات بھی معاف فرما دیے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مہربانی سے مراد وہ آیت (٤٣) ہے جس کا آغاز ہی اس طرح ہوا تھا : (عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ) کہ اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا، آپ نے ایسے ہٹے کٹے، تنومند اور کھاتے پیتے منافقوں کو جہاد پر جانے کی رخصت کیوں دے دی ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حال پر توجہ فرمائی ( کہ آپ کو نبوت اور امامت جہاد اور تمام خوبیاں عطا فرمائیں) اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی ( توجہ فرمائی کہ ان کو ایسی مشقت کے جہاد میں مستقیم رکھا) جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں تزلزل ہو چلا تھا ( اور جہاد میں جانے سے ہمت ہارنے کو تھے مگر) پھر اللہ نے ان ( گروہ) کے حال پر توجہ فرمائی ( کہ ان کو سنبھال لیا اور آخر ساتھ ہو ہی لئے پس) بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے ( کہ اپنی مہربانی سے ہر ایک کے حال پر کس کس طرح توجہ فرمائی) اور ان تین شخصوں کے حال پر بھی ( توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب ( ان کی پریشانی کی یہ نوبت پہنچی کہ) زمین باوجود اپنی ( اتنی بڑی) فراخی کے ان پر تنگی کرنے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ خدا ( کی گرفت) سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے ( اس وقت وہ خاص توجہ کے قابل ہوئے) پھر ان کے حال پر ( بھی خاص) توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی ( ایسے مواقع مصیبت و معصیت میں اللہ کی طرف) رجوع رہا کریں بیشک اللہ تعالیٰ بہت توجہ فرمانے والے بڑے رحم کرنے والے ہیں، اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ( عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو ( یعنی جو نیت اور بات میں سچے ہیں ان کی راہ چلو کہ تم بھی صدق اختیار کرو) ۔- معارف و مسائل - یہاں سے چند آیات پہلے آیت وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا کے بیان میں یہ لکھا گیا تھا کہ غزوہ تبوک کے لئے سب مسلمانوں کو نکلنے کا حکم عام ہونے کے وقت اہل مدینہ کے لوگوں کی پانچ قسمیں ہوگئی تھیں دو قسمیں متخلفین بغیر عذر کی تھیں جن کا بیان سابقہ آیات میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے، مذکور الصدر آیات میں مؤمنین مخلصین کی تین قسموں کا ذکر ہے۔ اول وہ لوگ جو حکم جہاد پاتے ہی فوراً تیار ہوگئے، ان کا بیان آیت مذکورہ کے ابتدائی جملے میں (آیت) الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ، میں ہوا ہے دوسرے وہ لوگ جو ابتداء کچھ تردد میں رہے مگر پھر سنبھل گئے اور جہاد کے لئے سب کے ساتھ ہوگئے انکا بیان اسی آیت کے اس جملے میں ہے مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ۔ - تیسرے وہ مؤمنین تھے جو اگرچہ وقتی کاہلی و سستی کی وجہ سے جہاد میں نہ گئے، مگر بعد میں نادم اور تائب ہوئے، اور بالاخر ان سب کی توبہ قبول ہوگئی، مگر ان میں پھر دو قسم ہوگئی تھیں یہ کل دس آدمی تھے جن میں سے سات آدمیوں نے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی کے بعد فوراً اپنی ندامت و توبہ کا اظہار اس شان سے کیا کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ جب تک ہماری توبہ قبول نہ ہوگی بندھے رہیں گے ان کی آیت توبہ تو اسی وقت نازل ہوگئی جس کا بیان پہلے ہوچکا ہے، تین آدمی وہ تھے جنہوں نے یہ عمل نہیں کیا، ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو مقاطعہ کا حکم ( دے دیا کہ کوئی ان کے ساتھ سلام کلام نہ کرے، جس سے یہ حضرات سخت پریشان ہوگئے، ان کا ذکر دوسری آیت (آیت) وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا میں ہوا ہے، جس میں بالاخر ان کی توبہ کے قبول ہونے کا بیان ہے، اور اس کے ساتھ ہی ان سے مقاطعہ کا حکم ختم کردیا گیا، (آیت) لَقَدْ تَّاب اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرلی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان مہاجرین و انصار کی جنہوں نے تنگی اور تکلیف کے وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کیا۔- جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو گناہ سے بچا دیا، اسی کو توبہ کے نام سے تعبیر کیا گیا یا یہ کہ ان سب حضرات کو حق تعالیٰ نے تَوّاب بنادیا، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ توبہ کی حاجت و ضر ورت سے کوئی شخص مستغنی نہیں، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مخصوص صحابہ بھی، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے : وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا، یعنی توبہ کرو اللہ سے سب کے سب۔ وجہ یہ ہے کہ تقرب الی اللہ کے درجات غیر متناہی ہیں، جو شخص جس مقام پر پہنچا ہے اس سے آگے بھی اس سے بلند مقام ہے، جس کے مقابلہ میں موجود مقام پر رک جانا ایک نقص و کوتاہی ہے، مولانا رومی نے اسی مضمون کو ایک شعر میں اس طرح بیان فرمایا ہے - اے برادر بےنہایت در گہی ست ہرچہ بروے می رسی بروے مایست - اس لحاظ سے موجودہ مقام پر ہونے سے توبہ کی ضرورت ہے، تاکہ اگلا مقام حاصل ہو۔- سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ، اسی جہاد کے موقع کو قرآن کریم نے ساعَةِ الْعُسْرَةِ سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ مسلمان اس وقت افلاس اور تنگی میں تھے، حسن بصری فرما تے ہیں کہ دس آدمیوں کے لئے ایک سواری تھی جس پر باری باری سوار ہوتے تھے، توشہ سفر بھی بہت کم اور معمولی تھا، دوسری طرف گرمی سخت و شدید تھی، پانی بھی راستہ میں کہیں کہیں اور تھوڑا تھا۔- (آیت) مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ، اس میں جو بعض لوگوں کے قلوب کا زیغ بیان کیا گیا ہے اس سے مراد دین سے انحراف نہیں، بلکہ سختی موسم اور قلت سامان کے سبب ہمت ہار دینا اور جہاد سے جان چرانا مراد ہے، روایات حدیث اس پر شاہد ہیں، اس قصور سے ان کی توبہ قبول کی گئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝ ١١٧ ۙ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- هجر - والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . - ( ھ ج ر ) الھجر - المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- عسر - العُسْرُ : نقیض الیسر . قال تعالی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] ، والعُسْرَةُ : تَعَسُّرُ وجودِ المالِ. قال : فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] ، وقال : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] ، وأَعْسَرَ فلانٌ ، نحو : أضاق، وتَعَاسَرَ القومُ : طلبوا تَعْسِيرَ الأمرِ. وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] ، ويَوْمٌ عَسِيرٌ: يتصعّب فيه الأمر، قال : وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] ، يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] ، وعَسَّرَنِي الرّجلُ : طالبني بشیء حين العُسْرَةِ.- ( ع س ر ) العسر - کے معنی تنگی اور سختی کے ہیں یہ یسر ( آسانی فارغ البالی ) کی ضد ہے قرآن میں ہے : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ العسرۃ تنگ دستی تنگ حسالی قرآن میں ہے : ۔ فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] مشکل کی گھڑی میں ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر قرض لینے والا تندست ہو ۔ اور اضاق فلان کی طرح اعسر فلان کے معنی ہیں وہ مفلس اور تنگ حال ہوگیا تعاسر القوم لوگوں نے معاملہ کو الجھا نے کی کوشش کی قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] اور اگر باہم ضد ( اور نااتفاقی ) کرو گے تو ( بچے کو اس کے ) باپ کے ) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ یوم عسیر سخت دن ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] اور وہ دن کافروں پر ( سخت ) مشکل ہوگا ۔ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] مشکل کا دن ( یعنی ) کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔ عسر الرجل تنگدستی کے وقت کسی چیز کا مطالبہ کرنا ۔- كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - - زيغ - الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ- [ الصف 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک .- ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - رأف - الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] .- ( ر ء ف )- الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے لقد تاب اللہ علی لنبی والمھاجرین والانصار والذین اتبعوا فی ساعۃ العسرۃ اللہ نے معاف کردیا نبی کو اور ان مہاجرین کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا ۔ عسرت کی معاملے کی تنگی ، اس کی شدت اور اس کی سختی کو کہتے ہیں ۔ یہ صورت حال غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آئی تھی ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غزوہ پر اس وقت نکلے تھے جب انتہائی گرمی تھی، نیز پانی اور رسد کی بھی انتہائی قلت تھی اور سواری کے جانوروں کی تعدا د بھی توڑی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کے ذکر کے ساتھ ان لوگوں کو مخصوص کردیا جنہوں نے تنگی اس گھڑی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیا تھا ۔ اس لیے کسی صورت حال میں ساتھ دینے اور پیروی کرنے کا مرتبہ بہت اونچا ہوتا ہے اور اس کے بدلے میں ملنے والے ثواب کا درجہ بھی بہت بلند ہوتا ہے ، کیونکہ اس صورت میں انہیں بہت سی مشقتیں جھیلنی پڑتی ہیں ، انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف ان کی بصیرت اور یقین کو بایں معنی مزید جلاحاصل ہوتا ہے کہ موسم کی کوئی شدت اور راستے کی کوئی مشقت انہیں اپنے ارادے اور راہ عمل سے ہٹا نہیں سکتی ۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ایک ایسے گروہ کا بھی ذکر کیا ہے جن کے دل بس راہ حق سے ہٹنے ہی والے تھے چناچہ ارشاد ہے من بعد ما کادیر یغ قلوب فریق منھم ۔ - اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہو چلے تھے ۔ زیغ حق سے دل کے اچٹ ہوجانے کو کہتے ہیں۔ اہل ایمان کا ایک گروہ اس کے قریب ہی پہنچ چکا تھا لیکن ابھی انہوں نے اس کجی اور حق سے میلان کے مطابق عمل نہیں کیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے مواخذہ نہیں کیا اور ان کی توبہ قبول کرلی ۔ اللہ تعالیٰ نے سختی کی اس گھڑی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دینے الوں کو جس کیفیت کی بنا پر دوسروں پر فضلیت دی اسی کیفیت کی بنا پر حضرات مہاجرین کو حضرات انصار پر فضلیت عطا کی ۔ اور اسی کیفیت کی بنا پر ایمان اور اسلام میں سبقت لے جانے والوں کو دوسرے تمام لوگوں پر فضلیت دی اس لیے کہ انہیں مشقتیں برداشت کرنا پڑی تھیں اور انہوں نے ایسے وقت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کر کے اپنی زبردست بصیرت اور یقین کامل کا اظہار کردیا تھا جبکہ اہل ایمان کو انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا اور دوسری طر ف اہل کفر کو پورا غلبہ حاصل تھا اور ان کی طرف سے جو گنتی کے چند اہل ایمان تھے انہیں مسلسل اذیتیں دی جاتی تھیں ، نیز ان کی تعذیب کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٧) اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان مہاجرین وانصار کے حال پر بھی توجہ فرمائی جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی اور بدر میں حاضر رہے۔- اب اللہ تعالیٰ ان حضرات کے اوصاف بیان کرتے ہیں کہ جنہوں نے تنگی اور سختی کے وقت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیا، جس وقت کے زاد راہ اور سواریوں کی کمی اور تنگی تھی گرمی کی اور دشمن کی سختی تھی اور راستہ کی درازی کی سختی تھی، اس کے بعد مومنین مخلصین میں سے کچھ لوگوں کے دلوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کے بارے میں تذبذب آگیا تھا مگر پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس تذبذب کو دور ر کردیا اور ان کے دلوں کو پختگی عطا فرمائی، آخرت کار وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہوگئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٧ (لَقَدْ تَّابَ اللہ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ ) - یہ تبوک کی مہم کی طرف اشارہ ہے۔ تاریخ میں یہ مہم جیش العسرۃ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خشک سالی کے باعث مدینہ میں قحط کا سماں تھا۔ ان حالات میں اتنے بڑے لشکر کا اتنی لمبی مسافت پر وقت کی سپر پاور سے نبرد آزما ہونے کے لیے جانا واقعی بہت بڑی آزمائش تھی۔ جو لوگ اس آزمائش میں ثابت قدم رہے ‘ یہ ان کے لیے رحمت و شفقت کا ایک اعلان عام ہے۔- (مِنْم بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ) - بر بنائے طبع بشری کہیں نہ کہیں ‘ کبھی نہ کبھی انسان میں کچھ کمزوری آ ہی جاتی ہے۔ جیسے غزوۂ احد میں بھی دو مسلمان قبائل بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے لوگوں کے دلوں میں عارضی طور پر تھوڑی سے کمزوری آگئی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :115 یعنی غزوہ تبوک کے سلسلہ میں جو چھوٹی چھوٹی لغزشیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ہوئیں ان سب کو اللہ نے ان کی اعلیٰ خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے معاف فرما دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو لغزش ہوئی تھی اس کا ذکر آیت ٤۳ میں گزر چکا ہے ، یعنی یہ کہ جن لوگوں نے استطاعت رکھنے کے باوجود جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگی تھی ان کو آپ نے اجادت دے دی تھی ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :116 یعنی بعض مخلص صحابہ بھی اس سخت وقت میں جنگ پر جانے سے کسی نہ کسی حد تک جی چرانے لگے تھے ، مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان تھا اور وہ سچے دل سے دین حق کے ساتھ محبت رکھتے تھے اس لیے آخرکار وہ اپنی اس کمزوری پر غالب آگئے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :117 یعنی اب اللہ اس بات پر ان سے مؤاخذہ نہ کرے گا کہ ان کے دلوں میں کجی کی طرف یہ میلان کیوں پیدا ہوا تھا ۔ اس لیے کہ اللہ اس کمزوری پر گرفت نہیں کرتا جس کی انسان نے خود اصلاح کر لی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

93: منافقین کی مذمت اور سستی سے رہ جانے والے مسلمانوں کی معافی کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کی اس اکثریت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شاباش دی جا رہی ہے جنہوں نے انتہائی کٹھن حالات میں خندہ پیشانی کے ساتھ تبوک کی مہم میں حصہ لیا۔ ان میں بھی اکثریت تو انہی کی تھی جن کے دل میں جہاد اور تعمیل حکم کا جذبہ اتنا مضبوط تھا کہ وہ ان مشکل حالات کو خاطر میں نہیں لائے۔ البتہ کچھ حضرات ایسے بھی تھے کہ شروع میں ان مشکلات کی وجہ سے ان کے دل میں وسوسے آئے۔ لیکن آخر کار انہوں نے دل و جان سے مہم میں حصہ لیا۔ اس دوسری قسم کا حوالہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دیا ہے کہ : جبکہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں۔