Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہیں مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہیں میں سے ان کی ہی زبان میں اپنا رسول بھیجا ۔ حضرت خلیل اللہ نے یہی دعا کی تھی ۔ اسی کا بیان ( آیت لقد من اللّٰہ الخ ) میں ہے ۔ یہی حضرت جعفر بن ابو طالب نے دربار نجاشی میں اور یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے دربار کسریٰ میں بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ہمیں میں سے ایک رسول بھیجا ۔ جس کا نسب ہمیں معلوم ، جس میں سے کوئی برائی اللہ نے آپ کی ذات میں پیدا نہیں ہو نے دی ۔ نسب نامہ بالکل کھرا تھا ۔ خود آپ کا فرمان ہے کہ حضرت آدم سے لے کر مجھ تک بفضلہ کوئی برائی جاہلیت کی زنا کاری وغیرہ نہیں پہنچی ، میں صحیح النسب ہوں ۔ پھر اتنے نرم دل کہ امت کی تکلیفوں سے خود کانپ اٹھیں ۔ آسان نرمی اور سادگی والا دین لے کر آئے ہیں ۔ جو بہت آسان ہے ۔ سہل ہے ، کامل ہے اور اعلیٰ اور عمدہ ہے ۔ وہ تمہاری ہدایت کے متمنی ہیں ، وہ دنیاوی اخروی نفع تمہیں پہنچانا چاہتے ہیں ۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ جو پرند اڑ کر نکلتا اس کا علم بھی آپ ہمیں کر دیتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی تمام چیزیں میں تم سے بیان کر چکا ہوں ۔ آپ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے وہ عنقریب تم پر ظاہر کر دینے والا ہے اور اس کی باز پرس قطعاً ہو نے والی ہے ۔ جس طرح پتنگے اور پروانے آگ پر گرتے ہوں اس طرح تم بھی گر رہے ہو اور میں تمہاری کولیاں بھر بھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سوئے ہوئے ہیں جو دو فرشتے آتے ہیں ایک پاؤں کی طرف بیٹھتا ہے دوسرا سرہانے ۔ پھر پاؤں والا سرہانے والے سے کہتا ہے ۔ اس کی اور اس کی امت کی مثال بیان کرو اس نے فرمایا یہ مثال سمجھو کہ ایک قوم سفر میں ہے ، ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے جہان ان کا سامان خوراک ختم ہو جاتا ہے اب نہ تو آگے بڑھنے کی قوت ، نہ پیچھے ہٹنے کی سکت ۔ ایسے وقت ایک بھلا آدمی اچھے لباس والا ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بیابان سے چھٹکارا دلا کر ایسی جگہ پہنچا سکتا ہوں جہاں تمہیں نتھرے ہوئے پانی کے لبالب حوض اور میووں کے لدے ہوئے درخت اور ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں ملیں بشرطیکہ تم میرے پیچھے ہو لو ۔ انہوں نے اس کی بات کو مان لیا اور وہ انہیں ایسی ہی جگہ لے گیا وہاں انہوں نے کھایا پیا اور خوب پھلے پھولے ۔ اب اس نے کہا ۔ دیکھو میں نے تمہیں اس بھوک پیاس سے نجات دلائی اور یہاں امن چین میں لایا ۔ اب ایک اور بات تم سے کہتا ہوں وہ بھی مانو ۔ اس سے آگے اس سے بھی بہتر جگہ ہے وہاں کے حوض ، وہاں کے میوے وہاں کے کھیت ، اس سے بہت ہی اعلیٰ ہیں ۔ ایک جماعت نے تو اسے سچا مانا اور ہاں کر لی ۔ لیکن دوسرے گروہ نے اسی پر بس کر لیا اور اسکی تابعداری سے ہٹ گئے ( مسند احمد ) اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے ۔ آؤ ایک واقعہ آپ کی کمال شفقت کا سنو ایک اعرابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور خون بہا ادا کرنے کے لیے آپ سے امداد طلب کی ۔ آپ نے اسے بہت کچھ دیا ۔ پھر پوچھا کیوں صاحب میں نے تم سے سلوک کیا ؟ اس نے کہاں کچھ بھی نہیں اس سے کیا ہوگا ؟ صحابہ بہت بگڑے ۔ قریب تھا کہ اسے لپٹ جائیں کہ اتنا لینے پر بھی یہ ناشکری کرتا ہے؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا ایسا غلط اور گستاخانہ جواب دیتا ہے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا ، گھر پر تشریف لے گئے ۔ وہیں اسے بلوا لیا ۔ سارا واقعہ کہہ سنایا پھر اسے اور بھی بہت کچھ دیا ۔ پھر پوچھا کہو اب تو خوش ہو؟ اس نے کہاں ہاں اب دل سے راضی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے اہل و عیال میں ہم سب کی طرف سے نیک بدلہ دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو تم آئے ۔ تم نے مجھ سے مانگا ، میں نے دیا پھر میں نے تم سے پوچھا کہ خوش ہو؟ تو تم نے الٹا پلٹا جواب دیا جس سے میرے صحابی تم سے نالاں ہیں ۔ اب میں نے پھر دے دلا کر تمہیں راضی کر لیا ۔ اب تم ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنی رضامندی ظاہر کرنا جیسے اب تم نے میرے سامنے کی ہے تاکہ ان کا رنج بھی دور ہو جائے ۔ اس نے کہا بہت اچھا ۔ چنانچہ جب وہ صحابہ کے مجمع میں آپ کے پاس آیا آپ نے فرمایا دیکھو یہ شخص آیا تھا اس نے مجھ سے مانگا تھا ، میں نے ایسے دیا تھا ، پھر اس سے پوچھا تھا ، تو اس نے ایسا جواب دیا تھا جو تمہیں ناگوار گزرا ۔ میں نے اسے پھر اپنے گھر بلوایا اور زیادہ دیا تو یہ خوش ہوگیا ۔ کیوں بھئی اعرابی یہی بات ہے؟ اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے اہل وعیال اور قبیلے کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔ آپ نے مجھ سے بہت اچھا سلوک کیا ۔ جزاک اللہ اس وقت آپ نے فرمایا میری اور اس اعرابی کی مثال سنو جیسے وہ شخص جس کی اونٹنی بھاگ گئی لوگ اس کے پکڑنے کو دوڑے وہ ان سے بدک کر اور بھاگنے لگی ۔ آخر اوٹنی والے نے کہا لوگو تم ایک طرف ہٹ جاؤ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو ، اس کی خو خصلت سے میں واقف ہوں اور یہ میری ہی ہے ۔ چنانچہ اس نے نرمی سے اسے بلانا شروع کیا ۔ زمین سے گھانس پھونس توڑ کر اپنی مٹھی میں لے کر اسے دکھایا اور اپنی طرف بلایا ، وہ آگئی ۔ اس نے اس کی نکیل تھام لی اور پالان و کجاوہ ڈال دیا ۔ سنو اس کے پہلی دفعہ کے بگڑنے پر اگر میں بھی تمہارا ساتھ دیتا تو یہ جہنمی بن جاتا ۔ ابراہیم بن حکم بن ابان کے ضعف کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ اے نبی مومنوں کے سامنے اپنا بازو پست رکھو ۔ لوگ میری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے اعمال سے بری ہوں ۔ تو ہمیشہ اپنا بھروسہ رب عزیز و رحیم پر رکھ ۔ منحریفین شریعت سے آپ بےنیاز ہو جائیں یہاں بھی فرماتا ہے اگر یہ لوگ تیری شریعت سے منہ پھیر لیں تو تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کافی ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میرا توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز ٹھہرا ۔ وہ رب عرش عظیم ہے ۔ یعنی ہر چیز کا مالک و خالق وہی ہے ۔ عرش عظیم تمام مخلوقات کی چھت ہے ۔ آسمان و زمین اور کل کائنات بقدرت رب عرش تلے ہے ۔ اس اللہ کا علم ہر چیز پر شامل ہے اور ہر چیز کو اپنے احاطے میں کئے ہوئے ہے ۔ اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے وہ ہر ایک کا کارساز ہے ۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے ۔ مروی ہے کہ جب خلافت صدیقی میں قرآن کو جمع کیا تو کاتبوں کو حضرت ابی بن کعب لکھواتے تھے ، جب اس سے پہلے کی ( آیت لایفقھون ) تک پہنچے تو کہنے لگے کہ یہی آخری آیت ہے ۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو آیتیں اور پڑھوائیں ہیں ۔ پھر آپ نے ان دونوں آیتوں کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ قرآن کی آخری آیتیں یہ ہیں ۔ پس ختم بھی اسی پر ہوا جس پر شروع ہوا تھا یعنی لا الہ الا اللہ پر ۔ یہی وحی تمام نبیوں پر آتی رہی ہے کہ میرے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں ۔ تم سب میری ہی عبادت کرو ۔ یہ روایت بھی غریب ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ ان دونوں آیتوں کو لے کر آئے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہیں اور مجھے خوب اچھی طرح حفظ ہیں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ میں نے بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ یہ گواہی سن کر آپ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ تیسری آیت بھی ہوتی تو میں اسے علیحدہ سورت بنا لیتا تم انہیں قرآن کی کسی سورت کے ساتھ لکھ لو ۔ چنانچہ سورۃ براۃ کے آخر میں یہ لکھ لی گئیں ۔ پہلے یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی قرآن کے جمع کرنے کا مشورہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا اور بحکم خلیفہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے جمع کرنا شروع کیا ۔ اس جماعت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آمد و رفت رکھتے تھے ۔ صحیح حدیث میں ہے حضرت زید فرماتے ہیں ۔ سورہ برات کا آخری حصہ میں نے خزیمہ بن ثابت یا ابو خزیمہ کے پاس پایا ۔ یہ بھی ہم لکھ آئے ہیں کہ ایک جماعت صحابہ نے اس کا مذاکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا جیسے کہ حضرت خزیمہ بن ثابت نے کہا تھا ۔ جب کہ ان کے سامنے اس کی ابتدائی بات کہی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص صبح شام ( آیت حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ) کو سات سات مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالیٰ اسے اس کی تمام پریشانیوں سے نجات دے گا ۔ ایک روایت میں ہے کہ خواہ صداقت سے پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو لیکن یہ زیادتی غریب ہے ۔ ایک مرفوع روایت بھی اسی قسم کی ہے لیکن وہ بہت منکر ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

128۔ 1 سورت کے آخر میں مسلمانوں پر نبی کی صورت میں جو احسان عظیم فرمایا گیا، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ آپ کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ تمہاری جنس سے یعنی جنس بشریت سے ہیں (وہ نور یا اور کچھ نہیں) جیسا کہ فساد عقیدہ کے شکار لوگ عوام کو اس قسم کے گورکھ دھندے میں پھنساتے ہیں۔ 128۔ 2 عَنْت ایسی چیزیں جن سے انسان کو تکلیف ہو، اس میں دنیاوی مشقتیں اور آخروی عذاب دونوں آجاتے ہیں، اس پیغمبر پر، تمہاری ہر قسم کی تکلیف و مشقت گراں گزرتی ہے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا اِنَّ ھٰذَا الدِّینَ یُسر بیشک یہ دین آسان ہے اور میں آسان دین حنیفی دے کر بھیجا گیا ہوں۔ 128۔ 3 تمہاری ہدایت اور تمہاری دینوی آخروی کے فائدے کے خواہشمند ہیں اور تمہارا جہنم میں جانا پسند نہیں فرماتے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں تمہاری پشتوں سے پکڑ پکڑ کر کھنچتا ہوں لیکن تم مجھ سے دامن چھڑا کر زبردستی نار جہنم میں داخل ہوتے ہو (صحیح بخاری) 128۔ 4 یہ آپ کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے۔ یہ ساری خوبیاں آپ کے اعلٰی اخلاق اور کریمانہ صفات کی مظہر ہیں۔ یقینا آپ صاحب خلق عظیم ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٨] یعنی وہ رسول تمہارے ہی قبیلہ سے ہے تم اس کی زندگی بھر کے حالات اور عادات و خصائل سے خوب واقف ہو اور اس کی دیانت، امانت اور صداقت کے شاہد ہو۔ اور وہ تمہاری ہی زبان میں گفتگو کرتا ہے جو تمہارے لیے باعث فخر اور رحمت ہے۔- [١٤٩] آپ کو مومنوں کی تکلیف کا شدید احساس تھا :۔ یعنی جب تمہیں کوئی سختی یا دکھ پہنچے تو اس کی جان پر بن جاتی ہے اور اسے اس کے دفعیہ کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر ممکن طریقہ سے یہ چاہتے ہیں کہ امت پر آسانی ہو۔ آپ جو دین لائے وہ بھی سہل اور نرم ہے اور آپ اپنے عمال کو بھیجتے وقت بھی ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، سختی نہ کرنا۔- [١٥٠] سب سے زیادہ حرص آپ کو یہ تھی کہ لوگ اخروی عذاب یعنی دوزخ سے بچ جائیں اور اس کا واحد راستہ یہی تھا کہ وہ آپ پر ایمان لا کر اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جائیں۔ یعنی رسول کے دل میں تمہاری خیر خواہی اور بھلائی کے لیے خاص تڑپ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگ آپ پر ایمان نہ لاتے تھے تو آپ سخت بےقرار ہوجاتے تھے اور آپ کی اس کیفیت کو قرآن میں متعدد بار دہرایا گیا ہے۔- [١٥١] اگرچہ آپ رحمۃ للعالمین تھے تاہم مومنوں کے تو بہت زیادہ ہمدرد اور ان پر مہربان تھے۔ مومنین کے حق میں آپ کی دو صفات کو یکجا ذکر کیا گیا۔ ایک رؤف دوسرے رحیم۔ رحم یا مہربانی کا تعلق تو ہر طرح کے حالات میں یکساں ہے اور رؤف وہ شخص ہے جس کا دل کسی پر مصیبت یا سختی دیکھ کر فوراً پسیج جائے اور اسے ترس آنے لگے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ : اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض صفات عالیہ کا اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر ہے۔ ایک صفت ” لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ“ میں لفظ ” رَسُوْلٌ“ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول ہیں، یعنی خود نہیں آئے بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ ایک احسان ” جَاۗءَكُمْ “ ہے، یعنی تمام لوگوں کی طرف قیامت تک کے لیے آنے والا رسول تم عربوں میں آیا ہے، عربی رسول بھیج کر اللہ تعالیٰ نے دنیا کی امامت کے لیے تمہیں منتخب فرمایا ہے۔ ” كُمْ “ کے مخاطب تمام دنیا کے لوگ ہیں، مگر اول مخاطب عرب ہیں، آپ کی تیسری صفت اور اللہ کا احسان ” مِّنْ اَنْفُسِكُمْ “ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جنس سے، یعنی انسانوں میں سے ہیں، انھیں تمام انسانی ضروریات لاحق ہیں، وہ آدم کی اولاد سے ہیں، ان کے ماں باپ بھی ہیں، قریش کے ہر خاندان سے کوئی نہ کوئی رشتہ داری ہے، بیویاں اور اولاد بھی ہیں، بچپن، جوانی، بڑھاپا، بھوک، پیاس اور وفات سب کچھ آپ پر گزرا، صحت و مرض، رنج و راحت ہر مرحلے سے گزرے، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر چیز میں تمہارے لیے نمونہ ہیں۔ اگر وہ جن یا فرشتہ یا کوئی اور جنس ہوتے تو تمہارے لیے نمونہ اور اسوۂ حسنہ کیسے بنتے ؟ اللہ کا احسان مانو کہ اس نے خود تم میں سے ایک نمونہ اپنا پیغام دے کر بھیجا کہ اس کی بات بھی سنو اور اس کی ذات کو دیکھ کر اس کے مطابق عمل بھی کرو۔ مزید دیکھے سورة آل عمران (١٦٤) چوتھی یہ کہ ” عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ “ تمہارا کسی طرح بھی مشقت یا مصیبت میں پڑنا اس پر نہایت شاق ہے، وہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ تم کفر اختیار کرکے دنیا میں حیوانوں سے بدتر زندگی گزارو، پھر آخرت میں جہنم کا ایندھن بنو، اس فکر میں وہ گھلتا جا رہا ہے، اتنا کہ اللہ تعالیٰ کو اسے تسلی دلانا پڑتی ہے۔ دیکھیے سورة کہف (٦) ، آل عمران (١٧٦) ، شعراء ( ٣) اور شوریٰ (٤٨) پھر وہ ایسا دین لے کر آیا ہے جس میں کوئی مشکل نہیں، نہایت آسان اور سادہ ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِنِّیْ اُرْسِلْتُ بِحَنِیْفِیَّۃٍ سَمْحَۃٍ ) [ أحمد : ٦؍١١٦، ح : ٢٤٩٠٨، عن عائشۃ (رض) ، قال شعیب الأرنؤوط وغیرہ حدیث قوی، إسنادہ حسن ] ” مجھے حنیفی (ابراہیم حنیف والی) آسان شریعت دے کر بھیجا گیا ہے۔ “ اور فرمایا : ( اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ) ” یہ دین سراسر آسان ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر : ٣٩، عن أبی ہریرہ (رض) ] ایسا مہربان نبی کہ طائف میں دس دن رہ کر مار کھا کر زخمی اور بےہوش ہو کر نکلا اور ہوش آنے پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا کہ اگر کہو تو میں (دو پہاڑوں) اخشبین میں ان کفار کو پیس دوں ؟ تو عرض کیا : ” مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب إذا قال إحدکم آمین۔۔ : ٣٢٣١، عن عائشۃ ]- پانچویں یہ کہ ” حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ “ رات دن اس کی یہی کوشش ہے اور اسی فکر میں لگا رہتا ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے تم دوزخ سے بچ جاؤ اور دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کرلو۔ شاہ عبد القادر (رض) نے ” حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ “ کا ترجمہ کیا ہے ” تلاش رکھتا ہے تمھاری۔ “ اس کی وضاحت میں فرمایا : ” چاہتا ہے کہ میری امت زیادہ ہوتی رہے۔ “ (موضح) اس لیے زیادہ اولاد دینے والے خاندانوں میں نکاح کرنے کی ترغیب دی، فرمایا : ( تَزَوَّجُوا الْوُلُوْدَ الْوَدُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ ) ” ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو بہت بچے دینے والی، بہت محبت کرنے والی ہوں، کیونکہ میں دوسری امتوں کے سامنے تمہاری کثرت پر فخر کرنے والا ہوں۔ “ [ نسائی، النکاح، باب کراھیۃ تزویج العقیم : ٣٢٢٩۔ أبو داوٗد : ٢٠٥٠ ] چھٹی ” بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ“ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کی عیادت کے لیے جاتے، ان کے جنازے میں پہنچتے، نماز میں بچے کے رونے کی آواز سن کر ماں کی تکلیف محسوس کرتے ہوئے نماز مختصر کردیتے، خود بھوکے رہ کر انھیں کھلاتے پلاتے، نبوت سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام انسانوں کے ساتھ شفقت و ہمدردی کو دیکھیں جس کی شہادت ام المومنین خدیجہ (رض) نے دی، تو مومنوں پر آپ کی نرمی اور رحمت کا خود بخود اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے، اللہ تعالیٰ نے جو ایک مقبول دعا ہر نبی کی طرح آپ کو عطا کی، سب نے کرلی، مگر آپ نے اپنی امت کی شفاعت کرنے کے لیے سنبھال کر رکھ لی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے جنت میں اپنے اس مہربان نبی کی رفاقت عطا فرمائے۔ (آمین)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ( اے لوگو) تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس ( بشر) سے ہیں (کہ تم کو نفع حاصل کرنا آسان ہو) جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گذرتی ہے ( چاہتے ہیں کہ تم کو کوئی ضرر نہ پہنچنے) جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ( یہ حالت تو سب کے ساتھ ہے پھر بالخصوص) ایمانداروں کے ساتھ ( تو) بڑے ہی شفیق ( اور) مہربان ہیں ( ایسے رسول سے مستفید نہ ہونا بڑی محرومی ہے) پھر اگر ( اس پر بھی آپ کو رسول ماننے سے اور آپ کے اتباع کرنے سے) روگردانی کریں تو آپ کہہ دیجئے ( میرا کیا نقصان ہے) میرے لئے ( تو) اللہ تعالیٰ ( حافظ و ناصر) کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں ( پس معبودیت اس کے ساتھ مختص ہے تو لامحالہ سارے کمالات علم وقدرت اس میں بےمثل ہوں گے، پھر مجھ کو کسی کی مخالفت سے کیا اندیشہ) میں نے اسی پر بھروسہ کرلیا اور وہ بڑے بھاری عرش کا مالک ہے ( تو اور چیزیں تو بدرجہ اولی اس کی مملوک ہوں گی، پس اس پر بھروسہ کرنے کے بعد مجھ کو کوئی اندیشہ نہیں البتہ تم اپنی فکر کرلو، حق کا انکار کرکے کہاں رہو گے ) ۔- معارف رمسائل - یہ سورة توبہ کی آخری آیتیں ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پوری خلق خدا پر خصوصاً مسلمانوں پر بےحد مہربان اور شفیق و ہمدرد ہونا بیان فرمایا ہے اور آخری آیت میں آپ کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ آپ کی ساری کوششوں کے باوجود اگر پھر بھی کچھ لوگ ایمان نہ لائیں تو آپ صبر کریں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔- سورة توبہ کے آخر میں یہ مضمون اس لئے لانا مناسب ہوا کہ اس پوری سورت میں کفار سے براءت قطع تعلق قتال و جہاد کا ذکر تھا جو دعوت الی اللہ کی آخری صورت ہے، جبکہ زبانی دعوت و تبلیغ سے اصلاح کی توقع نہ رہے، لیکن اصل کام انبیاء (علیہم السلام) کا یہی ہے کہ شفقت و رحمت اور ہمدردی و خیر خواہی کے جذبے سے خلق خدا کو خدا کی طرف آنے کی دعوت دیں، اور ان کی طرف سے اعراض یا کوئی تکلیف پیش آئے تو اس کو اللہ کے سپرد کردیں اس پر توکل کریں، کیونکہ وہ رب العرش العظیم ہے، یہاں عرش عظیم کا رب کہہ کر یہ بتلانا منظور ہے کہ وہ کل کائنات عالم پر محیط ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٢٨- لام - اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه :- الأول :- الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع .- الثاني : للملک والاستحقاق،- ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان :- ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ.- وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله :- لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل :- قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى»- في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ .- الثالث : لَامُ الابتداء .- نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] .- الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم .- الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية- نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف 35] .- السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم .- نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم .- السابع : اللَّامُ في خبر لو - : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک .- الثامن : لَامُ المدعوّ ،- ويكون مفتوحا، نحو :- يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید .- التاسع : لَامُ الأمر،- وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس 58] ، وقرئ :- ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] .- ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ - اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔- (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے - (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے - اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔- میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔- (3) لا ابتداء جیسے - فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ - (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔- یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔- ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔- جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔- ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے - جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔- ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے - مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ - ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے - جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - عزیز ( مشكل)- كذا : صَعُبَ ، قال : عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] ، أي : صَعُبَ ،- ( ع ز ز ) العزۃ - عز علی کذا مجھ پر یہ بات نہایت ہی گراں گذری ۔ قرآن میں ہے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] تمہاری تکلیف ان پر گراں گزرتی ہے ۔- عنت - الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ- [ النساء 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ.- ( ع ن ت ) المعانتۃ - : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔- حرص - الحِرْص : فرط الشّره، وفرط الإرادة . قال عزّ وجلّ : إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ- [ النحل 37] ، أي : إن تفرط إرادتک في هدایتهم، وقال تعالی: وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] ،- ( ح ر ص ) الحرص - شدت آزیا شرط ارادہ ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ [ النحل 37] یعنی ان کی ہدایت کے لئے تمہارے دل میں شدید آزر اور خواہش ہو وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] بلکہ ان کو تم اور لوگوں سے زندگی پر کہیں زیادہ حریص دیکھو گے ۔- رأف - الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] .- ( ر ء ف )- الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٨۔ ١٢٩) اے لوگو اور خصوصیت سے مکہ والو تمہارے پاس عربی پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، تمہاری منفعت اور ایمان کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں پھر خاص کر تمام اہل ایمان کے ساتھ تو بہت ہی شفیق اور مہربانی فرمانے والے ہیں۔- پھر اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان لانے، توبہ کرنے اور آپ کی پیروی کرنے سے اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے میرا کوئی نقصان نہیں میرے لیے تو اللہ تعالیٰ حافظ وناصر کافی ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کرلیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ) - حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شے جو تمہیں مصیبت اور ہلاکت سے دوچار کرنے والی ہو وہ ان کے دل پر نہایت شاق ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں دنیا اور آخرت دونوں کی ہلاکتوں اور مصیبتوں سے محفوظ اور دونوں کی سعادتوں سے بہرہ مند دیکھنا چاہتے ہیں۔ - (حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدید خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام خیر ‘ ساری خوبیاں اور ساری بھلائیاں تم لوگوں کو عطا فرما دے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani