129۔ 1 یعنی آپ کی لائی ہوئی شریعت اور دین رحمت سے۔ 129۔ 2 جو کفر و اعراض کرنے والوں کے مکرو فریب سے مجھے بچا لے گا۔ 129۔ 3 حضرت ابو الدردا فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ آیت حَسْبِیَ اللّٰہُ (الآ یۃَ ) صبح اور شام سات سات مرتبہ پڑھ لے گا، اللہ تعالیٰ اس کے ہموم (فکر و مشکلات) کو کافی ہوجائے گا۔
[١٥٢] یعنی اگر یہ لوگ آپ کی شخصیت، حدر درجہ شفقت، خیر خواہی اور دلسوزی کی کچھ بھی قدر نہیں کرتے تو جانے دیجئے۔ اگر یہ سب لوگ آپ سے منہ پھیر لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی آپ کی مدد کے لیے کافی ہے اور اسی پر بھروسہ کیجئے جو کائنات کی ایک ایک چیز حتیٰ کہ عرش عظیم کا بھی مالک ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّوْا : یعنی ایسے مہربان نبی، اس کی مومنوں پر شفقت و رحمت و حرص اور اس قدر سہل دین کے باوجود اگر وہ منہ موڑیں، تو آپ یہ کہیں : (حَسْبِيَ اللّٰهُ ڶ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ) صرف یہ عقیدہ ہی نہ رکھیں، بلکہ برملا اعلان کریں اور اللہ کے کافی ہونے پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کریں - توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے - حَسْبِيَ اللّٰهُ : ” حَسْبِيَ “ پہلے آنے کی وجہ سے معنی میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی مجھے صرف اللہ کافی ہے، خواہ سب لوگ مجھے چھوڑ جائیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے - کیا ڈر ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف - کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے - بے شک اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسباب بنائے ہیں، ساتھیوں کی مدد سے قوت ملتی ہے اور ایک دوسرے کی مدد کا حکم بھی ہے : (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى) [ المائدۃ : ٢ ] ” اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ “ مگر کافر اور مومن کا یہی فرق ہے کہ دنیاوی اسباب ختم ہونے پر کافر ناامید ہوجاتا ہے اور مشرک کو اپنے معبودوں پر اتنا اعتماد ہو ہی نہیں سکتا جتنا موحد کو ایک اللہ پر ہوتا ہے، اس لیے مومن کبھی ناامید ہو کر کفر کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہوتا - کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا - مومن ہے تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سپاہی - اس لیے قرآن و حدیث کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اسباب و ضروریات مہیا کرنے کی پوری کوشش کرو، وہ جمع ہوجائیں تب بھی ان پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو اور ایک بھی سبب مہیا نہ ہو سکے تب بھی صرف اللہ پر بھروسا رکھو جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ کوئی عام بادشاہ نہیں، عرش عظیم کا رب ہے، کوئی چیز اس کی سلطنت اور دسترس سے باہر نہیں۔ تمام اسباب ختم ہونے پر ایک اللہ پر اسی اعتماد اور اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مدد کا مظاہرہ غار ثور میں ہوا، فرمایا : (اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ ) [ التوبۃ : ٤٠ ] اسی کا مظاہرہ جنگ احد کے اختتام پر دشمن کے اجتماع کی خبر پر اہل ایمان کے قول کے وقت ہوا اور اسی کا مظاہرہ دنیا کا ہر سہارا ختم ہونے پر آگ میں پھینکے جانے کے وقت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) کہنے اور بلا اسباب آگ کو گلزار بنا کر اللہ تعالیٰ کی مدد کی صورت میں ہوا۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٧٣، ١٧٤) اور سورة بروج میں مذکور اصحاب الاخدود والے لڑکے کے پاس جب تمام اسباب ختم ہوگئے تو اس نے انھی الفاظ کے ہم معنی الفاظ ( اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِءْتَ ) (اے اللہ مجھے ان سے کافی ہوجا جس چیز کے ساتھ تو چاہے) کے ساتھ دعا کی تو پہاڑ سے گرانے والے خود گر کر مرگئے اور سمندر میں ڈبونے والے خود ڈوب گئے، مگر اس کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ [ دیکھیے مسلم، الزھد، باب قصۃ أصحاب الأخدود۔۔ : ٣٠٠٥، عن صہیب۔ ] اب بھی اگر کوئی یقین کے ساتھ اللہ پر اعتماد کرنے والا یہ دعائیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اسی طرح آئے گی، خواہ ساری دنیا اس سے منہ موڑ جائے۔ بندۂ عاجز عبد السلام عرض کرتا ہے کہ یہ ان مبارک دعاؤں میں سے ہے جن کے پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید میں ” قُلْ “ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا ہے، اس لیے ہمیں بھی اپنے صبح و شام کے اذکار میں اسے شامل کرنا چاہیے۔ ابودرداء (رض) فرماتے ہیں : ” جو شخص یہ دعا (حَسْبِيَ اللّٰهُ ڶ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ) صبح و شام سات سات دفعہ پڑھے، اللہ تعالیٰ اسے تمام فکروں سے کافی ہوجاتا ہے۔ “ یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو ثابت نہیں، ہاں ابودرداء (رض) کے قول کی سند کے راوی اچھے ہیں، البتہ اس میں ( صَادِقًا کَانَ بِھَا اَوْ کَاذِبًا ) کے الفاظ صحیح نہیں، بلکہ منکر ہیں۔ [ دیکھیے سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ : ٥٢٨٦ ] بالفرض اگر صحابی کا قول بھی نہ ہو تو اس کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” قُلْ “ ہی کافی ہے۔
آخری دو آیتیں حضرت ابی بن کعب کے قول کے مطابق قرآن مجید کی آخری آیتیں ہیں ان کے بعد کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی، یہی قول حضرت ابن عباس کا ہے۔ ( قرطبی )- ان دو آیتوں کے بڑے فضائل حدیث میں مذکور ہیں، حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں کہ جو شخص صبح و شام یہ آیتیں سات مرتبہ پڑھ لیا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام کام آسان فرما دیتے ہیں (قرطبی) واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم - ربنا تقبل منا انک انت السمیع العیلم، اللھم وفقنی لتکمیلہ کما تحب وترضی والطف بنا فی تیسیر کل عسیر فان تیسیر کل عسیر علیک یسیر - ( سورة توبہ تمام شد )
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ ٠ ۤۡ ۖ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ٠ ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ١٢٩ ۧ- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية،- وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] - الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔
آیت ١٢٩ (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُز لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَط - اللہ تعالیٰ کے عرش کی کیفیت اور عظمت ہمارے تصور میں نہیں آسکتی۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔