Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نصرت الٰہی کا ذکر مجاہد کہتے ہیں براۃ کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کر دیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی ۔ یہ صرف تائید ربانی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی ۔ یاد کرلو حنین والے دن تمہیں ذرا اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہو گیا تو کیا حال ہوا ؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے ۔ معدودے چند ہی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرے اسی وقت اللہ کی مدد نازل ہوئی اس نے دلوں میں تسکین ڈال دی یہ اس لیے کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ مدد اسی اللہ کی طرف سے ہے اس کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گروہوں کے منہ پھیر دیئے ہیں ۔ اللہ کی امداد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ یہ واقعہ ہم عنقریب تفصیل وار بیان کریں ، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعداد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی ۔ یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسل بیان کی ہے ۔ ابن ماجہ اور بہیقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سنہ ٨ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہ شوال میں جنگ حقین ہوئی تھی ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموما مکی حضرات مسلمان ہو چکے اور انہیں آپ آزاد بھی کر چکے تو آپ کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے ۔ ان کا سردار مالک بن عوف نصری ہے ۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے کچھ لوگ بھی ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن عامر کے اور عون بھی عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کے اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ ہی رکھا ہے تو آپ نے اس لشکر کو لے کر جو اب آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی آپ کے ساتھ ہو لیے ۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمین گاہ میں چپھے ہوئے تھے انہوں نے بےخبری میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا بےپنا تیر باری کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کر دیں یہاں مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ با آواز بلند اپنے تئیں پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو کہاں چلے ، میری طرف آؤ ۔ میں اللہ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں ، جھوٹا نہیں ہوں ۔ میں اولاد عبد المطلب میں سے ہوں ۔ آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہ رہ گئے تھے ۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ حضرت ایمن بن ام ایمن ، حضرت اسامہ بن زید وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھے پھر آپ نے اپنے چچا حضرت عباس کو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے والو اے سورہ بقرہ کے حاملو پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے لبیک لبیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر آپ کے آس پاس آکر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہو گیا جب کچھ جماعت آپ کے ارد گرد جمع ہو گئی آپ نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری الٰہی جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے ۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے ۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور مسلمانوں کی باقی فوج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے کفار کو قید کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر کر دیا مسند احمد میں ہے حضرت عبد الرحمن فہری جن کا نام یزید بن اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ میں اس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے سورج ڈھلنے کے بعد میں نے اپنے ہتھیار لگا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوائیں ٹھنڈی ہو گئی ہیں آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے بلال اس وقت بلال ایک درخ کے سائے میں تھے حضور کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر لبیک و سعد یک و انا فداوک کہتے ہوئے حاضر ہوئے ۔ آپ نے فرمایا میری سواری تیار کرو اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی جب کس چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے ہم نے صف بندی کر لی شام اور رات اسی طرح گذری پھر دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہو گئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی ۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں اور منہ میں یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہو نے لگا کہ گویا زمین و آسمان کے درمیان لوہا کسی لوہے کی کے طشت پر بج رہا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ کے پاس واپس پہنچ گئے آپ نے اسی وقت حملہ کا حکم دیدیا اول تو منادی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گئی یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے ۔ اس میں ہے کہ اللہ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا ۔ اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی کو فے میں دلا دیں ۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا اے ابو عمارہ کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے؟ آپ نے فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو پوری مہارت کے ساتھ تیروں کی بار برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی ۔ سبحان اللہ رسول اللہ رصلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا ۔ لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے تئیں چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ نہ پہنچاننے والے بھی پہنچا لیں ۔ خیال فرمائیے کہ کس قدر ذات واحد پر آپ کا توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ کو اللہ کی مدد پر ۔ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا اور آپ کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کے ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابد ابدا ۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا تھا ۔ ایک مشرک کا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائے اتنی دیر بھی ہم نے انہیں اپنے سامنے جمنے نہیں دیا فورا بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر پڑے ہم نے دیکھا یہ کہ خوبصورت نورانی چہرے والے کچھ لوگ ان کے ارد گرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہرے بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہمیں شکست ہو گئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہوگئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی اس لشکر میں تھا آپ کے ساتھ صرف اسی مہاجر و انصار رہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کھائی آپ زین پر سے نیچے کی طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیے اللہ آپ کو اونچا ہی رکھے آپ نے فرمایا ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو میں نے بھر دی آپ نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا مہاجر و انصار کہاں ہیں میں نے کہا یہیں ہیں فرمایا نہیں آواز دو میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں سونتے ہوئے لپک لپک کر آگئے اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ بیہیقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بدر والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارا جانا یاد آیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ، میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا ؟ آؤ پیغمبر کو قتل کر دوں اس ارادے سے میں آپ کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے عباس بن عبدالمطلب کو پایا سفید چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنا کام کروں اور ادھر سے آیا تو دیکھا ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں رکاوٹ کاٹ کر پیھے کی طرف آیا آپ کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونت کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کرلیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا شیبہ میرے پاس آیا ، اللہ اس کے شیطان کو دور کر دے ۔ اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو واللہ آپ مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے آپ نے فرمایا شیبہ جا کافروں سے لڑ شیبہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ ہوازن قریش پر غالب آ جائیں؟ میں آپ کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا تو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا شیبہ وہ تو سوا کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے ۔ پھر آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ شیبہ کو ہدایت کر پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا واللہ آپ کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ آپ کی محبت میں اپنے دل میں پانے لگا ۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اس غزوے میں آپ کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی ۔ یزید بن عامر سوابی اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافرں کے ساتھ تھا بعد میں یہ مسلمان ہوگئے تھے ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں کا رعب و خوف سے کیا حال تھا ؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آ رہی تھی بےطرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں الغرض کفار کو اللہ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا ۔ باقی ہوازن پر اللہ نے مہربانی فرمائی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ شریف جعرانہ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گذر چکے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کر لو یا تو قیدی یا مال؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی مرد عورت کی بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی ۔ آپ نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہو جائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے ۔ مالک بن عوف نصری کو بھی آپ نے سو اونٹ دیئے اور اسی کو اس کی قوم کا سردار بنا دیا جیسے کہ وہ تھا اسی کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ میں نے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا ۔ دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ کا ثانی نہیں آپ کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے ہیں یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ بےمثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] غزوہ حنین اور اس کے اسباب :۔ حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد شوال ٨ ھ میں حق و باطل کا ایک بہت بڑا معرکہ پیش آیا تھا۔ عرب کے اکثر بدوی قبائل اس انتظار میں تھے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش پر غالب آگئے اور مکہ فتح ہوگیا تو بلاشبہ وہ پیغمبر ہیں اور ان کی دعوت کو قبول کرلینا چاہیے۔ چناچہ مکہ کی فتح کے بعد بہت سے قبائل خودبخود آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے لیکن ہوازن اور ثقیف کا معاملہ دوسرے قبائل کے بالکل برعکس تھا۔ یہ قبائل نہایت جنگجو اور فنون حرب و ضرب کے خوب ماہر تھے اور جوں جوں اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا تھا یہ قبائل اس غلبہ کو اپنی ریاست و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اور بھی زیادہ سیخ پا ہوجاتے تھے۔ مکہ کی فتح کے بعد ان دونوں قبائل نے باہمی اتفاق سے یہ پروگرام بنایا کہ اس وقت مسلمان مکہ میں جمع ہیں۔ اسی مقام پر ان پر ایک بھرپور حملہ کر کے ان کا زور توڑ دیا جائے۔ ان لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی عورتیں اور بچے بھی ساتھ لے آئے تھے تاکہ کسی کو پسپائی کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ ایک تیس سالہ نوجوان مالک بن عوف ان کا سپہ سالار تھا۔- مسلمانوں کی پسپائی :۔ رسول اللہ مکہ میں ہی مقیم تھے کہ آپ کو ان حالات کا علم ہوا۔ فتح مکہ سے تو کچھ مال غنیمت وصول ہی نہ ہوا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اس نئی جنگ کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں ؟ آخر آپ نے عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درہم قرض لیے اور اسلحہ جنگ کے طور پر سو زر ہیں اور اس کے لوازمات صفوان بن امیہ سے مستعار لیے اور ان قبائل سے مقابلہ کے لیے مکہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے اور حنین کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے۔ اس وقت اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں نو مسلم بھی شامل تھے اور دشمن کی تعداد صرف چار ہزار تھی۔ مقابلہ ہوا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے کمین گاہوں سے اس طرح تیروں کی بوچھاڑ کی اور اس قدر بےجگری سے لڑے کہ اسلامی لشکر کے جو آج اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہونے کی وجہ سے کچھ بےخوف اور لاپروا سے ہو رہے تھے، چھکے چھوٹ گئے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور راہ فرار اختیار کی۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا جب آپ اکیلے دشمن کے سامنے کھڑے رہ گئے۔ اس وقت آپ نے جس قدر جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ نیز جنگ کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔- آپ کی مثالی جرأت :۔- ١۔ سیدنا براء بن عازب کہتے ہیں کہ ہم مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور دشمن نے ہم پر تیر برسانے شروع کردیئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب و یوم حنین۔ مسلم کتاب الجہاد۔ باب فی غزوۃ حنین )- ٢۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ حنین کے دن آپ کے ساتھ دس ہزار مجاہدین کے علاوہ طلقاء (جنہیں فتح مکہ کے بعد معافی دی گئی تھی) بھی تھے۔ وہ سب آپ کو چھوڑ گئے تھے اور آپ اکیلے رہ گئے تھے۔- غزوہ طائف۔ بخاری کتاب المغازی۔ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم )- ٣۔ اصحاب شجرہ کا پکارنے پر آپ کے پاس پہنچنا :۔ سیدنا عباس فرماتے ہیں کہ حنین کی جنگ میں میں رسول اللہ کے ساتھ تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب دونوں رسول اللہ کے ساتھ رہے۔ ہم نے آپ کو نہیں چھوڑا۔ آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو آپ کو فروہ بن نغاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔ جب کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ مگر رسول اللہ اپنے خچر پر کفار کی طرف جانے کے لیے ایڑ لگانے لگے۔ میں رسول اللہ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا کہ کہیں وہ تیزی سے دشمن کی طرف نہ چلا جائے اور ابو سفیان رسول اللہ کے ساتھ ساتھ تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا عباس اصحاب شجرہ کو آواز دو (کیونکہ میں بلند بانگ تھا) میں نے بلند آواز سے پکارا : اصحاب شجرۃ کہاں ہیں ؟ آواز سنتے ہی وہ اس طرح لوٹ آئے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس آتی ہے۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم حاضر ہیں۔ ہم حاضر ہیں۔ انصار کو یوں بلایا گیا۔ یا معشر الانصار یا معشر الانصار پھر بنو الحارث بن خزرج پر بلانا ختم ہوا۔ انہیں یوں بلا گیا۔ اے بنو الحارث بن خزرج۔ اے بنو الحارث بن خزرج رسول اللہ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور اونچے ہو ہو کر لڑائی دیکھ رہے تھے (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیر۔ باب فی غزوۃ حنین)- ٤۔ آپ کا اشعار پڑھنا :۔ سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں کہ جب لوگوں کو ندا دی گئی اس وقت آپ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ انا النبی لاکذب۔۔ انا ابن عبدالمطلب - اور فرما رہے تھے اے اللہ اپنی نصرت نازل فرما۔ اللہ کی قسم جب جنگ شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے یعنی آپ کے پیچھے ہوجاتے تھے اور ہم میں بہادر وہ تھا جو آپ کے برابر کھڑا ہوتا۔ (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیہ۔ باب غزوہ حنین)- پھر جب آپ کی پکار پر مہاجرین و انصار آپ کے گرد جمع ہوگئے تو اس وقت تک اپنی کثرت پر نازاں ہونے کی بو دماغوں سے نکل چکی تھی۔ پھر جم کر لڑے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوئی تو اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا اور بہت سے لونڈی غلام بھی بنائے گئے کیونکہ یہ لوگ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ گویا جس چیز کو وہ حوصلہ افزائی کے لیے لائے تھے وہی چیز اللہ نے ان کے لیے وبال جان بنادی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ : بدر میں اپنے انعامات کے تذکرے، جہاد کی ترغیب، کفار سے دوستی ترک کرنے کی تلقین اور دنیا کی ہر چیز پر اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کی ترجیح کے حکم کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ مزید انعامات ذکر فرمائے، جن میں حنین کا خاص ذکر فرمایا، مگر حنین کا ذکر کرنے سے پہلے بہت سے گزشتہ مواقع میں (فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ) اپنی مدد کا ذکر فرمایا، ان میں ہجرت (فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) [ التوبۃ : ٤٠ ] بدر (وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ ) [ آل عمران : ١٢٣ ] احد (وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ) [ آل عمران : ١٥٢ ] خندق (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَاۗءَتْكُمْ جُنُوْدٌ) [ الأحزاب : ٩ ] حدیبیہ (اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا) [ الفتح : ١ ] فتح مکہ (اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ ) [ النصر : ١ ] یہودی قبائل (هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ) [ الحشر : ٢ ] اور منافقین سے معاملات وغیرہ سب شامل ہیں اور سب کا ذکر قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر موجود ہے، مگر ان کو یہاں بطور تمہید ذکر فرما کر اصل تذکرہ حنین کے دن کیے جانے والے انعام کا فرمایا اور اس کی وجہ بھی بیان فرمائی۔ حنین مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے، وہاں فتح مکہ (رمضان ٨ ھ) کے ایک ماہ بعد شوال ٨ ھ میں مسلمانوں کی ہوازن، ثقیف، بنو جشم، بنو سعد اور بعض دوسرے قبائل سے جنگ ہوئی تھی۔ - وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تو ان مہاجرین و انصار کا تھا جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دو ہزار آدمی آپ کے ساتھ اہل مکہ ( طلقاء) میں سے شامل ہوگئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا کل لشکر بارہ ہزار لڑنے والوں پر مشتمل تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں دشمنوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب تھی، اس پر بہت سے مسلمانوں میں عجب (خود پسندی) اور ایک قسم کا غرور پیدا ہوگیا، حتیٰ کہ بعض نے کہا آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ (ابن کثیر) جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وادی حنین کی طرف چلے تو ہم تہامہ کی وادیوں میں سے ایک وادی میں اترے، وادی بڑی وسیع و عریض تھی، اس میں اوپر نیچے ٹیلے اور چھوٹی چھوٹی ڈھلوانی پہاڑیاں تھیں، ہم اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتے اور لڑھکتے جا رہے تھے، ابھی صبح کا اندھیرا تھا، دشمن ہمارے لیے مختلف گھاٹیوں، کناروں اور تنگ گزر گاہوں میں پورے اتفاق اور مقابلے کی تیاری کے ساتھ چھپے بیٹھے تھے۔ اللہ کی قسم ہمیں اترتے اترتے پتا ہی نہ چلا کہ دشمن نے مل کر اس طرح حملہ کیا جیسے ایک آدمی کرتا ہے۔ (دوسری روایات میں ہے کہ وہ زبردست نشانہ باز تھے، انھوں نے تیروں کی بوچھاڑ کردی) لوگ شکست کھا کر واپس پلٹے، وہ بھاگے جاتے تھے اور کوئی کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دائیں طرف ایک جگہ ہوگئے، پھر فرمایا : ” لوگو میری طرف توجہ کرو، میری طرف آؤ، میں رسول اللہ ہوں، میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ “ کہیں سے جواب نہیں آ رہا تھا، اونٹ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے، لوگ ادھر ادھر نکل گئے، سوائے مہاجرین و انصار کے ایک گروہ اور آپ کے خاندان کے لوگوں کے جو زیادہ نہ تھے۔ ابوبکر اور عمر (رض) آپ کے ساتھ ڈٹے رہے، آپ کے خاندان والوں میں سے علی بن ابو طالب، عباس بن عبدالمطلب، ان کے بیٹے فضل، ابو سفیان بن حارث اور ایمن بن عبید جو ام ایمن کے بیٹے تھے اور اسامہ بن زید (رض) ۔ [ أحمد : ٣؍٣٧٦، ح : ١٥٠٢٧، وحسنہ شعیب الأرنؤوط۔ ابن حبان : ٤٧٧٤ ]- عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میری آواز بڑی بلند تھی، اس وجہ سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا : ” اے عباس کیکر ( کے درخت) والوں کو آواز دو ۔ “ چناچہ میں نے بلند آواز سے پکارا کہ کیکر ( تلے بیعت رضوان کرنے) والے کہاں ہیں ؟ اللہ کی قسم ان لوگوں نے جب میری آواز سنی تو وہ ” ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں “ کہتے ہوئے اس طرح دوڑے جس طرح گائے اپنے بچے کی طرف دوڑتی ہے۔ عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنکر پکڑے اور دشمنوں کی طرف پھینکے، اس کے ساتھ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” محمد کے رب کی قسم وہ شکست کھا گئے۔ “ [ مسلم، الجہاد، باب غزوۃ حنین : ١٧٧٥ ] یہ وہ وقت ہے جب مسلمان جم گئے اور فرشتے نازل ہوئے : (وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا) ” اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنھیں تم نے نہیں دیکھا۔ “- وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اللہ تعالیٰ نے کفار کو یہ سزا دی کہ انھیں شکست فاش ہوئی، ان کے بچے اور عورتیں لونڈی و غلام اور ان کے اموال مسلمانوں کی غنیمت بنے، بہت سے بڑے بھی اسیر ہوئے اور دنیا میں کفار کی یہی جزا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - تم کو خدا تعالیٰ نے ( لڑائی کے) بہت موقعوں میں ( کفار پر) غلبہ دیا ( جیسے بدر وغیرہ) اور حنین کے دن بھی ( جس کا قصہ عجیب و غریب ہے تم کو غلبہ دیا) جبکہ ( یہ واقعہ ہوا تھا کہ) تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے غرہ ہوگیا تھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کارآمد نہ ہوئی اور ( کفار کے تیر برسانے سے ایسی پریشانی ہوئی کہ) تم پر زمین باوجود اپنی ( اس) فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر ( آخر) تم) بیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ( کے قلب) پر اور دوسرے مومنین ( کے قلوب) پر اپنی ( طرف سے) تسلی نازل فرمائی، اور ( مدد کے لئے) ایسے لشکر ( آسمان سے) نازل فرمائے جن کو تم نے نہیں دیکھا ( مراد فرشتے ہیں جس کے بعد تم پھر مستعد قتال ہوئے اور غالب آئے) اور ( اللہ تعالیٰ نے) کافروں کو سزا دی ( کہ ان پر ہزیمت اور قتل و قید واقع ہوئی) اور یہ کافروں کی ( دنیا میں) سزا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ( ان کافروں میں سے) جسکو چاہیں توبہ نصیب کردیں (چنانچہ بہت سے مسلمان ہوگئے) اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنیوالے ہیں، (کہ جو شخص ان میں مسلمان ہو اس کے سب پچھلے گناہ معاف کرکے مستحق جنت کا بنادیا ) ۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں غزوہ حنین کے واقعات شکست و فتح کا اور ان کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل اور فوائد کا بیان ہے، جیسا کہ اس سے پہلی سورت میں فتح مکہ اور اس کے متعلقات کا ذکر تھا، شروع آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے اس انعام و احسان کا ذکر فرمایا ہے، جو مسلمانوں پر ہر موقع اور ہر حالت میں مبذول رہا ہے، ارشاد فرمایا :- (آیت) لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی بہت سے مقامات میں “ اور اس تمہید کے بعد خصوصیت کے ساتھ فرمایا وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ” یعنی غزوہ حنین کے دن بھی اللہ تعالیٰ کی مدد پہنچی “- غزوہ حنین کی خصوصیت اس وجہ سے فرمائی ہے کہ اس میں بہت سے واقعات اور حالات خلاف توقع عجیب انداز سے ظاہر ہوئے جن میں غور کرنے سے انسان کے ایمان میں قوت اور عمل میں ہمت پیدا ہوتی ہے، اس لئے آیات مذکورہ کی لفظی تفسیر سے پہلے اس غزوہ کے ضروری واقعات جو حدیث و تاریخ کی مستند کتابوں میں مذکورہ ہیں کسی قدر تفصیل سے بیان کردینا مناسب ہے تاکہ آیات مذکورہ کے سمجھنے میں آسانی ہو اور جن فوائد کے لئے یہ واقعات بیان فرمائے گئے ہیں وہ سامنے آجائیں، ان واقعات کا بیشتر حصہ تفسیر مظہری سے لیا گیا ہے، جس میں بحوالہ کتب حدیث و تاریخ واقعات کا ذکر ہے۔- حنین، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے، جو مکہ مکرمہ سے دس میل سے کچھ زیادہ فاصلہ پر واقع ہے، رمضان ٨ ہجری میں جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور قریش مکہ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، تو عرب کا ایک بہت بڑا مشہور بہادر جنگجو اور مالدار قبیلہ ہوازن جس کی ایک شاخ طائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی تھے، ان میں ہلچل مچ گئی، انہوں نے جمع ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ مکہ فتح ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو کافی قوت حاصل ہوگئی ہے، اس سے فارغ ہونے کے بعد لازمی ہے کہ ان کا رخ ہماری طرف ہوگا، اس لئے دانشمندی کی بات یہ ہے کہ ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہم خود ان پر حملہ کردیں، اس کام کے لئے قبیلہ ہوازن نے اپنی سب شاخوں کو جو مکہ سے طائف تک پھیلی ہوئی تھیں جمع کرلیا، اس قبیلہ کے سب بڑے چھوٹے بجز معدودے چند افراد کے جن کی تعداسو (١٠٠) سے بھی کم تھی، سب ہی جمع ہوگئے۔- اس تحریک کے لیڈر مالک بن عوف تھے جو بعد میں مسلمان ہوگئے اور اسلام کے بڑے علمبردار ثابت نے ان کی رائے سے اتفاق کر کے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں، اس قبیلہ کی چھوٹی چھوٹی دو شاخیں بنو کعب اور بنو کلاب اس رائے سے متفق نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ بصیرت دے دیتھی، انہوں نے کہا کہ اگر مشرق سے مغرب تک ساری دنیا بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جمع ہوجائے گی تو وہ ان سب پر بھی غالب آئیں گے، ہم خدائی طاقت کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتے، باقی سب کے سب نے معاہدے کئے اور مالک بن عوف نے ان سب کو پوری قوت سے جنگ پر قائم رہنے کی ایک تدبیر یہ کی کہ ہر شخص کے تمام اہل و عیال بھی ساتھ چلیں اور اپنا اپنا پورا مال بھی ساتھ لے کر نکلیں، جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ میدان سے بھاگنے لگیں تو بیوی بچوں اور مال کی محبت ان کے پاؤں کی زنجیر بن جائے، میدان سے گریز کا ان کے لئے کوئی موقع نہ رہے ان کی تعداد کے بارے میں اہل تاریخ کے مختلف اقوال ہیں۔ حافظ حدیث علامہ ابن حجر وغیرہ نے راجح اس کو قرار دیا ہے کہ چوبیس یا اٹھائیس ہزار کا مجمع تھا، اور بعض حضرات نے چار ہزار کی تعداد بیان کی ہے، یہ ممکن ہے کہ سب اہل و عیال عورتوں بچوں سمیت تعداد چوبیس یا اٹھائیس ہزار ہو اور لڑنے والے جوان ان میں چار ہزار ہوں۔- بہرحال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ میں ان کے خطرناک عزائم کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کے مقابلہ پر جانے کا عزم فرما لیا، مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اسید کو امیر بنایا، اور حضرت معاذ بن جبل کو ان کے ساتھ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سکھانے کے لئے چھوڑا، اور قریش مکہ سے اسلحہ اور سامان جنگ عاریت کے طور پر مانگا، صفوان بن امیہ جو قریش کا سردار تھا بول اٹھا کہ کیا آپ یہ سامان جنگ ہم سے غصب کرکے لینا چاہتے ہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں بلکہ عاریت کے طور پر لیتے ہیں، جس کی واپسی ہمارے ذمہ ہوگی، یہ سن کر اس نے سو زرہیں مستعار دیں اور نوفل بن حارث نے تین ہزار نیزے اسی طرح پیش کردیئے۔ امام زہری کی روایت کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ ہزار صحابہ کا لشکر لے کر اس جہاد کی طرف متوجہ ہوئے جن میں بارہ ہزار انصار مد ینہ تھے، جو فتح مکہ کے لئے آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار وہ مسلمان تھے جو مکہ اور اطراف مکہ کے لوگوں میں سے بوقت فتح مسلمان ہوگئے تھے جن کو طلقاء کہا جاتا ہے، شوال کی چھٹی تاریخ ہفتہ کے دن آپ اس غزوہ کے لئے نکلے اور فرمایا کہ کل انشاء اللہ ہمارا قیام خیف بنی کنانہ کے اس مقام پر ہوگا جہاں جمع ہو کر قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مقاطعہ کے لئے عہد نامہ لکھا تھا۔- یہ چودہ ہزار مجاہدین کا لشکر تو جہاد کے لئے نکلا ان کے ساتھ مکہ کے بیشمار لوگ مرد و عورت تماشائی بن کر نکلے، جن کے دلوں میں عموماً یہ تھا کہ اگر اس موقع پر مسلمانوں کو شکست ہو تو ہمیں بھی اپنا انتقام لینے کا موقع ملے گا، اور یہ کامیاب ہوں تو بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں۔- اسی قسم کے لوگوں میں ایک شیبہ بن عثمان بھی تھے، جنہوں نے بعد میں مسلمان ہو کر خود اپنا واقعہ بیان کیا کہ غزوہ بدر میں میرا باپ حضرت حمزہ کے ہاتھ سے اور چچا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا جس کا جوش انتقام اور انتہائی غیظ میرے دل میں تھا، میں اس موقع کو غنیمت جان کر مسلمانوں کے ساتھ ہولیا کہ جب کہیں موقع پاؤں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کردوں، میں ان کے ساتھ ہو کر ہر وقت موقع کی تلاش میں رہا، یہاں تک کہ اس جہاد کے ابتدائی وقت میں جب کچھ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے اور وہ بھاگنے لگے تو میں موقع پاکر حضور کے قریب پہو نچا، مگر دیکھا کہ داہنی طرف حضرت عباس آپ کی حفاظت کر رہے ہیں اور بائیں طرف ابو سفیان ابن حارث، اس لئے میں پیچھے کی طرف پہنچ کر ارادہ ہی کررہا تھا کہ یکبارگی تلوار سے آپ پر حملہ کردوں کہ یکایک آپ کی نظر مجھ پر پڑی اور آپ نے مجھے آواز دی کہ شیبہ یہاں آؤ، اپنے قریب بلا کر دست مبارک میرے سینہ پر رکھ دیا، اور دعا کی یا اللہ اس سے شیطان کو دور کردے، اب جو میں نظر اٹھاتا ہوں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے دل میں اپنے آنکھ کان اور جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ کفار کا مقابلہ کرو، اب میرا یہ حال تھا کہ میں اپنی جان آپ پر قربان کر رہا تھا اور بڑی بےجگری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جہاد سے واپس آئے تو میں خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے میرے دل کے تمام خیالات کی نشاندی کردی کہ تم مکہ سے اس نیت پر چلے تھے اور میرے گرد میرے قتل کے لئے گھوم رہے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ تم سے نیک کام لینے کا تھا جو ہو کر رہا۔- اسی طرح کا واقعہ نضر بن حارث کو پیش آیا کہ وہ بھی اسی نیت سے حنین گئے تھے، وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معصومیت اور محبت ڈال دی اور ایک مرد مجاہد بن کر دشمنوں کی صفوں سے ٹکرا گئے۔- اس سفر میں ابو بردہ بن نیار کو یہ واقعہ پیش آیا کہ مقام اوطاس پر پہنچ کر دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے تشریف رکھتے ہیں اور ایک اور شخص آپ کے پاس بیٹھا ہے آپ نے ذکر فرمایا کہ میں سوگیا تھا، یہ شخص آیا اور میری تلوار اپنے قبضہ میں لے کر میرے سر پر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے محمد اب بتلاؤ تمہیں کون میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ بچا سکتا ہے، یہ سن کر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی، ابو بردہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اجازت دیجئے کہ میں اس دشمن خدا کی گردن مار دوں، یہ دشمن قوم کا جاسوس معلوم ہوتا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابو بردہ خاموش رہو اللہ تعالیٰ میری حفاظت کرنے والا ہے جب تک کہ میرا دین سارے دینوں پر غالب نہ آجائے، اور آپ نے اس شخص کو کوئی ملامت بھی نہ فرمائی اور آزاد چھوڑ دیا۔- مقام حنین پر پہنچ کر مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالا تو حضرت سہیل بن حنظلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ خبر لے کر حاضر ہوئے کہ گھوڑے سوار آدمی ابھی دشمن کی طرف سے آیا ہے وہ بتلا رہا ہے کہ قبیلہ ہوازن پورا کا پورا مع اپنے سب سامان کے مقابلہ پر آگیا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر تبسم فرمایا اور کہا کہ پروا نہ کر یہ سارا سامان مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن کر ہاتھ آئے گا۔- اس جگہ ٹھہر کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن حداد کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ دشمن کے حالات کا پتہ چلائیں، وہ ان کی قوم میں جا کردو دن رہے، سب حالات دیکھتے سنتے رہے، ان کے لیڈر اور کمانڈر مالک بن عوف کو دیکھا کہ وہ اپنے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ محمد کو اب تک کسی بہادر تجربہ کار قوم سے سابقہ نہیں پڑا، مکہ کے بھولے بھالے قریشیوں کا مقابلہ کرکے انھیں اپنی طاقت کا زعم ہوگیا، اب ان کو پتہ لگے گا، تم سب لوگ صبح ہوتے ہی اس طرح صف بندی کرو کہ ہر ایک کے پیچھے اس کے بیوی بچے اور مال ہو اور اپنی تلواروں کی میانوں کو توڑ ڈالو اور سب مل کر یکبارگی ہلہ بولو، یہ لوگ جنگ کے بڑے تجربہ کار تھے، اپنی فوج کے چند دستوں کو مختلف گھاٹیوں میں چھپا دیا تھا۔- اس طرح کفار کے لشکر کی یہ تیاریاں تھیں، دوسری طرف مسلمانوں کا یہ پہلا جہاد تھا، جس میں چودہ ہزار سپاہی مقابلہ کے لئے نکلے تھے اور سامان جنگ بھی ہمیشہ سے زیادہ تھا اور یہ لوگ بدر و احد کے میدانوں میں یہ دیکھ چکے تھے کہ صرف تین سو تیرہ بےسامان لوگوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار پر فتح پائی، تو آج اپنی کثرت اور تیاری پر نظر کرکے حاکم اور بزار کی روایت کے مطابق ان میں سے بعض کی زبان سے ایسے کلمات نکل گئے کہ آج تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی سے مغلوب ہوجائیں آج تو مقابلہ کی دیر ہے کہ دشمن فورًا بھاگے گا۔- مالک الملک و الملکوت کو یہی چیز ناپسند تھی کہ اپنی طاقت پر کوئی بھروسہ کیا جائے، چناچہ مسلمانوں کو اس کا سبق اس طرح ملا کہ جب قبیلہ ہوازن نے قرارداد کے مطابق یکبارگی ہلہ بولا اور گھاٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چار طرف سے گھیرا ڈال دیا، گرد و غبار نے دن کو رات بنادیا تو صحابہ کرام کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگنے لگے، صرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر سوار پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ رہے تھے، اور بہت تھوڑے سے صحابہ کرام جن کی تعداد تین سو اور بعض نے ایک سو یا اس سے بھی کم بتلائی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمے رہے، وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ آپ آگے نہ بڑھیں۔- یہ حالت دیکھ کر آپ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ بلند آواز سے صحابہ کو پکارو کہ وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے جہاد کی بیعت کی تھی، اور سورة بقرہ والے حضرات کہاں ہیں، اور وہ انصار کہاں ہیں جنہوں نے جان کی بازی لگانے کا عہد کیا تھا، سب کو چاہئے کہ واپس آئیں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں ہیں۔- حضرت عباس کی ایک آواز بجلی کی طرح دوڑ گئی، اور یکایک سب بھاگنے والوں کو پشیمانی ہوئی، اور بڑی دلیری کے ساتھ لوٹ کر دشمن کا پورا مقابلہ کیا، اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مدد بھیج دی، ان کا کمانڈر مالک بن عوف اپنے اہل و عیال اور سب مال کو چھوڑ کر بھاگا اور طائف کے قلعہ میں جا چھپا، اور پھر باقی پوری قوم بھاگ کھڑی ہوئی، ان کے ستر سردار مارے گئے، بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ بچے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سختی سے منع فرمایا، ان کا سب مال مسلمانوں کے قبضہ میں آیا، چھ ہزار جنگی قیدی چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں چار ہزار اوقیہ چاندی ہاتھ آئی۔- پہلی اور دوسری آیت میں اسی مضمون کا بیان ہے، ارشاد فرمایا کہ جب تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے غرہ ہوگیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کارآمد نہ ہوئی اور زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسلی نازل فرمائی اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور ایسے لشکر فرشتوں کے نازل کردیئے، جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو تمہارے ہاتھ سے سزا دلوا دی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَۃٍ۝ ٠ ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۝ ٠ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ۝ ٢٥ ۚ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - وطن - ( مواطن) جمع موطن اسم مکان لفعل وطن يطن باب ضرب وزنه مفعل بفتح المیم وکسر العین لأنّ عينه في المضارع مکسورة، ووزن مواطن مفاعل .- مواطن - ۔ مواقع جنگ۔ لوگوں کے رہنے کی جگہ۔ موطین واحد وطن مصدر ( باب ضرب) جگہ پکڑنا۔ مقیم ہونا۔ ابطان ( باب افعال) توطین ( تفعیل) استیطان ( استفعال) تینوں ابواب سے بمعنی رہنے کہ جگہ اختیار کرنا۔ توطن ( تفعل) جگہ پکڑلینا۔ کسی چیز پر دل بستہ ہوجانا۔ مواطن۔ ظرف مکان فی حرف جاء کی وجہ سے ن مکسور ہونا چاہئے تھا ۔ لیکن ایسی جمع جو منتہی الجموع کے وزن پر ہو یعنی ایسی جمع جس کے پہلے دو حرف مفتوح اور تیسری جگہ الف ہو جیسے مساجد۔ مصابیح یہ جمع قائم مقام دو سببوں کے ہے۔ لہٰذا مواطن غیر منصرف ہے اور اس وجہ سے ن کے نیچے کسرہ نہیں آیا۔- مواطن کثیرۃ سے مراد یہاں وہ جنگیں ہیں جن میں باوجود دشمن کے مقابلہ میں قلت کی وجہ سے مسلمانوں کو خدا وند تعالیٰ نے فتح و کامرانی سے سرفراز فرمایا۔ مثلاً بدر۔ بنو قریظہ اور بنو نظیر کے خلاف جنگیں۔ حدیبیہ۔ خیبر۔ مکہ وغیرہ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - ( حنین)- ، اسم واد بين مكّة والطائف، وزنه فعیل بضمّ الفاء وفتح العین .- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- رحب - الرُّحْبُ : سعة المکان، ومنه : رَحَبَةُ المسجد، ورَحُبَتِ الدّار : اتّسعت، واستعیر للواسع الجوف، فقیل : رَحْبُ البطن، ولواسع الصدر، كما استعیر الضيّق لضدّه، قال تعالی: ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة 118] ، وفلان رَحِيبُ الفناء : لمن کثرت غاشیته . وقولهم : مَرْحَباً وأهلا، أي : وجدت مکانا رَحْباً. قال تعالی: لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص 59- 60] .- ر ح ب ) الرحب ( اسم ) جگہ کی وسعت کو کہتے ہیں ۔ اسی سے رحبۃ المسجد ہے جس کے معنی مسجد کے کھلے صحن کے ہیں اور رحبت الدار کے معنی گھر کے وسیع ہونے کے ۔ پھر یہ رحب کا لفظ استعارہ پیٹ یا سینہ کی وسعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے رحب البطن ( بسیارخور ) رحب الصدر ( فراخ سینہ ) عالی ظرف کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے برعکس ضیق الصدر کا لفظ مجازا تنگ سینہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ [ التوبة 118] اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ ہوگئی ۔ اور بطور استعارہ جس کے نوکر چاکر بہت زیادہ ہوں اسے رحیب الفناء کہا جاتا ہے ۔ مرحبا واھلا تو نے کشادہ جگہ پائی اور اپنے اہل میں آیا ( یہ لفظ خوش آمدید کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) قرآن میں ہے :َ لا مَرْحَباً بِهِمْ إِنَّهُمْ صالُوا النَّارِ قالُوا بَلْ أَنْتُمْ لا مَرْحَباً بِكُمْ [ ص 59- 60] ان پر خدا کی مار بیشک یہ بھی دوزخ ہی میں آ رہے ہیں ( یہ سن کر وہ کہیں گے ) بلکہ تم پر خدا کی مار ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) قتال کے وقت بہت سے غزوات میں تمہیں غلبہ دیا اور خاص طور پر حنین کے دن بھی جو کہ مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے جب کہ تمہیں اپنی جماعت پر جو کہ دس ہزار تھی جس کی زیادتی پر تمہیں غرور ہوگیا تھا مگر یہ زیادتی شکست سے روک نہ سکی اور خوف سے زمین باوجود کشادہ ہونے کے تنگ ہوگئی اور پھر تم دشمن سے جس کی تعداد چار ہزار تھی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔- شان نزول : (آیت) ” ویوم حنین “۔ (الخ)- امام بیہقی (رح) نے دلائل میں ربیع بن انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حنین کے دن ایک شخص نے کہا کہ ہم کمی سے مغلوب نہیں ہوں گے اور صحابہ کرام (رض) تعداد میں بارہ ہزار تھے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بری لگی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍلا وَّیَوْمَ حُنَیْنٍلا) - جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوچکا ہے ‘ پہلے ‘ چوتھے اور پانچویں رکوع پر مشتمل یہ خطبہ ذوالقعدہ ٩ ہجری میں نازل ہوا تھا ‘ جبکہ اس سے پہلے غزوۂ حنین شوال ٨ ہجری میں وقوع پذیر ہوچکا تھا۔- (اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ ) - معاملہ یوں نہیں تھا کہ لشکر میں شامل تمام مسلمانوں کو اپنی کثرت پر ناز اور فخر محسوس ہو رہا تھا۔ غزوۂ حنین میں مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی ‘ جو اس سے پہلے کبھی کسی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی۔ ان میں سے دس ہزار مسلمان تو وہ تھے جو فتح مکہ کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے ‘ اور دو ہزار لوگ مکہ سے شامل ہوئے تھے۔ مکہ سے شامل ہونے والوں میں اکثر یت ان نو مسلموں کی تھی جو مکہ فتح ہوجانے کے بعد ایمان لائے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں کچھ مشرک بھی ہوں جو اب مسلمانوں کی رعایا ہونے کے باعث معاونین اور خاد مین کی حیثیت سے لشکر میں شامل ہوگئے ہوں۔ مسلمانوں کی یہ لشکر کشی ہوازن اور ثقیف کے قبائل کے خلاف تھی جو طائف اور اس کے ارد گرد کی شاداب وادیوں میں آباد تھے۔ مسلمان اس سے قبل بارہا قلیل تعداد اور معمولی اسلحہ سے کفار کی بڑی بڑی فوجوں کو شکست دے چکے تھے۔ چناچہ بعض مسلمانوں کی زبان سے اپنی کثرت کے زعم میں یہ الفاظ نکل گئے کہ آج مسلمانوں پر کون غالب آسکتا ہے دوسری طرف ہوازن اور ثقیف کے قبائل نے پہلے سے اپنے تیرانداز دستے پہاڑیوں اور گھاٹیوں پر تعینات کر رکھے تھے اور موزوں مقامات پر صف آرائی کرلی تھی۔ یہ لوگ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ مسلمانوں کا لشکر جب وادئ حنین میں پہنچا تو پہاڑیوں پر موجود تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑ کردی۔ لشکر نشیب میں تھا ‘ تیر بلندی سے آ رہے تھے اور دونوں طرف سے آ رہے تھے۔ اس سے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور بارہ ہزار کا لشکر جرار تتر بتر ہوگیا۔ جب ہراول دستے سے لوگ اضطراری کیفیت میں پلٹ کر بھاگے تو ریلے کی صورت میں بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ دھکیلتے چلے گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف ٣٠ یا ٤٠ آدمی رہ گئے تھے۔ علامہ شبلی (رح) نے سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہی لکھا ہے کہ ٣٠ ‘ ٤٠ آدمی رہ گئے تھے ‘ لیکن سید سلیمان ندوی (رح) نے بعد میں اپنے استاد کی رائے پر اختلافی نوٹ لکھا کہ تین سو یا چار سو آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہ گئے تھے۔ لیکن بارہ ہزار کے لشکر میں سے تین یا چار سو آدمیوں کا رہ جانا بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس صورت حال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری سے نیچے اترآئے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علم خود اپنے ہاتھ میں لیا اور بآواز بلند رجز پڑھا : اَنَا النَّبِیُّ لا کَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبکہ میں نبی ہوں اس میں کوئی شک نہیں (یعنی میں یقیناً نبی ہوں ‘ چاہے یہ بارہ ہزار لوگ میرا ساتھ دیں تب بھی ‘ اور اگر کوئی بھی ساتھ نہ دے تب بھی) ۔ اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ‘ یعنی میں عبدالمطلب کا پوتا میدان جنگ میں بنفس نفیس موجود ہوں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو پکارا : اِلَیَّ یَاعِبَاد اللّٰہِ اللہ کے بندو ‘ میری طرف آؤ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریب ہی موجود اپنے چچا حضرت عباس (رض) کو ‘ جن کی آواز کافی بلند تھی ‘ حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکاریں۔ انہوں نے بلند آواز سے پکارا : اصحاب بدر کہاں ہو ؟ اصحاب شجرہ (بیعت رضوان والو) کہاں ہو ؟ اس پر لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پلٹنا شروع ہوئے اور لشکر پھر سے اکٹھا ہوا۔ اس کے بعد ایک بھرپور جنگ لڑنے کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ آیت زیر نظر کا اشارہ اس پورے واقعہ کی طرف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :23 جو لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اعلان براءت کی خطرناک پالیسی پر عمل کرنے سے تمام عرب کے گوشے گوشے میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھے گے اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا ، ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان اندیشوں سے کیوں ڈرے جاتے ہو ، جو خدا اس سے بہت زیادہ سخت خطرات کے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے وہ اب بھی تمہاری مدد کو موجود ہے ۔ اگر یہ کام تمہاری قوت پر منحصر ہوتا تو مکہ ہی سے آگے نہ بڑھتا ، ورنہ بدر میں تو ضرور ہی ختم ہو جاتا ۔ مگر اس کی پشت پر تو اللہ کی طاقت ہے اور پچھلے تجربات تم پر ثابت کر چکے ہیں کہ اللہ ہی کی طاقت اب تک اس کو فروغ دیتی رہی ہے ۔ لہٰذا یقین رکھو کہ آج بھی وہی اسے فروغ دے گا ۔ غزوہ حُنین جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے شوال سن ۸ ھجری میں ان آیات کے نزول سے صرف بارہ تیرہ مہینے پہلے مکے اور طائف کے درمیان وادی حنین میں پیش آیا تھا ۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ۱۲ ہزار فوج تھی جو اس سے پہلے کبھی کسی اسلامی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف کفار ان سے بہت کم تھے ۔ لیکن اس کے باوجود قبیلہ ہوازن کے تیر اندازوں نے ان کا منہ پھیر دیا اور لشکر اسلامی بری طرح تتر بتر ہو کر پسپا ہوا ۔ اس وقت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور چند مٹھی بھر جانباز صحابہ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور انہی کی ثابت قدمی کو نتیجہ تھا کہ دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہو سکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی ۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: حنین کی جنگ کا واقعہ مختصرا یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ مکرَّمہ فتح کرلیا تو اآپ کو یہ اطلاع ملی کہ عرب کا ایک مشہور قبیلہ بنو ہوازن اپنے سردار مالک بن عوف کی سر کردگی میں آپ پر حملہ کرنے کے لئے ایک بڑا لشکر جمع کر رہا ہے۔ ہوازن ایک بڑا قبیلہ تھا جس کی کئی شاخیں تھیں، اور طائف کا قبیلہ ثقیف بھی اسی کا ایک حصہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جاسوس بھیج کر خبر کی تصدیق فرمائی، اور معلوم ہوا کہ خبر صحیح ہے، اور وہ لوگ بڑے جوش و خروش سے تیاری میں مصروف ہیں۔ ہوازن کے لوگوں کی تعداد حافظ ابن حجر رحمۃ اﷲ علیہ کے بیان کے مطابق چوبیس ہزار سے اٹھائیس ہزار تک تھی، چنانچہ آپ چودہ ہزار صحابۂ کرامؓ پر مشتمل ایک لشکر لے کر روانہ ہوئے، اور یہ جنگ حنین کے مقام پر لڑی گئی، جو مکہ مکرَّمہ اور طائف کے درمیان مکہ مکرَّمہ سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ایک دادی کا نام ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی تعداد اس موقع پر چودہ ہزار تھی، جبکہ اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد کسی باقاعدہ جنگ میں نہیں ہوئی تھی، اور ہمیشہ مسلمان اپنی کم تعداد کے باوجود فتح پاتے آئے تھے، اس لئے بعض مسلمانوں کے منہ سے یہ نکل گیا کہ آج تو ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم کسی سے مغلوب ہو ہی نہیں سکتے۔ اﷲ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں اآئی کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ کے بجائے اپنی تعداد پر اتنا بھروسہ کریں۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ جس وقت مسلمان ایک تنگ گھاٹی سے گذر رہے تھے، ہوازن کے تیر اندازوں نے اچانک ان پر اس زور کا حملہ کیا کہ بہت سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس موقع پر حضرت رسول کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنے چند جانباز صحابہ کے ساتھ ثابت قدم رہے، اور اآپ نے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے ہٹنے والوں کو آواز دے کر بلائیں۔ حضرت عباس رضی اﷲ عنہکی آواز بہت تیز تھی، وہ ایک بجلی کی طرح مسلمانوں کے لشکر میں پھیل گئی، اور جو لوگ میدان چھوڑ چکے تھے، وہ نئے ولولے کے ساتھ واپس اآئے اور کچھ ہی دیر میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ ہوازن کے ستر سردار مارے گئے، مالک بن عورف اپنے اہل وعیال اور مال و دولت کو چھوڑ کر فرار ہوا، اور طائف کے قلعے میں جا کر پناہ لی۔ چھ ہزار افراد جنگی قیدی بنائے گئے اور بڑی تعداد میں مویشی اور چار ہزار اوقیہ چاندی مالِ غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔