Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے ۔ ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دور دراز کے سفر کے لئے تیار ہوگئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کے لئے سب سے فرما دیا کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ کے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو ۔ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں کی ہوس میں آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت سے ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثبوات دیتا ہے آپ نے فرمایا بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر آپ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ دنیا جو گذر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ۔ مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا زیادہ بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے ۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے ۔ ایک قبیلے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لئے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں اترانا مت کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کا دوسرے لوگوں کو مددگار کر دے گا ۔ جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 41؀ ) 9- التوبہ:41 ) اور ( مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ١٢٠؀ۙ ) 9- التوبہ:120 ) یہ سب آیتیں ( وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢؀ۧ ) 9- التوبہ:122 ) سے منسوخ ہیں لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] غزوہ تبوک میں مسلمانوں کے مقابل اتحادی عیسائی مشرک قبائل مدینہ کے منافق اور یہود :۔ یہاں سے ایک بالکل نیا مضمون یعنی غزوہ تبوک کا آغاز ہو رہا ہے جس کا پس منظر یہ تھا کہ مکہ اور حنین کی فتح کے بعد جب عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو شام کی سرحد پر بسنے والے عرب قبائل اور ان کے بادشاہ غسان نے جو قیصر روم کے ماتحت تھے، مسلمانوں کی ان کامیابیوں کو اپنے لیے عظیم خطرہ سمجھا اور مسلمانوں بلکہ اسلام کی کمر توڑنے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ دوسری طرف عرب بھر میں شکست خوردہ مشرکین اس کی مدد کو موجود تھے اور تیسری طرف مدینہ کے منافقین نے ابو عامر راہب کی وساطت سے غسان اور قیصر روم سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ یہود بھی ان منافقوں کا ساتھ دے رہے تھے اور منافقوں نے اسی ساز باز کی غرض سے مسجد ضرار بھی تعمیر کی تھی۔ گویا کفر کی اندرونی اور بیرونی طاقتیں اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف تھیں۔ آپ کو شام کی سرحد پر رومی فوجوں کے عظیم اجتماع کی خبریں دم بدم پہنچ رہی تھیں۔- مسلمانوں کے حالات کی ناساز گاری :۔ دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ فصلیں پکنے کے قریب تھیں۔ فاصلہ دور کا اور پر مشقت تھا سامان اور سواریوں کی کمی تھی اور مقابلہ اس عظیم طاقت سے تھا جس نے حال ہی میں کسریٰ شاہ ایران کو شکست دے کر دنیا پر اپنے رعب و دبدبہ کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ گویا ہر لحاظ سے یہ حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ تھی۔ انہیں حالات میں اللہ کا نام لے کر آپ نے شاہ روم سے ٹکر لینے کا فیصلہ کرلیا اور مسلمانوں میں عام اعلان جہاد کردیا۔ اور معمول کے خلاف سب کو صاف صاف بتلا دیا کہ شام کو جانا ہے اور ملک غسان اور قیصر کے مقابلہ کے لیے جانا ہے ان حالات میں منافقوں کا جنگ سے جی چرانا تو فطری امر تھا بعض کمزور دل اور ضعیف اعتقاد والے مسلمان بھی تذبذب میں پڑگئے تھے۔ اس آیت میں انہیں ہی خطاب کیا جا رہا ہے اور جہاد کی پرزور ترغیب دی جا رہی ہے۔- [٤١] جہاد میں عدم شمولیت سے تم زیادہ سے زیادہ اپنی جانیں یا کچھ مال بچا لو گے۔ فصلیں کاٹ لو گے یا سفر کی صعوبتوں سے بچ جاؤ گے اور یہ سب مفادات جنت کی دائمی نعمتوں کے مقابلہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا : سورت کے شروع سے لے کر ٣٧ آیات تک عرب کے مشرکین سے اعلان براءت اور اہل کتاب سے مسلمانوں کے تعلقات اور جہاد کے بنیادی احکام، بدر اور حنین کے واقعات اور ان میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور غیبی مدد کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد اب جنگ تبوک کا تفصیلی ذکر اور اس میں منافقین کے کردار کو کھول کر بیان کیا گیا ہے اور اس جنگ سے پیچھے رہنے والوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے، اس لیے اس سورت کو فاضحہ یعنی منافقین کو رسوا کرنے والی بھی کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں جہاد پر ابھارنے کے لیے وعدہ و وعید، انذار وتبشیر اور ثواب و عذاب وغیرہ کے بیان کے کئی طریقے اختیار کیے گئے ہیں، اس لیے اس کا نام بحوث یعنی نہایت ابھارنے والی سورت بھی ہے۔- علمائے تفسیر متفق ہیں کہ یہاں سے ان لوگوں پر عتاب کا آغاز ہوتا ہے جو غزوۂ تبوک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیچھے رہے تھے، جب پھل تیار تھے، گرمی شدید تھی اور سائے نہایت خوش گوار محسوس ہو رہے تھے، اس لیے بعض نام نہاد مسلمان جہاد پر روانہ ہونے سے جی چرانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے بات شروع ہی ایمان کو حرکت دینے سے کی ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تمہیں کیا ہوگیا ؟ اپنے ایمان کے تقاضے ہی پر غور کرو، کیا اس کا تقاضا یہی ہے جو جہاد کے لیے نکلنے کے حکم پر تم اختیار کر رہے ہو۔ ” اثَّاقَلْتُمْ “ اصل میں ” تَثَاقَلْتُمْ “ تھا جو باب تفاعل سے ہے۔ ” ثَقُلَ “ سے بڑھا کر تفاعل میں لے جا کر بھاری ہونے کے مفہوم کو انتہا تک پہنچانے کے لیے لفظ بھی آخری حد تک بھاری بنادیا ” اثَّاقَلْتُمْ “ یعنی نہایت بھاری اور بوجھل ہوجاتے ہو کہ اٹھانے سے نہیں اٹھتے، اس کا باعث اس کے سوا کیا ہے کہ تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کے معمولی، حقیر اور ناپائدار سازو سامان پر جو کسی وقت بھی چھن جائے گا، اس آخرت کے مقابلے میں راضی ہوگئے ہو جو ہمیشہ رہنے والی ہے اور جس میں وہ نعمتیں ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنیں اور نہ ان کا خیال ہی کسی انسان کے دل میں آیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو دنیا کی زندگی کا یہ سازو سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑا ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ اس کی مثال تو سمندر کے مقابلے میں انگلی ڈبونے سے اس پر لگنے والے پانی کی سی ہے، جیسا کہ مستورد (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرمایا ہے۔ [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب فناء الدنیا ۔۔ : ٢٨٥٨ ]- تبوک ایک مشہور مقام کا نام ہے جو مدینہ سے شمال کی طرف تقریباً چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد ٩ ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کا پس منظر یہ تھا کہ ملک شام پر قبیلہ غسان حکمران تھا، جو شاہ روم کے تابع تھا، اسے یہ فکر لاحق ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جزیرۂ عرب سے فارغ ہوچکے ہیں، اب ہماری باری ہے تو کیوں نہ شاہ روم کو بلا کر عرب پر پہلے ہی چڑھائی کردی جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ سرزمین عرب سے نکل کر دشمن کے علاقے، یعنی شام میں جا کر انھیں عرب پر حملے سے روکا جائے، چونکہ سفر بہت مشکل اور لمبا تھا، فصل کی کٹائی کا موسم تھا اور سواریاں اور سامان حرب بھی پوری طرح میسر نہ تھا، اس لیے اسے جیش العسرۃ ” تنگی کے زمانے کا لشکر “ کہا جاتا ہے۔ اس لیے اگرچہ اس سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول یہی تھا کہ آپ جب کہیں حملہ کرنا چاہتے تو توریہ کرتے، یعنی اصل جگہ کی نشان دہی کے بجائے ادھر ادھر کے متعلق لوگوں سے حالات معلوم کرتے، تاکہ لوگوں کو حملے کے اصل مقام کا پتا نہ چلے، لیکن اب آپ نے لوگوں کو صاف الفاظ میں اپنا ہدف واضح کردیا اور سب کو نکلنے کا حکم دیا۔ تقریباً تیس ہزار مجاہد تیار ہوگئے۔ آپ نے اس سے پہلے شاہ روم کو خط بھی لکھا تھا جس میں اسے دین اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسلام لانے پر آمادہ بھی ہوگیا، لیکن قوم نے اس کا ساتھ نہ دیا، اس لیے وہ اسلام سے محروم رہا۔ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو لے کر تبوک پہنچ گئے اور دشمن کا بیس دن تک انتظار کرتے رہے، مگر کسی میں مقابلے پر آنے کی جرأت نہ ہوئی، نہ ہی کوئی جنگ ہوئی، اس علاقے کے اور اردگرد کے لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اطاعت کا عہد کیا، اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے۔ آپ دشمن کو خوف زدہ کرکے اسلام کی دھاک بٹھا کر کامیاب فاتح ہو کر واپس تشریف لائے۔ پھر عمر (رض) کے زمانے میں سارا ملک شام فتح ہوگیا اور اسرائیل کے مقبوضہ حصے کے سوا اب تک اسلام کے زیر نگین ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو تم لوگوں کو کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ( یعنی جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین کو لگے جاتے ہو ( یعنی اٹھتے اور چلتے نہیں) کیا تم نے آخرت کے عوض دنیاوی زندگی پر قناعت کرلی سو دنیوی زندگی کی تمتع تو کچھ بھی نہیں بہت قلیل ہے اگر تم ( اس جہاد کے لئے) نہ نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو سخت سزا دے گا، ( یعنی تم کو ہلاک کردے گا) اور تمہارے بدلے دوسری قوم پیدا کردے گا، ( اور ان سے اپنا کام لے گا) اور تم اللہ ( کے دین) کو کچھ ضرر نہ پہنچا سکو گے، اور اللہ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے اگر تم لوگ رسول (اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہ کرو گے تو ( اللہ آپ کی مدد کرے گا، جیسا کہ) اللہ تعالیٰ آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے جبکہ ( اس سے زیادہ مصیبت و پریشانی کا وقت تھا جبکہ) آپ کو کافروں نے ( تنگ کر کر کے مکہ سے) جلا وطن کردیا تھا جبکہ دو آدمیوں میں ایک آپ تھے ( اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق آپ کے ہمراہ تھے) جس وقت کہ دونوں ( صاحب) غار ( ثور) میں ( موجود) تھے جبکہ آپ اپنے ہمراہی سے فرما رہے تھے کہ تم ( کچھ) غم نہ کرو یقینا اللہ تعالیٰ ( کی مدد) ہمارے ہمراہ ہے سو ( وہ مدد یہ ہوئی کہ) اللہ تعالیٰ نے آپ ( کے قلب) پر اپنی ( طرف سے) تسلی نازل فرمائی اور آپ کو ( ملائکہ کے) ایسے لشکروں سے قوت دی جن کو تم لوگوں نے نہیں دیکھا، اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بات ( اور تدبیر) سچی کردی ( کہ وہ ناکام رہے) اور اللہ ہی کا بول بالا رہا ( کہ ان کی تدبیر اور حفاظت غالب رہی) اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ( اسی لئے اس کی بات اور حکمت غالب رہی جہاد کیلئے) نکل پڑو ( خواہ) تھوڑے سے سامان سے ( ہو) اور ( خواہ) زیادہ سامان سے ( ہو) اور اللہ ہی کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم یقین رکھتے ہو، ( تو دیر مت کرو) اگر کچھ لگتے ہاتھ ملنے والا ہوتا اور سفر بھی معمولی ہوتا تو یہ ( منافق) لوگ ضرور آپ کے ساتھ ہو لیتے لیکن ان کو تو مسافت ہی دور دراز معلوم ہونے لگی ( اس لئے یہاں ہی رہ گئے) اور ابھی ( جب تم لوگ واپس آؤ گے تو) خدا کی قسمیں کھا جائیں گے کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے، یہ لوگ ( جھوٹ بول بول کر) اپنے آپ کو تباہ ( یعنی مستحق عذاب) کررہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں ( بلا شبہ انکو استطاعت تھی اور پھر یہ نہیں گئے ) ۔- معارف ومسائل - آیات مذکورہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات میں سے ایک اہم غزوہ کا بیان اور اس کے ضمن میں بہت سے احکام اور ہدایات ہیں، یہ غزوہ غزوہ تبوک کے نام سے موسوم ہے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تقریبا آخری غزوہ ہے۔- تبوک مدینہ کے شمال میں سرحد شام پر ایک مقام کا نام ہے، شام اس وقت رومی مسیحیوں کی حکومت کا ایک صوبہ تھا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٨ ہجری میں جب فتح مکہ اور غزوہ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ طیبہ پہنچے تو اس وقت جزیرة العرب کے اہم حصے اسلامی حکومت کے زیر نگیں آچکے تھے اور مشرکین مکہ کی ہشت سالہ مسلسل جنگوں کے بعد اب مسلمانوں کو ذرا سکون کا وقت ملا تھا۔- مگر جس ذات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی (آیت) لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ، نازل فرما کر پورے عالم کی فتوحات اور اس میں اپنے دین حق کو غالب کرنے کی بشارت دے دیتھی اس کو اور اس کے رفقاء کار کو فرصت کہاں، مدینہ پہونچتے ہی ملک شام سے آنے والے تجارت پیشہ لوگ جو شام سے زیتون کا تیل لا کر مدینہ وغیرہ میں فروخت کیا کرتے تھے، ان لوگوں نے یہ خبر پہنچائی کہ شاہ روم ہرقل نے اپنی فوجیں مقام تبوک میں سرحد شام پر جمع کردی ہیں اور فوجیوں کو پورے ایک سال کی تنخواہیں پیشگی دے کر مطمئن اور خوش کردیا ہے، اور عرب کے بعض قبائل سے بھی ان کی سازباز ہے ان کا تہیہ یہ ہے کہ مدینہ پر یکبارگی حملہ کریں۔- جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے یہ ارادہ فرمالیا کہ ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے پیش قدمی کر کے وہیں مقابلہ کیا جائے جہاں ان کی فوجیں جمع ہیں ( تفسیر مظہری بحوالہ محمد بن یوسف صالحی ) ۔- یہ زمانہ اتفاق سے سخت گرمی کا زمانہ تھا، اور مدینہ کے حضرات عموماً زراعت پیشہ لوگ تھے، ان کی کھیتیاں اور باغات کے پھل پک رہے تھے جس پر ان کی ساری معیشت اور پورے سال کے گذارہ کا مدار تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ جس طرح ملازمت پیشہ لوگوں کی جیبیں مہینہ کے آخر میں دنوں میں خالی ہوجاتی ہیں اسی طرح زراعت پیشہ لوگ فصل کے ختم پر خالی ہاتھ ہوتے ہیں، ایک طرف افلاس دوسری طرف قریب آمدنی کی امید، اس پر مزید موسم گرما کی شدت اس قوم کے لئے جس کو ابھی ابھی ایک حریف کے ساتھ آٹھ سال مسلسل جنگوں کے بعد ذرا دم لینے کا موقع ملا تھا، ایک انتہائی صبر آزما امتحان تھا۔- مگر وقت کا تقاضا تھا اور یہ جہاد اپنی نوعیت میں پہلی سب جنگوں سے اس لئے بھی ممتاز تھا کہ پہلے تو اپنی ہی طرح کے عوام سے جنگ تھی، اور یہاں ہرقل شاہ روم کی تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ تھا، اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ نے مدینہ طیبہ کے پورے مسلمانوں کو اس جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیدیا، اور کچھ آس پاس کے دوسرے قبائل کو بھی شرکت جہاد کے لئے دعوت دی تھی۔- یہ اعلان عام اسلام کے فدا کاروں کا ایک سخت امتحان تھا، اور منافق دعویداروں کا امتیاز بھی، اس کے علاوہ لازمی نتیجہ کے طور پر اسلام کا کلمہ پڑھنے والوں کے مختلف حالات ہوگئے، قرآن کریم نے ان میں سے ہر حالت کے متعلق جدا جدا ارشادات فرمائے ہیں۔- ایک حالت ان کامل مکمل حضرات کی تھی جو بلا تردد جہاد کے لئے تیار ہوگئے، دوسرے وہ لوگ جو ابتداء کچھ تردد کے بعد ساتھ ہوگئے، ان دونوں طبقوں کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا (آیت) الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ، یعنی وہ لوگ قابل مدح ہیں جنہوں نے سخت تنگی کے وقت رسول کریم کا اتباع کیا، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک فریق کے قلوب لغزش کرنے لگے تھے۔- تسیری حالت ان لوگوں کی تھی جو کسی صحیح عذر کی بنا پر اس جہاد میں نہ جاسکے، اس کے متعلق قرآن کریم نے آیت (آیت) لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى، میں ان کے عذر کی قبولیت کا اظہار فرمادیا۔- چوتھی قسم ان لوگوں کی تھی جو باوجود کوئی عذر نہ ہونے کے کاہلی کے سبب جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان کے متعلق کئی آیتیں نازل ہوئیں (آیت) وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ اور وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اور وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا، تینوں آیتیں ایسے ہی حضرات کے بارے میں نازل ہوئیں، جن میں ان کی کاہلی پر زجر و تنبیہ بھی ہے اور بالاخر ان کی توبہ کے قبول ہونے کی بشارت بھی۔- پانچواں طبقہ منافقین کا تھا جو اپنے نفاق کی وجہ سے اس سخت امتحان میں اپنے نفاق کو چھپا نہ سکا اور شرکت جہاد سے الگ رہا، اس طبقہ کا ذکر بہت سی آیات میں آیا ہے۔- چھٹا طبقہ ان منافقین کا تھا جو جاسوسی اور شرارت کے لئے مسلمانوں کے ساتھ ہو لیا تھا ان کی حالت کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں ہے : وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ ۔ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ ۔ وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا۔- لیکن اس ساری سختی اور تکلیف کے باوجود شرکت جہاد سے باز رہنے والوں کی مجموعی تعداد پھر بھی برائے نام تھی، بھاری اکثریت انہی مسلمانوں کی تھی جو اپنے سارے منافع اور راحت کو قربان کرکے اللہ کی راہ میں ہر طرح کی مشقت برداشت کرنے کے لئے تیار ہوگئے، اسی لئے اس جہاد میں نکلنے والے اسلامی شکر کی تعداد تیس ہزار تھی، جو اس سے پہلے کسی جہاد میں نظر نہیں آئی۔- نتیجہ اس جہاد کا یہ ہوا کہ جب ہرقل شاہ روم کو مسلمانوں کی اتنی بڑی جمعیت کے مقابلہ پر آنے کی خبر پہنچی تو اس پر رعب طاری ہوگیا، مقابلہ پر نہیں آیا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے فرشتہ خصلت صحابہ کرام کے لشکر کے ساتھ چند روز محاذجنگ پر قیام کرکے جب مخالف کے مقابلہ پر آنے سے مایوس ہوگئے تو واپس تشریف لے آئے۔- جو آیتیں اوپر لکھی گئی ہیں بظاہر ان کا تعلق اس چوتھی جماعت سے ہے جو بغیر کسی صحیح عذر کے اپنی سستی اور کاہلی کی بنا پر شریک جہاد نہیں ہوئے، پہلی آیت میں ان کو اس کاہلی اور غفلت پر تنبیہ کی گئی اور اس کے ساتھ ان کے اس مرض غفلت و کاہلی کا سبب اور پھر اس کا علاج بھی ارشاد فرمایا گیا، جس کے ضمن میں یہ بھی واضح ہوگیا کہ : - دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت تمام جرائم کی بنیاد ہے : کیونکہ مرض کا جو سبب اور علاج اس جگہ بیان فرمایا گیا ہے اگرچہ اس جگہ اس کا تعلق ایک خاص واقعہ سے تھا، لیکن اگر غور کیا جائے تو ثابت ہوگا کہ دین کے معاملہ میں ہر کوتاہی سستی اور غفلت اور تمام جرائم اور گناہوں کا اصلی سبب یہی دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت ہے اسی لئے حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : حب الدنیا راس کل خطیئۃ، یعنی دنیا کی محبت ہر خطاء و گناہ کی بنیاد ہے اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا گیا کہ : - اے ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تمہیں اللہ کے راستہ میں نکلنے کے لئے کہا جاتا ہے تو تم زمین کو لگے جاتے ہو ( حرکت کرنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت کے بدلے صرف دنیا کی زندگی پر مگن ہوگئے۔- تشخیص مرض کے بعد اس کا علاج اگلے جملہ میں اس طرح ارشاد ہوا کہ : - دنیوی زندگی سے نفع اٹھانا تو کچھ بھی نہیں بہت قلیل و حقیر ہے “ جس کا حاصل یہ ہے کہ بڑی فکر آخرت کی دائمی زندگی کی چاہئے، اور یہ فکر آخرت ہی درحقیقت سارے امراض کا واحد اور مکمل علاج ہے اور انسداد جرائم کے لئے بےنظر نسخہ اکسیر ہے۔- عقائد اسلام کے بنیادی اصول تین ہیں، توحید، رسالت اور آخرت، ان میں عقیدہ آخرت درحقیقت اصلاح عمل کی روح اور جرائم اور گناہوں کے آگے ایک آہنی دیوار ہے، اگر غور کیا جائے تو بدیہی طور پر معلوم ہوگا کہ دنیا میں امن و سکون اس عقیدہ کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا آج کی دنیا میں مادی ترقیات اپنے شباب کو پہنچی ہوئی ہیں، جرائم کے انسداد کے لئے بھی کسی ملک و قوم میں مادی تدبیروں کی کوئی کمی نہیں، قانون کی جکڑ بندی اور اس کے لئے انتظامی مشینری روز بروز ترقی پر ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بھی آنکھوں دیکھا حال ہے کہ جرائم ہر جگہ اور ہر قوم میں روز بروز ترقی ہی پر ہیں، ہماری نظر میں اس کی وجہ اس کے سوا نہیں کہ مرض کی تشخیص اور علاج کا رخ صحیح نہیں، مرض کا سرچشمہ مادہ پرستی اور مادیات میں انہماک اور آخرت سے غفلت و اعراض ہے، اور اس کا واحد علاج ذکر اللہ اور آخرت کی فکر ہے، جس وقت اور جس جگہ بھی دنیا میں اس اکسیری نسخہ کو استعمال کیا گیا پوری قوم اور اس کا معاشرہ صحیح انسانیت کی تصویر بن کر فرشتوں کے لئے قابل رشک ہوگیا، عہد رسالت اور عہد صحابہ کرام کا مشاھدہ اس کے لئے کافی دلیل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِيْلٌ۝ ٣٨- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] وكلّ موضع ذکر فيه «تمتّعوا» في الدّنيا فعلی طریق التّهديد، وذلک لما فيه من معنی التّوسّع،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں دنیاوی ساز و سامان کے متعلق تمتعو آیا ہے تو اس سے تہدید مراد ہے کیونکہ اس میں ایک گو نہ عیش کو شی اور وسعت کے معنی پائے جاتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلنے اور جہاد کرنے کی فرضیت کا بیان - قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لئے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے) تا قول باری (الا تنفروا یعذبکم عذاباً الیماً ویستبدل قوما غیرکم۔ تم نہ اٹھوگے تو خدا تمہیں درد ناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا۔- جہاد فرض عین ہے یا کفایہ ؟- ظاہر آیت اس شخص پر بھی جہاد کے لئے اٹھ کھڑ ا ہونے کو واجب قرار دیتی ہے جسے اس کی دعوت نہ دی گئی ہو۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (انفروا خفافا وثقالا۔ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل) اللہ تعالیٰ نے نفیر یعنی جہاد کے لئے نکل کھڑے ہونے کو مطلقاً واجب کردیا اور اس میں بلائے جانے کی شرط نہیں لگائی۔ اس لئے ظاہر آیت ہر اس شخص پر جہاد کے وجوب کی مقتضی ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔- ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے انہیں ابو الیمان اور حجاج نے جریر بن عثمان سے، انہوں نے عبدالرحمن بن میسرہ اور ابن ابی ملال سے، انہوں نے ابو راشد الجرانی سے، وہ کہتے ہیں کہ میری ملاقات حضرت مقداد بن الاسود (رض) سے اس وقت ہوئی جب آپ جہاد پر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، میںے عرض کیا کہ اللہ تعایلٰ کے ہاں آپ کا عذر قابل قبول ہے (یا شاید ابو راشد نے ان سے یہ کہا) جنگ پر نہ جانے میں اللہ کے نزدیک آپ کا عذر قابل قبول ہے یہ سن کر حضرت مقداد (رض) نے فرمایا : سورة برات ہمارے پاس یہ آیت لے کر آئی ہے (انفروا خفافاً وثقالاً ) - ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے روایت بیان کی ہے انہوں نے ایوب سے، انہوں نے ابن سیرین سے کہ حضرت ابو ایوب انصاری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ معرکہ بدر میں شریک ہوئے تھے پھر ایک سال کے سوا کسی بھی غزوہ میں آپ پیچھے نہیں رہے۔ ایک جنگ میں ایک نوجوان شخص کو لشکر کا سالار مقرر کیا گیا آپ نے اس موقع پر یہ فرمایا : مجھے اس سے کیا غرض کہ کون شخص مجھ پر سالار بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے (انفروا خفافاً وثقالاً ) اور میں تو اپنے آپ کو ہلکا یا بوجھل ضرور پاتا ہوں۔ یعنی میں بہرصورت جہاد کروں گا۔ ابو عبید نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے انہیں یزید نے حماد بن مسلمہ سے، انہوں نے علی بن زید سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ حضرت ابو طلحہ نے آیت (انفروا خفافاً وثقالاً ) کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ ” میرے خیال میں اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو جہاد پر نکلنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہمارے جوانوں کو بھی اور بوڑھوں کو بھی، اس لئے جہاد پر جانے کے لئے میرے واسطے سامان تیار کرو۔ “ چناچہ ہم نے ان کے لئے سامان جہاد تیار کردیا۔ اور وہ فوج کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے۔ اسی غزوہ میں ا ن کی وفات ہوگئی۔ ہمیں ان کی تدفین کے لئے ساتویں دن ایک جریرہ ملا۔- ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں حجاج نے ابن جریج سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں روایت سنائی کہ لوگوں نے تو کہا کہ ” ہمارے اندر ثقیل یعنی بوجھل لوگ بھی ہیں۔ ضرورت مند بھی ہیں۔ صنعت و حرفت سے تعلق رکھنے والے بھی اور ایسے بھی ہیں جن کے ذاتی حالات پراگندہ ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (انفروا خفاف وثقالاً ) ۔ ان حضرات نے اس آیت کو نفیر یعنی از خود جہاد پر نکلنے کی فرضیت پر محمول کیا خواہ اس کے لئے باوا نہ بھی آیا ہو جبکہ پہلی آیت ظاہراً وبلاوا آنے پر جہاد کے لئے نکل پڑنے کی فرضیت کی مقتضی ہے اس آیت کی تاویل میں کئی وجہ بیان کئے گئے ہیں :- پہلی تفسیر کے مطابق یہ بات غزوئہ تبوک کے موقع پر پیش آئی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو جہاد پر نکلنے کے لئے کہا تھا۔ آپ نے جن لوگوں کو نکلنے کے لئے کہا تھا ان پر آپ کے ساتھ نکل پڑنا فرض تھا۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ماکان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرغبوا بانفسھم۔ مدینے کے باشندوں اور گردو نواح کے بدیوں کو ہرگز یہ زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بےپروا ہوکر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے) ان حضرات کا کہنا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور کے ساتھ جہاد پر نکل پڑنے کا یہ حکم نہیں ہے۔- ایک قول کے مطابق یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن محمد المروزی نے، انہیں علی بن الحسین نے اپنے والد سے، انہوں نے یزید النحوی سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ آیت (الا تنفروا یعذبکم عذاباً الیماً ویستبدل قوماً غیرکم) نیز آیت (ماکان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ) کو اس کے بعد آنے والی آیت (وما کان المومنون لینفروا کافۃ اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے) نے منسوخ کردیا ہے۔- بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں سے کسی آیت کے اندر نسخ نہیں ہوا ان دونوں کا حکم ثابت اور باقی ہے۔ ان دونوں کے حکموں کا دو حالتوں کے ساتھ تعلق ہے۔ جب سرحد پر موجود مسلمانوں میں دشمن سے تنہا مقابلہ کی تاب نہ ہو اور وہ دوسرے مسلمانوں کو جہاد پر نکلنے کے لئے کہیں تو پھر تمام لوگوں پر جہاد کے لئے نکلنا فرض ہوجائے گا تاکہ سرحدات پر پہنچ کر دشمن کے خلاف معرکہ کارزار گرم کرسکیں اگرچہ سرحدات پر موجود لوگوں کی وجہ سے باقی ماندہ لوگوں کی کوئی خاص ضرورت نہ بھی پیش آئے پھر بھی ان پر اس کی فرضیت عائد رہے گی خواہ انہیں جہاد پر نکلنے کے لئے کہا گیا ہو یا نہ کہا گیا ہو۔ جب دشمن کے مقابلہ میں صف آرا لوگ جہاد کا فرض پورا کررہے ہوں اور انہیں اندرون ملک رہنے والے لوگوں سے مدد حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو تو اس صورت میں ایسے لوگوں پر جہاد فرض نہیں ہوگا۔ الا یہ کہ ان میں سے کوئی جہاد پر اپنی مرضی سے جانا چاہے تو وہ فرض جہاد کا ادا کرنے والا شمار ہوگا اگرچہ شروع سے ہی جہاد میں حصہ نہ لینے کے سلسلے میں اس کا عذر قابل قبول ہوگا۔ اس لئے کہ جہاد فرض کفایہ ہے اگر ایک گروہ یہ فرض ادا کردے تو باقی ماندہ لوگوں سے ان کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں جریر نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا (لاھجرۃ ولکن جھدونیۃ وان اتنفرتم فانفروا اب ہجرت کا حکم باقی نہیں رہا لیکن جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا اور نیت کا ثواب ملتا رہے گا اور اگر تمہیں جہاد پر نکلنے کے لئے کہا جائے تو نکل کھڑے ہو) آپ نے جہاد کے لئے بلاوے پر نکل کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ آپ کا یہ فرمان ظاہر قول باری (یآیھا الذین اٰمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللہ اثا قلتم الی الارض) سے مطابقت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اس قول باری کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب ضرورت کے وقت لوگوں کو جہاد پر نکلنے کی نفیر عام مل جائے اس لئے کہ سرحدات پر موجود لوگ دشمن کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو کافی سمجھتے ہوں اور انہیں دوسرے مسلمانوں سے مدد مانگنے کی ضرورت نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ عام طور پر لوگوں کو جہاد کے لئے نکلنے کو نہیں کہیں گے لیکن اگر امام المسلمین لوگوں کہ جہاد پر نکلنے کے لئے کہے جبکہ سرحدات پر موجود مسلمان اور فوج حالات پر قابو رکھنے کے لئے کافی ہوں لیکن امام المسلمین برسرپیکار دشمن پر آگے بڑھ کر حملہ کرنا اور دشمن کے علاقے کو روندنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں جن لوگوں کو وہ جہاد پر نکلنے کے لئے کہے گا ان پر نکل پڑنا لازم ہوگا۔ اس صورت میں فرضیت جہاد کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔- ابن شریر اور سفیان ثوری نیز دیگر حضرات سے منقول ہے کہ جہاد ایک نفلی عبادت ہے۔ یہ فرض نہیں ہے ان کا قول ہے کہ آیت (کتب علیکم القتال تم پر قتال فرض کردیا گیا ہے) وجوب پر محمول نہیں ہے۔ بلکہ ندب اور استحباب پر محمول ہے جس طرح یہ قول باری استحباب پر محمول ہے (کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیران الوصیۃ للوالدین والاقربین۔ تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لئے معرو طریقے سے وصیت کرے) حضرت ابن عمر (رض) سے بھی اس قسم کی ایک روایت ہے اگرچہ ان سے اس روایت کی صحت کے بارے میں اختلاف ہے۔- یہ روایت ہمیں جعفر بن محمد بن الحکم نے بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن ایمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں علی بن معید نے ابو ملیح الرتی سے، انہوں نے میمون بن مہران سے، وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس موجود تھا۔ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کے پاس آکر ان سے فرائض کے متعلق پوچھنے لگا۔ حضرت ابن عمر (رض) اتنی دور بیٹھے تھے جہاں سے وہ ان کی گفتگو سن سکتے تھے۔ سائل کے جواب میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے فرمایا : فرائض یہ ہیں، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ میمون کہتے ہیں کہ شاید حضرت ابن عمر (رض) کو اس آخری بات پر غصہ آگیا تھا۔ آپ نے فرمایا فرائض یہ ہیں، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ اد ا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔ “ راوی کا کہنا ہے کہ ابن عمر (رض) نے جہاد کا ذکر نہیں کیا۔- عطاء اور عمرو بن دینار سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی انہیں جعفر بن ایمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں حجاج نے ابن جریج سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ آیا غزو یعنی جہاد کرنا لوگوں پر واجب ہے ؟ تو انہوں نے اور عمرو بن دینار دونوں نے جواب دیا : ” ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے “ امام ابو حنیفہ، اما ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور دوسرے تمام فقہائے امصار کا قول ہے کہ جہاد قیامت تک کے لئے فرض ہے۔ البتہ یہ فرض کفایہ ہے کہ اگر کچھ لوگ یہ فریضہ ادا کرلیں تو باقیوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ان کے لئے اسے ترک کردینے کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔- ابو عبید نے ذکر کیا ہے کہ سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے کہ جہاد فرض نہیں ہے لیکن لوگوں کے لئے اس بھی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ترک جہاد پر ایکا کرلیں بلکہ ان میں سے بعض کی طرف سے اس کی ادائیگی دوسروں کے لئے بھی کفایت کرجائے گی۔ “ گر سفیان ثوری کا یہ قول ہے تو اس سے یہ بات علوم ہوئی کہ وہ بھی جہاد کے فرض کفایہ ہونے کے قائل ہیں اور یہ مسلک ہمارے اصحاب کے اس مسلک سے مطابقت رکھتا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ تمام مسلمان اس عقیدے کے حامل ہیں کہ جب سرحدات پر موجود مسلمانوں کو دشمن کے حملے کا خوف ہو اور ان میں اس کے مقابلہ کی سکت نہ ہو جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اپنی جان و مال اور اہل و عیال کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوجائے تو ایسی صورت میں پوری امت پر یہ فرض عائد ہوجائے گا کہ ایسے لوگ فوری طورپر سرحدوں پر پہنچ جائیں جو مسلمانوں کو دشمن کی چیرہ دستیوں سے بچالیں۔ امت کے اندر اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لئے کہ کوئی مسلمان بھی اس صورت حال میں اس بات کے جواز کا قائل نہیں ہوگا کہ دشمن کے مقابلہ پر جانے کی بجائے مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ رہیں اور دشمن کو ان کا خون بہانے اور ان کے اہل و عیال کو قیدی بناکر لے جانے کا موقع مل جائے۔- البتہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ جب دشمن کا مقابلہ کرنے والے موجود ہوں اور وہ دشمن کے خلاف صف آرا ہوں نیز انہیں دشمن کے غالب آنے کا خطرہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کے لئے اس دشمن کے خلاف ترک جہاد جائز ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ یا تو مسلما ہوجانے یا جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہوجائے۔ حضرت ابن عمر (رض) ، عطاء، عمرو بن دینار اور ابن بشرمہ کا یہ قول تھا کہ امام المسلمین نیز مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہوگا کہ وہ ایسے دشمن کے خلاف جنگ نہ کریں اور اپنا ہاتھ روک لیں۔- دوسرے حضرات کا قول ہے کہ امام المسلمین نیز مسلمانوں پر ایسے دشمن کے خلاف جنگی کارروائیاں کرتے رہنا ضروری ہوگا یہاں تک کہ وہ یا تو مسلمان ہوجائیں یا جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہوجائیں۔ ہمارے اصحاب کا اور سلف میں سے حضرت مقداد بن الاسود (رض) ، حضرت ابو طلحہ (رض) نیز دیگر صحابہ کرام اور تابعین جن کا ہم نے ذکر کیا ہے یہی مسلک ہے۔ حضرت حذیفہ بن ایمان (رض) کا قول ہے کہ اسلام کے آٹھ حصے ہیں۔ آپ نے جہاد کو ایک حصہ قرار دیا۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی انہیں جعفر بن الیمان نے انہیں ابو عبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج سے کہ معمر کہتے تھے کہ مکحول قبلے کی طرف رخ کرلیتے پھر دس دفعہ قسمیں کھا کر کہتے کہ جہاد واجب ہے، پھر فرماتے کہ اگر تم لوگ چاہو تو میں یہی بات اس سے زائد بار قسمیں کھا کر بھی کہہ سکتا ہوں۔ “ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ، انہیں جعفر بن یمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے العدء بن الحارث یا کسی اور سے، انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر جہاد فرض کردیا ہے خواہ وہ بیٹھ رہیں یا جہاد پر چلے گئے جو شخص بیٹھ رہے گا وہ بھی گویا تیاری پر ہوگا کہ ضرورت پڑنے پر جس وقت اسے مدد کے لئے کہاجائے گا وہ مدد کرے گا اور جب اسے محاذ پر جانے کے لئے بلایا جائے گا تو وہ فوراً نکل کھڑا ہوگا اور اگر اس کی مطلقاً ضرورت نہیں پڑے گی تو گھر بیٹھ رہے گا۔ “ ابن شہاب کا یہ قول ان لوگوں کے مسلک کے مطابق ہے جو جہاد کے فرض کفایہ ہونے کے قائل ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) ، عطاء اور عمرو بن دینار کے اس قول سے کہ جہاد فرض نہیں ہے ان حضرات کی مراد یہ ہو کہ جہاد فرض عین نہیں ہے کہ ہر متعین شخص پر اس کی فرضیت ثابت ہو جس طرح نماز اور روزہ فرض عین ہے بلکہ یہ فرض کفایہ ہے۔- فرضیت جہاد پر قرآنی آیات - جہاد کی فرضیت کی موجب آیات بہت زیادہ ہیں، ارشاد باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ، ان سے لڑو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کا ہوجائے) یہ آیت کا ئووں سے قتال کے وجوب کی مقتضی ہے حتیٰ کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ ارشاد ہوا (قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخزھم۔ ان سے لڑو اللہ تمہارے ہاتھوں ان کو سزا دے گا اور رسوا کرے گا) تا آخر آیت، فرمایا (قاتلوا الٓین لایومنون باللہ والیوم الاخر۔ ان لوگوں سے لڑو جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے) تا آخر آیت۔ ارشاد ہوا۔ (فلاتھنوا وتدعوا الی السلم وانتم الاعلمون واللہ معکم۔ تم کمزوری نہ دکھائو اور انہیں صلح کی طرف نہ بلائو اور تم ہی غالب ہوگے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے) نیز فرمایا (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم۔ مشرکین کو جہاں پائو قتل کردو) ارشاد ہوا (وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ ۔ تم سب مل کر مشرکین سے لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں) نیز فرمایا (انفروا خفافاً وثقالاً وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ۔ نکل پڑو ہلکے اور بوجھل اور اپنے مال اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو) نیز (الا تنفروا یعذبکم عذاباً الیما ویستبدل قوما غیرکم۔ اگر تم نہیں نکلوگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو کھڑا کردے گا) نیز ارشاد ہوا (فانفروا ثبات اوانفرو جمیعاً ۔ پھر گروہ درد گروہ کوچ کرو یا اکٹھے ) فرمایا (یایھا الذین اٰموا ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم تومنون باللہ ورسولہ وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کا پتہ نہ بتادوں ؟ جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے گی، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال او اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کے عذاب سے نجات کی صورت ہی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا جائے اور جان و مال کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کی جائے۔- یہ آیت دو وجوہ سے فرضیت جہاد کے معنی کو متضمن ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان اللہ وبالرسول کی فرضیت کے ساتھ مقرون کرکے بیان کیا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کے عذاب سے ایمان اور جہاد کے ذریعے نجات مل سکتی ہے اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ واجبات یعنی فرائض کو ترک کرنے پر ہی کوئی شخص عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ ارشاد ہے (کتب علیکم القتال تم پر قتال فرض کردیا گیا) یہاں کتب کے معنی فرض کے ہیں یعنی تم پر فرض کردیا گیا جس طرح روزے کی فرضیت کے بارے میں قول باری ہے (کتب علیکم الصیام تم پر روزے فرض کردیئے گئے)- اگر یہ کہا جائے کہ محولہ بالا آیت کا حکم اسی طرح ہے جس طرح آیت (کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیران الوصیۃ للوالدین ولاقربین بالمعروف جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں معروف طریقے سے والدین اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرجائو) اس میں امر کو استحباب پر محمول کیا گیا ہے فرضیت پر نہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس آیت کی بنا پر وصیت کبھی فرض ہوا کرتی تھی۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب اللہ تعالیٰ نے ابھی میراث کی فرضیت کا حکم نازل نہیں کیا تھا پھر میراث کے حکم کے ساتھ وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا تاہم آیت کے الفاظ ایجاب پر دلالت کرتے ہیں الا یہ کہ استحباب پر دلالت قائم ہوجائے لیکن جہاد کے سلسلے میں کوئی ایسی دلالت قائم نہیں ہوئی ہے جس سے معلوم ہوجائے کہ جہاد مستحب ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جنگ کی دوسری ذمہ داری - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور دیگر آیات کے ذریعے تمام مکلفین پر بقدر مکان جہاد کی فرضیت کو موکد کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمادیا (فقاتل فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک وحرمض المومنین۔ اللہ کی راہ میں قتال کرو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے ذمہ دار نہیں ہو اور اہل ایمان کو قتال پر ابھارو) اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جہاد کے سلسلے میں دوہری فرضیت عائد کردی اور فرضیت تو یہ کہ بذات خود جہاد کریں، جہاد میں شریک ہوں اور میدان جہاد میں موجود ہوں اور دوسری یہ کہ لوگوں کو جہاد پر ابھاریں، انہیں اس کی ترغیب دیں اور ان کے سامنے اس کی فضیلتیں بیان کریں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چونکہ مال نہیں تھا اس لئے جہاد کے سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انفق مال کا حکم نہیں دیا گیا جبکہ دوسروں کو اس حکم ان الفاظ میں دیا گیا :- (نکلو ہلکے اور بوجھل اور اپنے مال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو) اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر جو اہل قتال ہو اور اس کے پاس مال بھی ہو، جان و مال سے جہاد کرنا فرض کردیا پھر دوسری آیت میں فرمایا (وجآء المعذرون من الاعراب لیوذن لھم وقعد الذین کذبوا اللہ ورسولہ سیصیب الذین کفروا منھم عذاب الیم۔ لیس علی الضعفآء ولا علی المرض ولا علی الذین لا یجدون ماینفقون حرج اذا نصحوا للہ ورسولہ۔ بدوی عربوں میں سے بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی اجئے۔ اس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں سے جن جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے عنقریب وہ دردناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لئے زاد راہ نہیں پاتے اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں) اللہ تعالیٰ نے درماندگی اور مال کی عدم موجودگی کی بنا پر جن لوگوں سے اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کی فرضیت کو ساقط کردیا ان پر کم از کم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی کا فریضہ ضرور عائد کردیا۔ اس لئے تمام مکلفین پر درجہ بدرجہ جہاد کی فرضیت ہے جیسا کہ ہم درج بالا سطور میں بیان کر آئے ہیں اس حکم سے کوئی مکلف بھی خارج نہیں ہے۔- فرضیت جہاد پر ارشادات نبوی - جہاد کی فرضیت کی تاکید میں بکثرت رواتیں منقول ہیں۔ ہمیں عمرو بن حفص سدوسی سے روایت بیان کی گئی، انہیں عاصم بن علی نے، انہیں قیس بن الربیع نے جبلہ بن سحیم سے، انہوں نے موثر بن عفارہ سے اور انہوں نے حضرت بشیر بن لاخصاصیہ (رض) سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیعت کرنے کی نیت سے حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول، آپ مجھ سے کن باتوں پر بیعت لیں گے ؟ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا اور فرمایا : ” میں تم سے اس پر بیعت لیتا ہوں کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں پانچ فرض نمازیں ان کے اوقات میں اداکرو، فریضہ زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ “ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول، میں ان میں سے دو باتوں پر عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوں، زکوٰۃ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے کہ میرے اہل خاندان کے پاس بار برداری کی اونٹنیاں ہیں نیز وہ لوگ کام کاج کرتے رہتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں جو آمدنی ہوتی ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی مل جاتا ہے اور بس۔ میں جہاد بھی نہیں کرسکتا اس لئے کہ میں ڈرپوک انسان ہوں۔ خطرہ ہے کہ کہیں ڈر کے مارے میدان جہاد سے بھاگ کھڑا نہ ہوں اور اس طرح اللہ کے غضب کا مستحق بن کر نہ لوٹوں۔ “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مٹھی بیھنچ لی اور فرمایا : ” بشیر نہ تم جہاد کرو نہ صدقہ دو ۔ تو پھر جنت میں کیسے جائو گے ؟ “ میں نے یہ سنتے ہی عرض کیا : ” اللہ کے رسول ہاتھ آگے کیجئے “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک آگے کردیا اور میں نے مذکورہ بالا باتوں پر آپ سے بیعت کرلی۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، ابراہیم بن عبداللہ نے ، انہیں حجاج نے ، انہیں حماد نے ، انہیں حمید نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (جاھدو المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم مشرکین کے خلاف اپنے مال، اپنی جان اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرو) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر اس چیز کے ذریعے جہاد واجب کردیا جس کے ساتھ جہاد کرنا ممکن ہو۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد کوئی ایسا فرض نہیں ہے جس کی فرضیت جہاد کی فرضیت سے زیادہ موکد اور اولیٰ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کے ذریعے اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے تمام فرائض کی ادائیگی ہوجاتی ہے لیکن اگر جہاد کا فریضہ ترک کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں پر ان کے دشمن غالب آجاتے ہیں، دین مٹ جاتا اور اسلام ختم ہوجاتا ہے تاہم جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، جہاد فرض کفایہ ہے۔- اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جسے عاصم بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے واقدبن محمد س انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (نبی الاسلام علی خمس۔ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے) آپ نے اس سلسلے میں شہادتیں کا ذکر فرمایا، نیز نماز، روزہ، کوٰۃ اور حج کا تذکرہ کیا۔ آپ نے یہ پانچ چیزیں بیان کیں لیکن جہاد کا ذکر نہیں کیا جس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ جہاد فرض نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ روایت دراصل مرفوع روایت نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ اساد حضرت ابن عمر (رض) پر جاکر ختم ہوجاتا ہے جس کی بنا پر یہ موقوف روایت ہے۔ اسے وہب نے عمر بن محمد سے انہوں نے زید سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ انہوں نے فرمایا : ” میں نے یہ پایا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔ “ حضرت ابن عمر (رض) کا یہ کہنا کہ ” میں نے پایا ہے “ اس امر کی دلیل ہے کہ انہوں نے یہ بات اپنی رائے کی بنا پر کہی ہے جس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ ان کے سوا اور دوسرے صحابہ کرام کو اسلام کی بنیاد ان پانچ سے زائد باتوں پر نظر آتی ہو چناچہ حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) کا قول ہے کہ اسلام کی بنیاد آٹھ اجزاء پر رکھی گئی ہے جن میں سے ایک جز جہاد ہے۔ یہ قول حضرت ابن عمر (رض) کے قول کے معارض ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ بعید اللہ بن موسیٰ نے روایت کی ہے۔ انہیں حنظلہ بن ابی سفیان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عکرمہ بن خالد کو طائوس سے یہ کہتے ہوئے سنا تھ کہ ایک شخص حضرت ابن عمر (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا : ابو عبدارلحمن آپ جہاد پر کیوں نہیں جاتے ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے۔ “ اس حدیث کی سند درست ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچتی ہے جس کی بنا پر روایت مرفوع ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے صرف پانچ باتوں کے ذکر پر اس لئے اقتصار کیا ہو یہ ہر انسان پر فرض عین ہیں اور ہر شخص پر اس کی ذاتی حیثیت میں لازم ہوتی ہیں۔ آپ نے اس فرض کا ذکر نہ کیا ہو جس کی حیثیت فرض عین کی نہیں بلکہ فرض کفایہ کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اقامت حدود، علم دین کا حقول اور مردوں کا غسل اور ان کی تجہیز و تکفین سب فرائض میں داخل ہیں لیکن آپ نے اسلام کے بنیادی فرائض کا ذکر کرتے ہوئے ان کا تذکرہ نہیں کیا تاہم آپ کا انہیں ذکر نہ کرنا اس امر کا مقتضی نہیں ہے کہ یہ باتیں فرائض کے دائرے سے خارج ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے درج بالا ارشاد میں ان فرائض کے ذکر تک بات محدود رکھی ہے جو ہر انسان کو انفرادی طور پر اور اس کی ذاتی حیثیت میں لازم ہوتی ہیں نیز جن کے لئے مقررہ اوقات ہیں اور کوئی اور فرض ان اوقات میں ان کے قائم مقام نہیں ہوسکتا اور نہ ان کی خانہ پری کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جہاد فرض کفایہ ہے جیسا کہ ہم نے اس کی وضاحت کی ہے اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا تذکرہ نہیں فرمایا۔- حضرت ابن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جہاد کے وجوب پر دلالت کرنے والی روایت نقل کی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن شیرویہ سے اس حدیث کی روایت کی گئی ہے انہیں اسحاق بن راہویہ نے ، انہیں جریر نے لیث بن ابی سلیم سے، انہوں نے عطا سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ : ہم پر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جب ہم میں سے کوئی شخص بھی اپنے مسلمان بھائی کے مقابلہ میں اپنے آپ کو درہم و دینار کا زیادہ حق دار نہیں سمجھتا تھا اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسلمان بھائی کی بہ نسبت ہمیں درہم و دینار سے زیادہ محبت ہے حالانکہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جب درہم و دینار پر لوگوں کا یقین بڑھ جائے اور لوگ آپس میں چیزوں کو ان کی اصلی قیمت سے زیادہ قیمت پر ادھار خریدوفروخت کریں اور گایوں کی دموں کے پیچھے لگے رہیں اور جہاد چھوڑ بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ایسی ذلت میں مبتلا کردے گا جو ان سے اس وقت تک دور نہیں ہوگی جب تک وہ دین کی طرف پوری طرح رجوع نہیں کرلیں گے۔- ہمیں خلف بن عمرو العبکری سے روایت بیان کی گئی ہے، انہیں المعلی بن المہدی نے ، انہیں عبدالوارث نے، انہیں لیث نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے، انہوں نے عطا سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سے ملتی جلتی روایت کی ہے۔ روایت کے الفاظ جہاد کے وجوب کے مقتضی ہیں اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ جہاد ترک کرنے کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ انہیں ذلت میں مبتلا کردے گا اور سزائیں صرف اس صورت میں لازم ہوتی ہیں جب واجبات یعنی فرائض تک کردیئے جائیں۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کا مسلک بھی یہی ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے اس لئے فرض جہاد کی نفی کے سلسلے میں ان سے جو روایت منقول ہے وہ اس معنی پر معمول ہے جو ہم نے بیان کیا ہے کہ جہاد کا فریضہ ہر زمانے اور حالت میں ہر شخص پر لازم نہیں ہوتا یعنی یہ فرض عین نہیں ہے۔ جہاد فرض کفایہ ہے اس پر قول باری (وما کان المومنون لینفروا کافۃ) اور قول باری (فانفروا ثبات اوانفروا جمیعاً ) دلالت کرتے ہیں۔ نیز فرمایا (لایستوی القاعدون من المومنین غیر اولی الضرروا امجاھدون فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم، فضل اللہ المجاہدین باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجۃ وکلا وعداللہ الحسنیٰ ۔ اہل ایمان میں سے جہاد سے بیٹھ رہنے والے۔ بجز اس کے کہ انہیں کوئی معذوری ہو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے اور ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھلائی ہی کا وعدہ کیا ہے) اگر ہر شخص پر اس کی ذاتی حیثیت میں جہاد فرض ہوتا تو جہاد سے گھر بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بھلائی کا وعدہ نہ کیا جاتا۔ بلکہ ترک جہاد کی بنا پر ان کی مذمت کی جاتی اور عذاب کا مستحق گردانا جاتا۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے، انہوں نے عطاء خراسانی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (فانفرواثبات اوانفروا جمیعاً ) اور (انفروا خفافاً وثقالاً ) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ان دونوں آیتوں کو قول باری (وما کان المومنون لینفروا کافۃ، فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون۔ اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرتے) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ ایک گروہ جہاد کے لئے نکل جائے اور ایک گروہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ رہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہ جانے والے لوگ دین میں سمجھ پیدا کریں اور جہاد پر جانے والے بھائیوں کو ان کی واپسی پر اللہ کی آیات، اس کے نازل کردہ احکامات اور اس کے مقرر کردہ حدود کے متعلق انہیں باخبرکریں تاکہ وہ بھی اللہ کی نافرمانی سے پرہیزکریں۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد وہ فوجی مہمات ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف اطراف میں بھیجی جاتی تھیں جنہیں سرایا (جمع سریہ) کہا جاتا ہے۔ یہ سرایا جب مدینے سے روانہ ہوتے تو ان کے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات و احکامات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ٹھہرجانے والے لوگ سیکھ لیتے۔ جب یہ سرایا واپس ہوتے تو ان میں شامل لوگ مدینہ منورہ میں ٹھہر جاتے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی آیات و احکامات کی اپنے ٹھہرے رہنے والے بھائیوں سے تعلیم حاصل کرتے اور ان کی جگہ دوسرے لوگوں پر مشتمل فوجی دستوں کو مہمات پر روانہ کردیا جاتا۔- اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یتفقھوا فی الدین ولینھذروا قومھم اذا رجعوا الیھم) ہم نے اوپر جن آیات کا حوالہ دیا ہے اور ان کی جو تفسیر پیش کی ہے اس سے فرضیت جہاد کا لزوم ثابت ہوگیا نیز اس پر بھی دلالت ہوگئی کہ جہاد فرض کفایہ ہے اور ہر شخص کے لئے اس کی ذاتی حیثیت میں لازم نہیں ہے یعنی فرض عین نہیں ہے اور ہر شخص کی جان و مال میں اس کا لزوم نہیں ہے جبکہ اس کی ادائیگی کے لئے دوسرے افراد موجود ہوں اور یہ فرضہ ادا کررہے ہوں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨۔ ٣٩) اے جماعت صحابہ کرام (رض) تمہیں کیا ہوا کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اطاعت خداوندی یعنی غزوہ تبوک میں جاؤ تو تم زمین پر لگے جاتے ہو کیا تم لوگوں نے آخرت کے بدلے دنیاوی زندگی پر قناعت کرلی ہے حقیقت میں دنیاوی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں، یعنی اگر تم اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نہ نکلے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت میں سخت سزا دیں گے اور تمہارے بجائے تم سے بہترین اور زیادہ اطاعت کرنے والی قوم پیدا کرے گا، اور تمہارا جہاد کے لیے نہ نکلنا دین الہی کو کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ عذاب دینے اور تبدیل کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔- شان نزول : یایھا الذین امنوا مالکم اذا قیل لکم “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب فتح مکہ اور حنین کے بعد غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔- گرمیوں کے زمانہ میں جب پھل پک رہے تھے اور سایوں کی حاجت تھی اس وقت جہاد میں جانے کا حکم ہوا تو ان کو ذرا مشکل لگا تو یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی کہ تھوڑے سامان سے اور زیادہ سامان سے نکل کھڑے ہو۔- شان نزول : (آیت) ” الا تنفروا “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے نجرہ بن تفیع (رح) سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو آپ (رح) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبائل عرب کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو ان پر گراں گزرا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لہٰذا بارش بند ہوگئی اور یہی ان کا عذاب تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ ط) - اگرچہ یہ وضاحت سورة النساء میں بھی ہوچکی ہے مگر اس نکتے کو دوبارہ ذہن نشین کرلیں کہ قرآن حکیم میں منافقین سے خطاب یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے صیغے میں ہی ہوتا ہے ‘ کیونکہ ایمان کا دعویٰ تو وہ بھی کرتے تھے اور قانونی اور ظاہری طور پر وہ بھی مسلمان تھے۔- (اَرَضِیْتُمْ بالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج) - یہ بھی ایک متجسسانہ سوال ( ) ہے۔ یعنی تم دعویدار تو ہو ایمان بالآخرت کے ‘ لیکن اگر تم اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنے کو تیار نہیں ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم آخرت ہاتھ سے دے کر دنیا کے خریدار بننے جا رہے ہو۔ تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :38 یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :39 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ عالم آخرت کے بے پایاں زندگی اور وہاں کے بے حد وحساب سازو سامان کو جب تم دیکھو گے تب تمہیں معلوم ہو گا کہ دنیا کے تھوڑے سے عرصہ حیات میں لطف اندوزی کے جو بڑے سے بڑے امکانات تم کو حاصل تھے اور زیادہ سے زیادہ جو اسباب عیش تم کو میسر تھے وہ غیر محدود امکانات اور اس نعیم و ملک کبیر کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے ۔ اور اس وقت تم کو اپنی اس ناعاقبت اندیشی و کم نگاہی پر افسوس ہو گا کہ تم نے کیوں ہمارے سمجھانے کے باوجود دنیا کے عارضی اور قلیل منافع کی خاطر اپنے آپ کو ان ابدی اور کثیر منافع سے محروم کر لیا ۔ دوسرے یہ کہ متاع حیاۃ دنیا آخرت میں کام آنے والی چیز نہیں ہے ۔ یہاں تم خواہ کتنا ہی سروسامان مہیا کر لو ، موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہر چیز سے دست بردار ہونا پڑے گا ، اور سرحد موت کے دوسری جانب جو عالم ہے وہاں ان میں سے کوئی چیز بھی تمہارے ساتھ منتقل نہ ہوگی ۔ وہاں اس کا کوئی حصہ اگر تم پا سکتے ہو تو صرف وہی جسے تم نے خدا کی رضا پر قربان کیا ہو اور جس کی محبت پر تم نے خدا اور اس کے دین کی محبت کو ترجیح دی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: یہاں سے غزوہ تبوک کے مختلف پہلووں کا بیان شروع ہورہا ہے جو اس سورت کے تقریبا آخر تک چلا گیا ہے اس غزوے کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ اور غزوہ حنین کے سفر سے واپس مدینہ منورہ تشریف لائے تو کچھ عرصہ بعد شام سے آنے والے کچھ سودا گروں نے مسلمانوں کو بتایا کہ رومی سلطنت کا بادشاہ ہر قل مدینہ منورہ پر ایک زور دار حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ جس کے لیے اس نے ایک بڑا لشکر شام اور عرب کی سرحد پر جمع کرلیا ہے، اور اپنے فوجیوں کو سال بھر کی تنخواہ پیشگی دے دی ہے۔ صحابہ کرام اگرچہ اب تک بہت سی جنگیں لڑ چکے تھے، مگر وہ سب جزیرہ عرب کے اندر تھیں، یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا کی مانی ہوئی ایک بڑی طاقت سے مقابلہ پیش آرہا تھا۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ ہرقل کے حملے کا انتظار کیے بغیر خود پیش قدمی کی جائے، اور خود وہاں پہنچ کر مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے مدینہ منورہ کے تمام مسلمانوں کو اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے تیاری کا حکم دیا۔ مسلمانوں کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔ اول تو دس سال کی متواتر جنگوں کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ فتح مکہ کے بعد سکون کے کچھ لمحات میسر آئے تھے۔ دوسرے جس وقت اس جنگ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ وہ ایسا وقت تھا کہ مدینہ منورہ کے نخلستانوں میں کھجوریں پک رہی تھیں۔ انہی کھجوروں پر اہل مدینہ کی سال بھر کی معیشت کا دار و مدار تھا۔ ایسی حالت میں باغات کو چھوڑ کر جانا نہایت مشکل تھا۔ تیسرے یہ عرب میں گرمی کا سخت ترین موسم تھا جس میں آسمان سے آگ برستی اور زمین سے شعلے نکلتے محسوس ہوتے ہیں۔ چوتھے تبوک کا سفر بہت لمبا تھا، اور تقریبا آٹھ سو میل کا یہ پورا راستہ لق ودق صحراؤں پر مشتمل تھا۔ پانچویں سفر کے لیے سواریاں کم تھیں۔ چھٹے اس سفر کا مقصد رومی سلطنت سے ٹکر لینا تھا جو اس وقت نہ صرف یہ کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی، بلکہ اس کے طریق جنگ سے بھی اہل عرب پوری طرح مانوس نہیں تھے۔ غرض ہر اعتبار سے یہ انتہائی مشقت، جان و مال اور جذبات کی قربانی کا جہاد تھا جس کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیس ہزار صحابہ کرام کے لشکر کے ساتھ تبوک روانہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہرقل اور اس کے لشکر پر آپ کی اس جرات مندانہ پیش قدمی کا ایسا رعب طاری فرما دیا کہ وہ سب واپس چلے گئے اور مقابلے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ مذکورہ بالا مشکل حالات کے باوجود صحابہ کرام کی بھاری اکثریت ماتھے پر بل لائے بغیر جاں نثاری کے جذبے سے اس مہم میں شریک ہوئی۔ البتہ کچھ صحابہ ایسے بھی تھے جنہیں یہ سفر بھاری معلوم ہوا، اور شروع میں انہیں کچھ تردد رہا، لیکن آخر کار وہ لشکر میں شامل ہوگئے۔ اور چند ایسے بھی تھے جو اس تردد کی وجہ سے آخر تک فیصلہ نہ کرسکے، اور سفر میں شرکت سے محروم رہے۔ دوسری طرف وہ منافقین تھے جو ظاہری طور پر تو مسلمان ہوگئے تھے لیکن اندر سے مسلمان نہیں تھے۔ ایسی سخت مہم میں مسلمانوں کا ساتھ دینا ان کے لیے ممکن ہی نہیں تھا، اس لیے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے مدینہ منورہ میں رک گئے اور ساتھ نہیں گئے۔ اس سورت کی آنے والی آیات میں ان سب قسم کے لوگوں کا ذکر آیا ہے، اور ان کے طرز عممل پر تبصرہ فرمایا گیا ہے۔ آیت نمبر 38 میں جن لوگوں کو ملامت کی گئی ہے ان سے مراد منافقین بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘ ان کے ظاہری دعوی کے مطابق فرمایا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خطاب ان صحابہ کرام سے ہو جن کے دل میں تردد پیدا ہوا تھا۔ البتہ آیت نمبر 42 سے تمام تر بیان منافقین ہی کا ہے۔