آغاز ہجرت تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں ۔ میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں ۔ یاد رکھو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ کے قتل ، قید یا دیس نکالا دینے کی سازش کی تھی اور آپ اپنے سچے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تن تنہا مکہ شریف سے بحکم الٰہی تیز رفتاری سے نکلے تھے تو کون ان کا مددگار تھا ؟ تین دن غار میں گذارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ شریف کا راستہ لیں ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو کوئی ایذاء پہنچائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو بکر بن ابو قحافہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غار میں کہا کہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا آپ نے فرمایا ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ ہے ۔ الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی ۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسکین نازل فرمائی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں ۔ اسلئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا ۔ شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لئے ۔ دوسرا حمیت قومی کے لئے ، تیسرا لوگوں کو خشو کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو کلمہ حق کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ راہ حق کا مجاہد ہے اللہ تعالیٰ انتقام لینے پر غالب ہے ۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی روک سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے ۔ کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے ۔ اس کے سب اقوال افعال حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں ۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ ۔
40۔ 1 جہاد سے پیچھے رہنے یا اس سے جان چھڑانے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم مدد نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی مدد اس وقت بھی کی جب اس نے غار میں پناہ لی تھی اور اپنے ساتھی (یعنی حضرت ابوبکر صدیق سے کہا تھا غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے اس کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم غار میں تھے تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر ان مشرکین نے (جو ہمارے تعاقب میں ہیں) ہمارے قدموں پر نظر ڈالی تو یقینا ہمیں دیکھ لیں گے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، یا ابابکر ما ظنک باثنین اللہ ثالثھما (صحیح بخاری) اے ابوبکر تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ کی مدد اور اس کی نصرت جن کو شامل حال ہے۔ 40۔ 2 یہ مدد کی وہ دو صورتیں بیان فرمائی ہیں جن سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی گئی۔ ایک سکینت، دوسری فرشتوں کی تائید۔ 40۔ 3 کافروں کے کلمے سے شرک اور کلمۃ اللہ سے توحید مراد ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا۔ ایک شخص بہادری کے جوہر دکھانے کے لئے لڑتا ہے، ایک قبائلی عصبیت و حمیت میں لڑتا ہے، ایک اور ریاکاری کے لئے لڑتا ہے۔ ان میں سے فی سبیل اللہ لڑنے والا کون ہے، آپ نے فرمایا جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے، وہ فی سبیل اللہ ہے۔
[٤٣] آپ کو ہجرت کی اجازت :۔ ہم یہاں پہلے بخاری سے ہجرت کے کچھ چیدہ چیدہ واقعات بیان کریں گے۔ پھر اس آیت کے نکات پیش کریں گے۔- سیدۃ عائشہ (رض) فرماتی ہیں ایک دن ٹھیک دوپہر کو ہم اپنے گھر بیٹھے تھے۔ کسی نے کہا۔ دیکھو رسول اکرم اپنا منہ چھپائے ہمارے ہاں آ رہے ہیں۔ ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے۔ آپ جو اس وقت تشریف لائے ہیں ضرور کوئی اہم معاملہ ہے اتنے میں آپ آپہنچے۔ اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اجازت دی گئی وہ اندر داخل ہوئے تو ابوبکر صدیق (رض) سے کہا دوسروں کو یہاں سے نکال دو ۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے کہا۔ یا رسول اللہ یہاں آپ کے گھر کے لوگ ہی تو ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی۔ ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے مجھے بھی ساتھ لے جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیجئے۔ آپ نے فرمایا قیمتاً لوں گا چناچہ میں نے جلدی سے ان دونوں کا سامان تیار کیا۔ توشہ ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھا۔ اسماء بنت ابی بکر نے اپنا کمر بند پھاڑ کر تھیلے کا منہ باندھ دیا۔ اس دن سے ان کا نام ذوالنطاق یا ذالنطاقین پڑگیا۔ پھر آپ اور ابوبکر صدیق (رض) ثور پہاڑ کی غار میں چلے گئے اور تین راتیں وہیں چھپے رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر جو ایک ہوشیار اور نوجوان آدمی تھے رات ان کے ہاں گزارتے اور منہ اندھیرے مکہ قریش کے ہاں آجاتے جیسے رات مکہ میں گزاری ہو۔ اور دن بھر قریش کی ان دونوں کو نقصان پہنچانے والی باتیں سنتے اور رات کے اندھیرے میں وہاں جا کر انہیں بتلا دیتے۔ اور عامر بن فہیرہ جو ابوبکر صدیق (رض) کے غلام تھے گلہ سے ایک دودھ دینے والی بکری روک کے رکھتے۔ جب رات کی ایک گھڑی گزر جاتی تو وہ اس بکری کو غار میں لے آتے تو دونوں صاحب تازہ اور گرم دودھ پی کر رات بسر کرتے اور منہ اندھیرے ہی بکریوں کو آواز دینا شروع کردیتے۔ وہ تین راتیں ایسا ہی کرتے رہے۔ آپ اور ابوبکر صدیق (رض) نے قبیلہ بنی وائل کے ایک شخص (عبداللہ بن اریقط) کو اجرت پر راستہ بتلانے والا خریت مقرر کیا تھا۔ اگرچہ یہ کافر ہی تھا تاہم دونوں صاحبوں نے اس پر اعتماد کیا اور مکہ سے نکلتے وقت اپنی اونٹنیاں اس کے حوالہ کر کے کہا تھا کہ تین رات کے بعد وہ اونٹنیاں لے کر غار ثور پر آجائے۔ چناچہ وہ تین راتیں گزارنے کے بعد صبح اونٹنیاں لے کر آگیا۔ عامر بن فہیرہ بھی ساتھ ہی روانہ ہوئے اور راہ بتانے والے نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔- سراقہ بن مالک کا تعاقب :۔ سراقہ بن مالک بن جعشم کو اپنے بھتیجے عبدالرحمن بن مالک سے خبر ملی کہ قریش نے ان دونوں صاحبوں میں سے ہر ایک کے قتل یا گرفتار کرنے پر سو اونٹ (انعام) کا وعدہ کیا ہے۔ ایک دن میری ہی قوم (بنی مدلج) کے ایک آدمی نے مجھے کہا سراقہ میں نے ابھی چند آدمی دیکھے جو ساحل کے رستہ سے جا رہے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی ہیں۔ سراقہ کہتے ہیں میں سمجھ تو گیا مگر بظاہر یہی کہا کہ وہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی نہیں بلکہ فلاں فلاں ہوں گے جو اپنی کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں گئے ہیں۔ یہ کہہ کر میں نے چوری چھپے اپنا برچھا سنبھالا اور اپنا گھوڑا ان کے تعاقب میں سر پٹ دوڑایا۔ جب میں آپ کے قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گرپڑا۔ میں نے تیروں سے فال نکالی جو میرے ارادہ کے خلاف نکلی مگر انعام کے لالچ میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑایا تو میرے گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں گرپڑا۔ میں نے پھر فال نکالی وہ بھی میرے ارادہ کے خلاف نکلی۔ آخر میں نے آپ کو امان کے لیے آواز دی کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ عنقریب آپ کا بول بالا ہوگا۔ پھر میں نے انہیں قریش کی سب خبریں بتلا دیں اور دیت والی خبر بھی بیان کی اور توشہ یا سامان کی پیشکش کی جو انہوں نے قبول نہ کی۔ البتہ آپ نے مجھے اتنا کہا کہ ہمارے حالات کسی کو نہ بتلانا۔ پھر میں نے امان کی تحریر کا مطالبہ کیا۔ آپ نے عامر بن فہیرہ کو تحریر لکھنے کو کہا تو اس نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر مجھے تحریر لکھ دی اور آگے روانہ ہوگئے۔- یہودی کا چلانا۔۔ اور مسجد قبا کی بنیاد :۔ سیدنا زبیر اور دوسرے کئی تاجر مسلمان جو شام سے اسی ساحلی راستہ پر واپس آ رہے تھے۔ ان لوگوں کی آپ کے قافلہ سے ملاقات ہوئی۔ سیدنا زبیر (رض) نے آپ کو اور ابوبکر صدیق (رض) کو سفید کپڑے پہنائے۔ مدینہ والوں کو آپ کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر مل چکی تھی۔ وہ ہر روز صبح حرّہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے۔ پھر جب دوپہر کی گرمی شروع ہوجاتی تو واپس چلے جاتے۔ ایک دن ایک یہودی اپنے محل پر چڑھا تو اس نے آپ کو سفید کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی طرف آتے دیکھ لیا۔ وہ بےاختیار چلا اٹھا کہ جس سردار کی تمہیں انتظار تھی وہ آگئے۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں نے ہتھیار سنبھالے اور حرہ جا کر آپ سے ملے۔ آپ بنی عمر و بن عوف کے محلہ میں جا کر اترے یہ پیر کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ یہاں آپ نے مسجد کی (مسجد قبا) کی بنیاد رکھی۔ اور نمازیں ادا کرتے رہے پھر (جمعہ کے دن) آپ مدینہ کو روانہ ہوئے۔- مسجد نبوی کی تعمیر :۔ آپ کی اونٹنی وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں مسجد نبوی ہے۔ ان دنوں وہاں چند مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ جگہ دو یتیم لڑکوں سہل اور سہیل کی تھی جو اسعد بن زرارہ کی پرورش میں تھے آپ نے انہیں بلا کر اس زمین کی قیمت پوچھی اور فرمایا کہ ہم یہاں مسجد بنائیں گے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم یہ زمین آپ کو مفت دیتے ہیں۔ مگر آپ نے مفت لینے سے انکار کردیا۔ آخر انہیں قیمت ادا کر کے مسجد بنانا شروع کردی۔ مسجد بنتے وقت آپ خود بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اینٹیں ڈھو رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ھجرۃ النبی )- غارثور میں آپ کا ابوبکر صدیق (رض) کو تسلی دینا :۔ سیدنا ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ میں ہجرت کے وقت غار (ثور) میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں نے غار (کے اندر سے) کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہماری تلاش میں غار تک پہنچ گئے تھے) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں اٹھا کر دیکھے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا ان دو آدمیوں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ کتاب المناقب۔ باب ہجرۃ النبی )- اللہ نے کن کن مشکل اوقات میں اپنے رسول کی مدد کی ؟:۔ یعنی اللہ اکیلے نے اپنے نبی کی اس وقت بھی مدد کی جب مکہ کے تمام قریشی قبائل نے مل کر آپ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی۔ اور آپ کے گھر کا محاصرہ بھی کرلیا تھا۔ اس وقت بھی اللہ اپنے نبی کو ان کے چنگل سے نکال لایا تھا پھر اس وقت بھی مدد کی تھی جب تعاقب کرنے والے غار ثور کے منہ پر کھڑے تھے۔ پھر اس وقت بھی مدد کی تھی جب سراقہ بن مالک نے آپ کا تعاقب کر کے آپ کو جا لیا تھا۔ اور دوران ہجرت بھی مدد کی تھی کہ اسے بخیر و عافیت مدینہ پہنچا دیا تھا۔ اگر اللہ اس وقت اپنے نبی کی مدد کرسکتا ہے تو وہ اکیلا اس غزوہ تبوک میں بھی مدد کرسکتا ہے لہذا تم اس موقع کو غنیمت سمجھو کہ تمہارے ہاتھوں اسلام کا بول بالا ہو، تمہیں دنیا میں بھی عزت اور سرخ روئی حاصل ہو اور آخرت میں اجر ملے۔- یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہجرت کے لیے نبی نہایت خفیہ طور پر نکلے تو خود تھے۔ کفار تو انہیں نکالنے کی بجائے ان کا تعاقب کر کے واپس لانا چاہتے تھے مگر چونکہ ہجرت پر آپ کافروں کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہی مجبور ہوگئے تھے لہذا اللہ تعالیٰ نے نکالنے کی نسبت کافروں کی طرف کی ہے۔ اور جب آپ مکہ سے نکلے تو حسرت بھرے لہجہ میں مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر میری قوم مجھے یہاں سے نکال نہ دیتی تو میں تیرے سوا کہیں رہنا گوارا نہ کرتا۔ (ترمذی۔ ابو اب المناقب۔ باب فضل المکۃ)- [٤٤] اللہ کے غیر مرئی لشکر :۔ اللہ کے یہ لشکر فرشتوں کے علاوہ دوسری مخلوق کے بھی ہوسکتے ہیں مثلاً مکڑیوں کا وہ لشکر بھی اللہ ہی کا لشکر تھا جس نے آناً فاناً غار ثور کے منہ پر جالا تن دیا تھا۔ قریش جب اپنے قائف (کھوجی، سراغ رساں) کے ہمراہ اس غار پر پہنچے تو مکڑی کا تنا ہوا جالا دیکھ کر اپنے قائف کو جھوٹا اور غلط کہنے لگے کیونکہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جالا مدتوں پہلے بنا ہوا تھا یا وہ بھی اللہ کے فرشتوں کا لشکر ہی تھا جس نے مشرکوں کی نگاہوں کو غار کے اندر جھانکنے سے پھیر دیا تھا۔ اور وہ بھی اللہ ہی کے لشکر تھے جنہوں نے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنسا دیا تھا اور وہ بھی اللہ ہی کے لشکر تھے جنہوں نے دوران سفر ہجرت آپ کو ہر خطرہ سے بچایا تھا۔ اس طرح کفار تو دانت پیستے رہ گئے اور اللہ جو اپنے نبی کو بخیریت مدینہ پہنچانا چاہتا تھا وہ ہو کے رہا۔
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ : یعنی اگر تم تبوک کے لیے نہیں نکلو گے اور اس کی مدد نہیں کرو گے تو وہ خود اکیلا ہی اس کی مدد کے لیے کافی ہے، دیکھ لو جب مکہ کے مشرکوں نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرکے اسے وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا اور اس کے ساتھ صرف ایک ساتھی تھا، اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کسی کی مدد کے بغیر خود اس کی مدد کی تھی۔ اب بھی اسے تم میں سے کسی کی ضرورت نہیں، ہاں تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ دشمنان اسلام کے مقابلے کے لیے نکلو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ - ثَانِيَ اثْنَيْنِ :” دو میں سے دوسرا “ سے مراد پہلا ہے۔ ” ثَانِيَ اثْنَيْنِ “ میں پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے ابوبکر (رض) تھے۔ اسی طرح ” ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ “ یا ” رَابِعُ اَرْبَعَۃٍ “ میں ثالث یا رابع وہ ہوگا جو پہلا ہوگا، باقی بعد میں ہوں گے، ہاں ” رَابِعُ ثَلَاثَۃٍ “ یا ” خَامِسُ اَرْبَعَۃٍ “ میں رابع یا خامس وہ ہوگا جو بعد میں ملے گا اور اس کا نمبر چوتھا یا پانچواں ہوگا۔ [ الوسیط للطنطاوی ] تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دوسرے ابوبکر (رض) تھے اور اکثر دینی منصبوں اور عہدوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد دوسرے نمبر پر وہی فائز رہے۔ سب سے پہلے مسلمان ہوئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، جس پر بہت سے جلیل القدر صحابہ (رض) مسلمان ہوئے، جنگوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ نہیں ہوئے۔ مرض الموت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نہایت تاکیدی حکم کے ساتھ اور کسی بھی دوسرے کی امامت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انکار کے بعد آپ کے قائم مقام کی حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مصلے پر کھڑے ہوئے، پھر آپ کے پہلو میں دفن ہوئے، اس طرح اول و آخر صدیق اکبر (رض) کو دوسرا ہونے کا شرف حاصل رہا۔ - اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ : یہاں صاحب (ساتھی) ہونے کا شرف بھی ابوبکر (رض) کو حاصل ہے۔ صاحب کا لفظ اصل میں اکثر اوقات ساتھ رہنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے بیوی کو ” صَاحِبَۃٌ“ کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ) [ الأنعام : ١٠١ ] ” اس کی اولاد کیسے ہوگی جبکہ اس کی کوئی بیوی ہی نہیں۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ابوبکر (رض) کے صاحب رسول یعنی آپ کے خاص ساتھی اور یار غار ہونے کا منکر ہے وہ درحقیقت قرآن کا منکر ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” رفیق غار ابوبکر (رض) تھے، صرف یہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، دوسرے اصحاب بعض پہلے نکل گئے تھے بعض بعد میں آئے۔ “ ( موضح)- اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ : اس غار سے مراد ثور پہاڑ کی چوٹی کے قریب واقع غار ہے، جو مکہ سے جنوب کی طرف تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین تھا کہ آپ کا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے آپ نے مدینے کا راستہ جو شمال کی طرف ہے، چھوڑ کر جنوب کی سمت اختیار کی اور غار ثور میں چھپ گئے، تاکہ تلاش کرنے والے آپ کو آسانی سے پا نہ سکیں۔ تفسیر ماجدی میں ہے : ” اس غار کا دہانہ اب تک اتنا تنگ ہے کہ اندر صرف لیٹ کر ہی جانا ممکن ہے۔ “ شیخ رشید رضا مصری نے تفسیر المنار میں ایک مصری امیر الحج ابراہیم رفعت پاشا (سنِ حج ١٣٨١ ھ) کے حوالے سے غار کی پیمائش وغیرہ دی ہے اور اس کی تنگی کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تین دن چھپے رہے، پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے، آپ کی گرفتاری پر انعام مقرر ہوچکا تھا، اس لیے دشمنوں نے آپ کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کی، حتیٰ کہ بعض قدموں کے نشان پہچاننے والے غار کے سرے پر پہنچ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے قدم نظر آنے لگے، ابوبکر (رض) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فکر لاحق ہوئی اور وہ سخت غم زدہ ہوگئے۔ - لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا : انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے فرمایا، میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، جب کہ میں اس غار میں تھا : ” اگر ان میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے نظر ڈالے تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے ابوبکر ان دو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ “ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب مناقب المہاجرین وفضلھم۔۔ : ٣٦٥٣ ] ” اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا “ (بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے) اس ” ساتھ “ سے مراد خاص ساتھ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور نصرت، ورنہ عام معیت (ساتھ) تو ہر شخص کو حاصل ہے، فرمایا : (وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ) [ الحدید : ٤ ] ” اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔ “ اس میں ابوبکر (رض) کی فضیلت ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے سمندر کے کنارے پہنچنے پر اور فرعون کی فوج کو دیکھنے پر ان کی قوم نے اپنے پکڑے جانے کا خطرہ پیش کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (كَلَّا ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ ) [ الشعراء : ٦٢ ] ” ہرگز نہیں، بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے۔ “ چناچہ انھوں نے ” مَعِيَ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت میں اپنے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا)” بیشک اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے۔ “- فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ : یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔ بعض مفسرین نے مراد ابوبکر (رض) لیے ہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو اللہ تعالیٰ کی سکینت پہلے ہی نازل تھی، مگر اس سے ” عَلَيْهِ “ کی ضمیر کی بعد میں آنے والی ضمیر ” وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا “ کے ساتھ مطابقت نہیں رہتی اور کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر پہلی سکینت کے علاوہ خاص سکینت نازل فرمائی ہو۔ جس سے آپ کے اطمینان میں مزید اضافہ ہوا ہو، اس لیے یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ ” عَلَيْهِ “ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔- وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا : یعنی فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ جنھیں تم نے نہیں دیکھا کہ انھوں نے تعاقب کرنے والوں کی نگاہیں آپ پر پڑنے ہی نہیں دیں۔ جیسا کہ حنین میں مدد فرمائی (دیکھیے توبہ : ٢٦) اور بدر میں (دیکھیے انفال : ٩۔ آل عمران : ١٢٤، ١٢٥) ۔- بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ عنکبوت (مکڑی) نے جالا بن دیا تھا اور کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے تھے، مگر یہ بات ثابت نہیں، الشیخ علامہ ناصر الدین الالبانی (رض) نے سلسلہ ضعیفہ میں عنکبوت کے قصے کو ضعیف قرار دیا ہے۔- وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى : یعنی ہجرت، بدر، احد، خندق، حدیبیہ، فتح مکہ، حنین، تبوک، ہر جگہ کفر کو نیچا دکھایا۔ ”ۭوَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَا “ اور اللہ تعالیٰ کا بول ہی سب سے بالا اور اس کی بات ہی سب سے اونچی ہے، اگر کہیں مسلمان نیچے رہے تو اللہ کی بات کے نیچا ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ایمان و عمل کی کسی کمی کی وجہ سے، فرمایا : (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ آل عمران : ١٣٩ ]” اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔ “ اور دیکھیے سورة محمد (٣٥) ۔
تیسری آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کا واقعہ پیش کرکے یہ بتلا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول کسی انسان کی نصرت و امداد کا محتاج نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو براہ راست غیب سے امداد پہنچا سکتے ہیں، جیسا کہ ہجرت کے وقت پیش آیا، جب آپ کو آپ کی برادری اور اہل وطن نے وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا، سفر میں آپ کا رفیق بھی ایک صدیق کے سوا کوئی نہ تھا دشمنوں کے پیادے اور سوار تعاقب کر رہے تھے، آپ کی جائے پناہ بھی کوئی مستحکم قلعہ نہ تھا بلکہ ایک غار تھا، جس کے کنارے تک تلاش کرنے والے دشمن پہنچ چکے تھے، اور رفیق غار ابوبکر کو اپنی جان کا تو غم نہ تھا مگر اس لئے سہم رہے تھے کہ یہ دشمن سردار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہوجائیں گے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوہ ثبات بنے ہوئے نہ صرف خود مطمئن تھے بلکہ اپنے رفیق صدیق کو فرما رہے تھے لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا، تم غمگین نہ ہو کیونکہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔- یہ بات کہنے کو تو دو لفظ ہیں جن کا بولنا کچھ مشکل نہیں، مگر سننے والے حالات کا پورا نقشہ سامنے رکھ کر دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں کہ محض مادیات پر نظر رکھنے والے سے یہ اطمینان ممکن ہی نہیں، اس کا سبب اس کے سوا نہ تھا جس کو قرآن نے اگلے جملے میں ارشاد فرمایا کہ - اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب مبارک پر تسلی نازل فرمادی، اور ایسے لشکروں سے آپ کی امداد فرمائی جن کو تم لوگون نے نہیں دیکھا “۔- یہ لشکر فرشتوں کے لشکر بھی ہوسکتے ہیں اور پورے عالم کی قوتیں خود بھی خدائی لشکر ہیں وہ بھی ہو سکتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالاخر کفر کا کلمہ پست ہو کر رہا اور اللہ ہی کا بول بالا ہوا۔
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَــصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْـنَيْنِ اِذْ ہُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ٠ ۚ فَاَنْزَلَ اللہُ سَكِيْـنَتَہٗ عَلَيْہِ وَاَيَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ كَلِمَۃَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ٠ ۭ وَكَلِمَۃُ اللہِ ہِىَ الْعُلْيَا ٠ ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٤٠- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غور - الغَوْرُ : المُنْهَبِطُ من الأرض، يقال : غَارَ الرجل، وأَغَارَ ، وغَارَتْ عينه غَوْراً وغُئُوراً «2» ، وقوله تعالی: ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک 30] ، أي : غَائِراً. وقال : أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف 41] . والغارُ في الجبل . قال : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة 40] ، وكنّي عن الفرج والبطن بِالْغَارَيْنِ «3» ، والْمَغَارُ من المکان کا لغور، قال : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا - [ التوبة 57] ، وغَارَتِ الشّمس غِيَاراً ، قال الشاعر : هل الدّهر إلّا ليلة ونهارها ... وإلّا طلوع الشّمس ثمّ غيارها«4» وغَوَّرَ : نزل غورا، وأَغَارَ علی العدوّ إِغَارَةً وغَارَةً. قال تعالی: فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات 3] ، عبارة عن الخیل .- ( غ ور ) الغور - کے معنی نشیبی زمین کے ہیں محاورہ ہے غارالرجل اوغار یشبی زمین میں چلا جانا غارت عینہ غورا وغورورا آنکھ کا اندر پھنس جانا قرآن پاک میں ہے ؛ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک 30] تمہارا پانی بہت زیادہ زمین کے نیچے اتر جائے ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف 41] یا اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے ۔ الغار کے معنی غار کے ہیں ( ج اغوار وغیران ) قرآن پاک میں ہے : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة 40] جب وہ دونوں غار ( ثور ) میں تھے : اور کنایہ کے طور پر فر ج و بطن یعنی پیٹ اور شرمگاہ کو غار ان ( تثبیہ ) کہاجاتا ہے اور مغار کا لفظ غور کی طرح اسم مکان کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ض ( جمع مغارات) قرآن پاک میں ہے : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا[ التوبة 57] اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ ( جیسے قلعہ ) یا رغار ومغاک یا زمین کے اندر ) کھسنے کی جگہ مل جائے ۔ اور غارت الشمس غیارا کے معنی سورج غروب ہوجانے کے ہیں ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (333) ھل الدھر الالیلۃ ونھارھا والا طلوع الشمس ثم غیارھا ( زمانہ دن رات کی گردش اور سورج ک طلوع و غروب ہونے کا نام ہے ) غور کے معنی پست زمین میں چلے جانے کے ہیں واغار علی الغدو ا اغارۃ وغارۃ کے معنی دشمن پر لوٹ مارنے کے قرآن پاک میں ہے ؛ فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات 3] پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں ۔ اور اس سے مراد گھوڑے ہیں ( جو صبح کو دشمن پر چھاپہ مارتے ہیں)- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سَّكِينَةَ- والسَّكْنُ :- سُكَّانُ الدّار، نحو سفر في جمع سافر، وقیل في جمع ساکن : سُكَّانٌ ، وسكّان السّفينة : ما يسكّن به، والسِّكِّينُ سمّي لإزالته حركة المذبوح، وقوله تعالی: أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، فقد قيل : هو ملك يُسَكِّنُ قلب المؤمن ويؤمّنه كما روي أنّ أمير المؤمنین عليه السلام قال : (إنّ السَّكِينَةَ لتنطق علی لسان عمر) وقیل : هو العقل، وقیل له سكينة إذا سكّن عن المیل إلى الشّهوات، وعلی ذلک دلّ قوله تعالی: وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] . وقیل : السَّكِينَةُ والسَّكَنُ واحد، وهو زوال الرّعب، وعلی هذا قوله تعالی: أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] ، وما ذکر أنّه شيء رأسه كرأس الهرّ فما أراه قولا يصحّ والْمِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- السکین ( چھری ) کو سکیں اس لئے کہا جاتا ہے ( وہ مذبوح کی حرکت کو زائل کردیتی ہے ) تو یہ سکون سے فعیل کے وزن پر اسم مشتق ہے ) اور آیت : أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ( وہی تو ہے ) جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو مومن کے دل کو تسکین دیتے ہیں ۔ جیسا کہ امیر المومنین ( حضرت علی (رض) ) سے راویت ہے (إن السکينة لتنطق علی لسان عمر) حضرت عمر (رض) کی زبا ن پر سکینۃ گویا ہے اور بعض نے اس سے عقل انسانی مراد لی ہے اور عقل کو بھی جب کہ وہ شہوات کی طرف مائل ہونے سے روک دے سکینۃ کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] اور جن کے دل یاد خدا سے آرام پاتے ہیں ۔ بھی اس معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ اور سکن کے ایک ہی معنی ہیں یعنی رعب اور خوف کا زائل ہونا اور آیت : ۔ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئیگا اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی ہوگی ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور بعض مفسرین نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ وہ چیز تھی جس کا سر بلی کے سر کے مشابہ تھا وغیرہ تو ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے ۔ المسکین بعض نے اس کی تفسیر الذي لا شيء له ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقیر کے زیادہ نادار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکین قرار دینا ما یؤول کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکین کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاج اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور آخر کار ذلت و رسوائی اور محتاجی ( و بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنۃ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- ايد ( قوة)- قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه .- ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- كلمه - أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى مُصَدِّقاً بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 39] قيل : هي كَلِمَةُ التّوحید . وقیل : کتاب اللہ . وقیل : يعني به عيسى، وتسمية عيسى بکلمة في هذه الآية، وفي قوله : وَكَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى مَرْيَمَ [ النساء 171] لکونه موجدا بکن المذکور في قوله : إِنَّ مَثَلَ عِيسى [ آل عمران 59] وقیل : لاهتداء الناس به كاهتدائهم بکلام اللہ تعالی، وقیل : سمّي به لما خصّه اللہ تعالیٰ به في صغره حيث قال وهو في مهده :- إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ الآية [ مریم 30] ، وقیل : سمّي كَلِمَةَ اللہ تعالیٰ من حيث إنه صار نبيّا كما سمّي النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] «3» . وقوله : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ الآية [ الأنعام 115] . فَالْكَلِمَةُ هاهنا القضيّة، فكلّ قضيّة تسمّى كلمة سواء کان ذلک مقالا أو فعالا، ووصفها بالصّدق، لأنه يقال : قول صدق، وفعل صدق، وقوله : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] - اللہ تعالیٰ کے فرمان أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى مُصَدِّقاً بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 39] خدا تمہیں یحیٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے فیض یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کر مینگے میں بعض نے کتاب اللہ مراد لی ہے اور بعض نے عیسیٰ (علیہ السلام) مردا لئے ہیں پس آیت آیت کریمہ : ۔ وَكَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى مَرْيَمَ [ النساء 171] اور اس کا کلمہ ( بشارت ) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا ۔ میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ کو کلمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ کلمہ کن پیدا ہوئے تھے جیسا آیت : ۔ إِنَّ مَثَلَ عِيسى [ آل عمران 59] عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک ۔ میں مذکور ہے اور بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کے ان کے ذریعہ ہدایت پانے کی وجہ سے انہیں کلمہ کہا گیا ہے ہدایت پانے کی وجہ انہیں کلمہ کہا گیا ہے جیسا کہ کلام اللہ کے ذریعہ لوگ ہدایت پاتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس خصوصی رحمت کے سبب سے ہے جو بچنے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر کی تھی جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ۔ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ الآية [ مریم 30] کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نبی ہونے کی وجہ سے انہیں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے جیسا کہ آنحضرت کو رسول اللہ ہونے کی وجہ سے ذکر کہا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ الآية [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں ۔ - سفل - السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی،- ( س ف ل ) السفل - یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74]- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
(٤٠) اگر تم لوگ غزوہ تبوک میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکل کر آپ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس وقت بھی مدد کرچکا ہے، جب کہ مکہ کے کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلاوطن کیا تھا، جب کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) دونوں غار میں موجود تھے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کئے قلب مبارک پر تسلی نازل فرمائی، بدر، احزاسب، اور حنین کے دن ملائکہ کے لشکر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قوت بخشی اور کافروں کے دین کو مغلوب اور ذلیل کیا اور اللہ ہی کا بول بالا رہا اور اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو سزا دینے میں زبردست اور اپنے دوستوں کی مدد فرمانے میں بڑی حکمت والے ہیں۔
آیت ٤٠ (اِلاَّ تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ ) - (اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْْغَارِ ) - یعنی وہ صرف دو اشخاص تھے ‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اور ابوبکر صدیق (رض) ۔- (اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج) - جب حضرت ابوبکر (رض) نے کہا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ تو غار کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں ‘ اگر کسی نے ذرا بھی نیچے جھانک کر دیکھ لیا تو ہم نظر آجائیں گے ‘ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ غم اور فکر مت کریں ‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے - (فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا) (وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ط) - اس واقعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر کافر زیر ہوگئے اور پورے جزیرہ نمائے عرب کے اندر اللہ کا دین غالب ہوگیا ۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :42 یہ اس موقع کا ذکر ہے جب کفار مکہ نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا تہیہ کر لیا تھا اور آپ عین اس رات کو ، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی ، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے ۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ جا چکی تھی ۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یہ منافقانہ ایمان رکھتے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا ۔ اس حالت میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے ، اور اس خیال سے کہ آپ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا ، آپ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر ( جو شمال کی طرف تھی ) جنوب کی راہ اختیار کی ۔ یہاں تین دن تک آپ غار ثور میں چھپے رہے ۔ خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے ۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے ایسا نہ چھوڑا جہاں آپ کو تلاش نہ کیا ہو ۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تسکین دی کہ ”غم نہ کرو ، اللہ ہمارے ساتھ ہے“ ۔
37: یہ ہجرت کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اپنے ایک رفیق حضرت صدیق اکبر (رض) کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے، اور تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے تھے۔ مکہ مکرمہ کے کافر سرداروں نے آپ کی تلاش کے لیے چاروں طرف لوگ دوڑائے ہوئے تھے، اور آپ کو گرفتار کرنے کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کو تلاش کرنے والے کھوجی غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے اور ان کے پاؤں حضرت صدیق اکبر کو نظر آنے لگے جس کی وجہ سے ان پر گھبراہٹ کے آثار ظاہر ہوئے۔ لیکن حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر ان سے فرمایا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے غار کے دہانے پر مکڑی سے جالا تنوا دیا۔ اور وہ لوگ اسے دیکھ کر واپس چلے گئے۔ اس واقعے کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کافی ہے، لیکن خوش نصیبی ان لوگوں کی ہے جو آپ کی نصرت کی سعادت حاصل کریں۔