Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احترام آدمیت کا منشور مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں ۔ تین پے درپے ذوالقعدہ ذوالحجہ ، محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے ۔ آپ نے سکوت فرمایا ہم سمجھے کہ شاید آپ اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا ہاں پھر پوچھا یہ کونسا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا اللہ جانے اور اس کا رسول آپ نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاہد آپ اس مہینے کا نام کوئی اور رکھیں گے آپ نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا ہاں ۔ پھر آپ نے پوچھا یہ کونسا شہر ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جاننے والے ہیں؟ آپ پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ کو اس کا کوئی اور ہی نام رکھنا ہے پھر فرمایا یہ بلدہ ( مکہ ) نہیں ہے؟ ہم نے کہا بیشک ۔ آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں ، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتاؤ کیا میں نے تبلیغ کر دی؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں ۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں منیٰ میں حجتہ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے ۔ ابو حرہ رقاشی کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا ۔ آپ کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہو گئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے ۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ شہر ابتداء مخلوق سے باحرمت و باعزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا پس عربوں میں جو رواج پڑ گیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا ۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے ( اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ ۭ زُيِّنَ لَهُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِهِمْ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 37؀ۧ ) 9- التوبہ:37 ) کی تقسیر میں اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن ۔ ٭ فصل ٭ شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشہور فی اسماء الایام و المشہور میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لئے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے ۔ اس کی جمع محرمات حارم محاریم ۔ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے ۔ جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے ہیں صفر المکان اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے ۔ ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہو جاتی ہے ارتباع کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع اربعا ہے جیسے نصیب کی جمع انصبا اور جمع اس کی اربعہ ہے جیسے رغیف کی جمع ارغفہ ہے ۔ ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے ۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے ۔ جمادی الاولی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ جچتی نہیں اسلئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو ۔ چنانچہ ایک شاعر نے یہی کہا ہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے اس کی جمع جمادیات ہے ۔ جیسے حباری حباریات ۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے ۔ جمادی الاول اور جمادی الاخر بھی کہا جاتا ہے ۔ جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے ۔ رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے ، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لئے اسے رجب کہتے ہیں اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے ۔ شعبان کا نام شعبان اس لئے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لئے ادھر ادھر متفرق ہو جاتے تھے ۔ شعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا اس کی جمع شعابین شعبانات آتی ہے ۔ رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں رمضت الفصال اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں اس کی جمع رمضانات اور رماضین اور رامضہ آتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے ۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے لیکن وہ ضعیف ہے ۔ میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کر دیا ہے ۔ شوال ماخوذ ہے شالت الابل سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لئے اس مہینہ کا یہی نام ہو گیا اس کی جمع شواویل شواول شوالات آتی ہے ۔ ذوالقعدہ یا ذوالقعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لئے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لئے ۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے ۔ ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لئے اس کا یہ نام مقرر ہو گیا ہے ۔ اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے ۔ یہ تو ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ تھی ۔ اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے ۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع احاد اوحاد اور وحود آتی ہے ۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے ۔ منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثات اور اثالث آتی ہے ۔ بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے ۔ جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اخمسہ اخامس آتی ہے ۔ جمعہ کو جمعہ اور جمعہ اور جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع جمع اور جماعات آتی ہے ۔ سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ ہفتے کی دنوں کی گنتی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے اس لئے اسے سبت کہتے یں ۔ قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول ، رھون ، جبار ، دبار ، مونت ، عروبہ ، شبار ۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار کے عربوں میں دنوں کے نام پائے جاتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں ۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا ۔ جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان میں ہے ۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب شعبان اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا ۔ ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے درپے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت لڑائیاں مار پیٹ جنگ و جدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام حج کی ادائیگی امن و امان عمدگی اور شان سے ہو جائے پھر وہ ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے درمیانہ سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کرلیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آ مد و رفت کریں یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے ۔ پس اللہ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو ۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو ۔ اس لئے کہا اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے ۔ فرمان ربانی ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے درد ناک عذاب دیں گے اسی طرح سے ان محترم مہینوں میں کیا ہوا گناہ اور دنوں میں کئے ہوئے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے ۔ اسی لئے حضرت امام شافعی اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے اسی طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی دیت سخت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فیھن سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں ۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لئے اسیطرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان شریف کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے ۔ امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتائی ہے ۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کر لو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی ۔ پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں ۔ حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کا ذکر فرمایا ۔ ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں آگئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گذر جانے کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ہوازن قبیلے کی طرف ماہ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے افراد بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے پس ثابت ہے کہ آپ نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہیہ کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور فرمان ہے ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 9- التوبہ:5 ) حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو ۔ یہ پہلے بیان گذر چکا ہے کہ یہ ہر سال میں چار مہینے ہیں ۔ نہ کہ تیسرے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے ۔ پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے کہ وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لئے وہ مڈ بھیڑ آپس میں مل کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو ۔ جیسے ( اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٩٤؁ ) 2- البقرة:194 ) میں ہے اور جیسے ) وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ ١٩١؁ ) 2- البقرة:191 ) میں بیان ہے کہ ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو ۔ یہی جواب حرمت والے مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل ہوازن اور ثقیف کے ساتھ جنگ کا یہ لڑائی تتمہ تھی انہوں نے ہی جنگ کی ابتداء کی تھی ادھر ادھر سے آپ کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں جا چھپے اور وہاں قلعہ بند ہوگئے آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لئے اور آگے بڑھے انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا یا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا ادھر محاصرہ جاری رہا منجنیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں ہوئی تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آ گیا جب چند دن گذر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتدء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں واللہ اعلم ۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں وارد کرتے ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کر چکے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الٰہی ہے۔ یعنی ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اسی بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے بیان فرمایا ہے کہ زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ (صحیح بخاری) زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب، مشرکین عرب مہینوں میں جو تاخیر و تقدیم کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس کا خاتمہ ہے۔ 36۔ 2 یعنی ان مہینوں کا اسی ترتیب سے ہونا جو اللہ نے رکھی ہے اور جن میں چار حرمت والے ہیں۔ اور یہی حساب صحیح اور عدد مکمل ہے۔ 36۔ 3 یعنی حرمت والے مہینوں میں قتال کر کے ان کی حرمت پامال کر کے اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے۔ 36۔ 4 لیکن حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد الا یہ کہ وہ لڑنے پر مجبور کردیں، پھر حرمت والے مہینوں میں بھی تمہارے لئے لڑنا جائز ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] حرمت کے مہینوں میں تقدیم و تاخیر حرمت کے مہینے عرب کا رواج ہے جسے اسلام نے بحال رکھا :۔ جس طرح اہل کتاب اپنی اغراض اور دینی مفاد کی خاطر احکام الٰہی میں ہیرا پھیری کرلیتے تھے اسی طرح عرب کے مشرکین بھی کرلیا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے یہاں ان کا ذکر آ رہا ہے۔ مشرکین عرب کے نزدیک چار ماہ حرمت والے تھے۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عمرہ کے لیے۔ ان مہینوں میں لوٹ مار اور جدال و قتال حرام تھا اور اس دوران لوگ آزادی کے ساتھ سفر اور تجارت وغیرہ کرسکتے تھے۔ اگرچہ لوٹ مار اور لڑائی جھگڑا ہر وقت ہی ایک گناہ کا کام تھا تاہم ان مہینوں میں اسے شدید تر گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن مشرک اپنی اغراض کی خاطر ان مہینوں میں ادل بدل کر کے سال میں چار حرمت والے مہینوں کی تعداد پوری کرلیتے تھے۔ مثلاً کوئی زور آور قبیلہ جب محرم میں اپنے کسی کمزور دشمن قبیلے سے انتقام لینایا جنگ چھیڑنا چاہتا تو وہ یہ اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کے بجائے صفر حرمت والا مہینہ قرار دیا جاتا ہے۔ چناچہ اس طرح وہ اپنی من مانی اغراض پوری کرلیتا اور اگلے سال پھر اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کا مہینہ ہی حرمت والا مہینہ شمار ہوگا۔ اور اس غرض کے لیے رد و بدل عموماً محرم اور صفر کے متعلق ہی ہوا کرتا تھا۔ اور ایسا اعلان کرنے والا شخص بنو کنانہ کا ایک سردار تلمس تھا۔ اس طرح یہ لوگ مہینوں کی حلت و حرمت کے خود بخود ہی مختار بن بیٹھے تھے۔- قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے :۔ دوسری بات جو اس آیت میں بتلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی پیمائش کا قدرتی طریقہ قمری تقویم ہے شمسی نہیں۔ ایک ماہ کی مدت ایک ہلال کی رؤیت سے لے کر اگلے ہلال کی رؤیت تک ہے اور یہ مدت کبھی تیس دن ہوتی ہے اور کبھی انتیس۔ نہ ٢٩ دن سے کم ہوسکتی ہے اور نہ ٣٠ دن سے زیادہ۔ ایسے جب بارہ ماہ گزر جائیں تو یہ ایک سال کی مدت ہے جو کبھی ٣٥٤ دن کا ہوتا ہے کبھی ٣٥٥ دن کا۔ نہ اس سے کم نہ زیادہ۔ کیونکہ بارہ مہینے گزرنے پر تقریباً ویسا ہی موسم آجاتا ہے جیسا کہ ایک سال پہلے تھا۔- خ قمری تقویم کی حکمت :۔ جن شرعی احکام میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا تعلق ہو تو اس میں قمری ماہ ہی شمار ہوں گے جیسے عدت و رضاعت کے احکام۔ نیز روزہ اور حج وعمرہ کا تعلق بھی قمری مہینوں سے ہے اور عیدین کا بھی۔ قمری سال شمسی سال سے تقریباً دس دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اور موسموں اور فصلوں کے پکنے کا تعلق سورج اور موسم سے ہوتا ہے چاند سے نہیں ہوتا۔- شرعی احکام کی بجاآوری کے لیے قمری تقویم کو بنیاد بنانے کی حکمت یہ ہے کہ مثلاً حج کے سفر کے لیے مسلمان ہر موسم کی صعوبتیں برداشت کرنے کے خوگر ہوجائیں۔ نیز رمضان کا مہینہ کسی خاص ملک میں ایک ہی موسم میں نہ آیا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ملک میں تو روزے ہمیشہ سرد موسم میں اور چھوٹے دنوں کے آیا کریں اور دوسرے ملک میں گرم موسم اور بڑے دنوں کے آیا کریں۔- [٣٨] جہاد قیامت تک جاری رہے گی :۔ آیت کے اس جملہ میں مسلمانوں کو دو قسم کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء تمہاری طرف سے ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مشرک لڑائی چھیڑ ہی دیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ دوسری یہ کہ جس طرح مشرکوں کے سب قبائل اپنی باہمی رنجشیں چھوڑ کر تمہارے مقابلہ میں متحد ہوجاتے ہیں اسی طرح تمہیں بھی ان کے مقابلہ میں اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے نیز کَآفَۃً کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمہیں ہر حال میں مشرکوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جس سے ضمناً یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر اور مشرکین سے جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے۔- اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات جن میں جہاد کی ترغیب دی گئی ہے مخالفین اسلام نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس اعتراض کے کئی بار کافی و شافی جواب بھی دیئے جا چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اعتراض نہ نقلی اعتبار سے درست ہے نہ عقلی اعتبار سے اور نہ تاریخی اعتبار سے ذیل میں ہم انہی باتوں کا مختصر سا جائزہ پیش کر رہے ہیں :۔ نقلی اعتبار سے یہ اعتراض درج ذیل آیات کی رو سے غلط ہے۔- ١۔ ( لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٢٥٦۔ ) 2 ۔ البقرة :256) دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں۔- ٢۔ ( وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 99؀) 10 ۔ یونس :99) کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے ؟- ٣۔ ( وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا للظّٰلِمِيْنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۭ وَاِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوْهَ ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا 29؀) 18 ۔ الكهف :29) جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔- ایسی واضح آیات کی موجودگی میں کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ یا آپ کے صحابہ کرام (رض) نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہوگی اور کسی شخص کو تلوار دکھا کر یا کسی دباؤ کے ذریعہ اسلام لانے پر مجبور کیا ہوگا ؟ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دو تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو ۔ غور فرمائیے کہ دباؤ کا اس سے بہتر بھی کوئی موقع ہوسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو کہ وہ اسلام لائے یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دو بلکہ یوں فرمایا کہ اسے اللہ کا کلام سنانے کے بعد اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ پھر اگر وہ اسلام لانے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس کے محفوظ علاقہ تک پہنچانا بھی پناہ دینے والے کے ذمہ ڈال دیا گیا۔- کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ؟ سیدنا عمر جس شان و شوکت اور رعب و دبدبہ والے خلیفہ تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کا ایک غلام اسبق نامی عیسائی تھا۔ وہ چونکہ سمجھدار اور ہوشیار آدمی تھا لہذا سیدنا عمر نے اسے کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ اسے کوئی اچھا منصب دینا چاہتے تھے۔ لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکار کردیتا اور آپ لاَاِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ کہہ کر چپ ہوجاتے (الجہاد فی الاسلام ص ١٦٣) گویا تلوار یا دباؤ کے ذریعہ تو سیدنا عمر اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے پھر یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ وسیع و عریض مفتوحہ علاقہ میں انہوں نے مفتوحین کو تلوار کے ذریعہ مسلمان بنا لیا ہوگا ؟ اور عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لیے غلط ہے کہ تلوار کے ذریعہ کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جاسکتی اور کوئی شخص وقتی طور پر دباؤ کے تحت کوئی بات مان بھی جائے تو اس بات پر قائم و دائم نہیں رکھا جاسکتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ دل و جان سے اسلام کے اس طرح فدائی و شیدائی بن گئے کہ کفار کے ظلم اور مصائب برداشت کرتے رہنے کے باوجود اس دین سے باز نہیں آتے تھے اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تلوار یا دباؤ سے بات منوائی نہیں جاسکتی۔ کیونکہ اس وقت تلوار یا دباؤ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھا اور آج بھی اگر کوئی شخص یا کوئی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ دین کو تلوار کے ذریعے پھیلانا ممکن ہے تو اپنا دین پھیلا کر دکھا دے۔- اور تاریخی لحاظ سے یہ اس لیے غلط ہے کہ اگر اس نظریہ کو تسلیم کرلیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں ابھر آتے ہیں۔- ١۔ ابتداً جو لوگ مسلمان ہوئے اور ١٣ سال تک مکہ میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے، انہیں کونسی تلوار نے مسلمان بنایا تھا ؟- ٢۔ مکہ میں مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے لیکن مدینہ میں دشمنوں کی تعداد ایک سے چار ہوگئی تھی۔ قریش مکہ۔ یہود مدینہ۔ منافقین اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور مسلمان ان کے مقابلہ میں انتہائی کمزور تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ بدر میں شامل ہونے والوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی جبکہ ایک سال بعد جنگ احد میں خالص مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی یعنی دگنی سے بھی زیادہ۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار تھی کہ اسلام اس تیزی سے بڑھنے لگا تھا ؟- ٣۔ مزید دو سال بعد جنگ خندق میں لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد تین ہزار یعنی چار گنا سے زیادہ ہوگئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار یا قوت تھی جو لوگوں کو مسلمان بنائے جا رہی تھی ؟- ٤۔ صلح حدیبیہ میں کونسی تلوار چلائی گئی تھی جس کے نتیجہ میں لوگ دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے ؟- ٥۔ فتح مکہ میں تلوار تو چلائی ہی نہیں گئی تاہم فتح کے بعد جب لوگوں کو عام معافی مل گئی تھی تو انہیں اسلام لانے پر کونسی تلوار نے مجبور کیا تھا ؟- ٦۔ یہود سے جو جنگیں ہوئیں تو ان کے نتیجہ میں کوئی یہودی مسلمان بنا تھا ؟- ٧۔ محاصرہ طائف میں محاصرہ اٹھا لینے کے بعد اہل طائف کو کونسی مجبوری پیش آگئی تھی کہ وہ از خود اسلام لے آئے تھے ؟- خ اشاعت اسلام کے اصل اسباب :۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلنے کا نظریہ غلط ہے لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ اسلام واقعی نہایت کثرت سے پھیلا تھا۔ لہذا ہمیں وہ اسباب تلاش کرنے چاہئیں جو اس کثرت اشاعت کا سبب بنے۔ ہمارے خیال میں یہ اسلام کی ذاتی خصوصیات ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔- ١۔ کثرت اشاعت اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب معاشرتی مساوات ہے یعنی جب کوئی شخص یا قوم اسلام لاتی ہے تو اسے سابقہ مسلمانوں جیسا معاشرتی درجہ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے اور سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کی مثالیں قرون اولیٰ میں بیشمار ہیں مگر ہم طوالت سے بچنے کی خاطر اپنے ہی ملک کی ایک دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں :۔- ا۔ الف ٤ جولائی ١٩٨١ ء کے نوائے وقت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جنوبی بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آ کر ١٣٠٠ ہریجنوں نے اسلام قبول کرلیا۔ غور فرمائیے کہ اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن بھی ہندو ہیں اور نیچی ذات کے ہریجن بھی ہندو ہی ہیں لیکن محض معاشرتی تفاوت کی بنا پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ آخر انہیں کونسی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا ؟ پھر دوسرے دن یعنی ٥ جولائی کو اسی نوائے وقت میں ہندوستان کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی طرف سے یہ خبر شائع ہوئی کہ مجھے تکلیف ان لوگوں کی اسلام لانے پر نہیں بلکہ اسباب پر ہے۔ - اور یہ اسباب جن پر وزیراعظم صاحبہ کو تکلیف ہوئی وہ ان کے مذہب کا جزولاینفک ہیں۔ ہندومت، برہمن کو تو بالاتر مخلوق سمجھتا ہے اور شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ شودر برہم کا پیدائشی غلام ہے اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت اس کی گردن سے اتر نہیں سکتا۔ انہی اسباب کو اسلام نے ختم کیا اور انہی اسباب کے خاتمہ کی و جہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔- اب یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان برہمنوں نے ہندومذہب کی اس انسانیت کش ذات پات کی تقسیم سے تنگ آکر آخراسلام ہی کیوں قبول کیا کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کرلیا اس بات کا جواب آپ کو درج ذیل واقعہ سے مل جائے گا۔- ب۔ ٣١ جولائی ١٩٨١ ء نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی کہ پانڈی چری میں ڈیڑھ ہزار ہریجن مسلمان ہوگئے اور ٣٠ جولائی یعنی ایک دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی کرشنا مورتی نے اسلام لانے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے ان کی سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی لیکن اسلام لانے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں۔۔ واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع منبا کشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور پر مذہب اسلام قبول کرلیا ہے۔ (نوائے وقت حوالہ مذکورہ صفحہ ٥)- تہذیب ومعاشرت کی مساوات :۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کے جمہوری اور مہذب ترین ممالک میں گورے اور کالے کے جھگڑے اور امیر اور غریب کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ عیسائیوں کے ہاں امراء کے گرجے ہی الگ ہوتے ہیں اور بعض گرجوں میں امراء کے لیے کرسیاں اور غریبوں کو فرش پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ لیکن اسلام ہر طرح کے امتیازات کو ختم کر کے سب کو ایک صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہاں بلال (رض) حبشی جیسے پست قد، کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے آزاد شدہ غلام کو رسول اللہ فرمایا کرتے کہ اَرِحْنا یا بلال اور سیدنا عمر (رض) جیسے رعب و دبدبہ والے خلیفہ آپ کو سیدنا بلال کہہ کر پکارا کرتے تھے اور یہ خوبی غالباً اسلام کے علاوہ دوسرے کسی دین میں نہیں پائی جاتی۔- دوسرا سبب قانونی مساوات :۔ اشاعت اسلام کا دوسرا سبب قانونی مساوات ہے۔ قانونی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز سے ممتاز فرد حتیٰ کہ امیر یا صدر یا بادشاہ بھی قانون کی دسترس سے بالاتر نہیں ہوتا اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اسلامی ریاست کے علاوہ کہیں پایا جانا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی ریاست کا اقتدار اعلیٰ خود اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ کوئی ایک فرد یا ادارہ یا پارلیمنٹ نہیں ہوتی۔ باقی سب لوگ اللہ کے ایک جیسے محکوم اور اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں۔ اور جمہوریت کا دعوی کرنے والے ممالک حتی کہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ صدر مملکت وزیراعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ پر نہ تو کوئی فوجداری مقدمہ دائر ہوسکتا ہے اور نہ انہیں عدالت کسی فوجداری مقدمہ میں ملوث قرار دے سکتی ہے اور ملک کی کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی انہیں طلب نہیں کرسکتی۔ جب کہ اسلامی ریاست کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ خود رسول اللہ نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کردیا کہ جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے پھر جب آپ کے قبیلہ قریش کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ سے حد موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ نے فرمایا پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتا تو اس کی سزا موقوف کردی جاتی۔ یہ تو فاطمہ مخزومی کی بات ہے اللہ کی قسم اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب اقامہ الحدود )- پھر آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے ایسا نظام عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلاتاخیر انصاف حاصل ہوتا تھا۔ خلافت راشدہ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر مقدمہ کا فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا۔- دور فاروقی میں شام کے گورنر سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے سیدنا معاذ بن جبل کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ شنہشاہ کا دربار اور اس کی شان و شوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا :۔- تم لوگوں کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جسے اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اسے درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا اور مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔ (الفاروق ص ١٢٥)- سیدنا علی کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہوگئی جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو سیدنا علی (رض) نے یہ نہیں کیا کہ اس یہودی سے اپنی زرہ چھین کر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیتے بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس پر دعویٰ دائر کردیا اور اپنے بیٹے حسن اور غلام کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کردیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں قبول نہیں اور عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوتے حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں۔ عدل کی یہ صورت دیکھ کر اس یہودی نے زرہ بھی واپس کردی اور خود بھی مسلمان ہوگیا۔- غور فرمائیے کہ اس یہودی کو اسلام لانے پر کس نے مجبور کیا تھا اور کیا وہ اکیلا ہی مسلمان ہوا ہوگا یا اس کا خاندان اور قبیلہ بھی۔ ایسے واقعات دراصل انفرادی نتائج کے حامل نہیں ہوتے بلکہ ایک جہان کے افکار و نظریات میں تلاطم بپا کردیتے ہیں۔- اشاعت اسلام کی تیسری وجہ مسلمانوں کے اپنے کردار کی پاکیزگی ہے۔ صدر اول کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ ان کا اپنا عمل اور کردار تھا۔ ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے پاک تھی حتیٰ کہ دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ چناچہ حمص اور دمشق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ عیسائی انطاکیہ پہنچے اور ہرقل شہنشاہ روم سے فریاد کی کہ اہل عرب نے تو تمام شام کو پامال کردیا۔ ہرقل نے ان میں سے چند تجربہ کار اور معزز آدمیوں کو دربار میں بلا کر پوچھا کہ عرب تم سے نہ جمعیت میں زیادہ ہیں نہ سر و سامان اور قوت میں۔ پھر تم ان کے مقابلہ میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے ؟ اس سوال پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا البتہ ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ :- تیسرا سبب کردار کی پاکیزگی :۔ بات یہ ہے کہ اہل عرب کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں وہ رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ برابری سے ملتے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بدکاریاں کرتے ہیں۔ عہد کی پابندی نہیں اور دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو بھی کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے۔ (الفاروق ص ١٨٩)- محمد بن قاسم سندھ اور ملتان کے علاقہ میں تھوڑی ہی مدت رہا۔ وہ عظیم جرنیل ہونے کے علاوہ صفات جہاں بانی سے بھی مالا مال تھا، رعایا، حکومت اور سندھی بت پرستوں سے مذہبی رواداری نے سندھیوں کے دلوں کو کچھ اس طرح موہ لیا تھا کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس گیا تو سندھی اس کی تصویریں بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے وہ اسے رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے۔ پھر جب انہیں محمد بن قاسم کی دردناک موت کا حال معلوم ہوا تو سارے ملک نے سوگ منایا۔ (تاریخ اسلام۔ حمید الدین ص ٣٠٨)- یہ سندھی لوگ مسلمان نہیں تھے۔ پھر آخر وہ کیا چیز تھی جس نے انہیں محمد بن قاسم کا اتنا گرویدہ بنادیا تھا۔ محمد بن قاسم نے بھی انہیں مسلمان بنانے کی ہرگز کوشش نہیں کی تھی لیکن ان باتوں کے باوجود وہ ازخود اسلام کے قریب تر آ رہے تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان بھی ہوگئے تھے۔ کیا یہ بھی تلوار کا کرشمہ تھا ؟- خ چوتھا سبب معاملات کی صفائی :۔ اشاعت اسلام کا چوتھا سبب مسلمانوں کے معاملات کی صفائی ہے۔ اسلام میں اکل حلال کو بہت اہمیت حاصل ہے وہ جائز و ناجائز مال کی بڑی تفصیل سے وضاحت کرتا اور ناجائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو حرام قرار دیتا ہے۔ لین دین اور معاملات کی صفائی ایسے حالات میں ایک امتحان بن جاتی ہے جب کسی محنت یا حق کا معاوضہ تو پیشگی لیا جا چکا ہو اور اس حق یا محنت کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اختیار بھی کلیتاً معاوضہ وصول کرنے والے کے ہاتھ میں ہو۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص یا ادارہ جائز و ناجائز یا حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے تو وہ فی الواقع قابل تعریف ہے اور دوسرے لوگ اس کے کردار کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں کچھ جنگی مصلحتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو حمص سے واپس دمشق جانا پڑا۔ مسلمانوں کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اہالیان حمص سے جزیہ وصول کرچکے تھے اور ان کی دفاعی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرچکے تھے۔ آپ نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا۔ ہمیں جو تعلق تمہارے ساتھ تھا وہ اب بھی ہے مگر چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے لہذا تمہار اجزیہ جو اس خدمت کا معاوضہ تھا تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔ چناچہ آپ نے کئی لاکھ وصول شدہ رقم و اپس کردی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے خدا تمہیں واپس لائے اور یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا، تورات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا، یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کردیئے گئے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ (الفاروق ص ١٩١)- خ پانچواں سبب عفو و درگزر :۔ اشاعت اسلام کا پانچواں سبب عفو و درگزر ہے۔ جب کسی جانی دشمن پر پوری طرح قابو پا لیا جائے اس وقت اس کے جرائم سے چشم پوشی کر کے اسے معاف کردینا بڑے دل گردہ کا کام ہے۔ فتح مکہ ہی ایسی جنگ ہے جس میں دشمن پر پوری طرح تسلط حاصل ہوا۔ اگر اس وقت آپ ان سے بھرپور بدلہ لے لیتے تب بھی ان کی طرف سے کسی انتظامی کاروائی کا اسلام کو خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا تھا اور یہی لوگ اسلام کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے جانی دشمن تھے۔ اس کے باوجود آپ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام اس تیزی اور کثرت سے پھیلا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔- صلح حدیبیہ کے دوران ابتداً ٢٠٠ نوجوان مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے مگر شکست کھا کر گرفتار ہوگئے آپ نے ان سب کو خیر سگالی کے طور پر چھوڑ دیا اور چونکہ اس وقت آپ عمرہ کی نیت سے آئے تھے لہذا بیعت رضوان مکمل ہونے کے باوجود آپ نے توہین آمیز شرائط پر صلح کر کے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان فطرتاً جنگجو نہیں بلکہ صلح پسند ہیں۔ اس صلح کے بعد بھی اسلام کی خوب اشاعت ہوئی اور اس میں تلوار یا جبر کو کچھ عمل دخل نہ تھا بلکہ بظاہر مسلمانوں کی خفت تھی۔ لیکن نتیجہ اشاعت اسلام کی صورت میں سامنے آیا۔- قول فیصل :۔ یہ اور اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جو اشاعت اسلام کا سبب بنیں۔ لیکن بایں ہمہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کو بھی ایک گونہ تعلق ضرور ہے خواہ یہ دسواں حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ معاندین اسلام اپنا سارا زور اس بات پر صرف کردیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ یہ لوگ بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسرا گروہ یعنی مسلمان اپنا سارا زور اس الزام کی مدافعت میں صرف کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت محض اس کی خوبیوں کی بنا پر ہوئی۔ ہمارے خیال میں یہ گروہ بھی دوسری انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ مانا کہ اسلام میں یہ خوبیاں موجود ہیں لیکن ان خوبیوں کو آشکار کرنے اور حق کو بروئے کار لانے کے لیے بھی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ قوت اسلام کو تلوار کے ذریعہ مہیا ہوئی۔ اگر اشاعت اسلام میں تلوار کا کچھ بھی حصہ نہ تھا تو جہاد کی ترغیب کیوں دی گئی ؟ اور کیا مکہ میں رہ کر اسلام بار آور نہ ہوسکتا تھا ؟- اشاعت اسلام میں تلوار کا حصہ :۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے دو حصے ہیں (١) امر بالمعروف (٢) نہی عن المنکر امر بالمعروف کو ماننا یا نہ ماننا مخاطب کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ایک شخص اگر کسی دوسرے کو عقیدہ توحید یا آخرت یا اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے اور وہ قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے تو اس پر نہ جبر کیا جاسکتا ہے اور نہ تلوار سے ڈرایا یا دھمکایا جاسکتا ہے اور جہاں تک نہی عن المنکر کا تعلق ہے تو یہ فریضہ قوت یا تلوار کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ اسلام محض عقائد و نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید قانون ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور اس قانون کے نفاذ کے لیے قوت چاہتا ہے۔ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو۔ زنا، چوری، ڈاکہ، قتل و غارت کی وارداتیں ہو رہی ہو۔ لوگوں کا امن و چین غارت ہو رہا ہو تو اسلام کا قانون حرکت میں آئے گا اور تلوار ہاتھ میں لے کر اس کی اصلاح کرے گا۔ خواہ یہ علاقہ مشرکین کا یا اہل کتاب کا اور خواہ اس میں مسلمان بھی رہتے ہوں۔- مکی زندگی میں رسول اللہ کے پاس قوت نہیں تھی لہذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں طرح کے کام زبانی تبلیغ سے سر انجام دیئے جاتے رہے۔ قرآن جیسا معجزانہ کلام، آپ کا سا بلند کردار، آپ کے جانثاروں کی قربانیاں، آپ کا تبلیغ میں اپنی جان تک کھپا دینا اور بہترین طریق تبلیغ، ان سب طرح کی کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہوسکا کہ قریش مکہ ایمان لاتے۔ بیشک وہ اسلام کی حقانیت کے دل سے معترف ہوچکے تھے لیکن اسلام اپنا ضابطہ اور پابندیاں بھی عائد کرتا تھا جو انہیں گوارا نہ تھیں نیز انہیں عرب بھر میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے جو مقام حاصل تھا۔ اسلام لا کر وہ اس سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہ تھے۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگ ڈنڈے کے بغیر کبھی سیدھے نہیں ہوسکتے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی نہیں مانتے۔ تلوار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی بگڑی ہوئی طبیعتوں کو راہ راست کی طرف لاتی اور راستہ کی ایسی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہے۔ کیونکہ جب تک تعصب اور ہٹ دھرمی کا علاج نہ کیا جائے۔ تبلیغ خواہ کتنی ہی دلنشین انداز میں ہو غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر تلوار کا اشاعت اسلام میں کچھ حصہ نہ ہوتا تو رسول اللہ کو مکہ سے ہجرت کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔ تلوار کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ تبلیغ کے بیج کے لیے زمین کو نرم کردیتی ہے۔ اسلام کی تلوار نے حق کی دشمن، معاند اور ہٹ دھرم قوتوں کا قلع قمع کر کے اسلام کے بیج کے لیے زمین کو ہموار اور نرم بنادیا۔ اسلام کے بیج میں اتنی اہلیت اور قوت ہے کہ اگر اسے فضا سازگار میسر آجائے تو پھل پھول کر تناور اور سدا بہار درخت بن سکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا : سورة توبہ میں مشرکین سے براءت اور ان سے جہاد کے درمیان (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ) آیت (٢٩) سے لے کر (فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ ) آیت (٣٥) تک سات آیات میں اہل کتاب سے قتال اور ان کے تینوں سربرآور دہ طبقات احبار، رہبان اور مال دار لوگوں کے بگاڑ کا ذکر اور مذمت کرنے کے بعد آگے ان دو آیات میں مشرکین کی کچھ مزید خرابیوں کا ذکر فرمایا۔ - یہود و نصاریٰ کی طرح مشرکین عرب بھی اللہ کے احکام بدلنے کے لیے حیلہ سازی سے کام لیتے تھے، مثلاً آسمان و زمین کی پیدائش کے دن سے تمام ادیان میں یہ طریقہ چلا آ رہا تھا کہ مہینے اور سال شمسی حساب یعنی سورج کے بجائے قمری حساب یعنی چاند کے لحاظ سے معتبر سمجھے جاتے تھے اور تمام عبادات میں یہی تاریخیں ملحوظ رکھی جاتی تھیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی طریقہ قائم رکھا، کیونکہ چاند کی حالت کا روزانہ بدلنا تاریخ کے تعین میں اتنا واضح اور آسان ہے کہ آبادیوں کے علاوہ جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں اور سمندروں میں رہنے والے لوگ کسی کیلنڈر کی محتاجی کے بغیر مہینوں اور سالوں کا حساب آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں۔ چناچہ فرمایا : (ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ) [ یونس : ٥ ] ” وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ “ اللہ تعالیٰ نے تمام شرعی احکام قمری حساب کے مطابق رکھے، جس میں دوسری بیشمار حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ یہ عبادات ہر سال ایک ہی موسم میں نہ آئیں بلکہ بدل بدل کر آتی رہیں، ورنہ کسی علاقے میں روزے ہمیشہ گرمی میں آتے، کہیں ہمیشہ سردی میں۔ قمری حساب کی وجہ سے حج بھی مختلف موسموں میں آتا ہے، تاکہ مسلمان سختی اور نرمی دونوں حالتوں میں روزہ و حج اور اللہ کے دوسرے احکام ادا کرنے کی عادت ڈال سکیں۔ - قمری مہینا ٢٩ یا ٣٠ دن کا ہوتا ہے، نہ اس سے ایک دن کم نہ زیادہ اور سال بارہ ماہ میں ٣٥٤ یا ٣٥٥ دنوں کا ہوتا ہے، جبکہ شمسی سال ٣٦٥ دن اور ایک دن کے چوتھائی حصے کے برابر ہوتا ہے اور اس کے بارہ ماہ میں سے کوئی تیس، کوئی اکتیس دن کا اور فروری ٢٨ دن کا ہوتا ہے جو چوتھے سال ٢٩ دن کا شمار کیا جاتا ہے، شمسی سال کا ہر ماہ اور دن اپنے مقرر موسم ہی میں آتا ہے۔ - قمری مہینوں میں سے چار ماہ کو دین ابراہیمی میں حرمت والے مہینے قرار دیا گیا تھا، جن میں ہر قسم کی لڑائی حرام تھی، حتیٰ کہ اگر کوئی ان دنوں میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو قتل نہ کرتا، جن میں سے تین مسلسل تھے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، تاکہ حج کے ایام اور ان سے ایک ماہ پہلے اور ایک ماہ بعد پورے عرب میں لوگ حج کے لیے بےخوف اور پرامن ہو کر حج کرسکیں اور رجب کا مہینا الگ رکھا، تاکہ لوگ امن کے ساتھ عمرہ کے لیے آنے جانے کا سفر کرسکیں۔- اللہ تعالیٰ نے یہاں مہینوں کی گنتی بارہ ماہ ہونے کی صراحت اس لیے فرمائی ہے کہ مشرکین عرب حج کو شمسی سال کی طرح ہر سال ایک ہی دن خوشگوار موسم میں ادا کرنے کے لیے قمری مہینوں کے سال کو شمسی سال کے برابر کرنے کے لیے کبھی قمری سال میں اضافہ کر کے اسے تیرہ یا چودہ ماہ کا کرلیتے تھے اور اسے ” کبیسہ “ کہتے تھے۔ یہ بھی ” نسئی “ کی ایک صورت تھی، یعنی حرمت والے مہینے اپنے اصل مقام سے مؤخر ہوجاتے تھے اور حلال مہینوں کو وہ حرمت والا قرار دے لیتے تھے۔ جس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کیا اس سال اتفاق سے حج اپنے اصلی دن، یعنی قمری لحاظ سے ١٠ ذوالحجہ کو ادا ہوا تھا، اس کے بعد سے لے کر اللہ کے حکم کے مطابق حج اور اسلام کی دوسری تمام عبادات قمری تاریخ کے مطابق اصل وقت ہی پر ادا ہو رہی ہیں۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جو ابوبکرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (حجۃ الوداع کے خطبہ میں) فرمایا : ” زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس اصل پر آگیا ہے جو اس دن تھی جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور مضر قبیلے کا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب حجۃ الوداع : ٤٤٠٦ ] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مضر کا رجب اس لیے فرمایا کہ بنو ربیعہ رمضان کو حرمت کا مہینا قرار دیتے تھے اور بنو مضر اصل رجب کو، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہونے کی تصریح فرمائی - فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ : اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مہینوں میں بیشک اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہو، بلکہ کچھ مقامات اور اوقات جو زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، مثلاً مکہ، مدینہ، بیت المقدس، اللہ تعالیٰ کی مساجد، ماہ رمضان، لیلۃ القدر، حرمت والے ماہ وغیرہ، ان میں نیکی کی تاکید زیادہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) [ البقرۃ : ٢٣٨ ] ” سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔ “ اسی طرح ان میں ظلم سے باز رہنے کی تاکید بھی زیادہ ہے، حتیٰ کہ حرم مکہ میں ظلم کے ساتھ الحاد (کج روی) کے ارادے پر بھی عذاب الیم کی وعید ہے۔ دیکھیے سورة حج (٢٥) جب کہ دوسری جگہوں میں ارادے پر یہ مؤاخذہ نہیں۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مہینوں کو آگے پیچھے کر کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔ - وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً : ” كَاۗفَّةً “ مصدر ہے اور فاعل اور مفعول دونوں سے حال بن سکتا ہے۔ یہ لفظ اسی طرح آتا ہے، اس کا تثنیہ یا جمع نہیں آتا، نہ اس پر ” الف لام “ آتا ہے اور یہ لازماً مؤنث ہی آتا ہے، جیسا کہ ” عَامَۃٌ“ یا ” خَاصَۃٌ“ ہے۔ ” كَاۗفَّةً “ کا معنی ” جَمِیْعًا “ ہے۔ اس کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ جس طرح مشرکین تم سے سب کے سب اکٹھے ہو کر لڑتے ہیں تم بھی سب مل کر ان سے اکٹھے ہو کر لڑو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بیشک یہ چار مہینے حرمت والے ہیں، مگر مشرکین چونکہ اس کی پروا نہیں کرتے اور عین حرمت والے مہینوں میں بھی وہ تم سے لڑنے سے دریغ نہیں کرتے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ذوالقعدہ میں وہ لڑنے پر تیار ہوگئے تھے، اس سے پہلے انھوں نے حرم کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا تھا اور پھر وہاں داخلے سے روک دیا تھا، مسلمانوں پر ظلم کرنے میں نہ حرم کا خیال رکھا نہ حرمت والے مہینوں کا، اس لیے تم بھی ان سے تمام مہینوں میں اور ہر حال میں ہر جگہ لڑو، جس طرح وہ تم سے ہر حال میں ہر جگہ اور تمام مہینوں میں لڑتے ہیں۔ تفصیل ” التحریر والتنویر “ میں دیکھیں۔ شاہ عبد القادر (رض) نے اس کا ترجمہ کیا ہے : ” اور لڑو مشرکوں سے ہرحال، جیسے وہ لڑتے ہیں تم سے ہرحال۔ “ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ صراحت فرمائی ہے : (اَلشَّهْرُ الْحَرَام بالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ) [ البقرۃ : ١٩٤ ] ” حرمت والا مہینا حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور سب حرمتیں ایک دوسری کا بدلہ ہیں۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشرکین حرمت والے مہینوں کی حرمت اور حرم مکہ کی حرمت کا پوری طرح پاس کریں اور ان میں کوئی جنگی کارروائی نہ کریں تو مسلمانوں کو بھی اس کا پاس رکھنا چاہیے، ورنہ ہر وقت اور ہر جگہ ان کے خلاف جنگ کی جائے گی، فرمایا : (وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ ) [ البقرۃ : ١٩١ ] ” اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یقینا شمار مہینوں کا ( جو کہ) کتاب الٰہی ( یعنی احکام شرعیہ) میں اللہ کے نزدیک ( معتبر ہیں) بارہ مہینے ( قمری) ہیں ( اور کچھ آج سے نہیں بلکہ) جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے تھے ( اسی روز سے اور) ان میں چار خاص مہینے ادب کے ہیں ( ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب) یہی ( امر مذکورہ) دین مستقیم ہے ( یعنی ان مہینوں کا بارہ ہونا اور چار کا بالتخصیص اشہر حرم ہونا اور بخلاف عادت جاہلیت کے کبھی سال کے مہینوں کا عدد بڑھا دیتے، اور کبھی اشہر حرم کی تخصیص چھوڑ دیتے کہ یہ بد دینی ہے) سو تم ان سب مہینوں کے بارے میں ( دین کے خلاف کرکے جو کہ موجب گناہ ہے) اپنا نقصان مت کرنا ( یعنی اس عادت جاہلیت کے موافق مت کرنا) اور ان مشرکین سے ( جبکہ یہ اپنی کفریات کو جن میں یہ خاص عادت بھی آگئی نہ چھوڑیں) سب سے لڑنا جیسا کہ وہ تم سب ( مسلمانوں) سے لڑ ( نے کو ہر وقت تیار رہا کر) تے ہیں، اور ( اگر ان کے جمعیت اور سامان سے اندیشہ ہو تو) یہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ساتھی ہے ( پس ایمان و تقوٰی کو اپنا شعار رکھو اور کسی سے مت ڈرو، آگے ان کی عادت جاہلیت کا بیان ہے کہ) یہ ( مہینوں کا یا ان کی حرمت کا آگے کو) ہٹا دینا کفر ہیں اور ترقی ہے جس سے ( اور عام) کفار گمراہ کئے جاتے ہیں، ( اس طور پر) کہ وہ اس حرام مہینہ کو کسی سال ( نفسانی غرض سے) حلال کرلیتے ہیں اور کسی سال ( جب کوئی غرض نہ ہو) حرام سمجھتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو مہینے حرام کئے ہیں ( صرف) ان کی گنتی ( بلا لحاظ تخصیص و تعیین) پوری کرلیں پھر ( جب تخصیص و تعیین نہ رہی تو) اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینہ کو حلال کرلیتے ہیں، ان کی بد اعمالیاں ان کو مستحسن معلوم ہوتی ہیں، اور ( ان کے اصرار علی الکفر پر غم کرنا بےسود ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کو ہدایت ( کی توفیق) نہیں دیتا ( کیونکہ یہ خود راہ پر آنا نہیں چاہتے ) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیات میں کفار و مشرکین کے کفر و شرک، گمراہی اور بد اعمالیوں کا ذکر تھا، ان دو آیتوں میں بھی اسی سلسلہ کا ایک مضمون اور عرب جاہلیت کی ایک جاہلانہ رسم بد کا بیان اور مسلمانوں کو اس سے اجتناب کی ہدایت ہے وہ رسم بد ایک واقعہ سے متعلق ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ عہد قدیم سے تمام انبیاء سابقین کی شریعتوں میں سال کے بارہ مہینے مانے جاتے تھے اور ان میں سے چار مہینے بڑے متبرک اور ادب و احترام کے مہینے سمجھے جاتے تھے تین مہینے مسلسل ذیقعدہ، ذی الحجہ محرم اور ایک رجب کا۔- تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے، اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے، سابق شریعتوں میں ان مہینوں کے اندر قتل و قتال بھی ممنوع تھا۔- مکہ مکرمہ کے عرب چونکہ اسماعیل (علیہ السلام) کے واسطہ سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ لصلوٰة والسلام کی اولاد ہیں، اس لئے یہ سب لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کے قائل اور ان کی شریعت کو ماننے کا دعوٰی کرتے تھے، اور چونکہ ملت ابراہیم میں بھی ان چار مہینوں ( یعنی اشہر حرم) میں قتل و قتال اور شکار ممنوع تھا، عرب جاہلیت پر اس حکم کی تعمیل اس لئے سخت دشوار تھی کہ دور جاہلیت میں قتل و قتال ہی ان کا پیشہ بن کر رہ گیا تھا، اس لئے اس میں آسانی پیدا کرنے کے لئے انہوں نے اپنی نفسانی اغراض کے لئے طرح طرح کے حیلے نکالے کبھی اشہر حرم کے کسی مہینہ میں جنگ کی ضرورت پیش آئی یا لڑتے لڑتے شہر حرام آجاتا تو کہہ دیتے کہ اب کے سال یہ مہینہ حرام نہیں ہوا اگلا مہینہ حرام ہوگا، مثلاً محرم آگیا تو کہتے کہ اس سال محرم کا مہینہ حرام نہیں بلکہ صفر کا مہینہ حرام ہوگا، اور مزید ضرورت پڑتی تو کہتے کہ ربیع الاول حرام ہوگا، یا یہ کہتے کہ اس سال صفر کا مہینہ پہلے آگیا، محرم بعد میں آئے گا اس طرح محرم کو صفر بنادیا، غرض سال بھر میں چار مہینے تو پورے کرلیتے تھے لیکن اللہ کی متعین کردہ ترتیب اور تعیین کا لحاظ نہ کرتے تھے، جس مہینہ کو چاہیں ذی الحجہ کہہ دیں اور جس کو چاہیں رمضان کہہ دیں جس کو چاہیں مقدم کردیں جس کو چاہیں موخر کردیں، اور کبھی زیادہ ضرورت پڑتی مثلاً لڑتے لڑتے دس مہینے گذر گئے اور سال کے صرف دو ہی مہینے باقی رہ گئے تو ایسے موقع پر سال کے مہینوں کی تعداد بڑھا دیتے، اور کہتے کہ اب کے برس سال چودہ مہینوں کا ہوگا، اسی طرح باقی ماندہ چار مہینوں کو اشہر حرم بنا لیتے تھے۔ غرض دین ابراہیمی کا اتنا تو احترام کرتے تھے کہ سال میں چار مہینوں کا احترام کرتے اور ان میں قتل و قتال سے باز رہتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے جو ترتیب مہینوں کی متعین فرمائی اور اسی ترتیب سے چار مہینوں کو اشہر حرم قرار دیا، اس میں طرح طرح کی تاویلیں کرکے اپنی اغراض نفسانی کو پورا کرتے تھے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اس زمانہ میں اس کا امتیاز ہی دشوار ہوگیا تھا کہ کونسا مہینہ رمضان یا شوال کا ہے اور کونسا ذی القعدہ ذی الحجہ یا رجب کا ہے، ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور نویں سال میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدیق اکبر کو موسم حج میں تمام کفار و مشرکین سے براءت کا اعلان کرنے کے لئے بھیجا تو یہ مہینہ حقیقی حساب سے اگرچہ ذی الحجہ کا مہینہ تھا، مگر جاہلیت کے اسی پرانے دستور کے مطابق یہ مہینہ ذی القعدہ کا قرار پایا تھا، اور اس سال ان کے نزدیک حج کا مہینہ بجائے ذی الحجہ کے ذی القعدہ مقرر تھا، پھر ١٠ ھ میں جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے منیٰ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا : ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السموت والارض، یعنی زمانہ پھر پھرا کر پھر اپنی اسی ہیئت پر آگیا جس پر اس کو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت رکھا تھا، یعنی جو مہینہ اصلی ذی الحجہ کا تھا جاہلیت والوں کے نزدیک بھی اس سال وہی مہینہ ذی الحجہ کا مہینہ قرار پایا۔- یہ تھی وہ رسم جاہلیت جو مہینوں کی تعداد اور ترتیب اور تعیین میں کمی بیشی اور رد و بدل کرکے کی جاتی تھی، جس کے نتیجہ میں ان تمام احکام شرعیہ میں خلل آتا تھا جو کسی خاص مہینہ یا اس کی کسی خاص تاریخ سے متعلق ہیں، یا جو سال کے شروع یا ختم سے متعلق ہیں، مثلاً عشرہ ذی الحجہ میں احکام حج اور عشرہ محرم کے روزے اور ختم سال پر زکوٰة وغیرہ کے احکام۔- بات تو مختصر سی تھی کہ مہینہ کا نام بدل کر مقدم و موخر کردیا کہ محرم کو صفر اور صفر کو محرم بنادیا لیکن اس کے نتیجہ میں سینکڑوں احکام شرعیہ کی تحریف ہو کر عمل برباد ہوا، قرآن مجید کی ان دو آیتوں میں اس رسم جاہلیت کی خرابی اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی ہدایت ہے۔- پہلی آیت میں ارشاد ہے : (آیت) اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، اس میں لفظ عدة تعداد کے معنی میں ہے اور شہور شہر کی جمع ہے، شہر کے معنی مہینہ ہے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ متعین ہے اس میں کسی کو کمی بیشی کا کوئی اختیار نہیں۔ - اس کے بعد فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ کا لفظ بڑھا کر بتلا دیا کہ یہ بات ازل سے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی تھی، پھر يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فرما کر اشارہ کردیا کہ قضاء خداوندی اس معاملہ میں اگرچہ ازل میں جاری ہوچکی تھی، لیکن یہ مہینوں کی ترتیب اور تعیین اس وقت عمل میں آئی جب آسمان زمین پیدا کئے گئے۔- پھر ارشاد فرمایا (آیت) مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، یعنی ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا، ایک تو اس لئے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لئے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ان میں عبادت گذاری کا اہتمام اسلام میں بھی باقی ہے۔- حجة الوداع کے خطبہ یوم النحر میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مہینوں کی تشریح یہ فرمائی کہ تین مہینے مسلسل ہیں، ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے، مگر ماہ رجب کے معاملہ میں عرب کے دو قول مشہور تھے، بعض قبائل اس مہینہ کو رجب کہتے تھے جس کو ہم رمضان کہتے ہیں، اس قبیلہ مضر کے نزدیک رجب وہ مہینہ تھا جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رجب مضر فرما کر یہ وضاحت بھی فرمادی کہ جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے وہ ماہ رجب مراد ہے۔- ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ، یہ ہے دین مستقیم یعنی مہینوں کی تعیین اور ترتیب اور ان میں ہر مہینہ خصوصاً اشہر حرم کے متعلق جو احکام ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم ازلی کے مطابق رکھنا ہی دین مستقیم ہے، اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی اور تغیر و تبدل کرنا کج فہمی اور کج طبعی کی علامت ہے (آیت) فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ، یعنی ان مقدس مہینوں میں تم اپنا نقصان نہ کر بیٹھنا اور ان کے معینہ احکام و احترام کی خلاف ورزی کرو یا ان میں عبادت گذاری میں کوتاہی کرو۔- امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے، اس لئے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔- یہاں تک مشرکین مکہ کی ایک خاص رسم جاہلیت کا بیان اور اس کا ابطال تھا، آخر آیت میں پھر اس حکم کا اعادہ ہے جو شروع سورة میں دیا گیا تھا کہ میعاد معاہدہ ختم ہونے کے بعد تمام مشرکین و کفار سے جہاد واجب ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ۝ ٠ۥۙ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْہِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّۃً كَـمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّۃً۝ ٠ ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝ ٣٦- عدۃ - وعد بروزن فعلۃ بمعنی معدود ہے جیسے کہ طحن بمعنی مطحون۔ اور اسی بناء پر انسانوں کی گنی ہوئی جماعت کو عدۃ کہتے ہیں اور عورت کی عدت بھی اسی معنی میں ہے یعنی اس کے گنے ہوئے دن ۔ عورت کی عدت سے مراد وہ ایام کہ جن کے گزر جانے پر اس سے نکاح کرنا حلال ہوجاتا ہے۔- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- قَيِّمُ- وماء روی، وعلی هذا قوله تعالی: ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف 40] ، وقوله : وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف 1- 2] ، وقوله : وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة 5] فَالْقَيِّمَةُ هاهنا اسم للأمّة القائمة بالقسط المشار إليهم بقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] ، وقوله : كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء 135] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] فقد أشار بقوله : صُحُفاً مُطَهَّرَةً إلى القرآن، وبقوله : كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 3] إلى ما فيه من معاني كتب اللہ تعالی، فإنّ القرآن مجمع ثمرة كتب اللہ تعالیٰ المتقدّمة .- اور آیت کریمہ : ۔ دِيناً قِيَماً [ الأنعام 161] یعنی دین صحیح ہے ۔ میں قیما بھی ثابت ومقوم کے معنی میں ہے یعنی ایسا دین جو لوگوں کے معاشی اور اخروی معامات کی اصلاح کرنے والا ہے ایک قرات میں قیما مخفف ہے جو قیام سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صفت کا صغیہ ہے جس طرح کہ قوم عدی مکان سوی لحم ذی ماء روی میں عدی سوی اور ذی وغیرہ اسمائے صفات ہیں اور اسی معنی میں فرمایا : ۔ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف 40] یہی دین ( کا ) سیدھا راستہ ) ہے ؛ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف 1- 2] اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی بلکہ سیدھی اور سلیس اتاری ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة 5] یہی سچا دین ہے ۔ میں قیمتہ سے مراد امت عادلہ ہے جس کیطرف آیت کریمہ : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] تم سب سے بہتر ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء 135] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ میں اشارہ پایاجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] جو پاک اوراق پڑھتے ہیں جن میں مستحکم آیتیں لکھی ہوئی ہیں ۔ میں صحفا مطھرۃ سے قرآن پاک میں کی طرف اشارہ ہے ۔ اور کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک میں تمام کتب سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے کیونکہ قرآن پاک تمام کتب متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله :- وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی.- ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (فلا تقلموا فیھن انفسکم۔ پس ان مہینوں میں تم اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو) حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک قول باری (فیھن) کی ضمیر مہینوں کی طرف راجع ہے جبکہ قتادہ کا قول ہے کہ چار مہینوں کی طرف راجع ہے۔- سب مسلمان مل کر مشرکین کا مقابلہ کریں - قول باری ہے (وقاتلوا المشرکین کافۃ اور مشرکین سے سب مل کر لڑو) اس میں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ ہر قسم کے مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس حکم سے صرف وہی مشرک خارج ہیں جن کے ساتھ عقد ذمہ ہوچکا ہو جس کے تحت انہوں نے جزیہ ادا کرنا قبول کرلیا ہے۔ اس بات کی وضاحت دوسری آیتوں میں کردی گئی ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم مل کر مشرکین کا مقابلہ کریں اور اس میں ایک دوسرے کا پوری طرح ساتھ دیں اور مدد کریں، الگ الگ ٹولیوں میں ان کا مقابلہ نہ کریں۔ چونکہ آیت میں ان دونوں معنوں کا احتمال ہے اس لئے آیت کو ان دونوں معنوں پر محمول کیا جائے گا کیونکہ یہ دونوں معنی ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اس طرح آیت دو حکموں پر مشتمل ہوگی ایک تو یہ کہ ہر قسم کے مشرکین سے قتال کیا جائے اور دوسرا یہ کہ تمام مسلمان مل کر اور ایکا کرکے مشرکین سے قتال کریں۔- قول باری ہے (کما یقاتلونکم کافۃ جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں) یعنی مشرکین کا گروہ تمہارے اندر یہی چیز دیکھتا ہے اور اسی کا یقین رکھتا ہے کہ تم ان کے خلاف متحد اور مجتمع ہو کر قتال کررہے ہو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ” جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں “۔ یہ آیت اس قول باری کے ہم معنی ہے (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم ۔ تم مشرکین کو جہاں کہیں پائو قتل کردو) اور یہ ان تمام معاہدوں اور ذمہ داریوں کو ختم کردینے کے اعلان کو متضمن ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان طے پائے تھے۔ آیت میں ایک اور حکم کا اضافہ ہے وہ یہ کہ جب مشرکین سے قتال درپیش ہو تو ایسی حالت میں ہمیں متحد و متفق ہوکر اقدام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوح محفوظ میں سال کا شمار مہینوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی سال کے بارہ مہینے جن میں زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے، ابتدا آفرینش ہی سے ان مہینوں میں سے چار خاص مہینے یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم احترام کے مہینے ہیں یہ حساب اس طریقہ پر مستقیم ہے، جس میں کسی قسم کی کمی زیادتی نہیں ہوتی، لہٰذا تم ان مہینوں یا ان خاص احترام کے مہینوں میں نافرمانی کرکے اپنا نقصان نہ کرنا۔- اور ان تمام مشرکین سے حل وحرم میں ہر جگہ لڑو، جیسے وہ تم سے لڑے اور اے مسلمانو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو کفر وشرک اور فواحش اور بدعہدی اور اشہر حرام میں قتال کرنے سے بچتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ - اللہ کے قائم کردہ تکوینی نظام اور تشریعی قانون کے تحت مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی گئی ہے۔- (مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط) - ان چار مہینوں (ذو القعدہ ‘ ذو الحجہ ‘ محرم اور رجب) کو اشہر حرم کہتے ہیں اور ان میں جنگ وغیرہ جائز نہیں۔- (ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُج فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ ) - قانون خداوندی کے مطابق یہ چار مہینے شروع سے محترم ہیں ‘ لہٰذا تم لوگ ان مہینوں کے بارے میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ اس میں قریش کے اس رواج کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت وہ محترم مہینوں کو اپنی مرضی سے بدلتے رہتے تھے۔ کسی مہم یا لڑائی کے دوران میں اگر کوئی ماہ حرام آجاتا تو اس مہینے کے احترام میں جنگ وجدال بند کرنے کے بجائے وہ اعلان کردیتے کہ اس سال اس مہینے کے بجائے فلاں مہینہ ماہ حرام کے طور پر منایا جائے گا۔ اس طرح انہوں نے پورا کیلنڈر گڈ مڈ کر رکھا تھا۔ لیکن مہینوں کے ادل بدل اور الٹ پھیر سے گزرتے ہوئے قدرت خداوندی سے ١٠ ہجری میں کیلنڈر واپس اپنی اصلی حالت پر پہنچ گیا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا : (اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَھَیْءَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ ) (١) یعنی زمانے کی یہ تقویم (کیلنڈر) پورا چکر لگا کر ساری غلطیوں اور ترامیم میں سے گزرتے ہوئے اب ٹھیک اسی جگہ پر پہنچ گئی ہے جس پر اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :34 یعنی جب سے اللہ نے چاند ، سورج اور زمین کو خلق کیا ہے اسی وقت سے یہ حساب بھی چلا آرہا ہے کہ مہینے میں ایک ہی دفعہ چاند ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور اس حساب سے سال کے ۱۲ ہی مہینے بنتے ہیں ۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ عرب کے لوگ نَسِی کی خاطر مہینوں کی تعداد ۱۳ یا ۱٤ بنالیتے تھے ، تاکہ جس ماہ حرام کو انہوں نے حلال کر لیا ہو اسے سال کی جنتری میں کھپا سکیں ۔ اس مضمون کی تشریح آگے آتی ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :35 یعنی جن مصالح کی بنا پر ان مہینوں میں جنگ کرنا حرام کیا گیا ہے ان کو ضائع نہ کرو اور ان ایام میں بد امنی پھیلا کر اپنے اوپر ظلم نہ کرو ۔ چار حرام مہینوں سے مراد ہیں ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عُمرے کے لیے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :36 یعنی اگر مشرکین ان مہینوں میں بھی لڑنے سے باز نہ آئیں تو جس طرح وہ متفق ہو کر تم سے لڑتے ہیں تم بھی متفق ہو کر ان سے لڑو ۔ سورہ بقرہ آیت ۱۹٤ اس آیت کی تفسیر کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: سورت کے شروع میں جو اعلان براءت کیا گیا ہے اس میں بت پرستوں کی ایک قسم کو حرمت والے مہینے ختم ہونے تک مہلت دی گئی تھی، اس مناسبت سے عرب کے بت پرستوں کی ایک معقول رسم کی تردید ضرور تھی جو آیت نمبر 36 اور 37 میں کی گئی ہے۔ اس رسم کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے چاند کے چار مہینوں کو حرمت والے مہینے سمجھا جاتا تھا۔ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ ان چار مہینوں میں جنگ کی ممانعت تھی۔ عرب کے بت پرستوں نے اگرچہ بت پرستی شروع کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کو بہت کچھ بدل ڈالا تھا، لیکن ان مہینوں کی حرمت کو سب تسلیم کرتے تھے، اور ان میں جنگ کو ناجائز سمجھتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ ممانعت ان کو مشکل معلوم ہونے لگی، اس لیے کہ ذوالقعدہ سے محرم تک تین متواتر مہینوں میں لڑائی بند رکھنا ان کے لیے دشوار تھا، چنانچہ اس مشکل کا حل انہوں نے یہ نکالا تھا کہ وہ کسی سال میں کہہ دیتے تھے کہ اس مرتبہ صفر کا مہینہ محرم سے پہلے آئے گا، یا محرم کے بجائے صفر کے مہینے کو حرمت والا مہینہ سمجھا جائے گا۔ چنانچہ اس طرح وہ محرم کے مہینے میں لڑائی کو جائز قرار دے لیتے تھے۔ اس کے علاوہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حج چونکہ مختلف موسموں میں آتا تھا اس لیے بعض مرتبہ وہ موسم ان کی تجارت کے لیے ساز گار نہیں ہوتا تھا تو وہ حج ذوالحجہ کے بجائے کسی اور مہینے میں کرلیتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے کبیسہ کا ایک حساب بھی گھڑ لیا تھا جس کی تفصیل امام رازی نے اپنی تفسیر میں بیان فرمائی ہے اور حافظ ابن جریر کی بعض روایات سے بھی ان کی تائید ہوتی ہے۔ مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کی اس رسم کو نسیئ کہا جاتا تھا جس کا ذکر آیت نمبر 37 میں آرہا ہے۔ 34: یعنی اللہ تعالیٰ نے مہینوں کی جو ترتیب مقرر فرمائی ہے، اس میں رد وبدل کرکے مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جس مہینے میں لڑائی حرام تھی اس میں اسے حلال کرلیا گیا، جو ایک بڑا گناہ ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والا خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، کیونکہ اس کا برا انجام اس کی جان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ ساتھ ہی اس جملے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے اور ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی فکر اور دونوں سے زیادہ کرنی چاہئے۔