ترک موالات و مودت کا حکم اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں بہت بھائی ہوں ۔ بشرطیکہ وہ کفر کو اسلام پر ترجیح دیں اور آیت میں ہے ( آیت لا تجد قوما یومنوں باللہ الخ ، ) اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ رسول کے دشمنوں سے دوستی کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان رکھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے ۔ انہیں نہروں والی جنت میں پہنچائے گا ۔ بیہقی میں ہے حضرت ابو عبیدبن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا ۔ باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہوگئی آپ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ۔ اس پر آیت لا تجد نازل ہوئی ۔ پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر وہ رشتے دار اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ اور رسول سے اور جہاد سے بھی زیادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ کے عذاب کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ ایسے بدکاروں کو اللہ بھی راستہ نہیں دکھاتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ جا رہے تھے حضرت عمر کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا ۔ حضرت عمر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں بجز میری اپنی جان کے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میرا نفس ہے تم میں سے کوئی مومن نہ ہوگا جب تک کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ رکھے ۔ حضرت عمر نے فرمایا اللہ کی قسم اب آپ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے ۔ آپ نے فرمایا اے عمر ( تو مومن ہو گیا ) ( بخاری شریف ) صحیح حدیث میں آپ کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولاد اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں مسند احمد اور ابو داؤد میں ہے آپ فرماتے ہیں جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کرے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہوگی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ ۔
23۔ 1 یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے (چونکہ اس کی اہمیت واضح ہے اس لئے) اسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے یعنی جہاد و ہجرت میں تمہارے لئے تمہارے باپوں اور بھائیوں وغیرہ کی محبت آڑے نہ آئے، کیونکہ وہ ابھی تک کافر ہیں، تو پھر وہ تمہارے دوست ہو ہی نہیں سکتے، بلکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اگر تم ان سے محبت کا تعلق رکھو گے تو یاد رکھو تم ظالم قرار پاؤ گے۔
[٢١] ایمان کی تکمیل کب ؟ :۔ یعنی ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر باپ یا بھائی کافر ہوں تو ان سے قرابت تو کیا رفاقت بھی نہ رکھی جائے اور اگر مومن یا مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں۔ اس مضمون کو کتاب و سنت میں متعدد مقامات پر مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے چناچہ ایک دفعہ سیدنا عمر نے آپ سے کہا کہ آپ مجھے اپنی ذات کے سوا سب سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ نے فرمایا ابھی تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوا۔ پھر کسی وقت سیدنا عمر نے آپ سے کہا اللہ کی قسم آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ نے فرمایا اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی )
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ : یعنی بعض لوگ دل سے مسلمان ہیں لیکن برادری سے تعلق توڑ بھی نہیں سکتے کہ اپنے اسلام کا اعلان کردیں، ان کا حال یہاں سے سمجھو۔ ( موضح) مزید دیکھیے سورة مجادلہ (٢٢) ، سورة ممتحنہ (١ تا ٣) ، سورة آل عمران (٢٨، ١١٨) اور سورة مائدہ (٥١) ۔
آیات مذکورہ میں ہجرت اور جہاد کے فضائل کا بیان آیا ہے، جن میں وطن اور اعزاء و اقارب اور احباب و اصحاب اور اموال و املاک سب کو چھوڑنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی طبیعت پر یہ کام سب سے زیادہ شاق اور دشوار ہیں، اس لئے اگلی آیت میں ان چیزوں کے ساتھ حد سے زیادہ تعلق اور محبت کی مذمت فرما کر مسلمانوں کے ذہنوں کو ہجرت و جہاد کے لئے آمادہ کیا گیا ہے، ارشاد فرمایا (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ، “ یعنی اے ایمان والو تم اپنے باپ دادا اور بھائیوں کو رفیق مت بناؤ اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے عزیز رکھیں اور تم میں سے جو شخص ان کے ساتھ باوجود ان کے کفر کے رفاقت رکھے گا سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں “۔- ماں باپ بھائی بہن اور تمام رشتہ داروں سے تعلق کو مضبوط رکھنے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایات سے سارا قرآن بھرا ہوا ہے، مگر اس آیت میں یہ بتلادیا کہ ہر تعلق کی ایک حد ہے، ان میں سے ہر تعلق خواہ ماں باپ اور اولاد کا ہو، یا حقیقی بھائی بہن کا، اللہ اور اس کے رسول کے تعلق کے مقابلہ میں نظر انداز کرنے کے قابل ہے، جس موقع پر یہ دونوں رشتے ٹکرا جائیں، تو پھر رشتہ وتعلق اللہ و رسول کا ہی قائم رکھنا ہے، اس کے مقابلہ میں سارے تعلقات سے قطع نظر کرنا ہے۔- آیات مذکورہ کے متعلق چند فوائد اور مسائل : - مذکورہ پانچ آیتوں سے چند فوائد اور مسائل حاصل ہوئے : - اول یہ کہ ایمان روح عمل ہے، اس کے بغیر کیسا ہی اچھا عمل ہو وہ صرف صورت بےجان اور ناقابل قبول ہے، نجات آخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں، ہاں اللہ تعالیٰ کے یہاں بےانصافی نہیں کافروں کے ایسے بےروح اعمال حسنہ بھی بالکل ضائع نہیں کئے جاتے، ان کا بدلہ ان کو دنیا ہی میں آرام و عیش اور دولت ور احت دے کر بیباق کردیا جاتا ہے، جس کا بیان قرآن کریم کی متعدد آیات میں آیا ہے۔- دوسرا فائدہ ان آیات سے یہ حاصل ہوا کہ معصیت و نافرمانی سے انسان کی عقل بھی خراب ہوجاتی ہے اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ انیسویں آیت کے آخر میں (آیت) وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا ہے جیسا کہ اس کے بالمقابل ایک آیت میں (آیت) اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا فرما کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ اطاعت وتقوی سے انسان کی عقل کو جلا ہوتی ہے، سلامت فکر نصیب ہوتی ہے، وہ اچھے برے کی تمیز میں غلطی نہیں کرتا۔- تیسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں بھی باہمی تفاضل ہے اور اسی کی مناسبت سے عمل کرنے والوں کے درجات میں تفاضل قائم ہوتا ہے، سب عمل کرنے والے ایک درجہ میں نہیں رکھے جاسکتے اور مدار کثرت عمل پر نہیں بلکہ حسن عمل پر ہے، سورة ملک میں آیا ہے : (آیت) لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش کریں گے کہ کون زیادہ اچھا عمل کرنیوالا ہے۔- چوتھا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ راحت و نعمت کے دائمی رہنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نعمتیں کسی وقت ختم نہ ہوجائیں، دوسرے یہ کہ کسی وقت ان لوگوں کو ان نعمتوں سے جدا نہ کیا جائے، اس لئے اللہ کے مقبول بندوں کے لئے دونوں چیزوں کی ضمانت دے دیگئی نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌ فرما کر نعمتوں کا دائمی ہونا بیان فرمایا اور خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا فرما کر ان لوگوں کو کبھی ان نعمتوں سے الگ نہ کرنے کا اطمینان دلا دیا۔- اصل رشتہ اسلام و ایمان کا رشتہ ہے نسبی و وطنی تعلقات سب اس پر قربان کرتے ہیں :- پانچواں مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ رشتہ داری اور دوستی کے سارے تعلقات پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق مقدم ہے، جو تعلق اس سے ٹکرائے وہ توڑنے کے قابل ہے، صحابہ کرام کا وہ عمل جس کی وجہ سے وہ ساری امت سے افضل و اعلی قرار پائے یہی چیز تھی کہ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی جان و مال اور ہر رشتہ وتعلق کو قربان کرکے زبان حال سے کہا - تو نخل خوش ثمر کیستی کہ سرو و سمن ہمہ زخویش بریدند و با تو پیوستند - بلال حبشی، صہیب رومی، سلمان فارسی اور قریش مکہ انصار مدینہ تو سب آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور بدر و احد کے میدانوں میں باپ بیٹے، بھائی بھائی کی تلواریں آپس میں ٹکرا کر اس کی شہادت دی کہ ان کا مسلک یہ تھا کہ - ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد - اللھم ارزقنا اتباعھم واجعل حبک احب الاشیاء الینا و خشیتک اخوف الاشیاء عندنا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ ٠ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٣- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- استحباب - وحقیقة الاستحباب : أن يتحرّى الإنسان في الشیء أن يحبّه، واقتضی تعدیته ب ( علی) معنی الإيثار، وعلی هذا قوله تعالی: وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت 17]- میں ایسا معنی تلاش کرنے کے ہیں جس کی بناء پر اس سے محبت کی جائے مگر یہ ان علی ( صلہ ) کی وجہ سے اس میں ایثار اور ترجیح کے معنی پیدا ہوگئے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت 17] کے معنی بھی یہ ہیں کہ انہوں نے اندھا پن کو ہدایت پہ ترجیح دی ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
دین میں رشتوں کی اہمیت - قول باری ہے (یا ایھا الذین امنوا لا تتنخذوا اباء کم و اخوانکم اولیاء ان استحبوا الکفر علی الایمان۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں) آیت میں مسلمانوں کو کافروں سے دوستی کرنے، ان کی مدد کرنے، ان سے مدد حاصل کرنے اور اپنے معاملات ان کے حوالے کرنے سے روک دیا گیا ہے نیز ان سے بیزاری کا اظہار اور ان کی ترک تعظیم و تکریم واجب کردی گئی ہے۔ اس معاملے میں باپ بھائی سب یکساں حیثیت رکھت ہیں تاہم کافر باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور معروف طریقے سے وقت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ۔ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں وصیت کی ہے) تا قول باری (وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما و صاحبھما فی الدنیا معروفا اور اگر وہ تم پر دبائو ڈالیں کہ تم میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائو جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں تو تم ان کا کہا نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے وقت گزارتے رہو۔- آیت زیر بحث میں مسلمانوں کو یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ منافقین سے بالکل الگ اور جدا نظر آئیں کیونکہ منافقین جب کافروں سے ملتے تو ان کے ساتھ دوستی گانٹھتے اور ان کی تعظیم و تکریم کا اظہار کرتے نیز انہیں اپنی و رفاقت کا یقین دلاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں جس چیز کا حکم دیا ہے اسے مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان علامت اور فرق کا پیمانہ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بتادیا ہے کہ جو شخص ایسا نہیں کرے گا وہ خود اپنا نقصان کرے گا اور اپنے رب کی طرف سے سزا کا مستحق قرار پائے گا۔
(٢٣) اور جو کافر رشتہ دار مکہ مکرمہ میں ہیں، اگر وہ کفر کو ایمان کے مقابلہ میں عزیز سمجھیں تو ان کو رفیق مت بناؤ اور جو ان کے ساتھ رفاقت رکھیں گے وہ ان ہی جیسے کافر ہیں۔- یا یہ کہ اے مومنوا اپنے ان مسلمان والدین اور بھائیوں کو جو مکہ مکرمہ میں ہیں اور تمہیں ہجرت سے روکتے ہیں، ان کو مدد میں اپنا رفیق مت بناؤ اگر وہ دار الکفر یعنی مکہ مکرمہ کو دار الاایمان یعنی مدینہ منورہ سے عزیز سمجھیں اور جو تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔
آیت ٢٣ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآءَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ ط) - اگر اب بھی تمہارے دلوں میں اپنے کافر اقرباء کے لیے محبت موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر ایمان کے ساتھ تمہارا رشتہ مضبوط نہیں ہے۔ اللہ ‘ اس کے دین اور توحید کے لیے تمہارے جذبات میں غیرت وحمیت نہیں ہے۔ - (وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) - اب وہ آیت آرہی ہے جو اس موضوع پر قرآن کریم کی اہم ترین آیت ہے۔
17: اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے ایسے تعلقات نہ رکھو جو تمہارے لئے دینی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائیں۔ جہاں تک اپنے ایمان اور دینی فرائض کا تحفظ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک کا تعلق ہے، اس کو قرآنِ کریم نے مستحسن قراردیا ہے۔ (دیکھئے سورۂ لقمان ۳۱:۱۵اور سورۂ ممتحنہ ۶۰:۸)